فاطمہ وینچرز پاکستان کے ایک بڑے فاطمہ گروپ کا سرمایہ کاری سے متلعق ادارہ ہے اور ملک کی اولین وینچر کیپیٹل فرمز میں سے ایک ہے۔ اس وینچر کیپیٹل کو دوسروں سے کونسی چیز ممتاز کرتی ہے؟ فاطمہ وینچرز لمز یونیورسٹی اور کچھ صنعتی اداروں کیساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہا ہے اور حال ہی میں گوبی پارٹنرز (Gobi Partners)، ایشیا میں کامیاب ترین کیپیٹل وینچرز میں سے ایک، کیساتھ اشتراک کرکے فاطمہ گوبی وینچرز متعارف کروایا ہے۔

کمپنی کے ویژن اور منصوبہ بندی کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے پرافٹ اردو کے تیمور حسن نے فاطمہ وینچرز کے سی ای او علی مختار کیساتھ پاکستان میں سٹارٹ اپ ایکوسسٹم، گوبی پارٹنرز کیساتھ اشتراک سمیت دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔

تیمور حسن: آپ کمپنی میں کس عہدے پر فائز ہیں؟

علی مختار: میں فاطمہ وینچرز اور جنرل پارٹنر فاطمہ گوبی وینچرز کا بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) ہوں۔

تیمورحسن: اپنے تعلیمی پس منظر اور فاطمہ وینچرز سے پہلے کے بارے میں بتائیے۔

علی مختار: میں نے امریکا کی یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے گریجوایشن کیا ہے، فاطمہ وینچرز شروع کرنے سے قبل میں فاطمہ گروپ کے سٹریٹجی اینڈ انویسٹمنٹ کا نگران تھا۔ میں فاطمہ گروپ کے بورڈ کا رکن ہونے کیساتھ لمز یونیورسٹی میں موجود نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے بورڈ کا بھی رکن ہوں۔

تیمور حسن: کس جذبہ کے تحت اس بزنس میں آئے؟

علی مختار: میرے خیال سے کسی بھی کاروبار کے لیے حوصلہ اور تحرک مارکیٹ میں اس کاروبار سے متعلق خلاء اور اسکے مواقع کی نشاندہی سے آجاتا ہے۔  میری دلچسپی ہمیشہ ٹیکنالوجی اور اسکے مثبت اثرات کے حوالے رہی ہے۔ یہ خاص طور پر پاکستان جیسی مارکیٹ سے متعلق ہے جو ترقی پذیر مارکیٹ کی حیثیت سے معاشرتی اور مالیاتی دونوں لحاظ سے کافی حد تک منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔

تیمور حسن: زندگی کے وہ کونسے تجربات یا ایسے لوگ تھے جن سے متاثر ہو کر آپ وینچر کیپیٹل بزنس میں آئے؟

علی مختار: پاکستانی ٹیک انٹرپیرینیورز امریکا کی سیلیکون ویلی میں کافی کامیاب سمجھے جاتے ہیں، کریم، فائر آئی، Afiniti، Keeptruckin سمیت بہت ساری کامیاب کمپنیاں پاکستانی انٹرپرینیورز نے بنائیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس بہترین اور باصلاحیت انٹرپرینیورز موجود ہیں اور اگر سیلیکون ویلی والی سہولیات ہم انہیں پاکستان میں فراہم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسی طرح کی بڑی اور کامیاب کمپنیاں یہاں بھی کھڑی کر سکتے ہیں۔

تیمور حسن: فاطمہ وینچرز کب شروع ہوئی اور یہ کس چیز سے متعلق ہے؟

علی مختار: فاطمہ ینچرز 2015 میں قام ہوئی، اسکے بعد مارچ 2019 میں ہم نے گوبی پارٹنرز کے ساتھ ملکر فاطمہ گوبی وینچرز کا آغاز کیا، فاطمہ وینچرز دراصل ایک ابتدائی سطح کا وینچر کیپیٹل فنڈ ہے جو ٹیکنالوجی کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے، اس میں کمپنی بنانے والوں کو سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے، کامیاب مارکیٹ سٹریٹجی بنانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ان کی مدد کی جاتی ہے اور انویسٹرز، کسٹمرز اور مینٹورز کے عالمی نیٹ ورک کیساتھ انہیں منسلک کیا جاتا ہے۔

لمز اور Ignite کے اشتراک سے فاطمہ اینچرز نے لاہور میں نیشنل انکیوبیشن سینٹر قائم کیا ہے جس کا مقصد آئندہ پانچ سالوں کے دوران 200 کمپنیوں قائم کرنا ہے جس سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہونے کی امید ہے۔

اس انکیوبیشن سینٹر میں سٹارٹ اپس کو بنانے سے چلانے تک مدد کی جاتی ہے اور انہیں عالمی سطح کے ماہرین تک رسائی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی پروڈکٹس کو ٹیسٹ کرسکیں۔

تیمور حسن: فاطمہ وینچرز کو کیسے چلایا جا رہا ہے؟

علی مختار: کسی بھی بزنس کی کامیابی دو حصوں میں ہو سکتی ہے یا ہونی چاہیے: پہلا، فنانشل ریٹرنز کیا ہیں؟ دوسرا، اس بزنس کا کمیونٹی پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ ہمارا ویژن پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

تیمور حسن: حتمی وجہ کیا ہے جو آپ نے خود کو اس بزنس کیلئے وقف کردیا؟ (منافع کمانا، انٹرپرینیورشپ کی ترقی، سماجی ترقی یا کچھ اور ؟)

علی مختار: میں انٹرپرینیورز کو بزنس کھڑا کرنے کا موقع دیکر انکی ایک نئی نسل لانا چاہتا ہوں، ظاہر ہے وینچر کیپیٹل میں کافی سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ آگے آئیں۔

تیمور حسن: کیا پاکستان میں اس بزنس کیلئے جگہ موجود ہے؟

علی مختار: پاکستان تیزی سے ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل مارکیٹس میں سے ایک ہے، 22 کروڑ آبادی کی آبادی جس میں ایک حصہ مڈل کلاس اور نوجوانوں کا ہے جو گزشتہ نسلوں کی ٹیکنالوجی کے زیادہ قریب ہیں، روزمرہ کی سرگرمیوں کیلئے ملک میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے، لوگ آپس میں جڑ رہے ہیں۔

پاکستان میں سٹارٹ اپس کیلئے بے شمار مواقع موجود ہیں جنہیں اگر استعمال میں نا لایا گیا تو وہ دوسری مارکیٹس (ممالک) کا رخ کریں گے۔ ہمیں دنیا سے سیکھنا چاہیے، خاص طور چین، بھارت جنوب مشرقی ایشیاء سے سیکھ کر ہمیں اپنی مارکیٹ کے مطابق کوئی ماڈل تشکیل دینا ہوگا۔

تیمور حسن: ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے آپکی کمپنی میں کس قدر اہلیت موجود ہے ؟

علی مختار: فاطمہ وینچرز جو کہ ایک فند ہے پاکستان کا سب سے بڑا وینچر کیپیٹل ہے، اس کے علاوہ ہم ایک انکیوبیشن سینٹر بھی ہیں جو مختلف سٹارٹ اپس کو مختلف سطحوں پر مدد فراہم کرتے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کے بڑے گروپس میں ایک فاطمہ گروپ بھی ہمارا ہے جس کی وجہ سے ہمیں صنعتوں اور ماہرین کے بڑے نیٹ ورک کیساتھ منسلک ہونے کا موقع ملتا ہے، اب گوبی پارٹنرز کیساتھ ہمارا اشتراک ہو چکا ہے جو کہ 250 سے زائد کمپنیوں کو پاکستان اور بیرون ملک سرمایہ کاری کی صورت میں مدد بہم پہنچا چکے ہیں، ہم ان کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 

 تیمور حسن: اس میدان میں کس قدر مسابقت موجود ہے اور آپکے بڑے حریف کونسے ہیں؟

علی مختار: ہم سمجھتے ہیں پاکستان کا سٹارٹ اپ ایکو سسٹم اہم ترین موڑ پر موجود ہے اور مزید مالی اعانت اسکو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کریگی۔ ہم دیگر مقامی اور بین الاقوامی وینچر کیپیٹلز اور سرمایہ کاروں کا تعاون حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں جو ہمارے ساتھ ملکر سرمایہ کاری کریں اور پاکستان میں ٹیک سٹارٹ اپس کی ترقی میں کردار ادا کریں۔

تیمور حسن: بطور وینچر کیپیٹل فنڈ آپکو پاکستان میں کن مسائل کا سامنا رہا؟

علی مختار: حکومت اس شعب کی ترقی کیلئے انکیوبیٹرز، ڈیجیٹل سکلز ٹریننگ، ٹیکس استثنیٰ سمیت مختلف پروگراموں پر کام کررہی ہے، موجودہ حکومت بھی اس شعبے کو ریگولیٹ کرنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کر رہی ہے، تاہم ، ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا ان قواعد و ضوابط پر بروقت اور موثر نفاذ ہوگا اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

تیمور حسن: گوبی وینچر کیپیٹل کے بارے میں کچھ بتائیے۔

علی مختار: 2002 میں قائم ہونے والی گوبی پارٹنرز چین اور جنوب مشرقی ایشیاء میں کام کرنے والی وینچر کیپیٹل فرم ہے جس کے اثاثوں کی مالیت 1.2 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ گوبی پارٹنرز اب تک 13 فنڈز کو پائوں پر کھڑا کر چکی ہے اور250 سے زیادہ سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرچکی ہے، کمپنی نے اپنے بزنس میں توسیع کرتے ہوئے بنکاک، ہانگ کانگ، بیجنگ، شنگھائی، ہوچی منہ، جکارتا، کوالالمپور، منیلا، سنگاپور، ٹوکیواور اب لاہور میں اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں۔

 تیمور حسن: گوبی کے کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

علی مختار: گوبھی پارٹنرز مفروضے پر مبنی سرمایہ کاری پرعمل پیرا ہے۔ وہ سب سے زیادہ رجحان رکھنے والی چیز کی بجائے وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کے متعلق وہ جانتے ہیں اور جس پر انہیں یقین ہوتا ہے۔

 تیمور حسن: یہ فرم پاکستان میں کیوں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے؟

علی مختار: انہی وجوہات کی بناء پر گوبی پارٹنرز بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی جن وجوہات کی بناء پر ہم فاطمہ وینچرز قائم کی تھی کہ پاکستان ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل مارکیٹس میں سے ایک ہے۔ گوبی نے پاکستان میں ترقی کی صلاحیت کا موازنہ جنوب مشرقی ایشیا خاص طور پر انڈونیشیا سے بھی کیا ہے۔

 تیمور حسن: یہ فنڈ کتنی مالیت کا ہوگا اور آپ کتنے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاریں کریں گے؟

علی مختار: 20 ملین امریکی ڈالرز کا فنڈ ہو گا اور ہمارا ٹارگٹ 20 سے 25 سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔

تیمور حسن: کس قسم کے سٹارٹ اپس یا شعبوں میں آپ کا فنڈ سرمایہ کاری کریگا؟

 علی مختار: ای کامرس، فن ٹیک۔ ٹریول، لوجسٹکس، سافٹ وئیر ایز اے سروس (SaaS)، کنزیومر ٹیک، ہیلتھ کئیر اور تقویٰ ٹیک (Taqwatech) یعنی عالمی سطح پر مسلم آبادی کیلئے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے پروڈکٹس یا سروسز کی فراہمی ممکن بنانا۔

 تیمور حسن: کسی سرمایہ کاری سے قبل سٹارٹ اپس یا انٹرپرینیورز کیا خصوصیات دیکھنا چاہیں گے؟

علی مختار: سب سے اہم تو سٹارٹ کے بانی کی یہ خوبی دیکھی جائے کہ وہ آیا وہ ایک باصلاحیت ٹیم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، اس کے بعد مارکیٹ میں اس کمپنی کی پروڈکٹس کی مانگ اور دوسری چیزیں دیکھی جائیں گی۔

پرافٹ نے گوبی پارٹنرز کے مینجنگ ڈائریکٹر اور فاطمہ گوبی وینچرز کے ممبر انویسٹمنٹ کمیٹی جمالدین بوجانگ (JamauludinBujang) سے بھی بات چیت کی اور ان سے پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کی صورتحال کے حوالے سے پوچھا۔

جمال الدین نجی کارپوریٹ سیکٹر کا اٹھارہ سالہ جبکہ پبلک سیکٹر کا پانچ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ملائیشیا وینچر کیپیٹل مینجمنٹ (MAVCAP) کے سی ای او اور بورڈ ممبر رہے، 13سال تک ملائیشیا میں ایک انویسٹمنٹ بینک کا حصہ رہے جبکہ 3 سال تک دو غیر ملکی فنانس کمپنیوں میں ملازم رہے۔

تیمور حسن: انٹر پرنیورشپ آپکے خیال میں کیا ہے؟

جمالدین بجانگ: انٹرپرینیورشپ دراصل خودانحصاری کا راستہ ہےجس پر چل کر مسائل کو جدید حل تلاش کرتے ہوئے کوئی اپنے ساتھ اپنے معاشرے کو بھی بہتری کی جانب لے جاتا ہے۔

تیمور حسن: پاکستان میں انٹرپرینیورشپ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جمالدین بجانگ: پاکستان میں یہ شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ٹیک ایکوسسٹم کیلئے ضروری تمام لوازمات پاکستان میں موجود ہیں جیسے کہ ترقی کرتی معیشت، بڑی  آبادی وغیرہ اور اسکے علاوہ ایک بڑی تعداد میں بیرون ملک سے پاکستانی بزنس کرنے کیلئے واپس وطن لوٹ رہے ہیں، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں ایک مضبوط قسم کا انٹرپرینیور ایکو سسٹم قائم ہونے جا رہا ہے۔

تیمور حسن: پاکستان میں آپکے سامنے مسائل کیا کیا ہیں؟

جمالدین بجانگ: سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے قوانین کا ہے، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے پالیسی سازوں کو کوئی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینا ہونگی۔

تیمور حسن: پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں انٹرپرینیورشپ کس حد تک معاشی مسائل کو کم کر سکتی ہے؟

جمالدین بجانگ: ٹیکنالوجی پاکستان کو پائیدارا معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی اور علاقائی منڈیوں کیساتھ جوڑ سکتی ہے، اسکے علاوہ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر پاکستان میں مالی، معاشی، توانائی، تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل کو زیادہ موثر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔

انٹرپرینیورشپ ناصرف پاکستان سماجی مسائل کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس سے سینکڑوں نوکریاں پیدا ہونگی اور ملک میں دولت کا ارتقاض ہو گا۔

تیمور حسن: حکومت کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟

جمالدین بجانگ: حکومت نے انٹرپرینیورشپ کی ترویج کیلئے مختلف پروگرام متعارف کروا کے اور انکیوبیشن سینٹرز بنا کراب تک اس میں کافی حصہ ڈالا ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ ان انکیوبیشن سینٹرز سے نکلنے والی کمپنیوں کو ابتدائی طور پر سپورٹ کرے اسکے علاوہ ناصرف مقامی وینچر کیپیٹلز کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ایسے فنڈنگ پروگرام لیکر آئے کہ باہر سے وینچر کیپیٹل پاکستان میں آئیں۔

تیمور حسن: پاکستان میں یونیورسٹیاں انٹرپرینیورشپ ایکوسسٹم پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتی ہیں؟

جمالدین بجانگ: یونیورسٹیاں مخلتف انڈسٹریز میں پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی کرنے اور ایسے انٹرپرینیورشپ پروگرامز کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں جو سٹارٹ اپس کو حقیقی زندگی کے مسائل حل کرنے کے قابل بنائیں  اور تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے ماہرین کو آپس میں جوڑیں۔

 تیمور حسن: نئے کاروباروں کی مدد کیلئے ٹیک انکیوبیٹرز آجکل کافی آگے ہیں، یہ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

جمالدین بجانگ: ٹیک انکیوبیٹرز نے پاکستان میں اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم کے بارے میں شعور اجاگر کرنے، اور صنعت میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن میں اسٹارٹ اپس، سرمایہ کار ، سرپرست اور گاہک شامل ہیں۔ ان انکیوبیٹرز کے پاس ایسے پروگرام ہیں جو اسٹارٹ اپس کے کاروبار کو کامیاب بنانے اور ترقی دینے کے اہل بناتے ہیں۔

تیمور حسن: انکیوبیٹرز صرف جدید بزنس پر ہی توجہ دے رہے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ روایتی کاروبار کر رہے ہیں، انکے لیے انکیوبیٹرز کس حد تک مددگار ہوسکتےہیں؟

جمالدین بجانگ: کسی بھی انکیوبیشن سیٹر کو کاروبار کی نوعیت کے قطع نظر جدت اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا چاہیے، روایتی کاروبار بھی ٹیکنالوجی کو اپنا کر بے شمار فائدے اٹھا سکتے ہیں جس سے ناصرف ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور اخراجات کم ہونگے بلکہ ایسے کسٹمرز بھی بنیں گے جو صرف ٹیکنالوجی استعمال کرکے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔

تیمور حسن: انٹرپرنیورشپ کے خواہشمندوں کیلئے کوئی مفید مشورہ؟

جمالدین بجانگ: تب تک کوئی منصوبہ شروع نہ کریں جب کہ واقعی آپ کو اس سے لگائو نہ ہواور آئندہ سالوں میں اس کے ماہر بننے کیلئے آپ خود کو اس کیلئے وقف نہ کرسکتے ہوں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here