یہ 2019ء ہے، سویڈن کی 16سالہ گریٹا تھنبرگ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مہم چلا رہی ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں نوجوان مارچ کرر ہے ہیں، اکتوبر کے اختتامی دنوں میں کراچی کو سمندری طوفان کا دھڑکا لگا تھا جبکہ نومبر میں لاہور سموگ سے دھندلایا ہوا ہے، ساری دنیا ہی ناقابل تجدید توانائی کے ذرائع (کوئلہ وغیرہ) کو چھوڑ کر قابل تجدید ذرائع اپنانے کی کوشش میں لگی ہے۔
لیکن پاکستان میں انرجی سیکٹر کے کرتا دھرتا دنیا میں اٹھتی اس تبدیلی کی لہر کے بالکل مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔ احسن ظفر سید اینگرو انرجی لمیٹڈ کے چی ایگزیکٹو آفیسر ہیں، اینگرو انرجی تین ذیلی کمپنیوں پر مشتمل ہے تاہم سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) اور اینگرو پاورجن تھر لمیٹڈ (EPTL) دو نمایاں کمپنیاں ہیں۔ مشترکہ طور پر دونوں کو ’تھر کول پروجیکٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
احسن ظفر سید کا ایک رہنما صول ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’اس ملک کو توانائی کے ایک سستے ذریعے کی ضرورت ہے۔‘‘ اور اس حوالے سے کسی قسم کی تنقید کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے۔ اپنے سائز کے اعتبار سے تھرکول پروجیکٹ سب سے قابل ذکر کارناموں میں سے ایک ہے جو کسی بھی پاکستانی کمپنی نے سرانجام دیا۔ اس رپورٹر نے 2017ء کے آخر میں تھر جا کر دیکھا تھا کہ معاشی طور پر پسماندہ اس علاقے میں کس بڑے پیمانے پر تعمیرات جاری تھیں۔
اگر آپ احسن ظفر سید سے سوال کریں کہ بغیر کسی مغربی امداد کے ایک تن تنہا کارپوریشن نے یہ کارنامہ کس طرح سرانجام دیا؟
تھر پاور پروجیکٹ کی تاریخ:
یہ پروجیکٹ ہمیشہ کس نہ کسی طرح زبان زد عام رہا، پرافٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے احسن سید نے کہا کہ ’’لوگوں نے سن رکھا تھا کہ تھر میں کوئلہ موجود ہے اور ایسی باتیں بھی سننے کو ملتی تھیں کہ اس کوئلے سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اینگرو نے یہ پروجیکٹ شروع کردیا، ہم نے نو سال تک سخت محنت سے یہاں خون پسینہ ایک کیا تب جا کر یہ پروجیکٹ موجودہ سٹیج پر پہنچا ہے۔‘‘
2007ء میں اینگرو انرجی لمیٹڈ کی بنیاد پڑی، اس کا پہلا پروجیکٹ ایک گیس پلانٹ ’اینگرو پاورجین قادرپور‘ تھا، 2009 میں پبلک پرائیویٹ اشتراک کے تحت اینگرو نے اپنی ایک ذیلی کمپنی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے نام سے بنائی جس کے 7 حصہ داروں میں سب سے زیادہ 54 فیصد شئیرز حکومت سندھ کے پاس جبکہ 12 فیصد اینگرو کے پاس تھے۔ دیگر شراکت داروں میں تھل لمیٹڈ، حبیب بینک لمیٹڈ، حبکو اور چائنا مشینری انجنئیرنگ کارپوریشن (CMEC) تھے۔
2014ء میں قائم ہونے والی اینگرو پاورجن تھل لمیٹڈ (EPTL) بھی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کیساتھ منسلک تھی جو پاور پلانٹس کا انتظام و انصرام دیکھتی ہے، یہ کمپنی 50.1 فیصد اینگرو کی ملکیت جبکہ باقی شئیرزچائنا مشینری انجنئیرنگ کارپوریشن، حبیب بینک اور لبرٹی ملز لمیٹڈ کے پاس ہیں۔
گوکہ دونوں کمپنیوں کا ملکیتی ڈھانچہ مختلف ہے لیکن دونوں کا انتظام اینگرو کے پاس ہے اور اسی کے ملازمین دونوں کمپنیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں کمپنیاں تھر بلاک ٹومیں کام کر رہی ہیں۔ احسن سید نے اپنی میز پر پڑے ایک میگزین کو اٹھایا اور اسکی وضاحت کرنے لگے۔ ’’فرض کریں یہ میگزین پورا تھر ہے، یہاں 175 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے اور اسکا رقبہ 55 ہزار مربع کلومیٹر ہے، یہ علاقہ ایران اور سعودی عرب کی ساری آئل فیلڈ کے برابر اور پاکستان میں گیس کے موجودہ ذخائر سے 68 گنا زیادہ بڑا ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے میگزین پر اپنا آئی فون رکھااور اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’’صرف اسی علاقہ میں ابھی تک ڈرلنگ ہورہی ہے اور سندھ حکومت نے اسے 12 بلاکس میں تقسیم کر رکھا ہے، اس میں سے ایک چھوٹا ٹکڑا، جتنا کہ فون کی پشت پرایپل کا نشان ہے، بلاک ٹو کہلاتا ہے جو اینگرو کو دیا گیا ہے، 100 مربع میٹر کا یہ ٹکڑا تھر کول کا صرف ایک فیصد ہے۔‘‘
مزید وضاحت کرتے ہوئے احسن سید نے کہا کہ ’’جب آپ مخصوص علاقے میں کھودائی شروع کرتے ہیں تو بنیادی طور پر آپ 3.8 ملین ٹن کا ایک گڑھے پر کام شروع کرتے ہیں، تھر فیز وَن ہمارا پہلا منصوبہ ہے، اس کے قریب ہم نے ایک کول پاور پلانٹ لگایا ہے جو 660 میگا واٹ بجلی دے رہا ہے۔‘‘
احسن سید کیلئے یہ صرف ہندسوں کا ہیر پھیر ہے، اپنے دفتر میں مچھلیوں کے تالاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’فرض کریں یہ تالاب وہ کوئلے کو گڑھا ہے اور آپ اسے جتنا وسیع کرتے جائیں گے اتنے ہی 660 میگا واٹ کے پاور پلانٹ لگاتے جائیں گے۔‘‘
کوئلے کو عام طور پر چار کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
Anthracite
Bituminous
Sub-Bituminous
Lignite
تھر میں زیادہ تر لیگنائٹ پایا جاتا ہے جو ادنیٰ ترین کوالٹی کا کوئلہ ہے اور اس میں نمی زیادہ ہوتی ہے، تاہم احسن سید کے مطابق یہ بھی قابل استعمال ہے لیکن استعمال کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ پاور پلانٹ کوئلے کی کانوں کے قریب ہو کیونکہ یہ زیادہ فاصلے تک نہیں لیجایا جا سکتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ٹرکوں کے ذریعے ملک کے دیگر مقامات پر منتقل کرنے پر زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں، ریل گاڑی کے زریعے اس کی ترسیل موثر ہوسکتی ہے پاکستان ریلوے کے پاس 1952ء کے بعد ایسی صلاحیت ہی نہیں آئی۔ اس کی نسبت کانوں کے قریب ہی بجلی تیار کرکے ٹرانسمشن لائن کے ذریعے ترسیل سستا ترین ذریعہ ہے۔
اس پروجیکٹ کا فیز وَن جولائی 2019ء میں بجٹ اور شیڈول کے مطابق مکمل ہو گیا جو احسن سید کیلئے بھی باعث فخر تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کوئلے سے چلنے والا یہ پاکستان کا پہلا پاور پلانٹ ہے، ہم قومی گرڈ کو 602 میگاواٹ بجلی دے رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہم 20 لاکھ گھرانوں کو بجلی فراہم کر رہے ہیں، اسکے ساتھ ہم زرمبادلہ کی مد میں سالانہ 150 ارب ڈالر کی بچت کر رہے ہیں۔ ‘‘
سرمایہ کاری کا مسئلہ:
اس پروجیکٹ کی قومی اہمیت کے بارے میں بات کرتے احسن نے کہا کہ ’’ہم 22 کروڑ لوگوں کی امید ہیں، اینگرو پر لوگوں کی امیدوں کی صورت میں ایک بڑی ذمہ داری تھی، اس لیے ہر کوئی دعا گو تھا۔ دراصل جب ہم ملک کی بات کرتے ہیں تویہ قومی اور طویل المدتی نقطہ نظر ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تھر کول پروجیکٹ کی تکمیل میں سب سے بڑا مسئلہ فنانسنگ کا تھا۔ دو ارب ڈالر کا پروجیکٹ چین کی مدد کے بغیر کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ’’آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کس حد تک خطرہ ہم نے مول لیا، کوئی ہمیں رقم دینے یا مدد کو تیار نہیں تھا، اور ہم ایک غریب ملک ہیں، یہ پروجیکٹ مکمل کرنے کیلئے ہماری حکومت کے پاس پیسہ ہی موجود نہیں تھا۔‘‘ انہوںنے قدرے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’ ہم سے یہ پروجیکٹ اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد دس سال میں ہوا۔‘‘
یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں تھے لیکن اینگرو نے کسی اور ملک کی بجائے صرف اور صرف چین سے ہی قرضہ کیوں حاصل کیا؟
مسئلہ کوئلے کا تھا جو کہ خراب توانائی (dirty energy) میں آتا ہے اور کوئی بھی مغربی مالیاتی ادارہ پاکستان میں کوئلے کے اس منصوبے کیلئے مالی امداد دینے کو تیار نہ تھا۔ خود احسن سید نے اس کے بارے میں کہا کہ ’’ہر کسی نے ہمیں کہا کہ آپ کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹ کی بجائے ونڈ انرجی یا سولر انرجی کا منصوبہ کیوں شروع نہیں کر رہے؟ آپ ماحول کو تباہ کرنے پر تلے ہیں، ہم قرضہ نہیں دینگے۔‘‘
پاکستان ناقابل تجدید توانائی کے ذرائع پر اس قدر سرمایہ کاری کیوں کررہا ہے؟ اسکی وجہ ایک تو یہ ہوسکتی ہے کہ تھر میں موجود توانائی کے متوقع ذخائر کی وجہ سے سرمایہ کار کمپنیاں اور پاکستانی حکومت اسے دوسری نظر سے دیکھتی ہے، دوسری جانب خود احسن سید بھی کوئلے کے پلانٹ لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں دیکھتے۔
پہلی بات یہ ہے کہ، احسن سید نے ترقی پذیر اور ترقی ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا، ’’بیس سے زیادہ ممالک کول پاور پلانٹس لگا رہے ہیں، جاپان، چین، بھارت اور جنوبی افریقہ میں بڑے بڑے پلانٹس لگ رہے ہیں۔‘‘
دوسری بات یہ کہ دنیا بھر میں کول پاور پلانٹس بند کیے جا رہے ہیں، لیکن احسن اسے نااہلی قرار دیتے ہیں۔ ’’ہمیں خود سے درست سوال پوچھنا چاہیے، وہ پلانٹس بند ہو رہے ہیں جو اپنی زندگی پوری کر چکے ہیں اور غیر موثر ہیں۔‘‘
2018 میں شائع ہونے والے ایک وضاحتی بیان میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان میں دریافت ہونے والے لیگنائٹ کے ذخائر بھارت، جرمنی اور بلغاریہ کے کوئلے کے ذخار سے اعلیٰ معیار کے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھر کے کوئلے میں سلفر کی مقدار کم ہونے کیساتھ ساتھ جلانے کے بعد راکھ بھی کم پیدا ہو گی۔
تاہم کچھ مزید اعدادوشمار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے: امریکا کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے ڈیٹا کے مطابق کوئلہ (پاکستان میں اسکی قسم لیگنائٹ زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے) تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کی نسبت 33.5 فیصد زیادہ جبکہ گیس سے چلنے والے پلانٹس کی نسبت 84 فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے، اس حقیقت سے بالکل انکار ممکن نہیں کہ کوئلے کا پاور پلانٹس جتنا بھی بہترین کام کر رہا ہو قدرتی گیس کا پلانٹ ہمیشہ کہیں زیادہ ماحول دوست آپشن ہے۔
شمس الدین کا سندھ کیساتھ جھگڑا:
ہماری ساری گفتگو کے دوران احسن سید نے سندھ حکومت کی امداد پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ ’’ جب ہم تھر میں گئے توعلاقے میں سڑکیں نہیں تھیں، پانی کے ذرائع نہیں تھے، وہاں قریب کوئی ائیرپورٹ نہیں تھا، ان تمام معاملات میں حکومت سندھ نے ہماری مدد کی۔‘‘
اس سب کی ایک خطرناک وجہ بھی ہے، احسن کے پیشرو شمس الدین تھے جو 1987ء سے اینگرو میں کام کر رہے تھے اور 2010ء سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سی ای او تھے، ان کی ریٹائرمنٹ 2023ء میں ہونا تھی لیکن انہوں نے ڈرامائی طور پر نومبر 2018ء میں استعفیٰ دیدیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ’’سندھ حکومت نے تھر کے لوگوں سے جھوٹے وعدے کیے اور اپنے وعدوں کے مطابق بنیادی سہولیات اور بجلی وغیرہ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔‘‘
ظاہر ہے کہ بطور سی ای او احسن سید نے یہی کہا کہ ’’شمس کی اپنی رائے تھی، اور میں اس پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔ اینگرو ایک ادارہ ہے، شمس الدین نے اس پروجیکٹ کیلئے کافی محنت کی اور اسے کافی آگے تک لے گئے، لیکن ظاہر ہے اینگرو میں بھی لوگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اینگرو نے اپنی کارپوریٹ سوشل رسپانسی بیلیٹی کمپین کس کے تحت زیادہ بہتر چلائی۔ شمس الدین کے دور میں یا احسن کے تحت؟ کیا واقعی سندھ حکومت نااہل ہے؟ (یہ صرف مصنف کی رائے ہے) لیکن سماجی ذمہ داری کس حد تک پوری کی گئی یہ ہم ذیل میں بیان کریں گے۔
تھر باسیوں کو کیا ملا؟
احسن کہتے ہیں کہ جس سرزمین سے کوئلہ نکل رہا ہے وہاں کے باسی اس سے زیادہ سے زیادہ سے مستفید ہونے چاہییں۔ کامیابی یہی ہے کہ تھر کے لوگ خود انحصاری کی جانب جائیں۔
یہ تھر میں کام کرنے والی اس کمپنی کی جانب سے ایک دلیرانہ بیان ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے در ہوئے۔ لیکن احسن سید کہتے ہیں ’’ہم نے متاثرین کو مستفید ہونے والے بنا دیا ہے، اگر ہم ان کی زمین سے کوئلہ نکال رہے ہیں اور وہ بے در ہونے پر مجبور ہوئے تو اب انہیں فائدہ ہو رہا ہے۔ ہم نے ایسے 171 خاندانوں کو مفت گھر بنا کر دئیے ہیں۔
اینگرو کا تھر باسیوں کے ساتھ بنیادی تعلق ملازمین کے سلسلے میں ہے، احسن کے مطابق کوئلے کی کانوں میں 70 فیصد کام کرنے والے افراد مقامی ہیں جبکہ پاور پلانٹ میں بھی 50 فیصد مقامی لوگ کام کر رہے ہیں۔ جس کیلئے کئی مہینوں کی انہیں ٹریننگ دی گئی۔ کمپنی نے فیمیل ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام شروع کیا جس کے تحت تھر کی 60 خواتین کو ٹرک چلانے کی تربیت دی گئی۔
اینگرو تھر فائونڈیشن بھی چلا رہی ہے جبکہ اسلام کوٹ میں 125 بیڈز کا ہسپتال، ماروی مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کلینک بنانے کے علاوہ آنکھوں کے علاج کیلئے کیمپس لگانے میں بھی تعاون کرتی آئی ہے۔ تعلیمی شعبے کی بات کریں تو تھر میں 24 سکولوں کی نگرانی اینگرو کے پاس ہے جہاں 2500 طلباء پڑھ رہے ہیں، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ مٹھی کو اپ گریڈ کرنے میں بھی اینگرو نے مدد دی ہے جہاں 180 طلباء زیر تعلیم ہیں۔
اینگرو نے تھر میں کام شروع کیا تو یہ تھری اور سندھی کارکنوں کی جانب سے ایسی آوازیں سامنے آئیں کہ اینگرو تھر باسیوں کی زمین چھین رہی ہے اور ’ویمن امپاور منٹ‘ جیسے پروگراموں کے ذریعے اپنا ایجنڈہ مسلط کر رہی ہے۔ یہ الزام بھی لگا کہ کان کنی کی وجہ سے قریبی دیہات میں پانی کی سطح میں تبدیلی ہو رہی ہے، 2016 سے 2018 کے دوران تھر سے تعلق رکھنے والے کچھ خاندانوں نے اسلام کوٹ پریس کلب کے باہر 635 دنوں تک ہڑتال کیے رکھی۔
پانی کے مسئلے پر احسن سید نے واضح طور پر کہا کہ ’’ کہ علاقہ مکینوں نے کہا کہ واٹر لیول گر رہا ہے اور پانی میں زہریلے مادے شامل ہو رہے ہیں تو ہم نے 36 ایسے کنوئیں بنائے جہاں سے ماہانہ بنیادوں پر واٹر لیول مانیٹر کیا جاتا ہے اور پانی میں زہریلے مواد کی بھی پیمائش کی جاتی ہے۔ ہم نے انہیں سارا ریکارڈ فراہم کردیا۔‘‘
تاہم احسن سید کہتے ہیں کہ ’’ہر کسی کو خوش رکھنا ممکن نہیں۔ اگر ہم ایک گائوں سے لوگوں کو ملازم رکھیں تو دوسرے گائوں والے شکایت لیکر پہنچ جاتے ہیں۔ اگر کسی ایسے شخص کو ملازمت دیں جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو تو دیگر جماعتوں کے ورکر شور ڈالتے ہیں۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں بھرتیاں میرٹ پر ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اینگرو کا کارپوریٹ سوشل رسپانسی بیلٹی ماڈل اس قدر کامیاب رہا کہ بلاک وَن (شنگھائی الیکٹرک یہاں کام کر رہی ہے) میں کام کرنے والے تھر کے لوگ مالکان سے وہی مراعات مانگ رہے ہیں جو ہم بلاک ٹو میں دے رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جس سماجی ذمہ داری کا ذکر احسن کر رہے ہیں وہ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے۔ یقیناََ لوگوں کو نوکری دینا اینگرو کا کام ہے لیکن انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے، جو کہ اس وقت اینگرو ہی فراہم کر رہی ہے۔ اور یہی بات تشویشناک ہے کہ اینگرو یا شنگھائی الیکٹرک ایسی جگہ کام کر رہی ہیں جہاں ماضی میں زیرو انویسٹمنٹ رہی ہے تو تھر کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
مستقبل کا سوال:
مستقبل کیلئے اینگرو کے کافی منصوبے ہیں، سب سے پہلے تو تھر پروجیکٹ کا فیز ٹو دسمبر میں ختم ہونے کی توقع ہے، اس فیز میں 330 میگا واٹ کے دو پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں، اس کے بعد فیز میں بلاک ٹو کی توسیع بھی شامل ہے۔
اسکے علاوہ تھر کو ریلوے کے قومی نیٹ ورک کیساتھ جوڑنے کا منصوبہ بھی شامل ہے تاکہ باقی ملک کو بھی کوئلے کی سپلائی ممکن ہو سکے، یہ فیز 2024 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
یہ واضح نہیں کہ ملک میں تھر کے کوئلے کی کتنی ڈیمانڈ ہو گی، کیونکہ ملک میں پہلے ہی زیادہ تر ایل این جی پاور پلانٹس قائم ہو چکے ہیں جو کہ سستی بھی ہے اور باہر سے منگوانے میں بھی آسان ہے۔ خود اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی ایل این جی سپلائی کر رہی ہے۔
اینگرو انرجی کے ذمہ داران اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئلہ درآمدی گیس سے زیادہ سستا پڑتا ہے اور تھر کا کوئلہ تو ایک قومی اثاثہ ہے۔ احسن ظفر سید کہتے ہیں کہ وہ واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان توانائی کے تمام شعبوں میں آگے نکلے۔
رپورٹ: مریم علی اور احمد احمدانی