1963 میں جب یوسف ایچ شیرازی کچھ نیا کرنا چاہ رہے تھے تو سبھی انہیں طرح طرح کی نصیحتیں کر رہے تھے۔ تب اس کی حیثیت ایسے شخص کی تھی جو ایک سال قبل تک، ہر جنوبی ایشیائی والدین کے خواب کی تعبیر پر عمل پیرا تھا۔ انہوں نے بہترین تعلیم حاصل کی، امتیازی حیثیت سے گریجویشن کیا، جب سول سروس کی تیاری کر رہے تھے تو نجی شعبے میں نوکری بھی کی، اور آخر کار سول سروس کا امتحان پاس کرکے ٹیکس آفیسر کی حیثیت سے وفاقی حکومت کے ملازم ہو گئے۔
تاہم 34 سال کی عمر میں یوسف شیرازی نے سول سروس کی بہترین ملازمت چھوڑ کر کراچی سٹاک ایکسچینج میں ایک کمرے پر مشتمل ایک بروکریج فرم میں اپنے بڑے بھائی کیساتھ کام کرنا شروع کردیا اور ایک سال میں اسے کامیابی کی راہ پر گامزن کردیا۔
جیسے ہی انہوں نے اپنا گروپ بنانے کا کام شروع کیا سب سے پہلا سوال یہ اٹھا کہ گروپ کا نام کیا ہونا چاہیے۔ وہ پڑھنے کے شوقین تھے اور جانتے تھے ایک بہترین نام ایسا ہونا چاہیے جو ان تمام اوصاف کو ظاہر کرے جو وہ پاکستانی بزنس کی دنیا میں متعارف کرانا چاہ رہے تھے۔
تمام تر سوچ و بچار کے باوجود گروپ کا نام رکھنے کیلئے غیر متوقع چیز نے انیں متاثر کیا، جب وہ ابھی گروپ متعارف کرانے کے عمل میں تھے تو ایک جنوبی افریقی دوست نے یوسف شیرازی کے کام کا بوجھ دیکھتے ہوئے انہیں ’’اطلس‘‘ سے مماثل قرار دیا، اطلس قدیم یونانی تاریخ کا ایسا قوی الجثہ شخص جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ یہ نام انہیں اچھا لگا اور یوں’’اطلس گروپ‘‘ کا یہ نام پڑ گیا۔
کوئی بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ یوسف شیرازی کو اطلس سے کیوں مماثل قرار دیا گیا، وہ ناصرف جسمانی طور پر متاثر کن اور وجہیہ تھے بلکہ چال ڈھال کے لحاظ سے بھی ان کی شخصیت خوبصورت تھی۔
یوسف شیرازی نے اطلس گروپ سے لیکر مختلف طرح کی اندسٹری لگانے تک زندگی میں کافی بوجھ اٹھائے ہیں، 1960ء سے لیکر پاکستان میں کاروباری دنیا کا یہ اہم ترین شمار ہونے والا یہ شخص 20 اکتوبر 2019 کو 91 سال کی عمر میں کراچی میں چل بسا، اب جبکہ وہ ابدی نیند سو رہے ہیں، تو پرافٹ اردو نے ان کی زندگی اور کام کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
جب پہلی محبت ملی
یوسف شیرازی 1929ء میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، بہن بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر تھے، انہیں ابتدائی دنوں سے ہی معلوم تھا کہ ورثے میں زیادہ کچھ نہیں ملے گا، شائد وراثت اس زمانے کے قوانین میں شامل نہ تھی لیکن پھر بھی بڑے زمیندار گھرانوں اس پر عمل کیا جاتا تھا۔ شائد اسی چیز نے یوسف کو سخت محنتی بنا دیا تھا جس کے بل پر وہ آگے چل کر زندگی میں اوج کمال تک پہنچے۔
بچپن میں ملنسار یوسف شیرازی مطالعہ میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، سکول کے زمانے میں ایک متجسس نوجوان تھے، سکول میں تو تعلیمی لحاظ سے شاندار تھے ہی، گورنمنٹ کالج ساہیوال سے جب انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تو بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد ساہیوال سے لاہور کے فارمن کرسچن کالج میں آ داخل ہوئے، پنجاب کے دارالحکومت لاہور کیساتھ ان کا تعلق ان کے پورے تعلیمی دور میں یوں جڑا رہا کہ ایف سی کالج کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی اور ریاضی میں گریجوایشن کی۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی ملاقات اس سے ہوئی جسے وہ اپنی پہلی محبت کہتے تھے اور جس سے وہ ہمیشہ وفادار رہے، وہ تھی صحافت۔ یونیورسٹی سے نکل کر وہ پاکستان ٹائمز میں آ گئے، کچھ عرصہ نوائے وقت میں بھی رہے، اسی کیساتھ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم بھی حاصل کرلی۔
یہاں انہیں پرنٹ میڈیا کے اصل ٹائٹن ملے، حمید نظامی انکے دوستوں میں شامل تھے، صحافت میں کام کرتے ہوئے آخر کار یوسف کو سول سروس کا خیال آیا، امتحان پاس کیا اور صحافت سے انکم ٹیکس کے محکمے میں چلے گئے لیکن صحافت کیلئے دل میں جذبات جوں کے توں موجزن رہے۔ ساری زندگی انہوں نے اسی چیز کی بناء پر ڈان کے ایڈیٹرز سمیت کئی لوگوں کیساتھ ذاتی تعلقات استوار کیے۔ نوائے وقت گروپ کے حمید نظامی اور مجید نظامی، ایم اے زبیری اور کئی دوسرے لوگوں سے خوب دوستیاں رہیں، زندگی کے آخری دنوں میں جب اطلس گروپ کی ذمہ داریاں اپنی اولاد کو سونپ کر سبکدوش ہو گئے تو دوبارہ اپنی پہلی محبت کی جانب لوٹ آئے اور مختلف انگریزی اخبارات میں کالم لکھنے لگے۔
اس بات پر حیرت ہوتی کہ وہ آجکل کے میڈیا کی حالت خاص طور پر پرنٹ میڈیا کی حالت دیکھتے تو کیا سوچتے؟ آج میڈیا پر سنسرشپ لگا کر اور اشتہارات روک کر حکومت نے اس انڈسٹری پر دو جان لیوا وار کیے ہیں جن کی وجہ سے اپاہج ہو کر رہ گیا ہے اور حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔ ایسے میں یوسف شیرازی جیسا شخص، جو چوٹی کا بزنس مین ہوتے ہوئے بھی لفظ کا تقدس جانتا تھا اور اس سے پیار کرتا تھا، آج کے میڈیا کی حالت زار دیکھتا تو ضرور دل گرفتہ ہوتا۔
اخباری شعبے سے جڑے شخص کی زندگی کے سحر اور سنسنی خیزی کو انہیں پس پشت ڈالنا پڑا کیونکہ 1953ء میں یوسف شیرازی انکم ٹیکس آفیسر بھرتی ہو کر شیخوپورہ چلے گئے، شیخوپورہ میں لاہور والی بات تو نہیں تھی اس لیے ان قیام بھی یہاں کچھ زیادہ نہیں رہا۔ جلد ہی انہیں کراچی بھیج دیا گیا جو انہیں اس قدر پسند آیا کہ اسے اپنا گھر کہنے لگے۔
کاروباری زندگی:
1962ء میں جب یوسف شیرازی کراچی میں محکمہ محصولات میں کام کر رہے تھے تو انہیں اس سال کے ٹاپ 20 گروپوں کی فہرست بنانے کی ذمہ داری ملی، اس سے ان کے اندر کا صحافی جاگ اٹھا، اس اسائنمنٹ کیلئے ان میں ایسا جذبہ پیدا ہو گیا جیسے کوئی صحافی اپنی خبر کے تمام پہلو جاننے کیلئے جذباتی ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنی ڈیوٹی سے آگے جا کر پاکستان کے نمایاں ترین کاروباری شخصیات کے انٹریوز کیے، ان سے مشکل ترین سوالات پوچھے، یہ ان کیلئے صرف ایک اسائنمنٹ نہیں تھی بلکہ ایک رپورٹر کا کردار ادا کرنے کا آخری موقع تھا۔ یہ اسائنمنٹ یوسف شیرازی کی صلاحتیوں کی آزمائش تھی، وہ نہ صرف بہترین رپورٹ لیکر نکلے بلکہ پاکستان کے بڑے کاروباری افراد نے انکی تعریف بھی کی۔
اس کے بعد آدم جی، دائود اور حبیب جیسے کاروباری خاندانوں سے ان کے مراسم بن گئے۔ لیکن جو دوستی لمبا عرصہ چلی وہ نشاط والے میاں منشاء کےوالد میاں محمد یحیٰ کے ساتھ قائم ہوئی۔
وقت کیساتھ ساتھ مختلف ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے یوسف شیرازی کو احساس ہوتا چلا گیا کہ ان میں کاروبار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے تمام تر نصیحتوں کو ان سنا کرکے 1962ء میں سول سروس چھوڑ کر اپنا پہلا گروپ ’’شیرازی بروکریج‘‘ شروع کردیا، یہ کراچی سٹاک ایکسچینج میں ایک کمرے پر مشتمل بروکریج فرم تھی جسے وہ اپنے بڑے بھائی کیساتھ ملکر چلاتے تھے۔
انکی فرم ابھی ابتدائی مراحل میں تھی جب ان کی ملاقات میاں محمد یحیٰ سے ہوئی جنہوں نے یوسف شیرازی کو اپنی کمپنی میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے کی پیشکش کی۔ اسی دوران لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان نے بھی انہیں گندھارا اندسٹریز میں ڈائریکٹر کے عہدے کی پیشکش کی جس پر یوسف شیرازی نے 80ء کی دہائی میں کام کیا، وقت کیساتھ میاں محمد یحیٰ اور لیفٹینینٹ حبیب اللہ اگلے جہان سدھار گئے اور انکی آل اولاد کیلئے یوسف شیرازی ’’انکل‘‘ بن گئے۔
ایک ڈیڑھ سال تک انہوں نے اپنی بروکریج فرم چلائی اور نشاط اور گندھارا انڈسٹریز میں کام کیا اور اسکے بعد بالآخر انہوں نے اطلس گروپ بنانے کا فیصلہ کیا۔
وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے جاپانی کمپنی ہونڈا موٹرز کے اشتراک سے پاکستان میں موٹرسائیکلیں تیار کرنے کیلئے لائسنس حاصل کیا، انہیں سید بابر علی کے بھائی سید واجد علی کی معاونت بھی حاصل ہو گئی۔ دونوں فیملیز نے ملکر پاکستان میں موٹرسائیکل اندسٹری قائم کی اور اطلس گروپ اوج کمال کو پہنچ گیا۔
خود ہونڈا کی بنیاد 1948ء میں پڑی تھی، لیکن 1955ء تک موٹرسائیکلوں کی سب سے بڑی جاپانی کمپنی بن گئی تھی۔ اس لیے 1962ء میں جب اطلس آٹوز نے ان کیساتھ ایک معایدہ کیا تو ہونڈا کی عمر محض 15سال تھی۔ اس زمانے میں چین، سوویت یونین، بھارت اور انڈیا کے بعد پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھا، بھارت میں ہونڈا 1995ء میں آئی اور وہاں موٹرسائیکلوں کی پروڈکٹشن اسکے بعد چار سال بعد 1999 میں شروع کی۔ جبکہ پاکستان میں ہونڈا نے 1962ء میں ہی موٹرسائیکلوں کی پروڈکشن شروع کردی جبکہ 1992ء میں کاریں متعارف کرادیں ، یہ سب شیرازی کی کوششوں کو ثمر تھا۔
یوسف شیرازی نے پہلی دو کمپنیاں لاہور اور ڈھاکہ میں لگائیں اور جلد ہی بزنس کمیونٹی میں اپنا مقام پیدا کرلیا۔ 1968ء میں وہ کراچی چیمبر آف کامرس کے بلامقابلہ صدر چنے گئے اور آج تک یہ اعزاز انہی کے پاس ہے کہ وہ مسلسل دو بار اس عہدے پر فائز رہے۔
1971ء میں قوم سانحہ سے دوچار ہو گئی، آدھا ملک الگ ہو کر بنگلادیش بن گیا، لیکن اس سانحہ سے یہ بھی ہوا کہ سابق مشرقی پاکستان میں موجود نجی انڈسٹری بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ مغربی پاکستان کے بہت سارے کاروباری افراد نے قرضے لیکر مشرقی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی، وہ سب دیوالیہ ہو گئے۔ اطلس گروپ بھی اپنی ڈھاکا والی فیکٹری کھو بیٹھا تاہم یوسف شیرازی اور انکا اطلس گروپ چند ایک میں سے ایسے تھے جو قرضوں کی ادائیگی کرسکے۔
اب دوبارہ معاملہ ملبے کے ڈھیر سے کھڑے ہونے کا آن پڑا تھا، تاہم یوسف کے اقدامات نے بزنس کمیونٹی میں انکا قد مزید بڑا کردیا، شاید انکی قسمت کا کمال تھا یا وزیر اعظم بھٹو کی قربت کا نتیجہ تھا کہ اطلس گروپ بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کا وار بھی سہہ گیا۔
تعمیر نو کی کوشش کو انہوں نے صرف موٹرسائیکلوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ پاکستان میں چار مزید اندسٹریز کے بانی بن گئے، آٹو انڈسٹری میں انہوں نے جاپان میں 20 پارٹنر شپس شروع کیں اور اطلس ہونڈا موٹرز کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یوسف شیرازی نے فنانشل سروسز میں بھی کامیابیاں سمیٹیں، انہوں نے اطلس ایسٹ مینجمنٹ بعد میں اطلس انشورنس (اصل میں علامہ محمد اقبال نے شروع کی تھی جو 1980ء میں اطلس گروپ نے خریدی) نامی کمپنیاں قائم کیں۔ اطلس بینک کا تجربہ کچھ کامیاب نہ رہا۔ تجارتی شعبے میں بھی طبع آزمائی کی اور اطلس پاور قائم کرنے سے قبل جنرل موٹرز کیساتھ تعلقات بنائے۔
کاروباری اخلاقیات:
یوسف شیرازی نے ایک قابل رشک سلطنت چھوڑی ہے۔ لیکن فنانشل سروسز سے لے کر آٹوموبائل اور بجلی کی پیداوار تک ، انکی سب سے قابل ستائش خصوصیت اچھے کاروباری ماحول کو فروغ دینے کا عزم تھا۔
انہوں نے اپنے ملازمین کیلئے ایک نظریہ ’’دی اطلس وے‘‘ کے نام سے لکھ رکھا تھا، یہی بنیادی اصول ہی ان کا عقیدہ تھا، ’’معاشرے سے جو آتا ہے وہ معاشرے کیساتھ ضرور شئیر کرو‘‘۔
بہر حال ، وہ ہمیشہ ان چیزوں کیلئے پرعزم رہے جو انہیں پسند تھیں، اس طرح جیسے وہ انگریزی اخبارات کے لئے کالم لکھتے رہے ، اسی طرح سیکھنے پر اورعلم کی طاقت پر یقین رکھنے کا جذبے تمام عمر رہا۔ وہ ہر سال دو پاکستانیوں کو کسی امریکی یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے بھیجواتے رہے، پاکستان میں ہارورڈ کلب بھی قائم کیا۔ اطلس فائونڈیشن سمیت بے شمار فلاحی کاموں کیساتھ وہ لمز اور غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ کے بانی رکن رہے۔
ان کی موت پاکستان میں بزنس کی دنیا میں ایک خلاء چھوڑ گئی ہے، گو کہ وہ آخری دنوں میں اپنے حلقوں میں زیادہ متحرک نہیں تھے لیکن انہیں ایک بڑے کی حیثییت حاصل تھی جو ہر چیز کا خیال رکھتا ہے۔
اب انکی ذمہ داریاں انکے بیٹوں عامر شیرازی، ثاقب شیرازی، افتخار شیرازی اور علی شیرازی کے کندھوں پر ہیں جو والد کے چھوڑے کاروبار کو چلارہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ والد کی عظمت کب تک برقرار رکھ پاتے ہیں۔