معاشی مندی اور سٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کے باوجود چار پاکستانی کمپنیاں اب بھی منافع کما رہی ہیں۔ کیسے؟

1990

پاکستانی معیشت ان دنوں خستہ حالی کا شکار ہے، سٹاک مارکیٹ بحال ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کم ترین سطح تک گر چکی ہے۔

تاہم ایسی کمپنیاں جو ایکسپورٹ بزنس سے وابستہ ہیں اب بھی ترقی کر رہی ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کمپنیوں کی آمدنی ڈالرز میں ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ مقامی طور پر آپریٹ کرتی ہیں اس لیے اخراجات میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہوتا۔

خاص طور پر یہ بات سافٹ وئیر کمپنیوں کیلئے سچ ہے، ایسی کمپنیوں کو ٹیکسٹائل کی طرح خام مال باہر سے منگوانے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ ڈالر مہنگا ہونے پر کپاس کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو ٹیکسٹائل پروڈکٹ کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے لیکن سافٹ وئیر کمپنیوں کو ایسے کسی خام مال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس سے متعلقہ پروڈکٹس کا بزنس خاصا محنت طلب کام ہے اور اس کی زیادہ تر لاگت افرادی قوت کی تعداد سے جڑی ہوتی ہے۔

مقامی کرنسی کمزور ہونے کی وجہ سے سافٹ وئیر کمپنیوں کی افرادی قوت کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوتا اور درآمدات کی صورت میں منافع  بڑھتا رہتا ہے۔ معاشی مندی کے زمانے میں ویسے ہی بیروزگاری بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے افرادی قوت بآسانی مل جاتی ہے اوراس پر زیادہ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔

یہ بات بھی درست ہے کہ سرمایہ کاروں کے جذبات اسٹاک کی قیمتوں پر کافی اثرانداز ہوتے ہیں لیکن سرمایہ کاروں کے جذبات پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ ہے کمپنی کی بنیادی کارکردگی۔ مثالی طور پر تو ان کمپنیوں کے شئیرز کی کارکردگی دوسری کمپنیوں کی نسبت بہتر ہونی چاہیے کیونکہ زیادہ سے زیادہ آمدنی سے شئیرز کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوگا تاہم یہ غیر معمولی بات ہے کہ ان کمپنیوں کے شئیرز کی کارکردگی خراب ہی رہی ہے حالانکہ یہ کاروبار ڈالر سے وابستہ مضبوط آمدنی پر ترقی کر رہا ہے۔

تو کیا ان کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتیں واقعی ان کی مالی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہیں؟ اس کیلئے ہم نے چار سافٹ وئیر کمپنیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

Avanceon Ltd

 اس کمپنی کا بنیادی کاروبار آٹو میٹنگ انڈسٹریل پروسیسز سے متعلق ہے، سافٹ وئیر بھی اسکے کاروبار کا اہم حصہ ہے، اس کے زیادہ تر کلائنٹس تیل وگیس کے شعبے، فوڈ اور بیورجز، پانی اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں حتیٰ کہ ریل اور میٹرو سسٹمز سے بھی آتے ہیں، مقامی طور پر نیسلے پاکستان اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (OGDCL) اس کمپنی کے کلائنٹس میں شامل ہیں تاہم اس کے زیادہ تر کلائنٹس یو اے ای، سعودی عرب اور قطر سے ہیں جہاں سے مجموعی سیلز کی 60-70 فیصد آمدن ڈالروں کی شکل میں آتی ہے۔

30 جون 2019 (آدھا سال گزرنے پر) تک Avanceon  کی آمدنی 1.68 ارب ڈالر تھی جو کہ 2018ء کی اسی مدت سے 16.3 فیصد زیادہ تھی، کمپنی کا گروس پرافٹ مارجن 27.1 فیصد رہا جوگزشتہ سال کی نسبت 383 بیسز پوائنٹس کم تھا جبکہ آپریٹنگ مارجن 35.2 فیصد تھا جوکہ گزشتہ سال سے 771 بیسز پوائنٹس زیادہ تھا۔

بختیار وائیں (CEO Avanceon Ltd)

کمپنی کی آمدن میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ Avanceon کو تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں آمدنی زیادہ ہوتی ہے، چوتھی سہ ماہی کے دوران کمپنی کے ریونیو میں ایک ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ پہلے چھ ماہ کے دوران ریونیو عام طور پر اس سے آدھا ہوتا ہے، مثال کے طور پر 2018 میں کمپنی کی کل آمدن 3.48 ارب روپے میں آخری چار ماہ کے دوران مزید 1.47 ارب روپے جمع ہوئے جس سے آخری سہ ماہی میں آمدن میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 56 ملین ڈالر کے پروجیکٹ بھی موجود ہیں۔

دلچسپ طور پر ایوانسین کے شئیرز کی قیمت میں 2019 کے چھ ماہ کے دوران 39 فیصد کمی ہوئی، (یکم جنوری 2019  کو 80.61 روپے سے 28 جون 2019 کو 49.04 روپے رہ گئی) جبکہ اسی مدت کے دوران روپے کی قدر میں 34 فیصد کمی ہوئی جبکہ 31 ستمبر تک ایوانسین کے شئیرز کی قیمت 80 روپے سے کم ہو کر 31.66 روپے ہو گئی۔

یکم جنوری 2018 کو ایوانسین کا شئیر جو 35.18 روپے پر تھا وہ 31 دسمبر 2018 کو 135 فیصد بڑھ کر 82.68 روپے کا ہوگیا جبکہ 2018 کے دوران کمپنی کی آمدن میں گزشتہ سال کی نسبت 23.7 فیصد اضافہ ہوا، ایوانسین کا مالی سال ہر سال یکم جنوری کو شروع ہو کر 31 دسمبر کو ختم ہوتا ہے، مالی سال 2018 کے دوران کمپنی کو 3.48 ارب روپے آمدن ہوئی جو کہ 2017 میں 2.81 ارب روپے رہی تھی۔

2018 کے دوران پاکستانی کرنسی کی قدر میں 15.5 فیصد کمی ہوئی، کمپنی کے اخراجات میں 34.3 فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی منافع 29.1 فیصد کم ہو گیا۔

بعد ازاں ایوانسین کی جانب سے کہا گیا کہ 95 ملین روپے قرض کی واپسی، کچھ پرانے واجبات کی ادائیگی، سٹاف کی تنخواہوں میں 13 فیصد اضافے اور دیگر انتظامی اخراجات اور مہنگائی کی وجہ سے 2018 میں کمپنی کے مجموعی اخراجات 36 فیصد بڑھ گئے تھے۔

اسی دوران ایوانسین کا آپریٹنگ پرافٹ مارجن 26.3 فیصد رہا اور اس میں گزشتہ سال کی نسبت 258  بیسز پوائنٹس اضافہ ہوا۔

ایوانسین لمیٹڈ کے سی ای او بختیار وائیں کہتے ہیں کہ ’’کمپنی میں ہر چیز شاندارہے لیکن مارکیٹ تیزی سے مندی کا شکار ہوئی ہے۔ ہمای کمپنی مزید بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی تھی یہ وقتی صورتحال ہے جو ختم ہو جائیگی۔‘‘

اگر دنیا میں کسی ایسے سیکٹر میں مندی آتی ہے جس میں ایوانسین بھی کام کر رہی ہے تو اسے بھی مندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں تیل اور گیس کا شعبہ، لیکن بختیار وائیں کہتے ہیں کہ دیگر سیکٹرز میں کام کی وجہ سے ان کی کمپنی اس طرح کی صورتحال کا تجربہ رکھتی ہے۔

NetSol Technologies Ltd

نیٹ سول کی کافی شہرت ہو چکی ہے اور اس کا سہرہ کمپنی کے بانی سلیم غوری کے سر ہے، آسٹریلیا میں 17 سال تک بطورآئی ٹی کسسلٹنٹ کام کرنے کے بعد پاکستان واپس آکر 1996 میں غوری نے نیٹ سول قائم کی، جس کیلئے ان کے بھائی شہاب غوری نے بھی فنڈنگ دی، گزشتہ 23 سالوں سے یہ کمپنی آئی ٹی، انشورنس، اثاثہ جات کی فنانسنگ اینڈ لیز میجمنٹ اور بینکن

سلیم غوری (CEO NetSol)

گ سیکٹرز میں کام کر رہی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں NETSOL کے نام سے رجسٹرڈ یہ پہلی پاکستانی کمپنی ہے جو امریکا کے NASDAQ میں بھی رجسٹرڈ ہے۔

نیٹ سول انٹرنیشنل آٹو موبائل لیز انڈسٹری میں بھی خاطرخواہ شئیرز کی حامل ہے جہاں یہ دنیا بھر میں اپنے کلائنٹس کیلئے NetSol Finance Suite   نامی کمپنی چلا رہی ہے، یہ اثاثہ جات کی فنانسنگ کی ایپلی کیشن ہے جو قرض دینے والے اداروں کو اپنے قرض کے انتظام و انصرام میں مدد دیتی ہے۔ اس کمپنی کے زیادہ تر کسٹمرز آٹو میکرز ہیں جن میں مرسیڈیز بینز، ٹویوٹا، واکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، نسان اور ہونڈائی شامل ہیں، کمپنی کی 2018 کی مالی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسکی واحد کسٹمر حکومت سندھ تھی۔

30 جون 2019 کو ختم ہونے والے مالی سال تک نیٹ سول کی آمدنی 5.4 ارب روپے رہی جو 2018ء کی نسبت 25.6 فیصد زیادہ تھی، اسی عرصہ میں روپیہ کی قدر میں 34 فیصد کمی ہوئی، 2018  کے 27.1 فیصد گروس پرافٹ مارجن کی نسبت 2019 میں یہ 25.2 فیصد رہا، اسی دوران نیٹ سول کے شئیرز کی قیمت میں جو 2 جولائی 2018 کو 126.84 روپے تھی وہ 48.1 فیصد کم ہو کر 28 جون 2019 کو 65.89 فیصد پر آ گئی۔

 پرافٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے نیٹ سول کے سی ای او سلیم غوری نے کہا کہ انکی کمپنی گزشتہ 25 سالوں سے جو کام کر رہی ہے اسکی پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں ویسی قدر نہیں ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’’جلد ہی مارکیٹ دیکھے گی کہ نیٹ سول کس قدر بہتر کام کر رہی ہے اور ایک بار ہم نے مارکیٹ کی توجہ حاصل کرلی تو کمپنی کی ویلیو خود ہی بڑھ جائے گی، چونکہ مارکیٹ مندی کا شکار ہے، جس کا اثر ہماری کمپنی پر بھی پڑا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ کچھ وقت کیلئے ہی ہے۔‘‘

3جولائی 2017 کو نیٹ سول کے شئیرز کی قیمت 56 روپے تھی جو 29 جون 2018 تک 116 فیصد بڑھ کر 121.07 روپے ہو گئی۔ اسی مدت کے دوران کمپنی کی آمدن 4.3 ارب روپے ہو گئی جو کہ 2017ء کی نسبت 10 فیصد زیادہ تھا، کمپنی کا گروس پرافٹ مارجن 45.2 فیصد جبکہ آپریٹنگ مارجن 27.1 فیصد کے حساب 1 ہزار 709 بیسز پوائنٹس بڑھا۔

Systems Ltd

یہ کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت قائم ہونے والی پبلک لمیٹڈ کمپنی پاکستان سٹاک ایکسچینج میں SYS کے ٹریڈنگ سمبل سے رجسٹرڈ ہے۔ یہ کمپنی سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ، سافٹ وئیر کی درآمد اور مختلف کاروباروں کیلئے آئوٹ سورسنگ کی خدمات مہیا کرتی ہے۔ TechVista Systems FZ LLCC اور E-Processing Systems pvt Ltd اسکی ذیلی کمپنیاں ہیں۔ زیادہ تر آمدن سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ سے آتی ہے، اسکی ذیلی کمپنی TVS مشرق وسطیٰ میں کام کر رہی ہے جبکہ اسی سے جڑی ایک اور کمپنی Visionet Systems شمالی امریکا میں کام کر رہی ہے، کمپنی کو73 فیصد سے زیادہ آمدن برآمدات سے حاصل ہوتی ہے۔

آصف پیر (CEO Systems Ltd)

مالی سال 2018 کیلئے سسٹمز لمیٹڈ کے شئیرز کی قیمت میں 46.5 فیصد اضافہ ہوا، جنوری 2018 میں یہ قیمت 75 روپے تھی جو 31 دسمبر 2018 تک 109.87 روپے ہو گئی۔ 2018ء میں ڈالر 15.5 فیصد مہنگا ہوا اور کمپنی کا ریونیو 3.8 ارب روپے سے بڑھ کر 5.3 ارب روپے ہو گیا، سسٹمز کا گروس پرافٹ مارجن 2018 میں 28.7 فیصد رہا جو 2017ء کے 30 فیصد سے 126 بیسز پوائنٹس کم تھا البتہ آپریٹنگ مارجن 2017ء کی نسبت 491 بیسز پوائنٹس بڑھ کر 20.17 فیصد رہا۔

ستمبر 2019 تک سسٹمز لمیٹڈ کے شئیرز کی قیمت میں 24 فیصد کمی ہوئی اور یہ یکم جنوری 2019ء کے 108.70 روپے سے کم ہو کر 82.30 روپے پر آگئی۔

جون تک کمپنی کی جاری کردہ ششماہی رپورٹ کے مطابق اسکے شئیرز کی قیمت کا موازنہ کیا جائے تو انکی قیمت 28 جون 2019 کو 95.97 روپے تھی جو کہ یکم جنوری 2019ء کی 108.70 روپے سے 11.7 فیصد کم تھی۔ انہی چھ ماہ کے دوران روپیہ کی قدر میں 34 فیصد کمی ہوئی، کمپنی کے ریونیو میں 53.61 فیصد اضافہ ہوا اور یہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے ریونیو 2.3 ارب روپے سے بڑھ کر 3.6 ارب روپے ہو گیا۔  2019 کی پہلی ششماہی کے دوران لاگت میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 47 فیصد اضافہ ہو گیا جبکہ گروس پروفٹ مارجن 283 بیسز پوائنٹس کے اضافے سے 30.8 فیصد بڑھ گیا جوکہ 2018 کی اسی مدت کے دوران 28 فیصد تھا۔ 2018ء کے 20.2 فیصد آپریٹنگ مارجن میں 530 بیسز پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور یہ 25.5 فیصد ہوگیا۔

ہماری اس سوال پر کہ بزنس کی ترقی کے باوجود کمپنی کے شئیرز کی قیمت کم کیوں ہے؟ سسٹمز لمیٹڈ کے سی ای او آصف پیر نے بتایا کہ مارکیٹ میں تجارت price-to-earnings کی شرح سے ہو رہی ہے اور بدقسمتی سے وہ اس کیٹیگری میں ڈالر پر مبنی شئیرز کی 30 فیصد گروتھ بھی لے رہے ہیں۔

The Resource Group

یہ کمپنی ضیاء چستی نے بنائی، وہ امریکا میں مقیم ایک پاکستان بزنس مین ہیں اور اب بھی ٹی آر جی کے سی ای او ہیں۔ ضیاء چستی نے تن تنہا دو ارب ڈالر کی کمپنیاں کھڑی کردیں جن میں Align Technologies ان کی پہلی کمپنی ہے۔

ٹی آر جی پاکستان ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں اپنے تجارتی نشان TRG سے رجسٹرڈ ہے، زیادہ تر لوگ اسے ایک کال سینٹر سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہولڈنگ کمپنی ہے جو اپنی ایک ذیلی کمپنی دی سورس گروپ انٹرنیشنل لمیٹڈ (TRGIL)  کے ذریعے بزنس پراسیس آئوٹ سورسنگ، آن لائن کسٹمرز ایکوزیشن اور میڈی کئیر پروڈکٹس کی مارکیٹنگ جیسے شعبوں میں خدمات مہیا کر رہی ہے۔ ٹی آر جی کا زیادہ تر ریونیو اسکی ذیلی کمپنی IBEX Bussiness سے آتا ہے جو کہ امریکا، یوکے، کینیڈا، جمائیکا، نکارا گوا، سینگال اور پاکستان میں کال سینٹرز چلاتی ہے، گروپ کی دوسری زیادہ ریونیو کمانے والی Afiniti ہے جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے کمپنی کے ملازمین کو کسٹمرز کیساتھ جورتی ہے۔

ٹی آر جی کا مالی سال یکم جولائی کو شروع ہو کر آئندہ سال 30 جون کو اختتام پذیرہوتا ہے۔

رواں سال کے پہلے 9 ماہ ٹی آرجی کیلئے کافی اہم رہے اور کمپنی کا ریونیو 51.3 ارب روپے ہو گیا جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت سے 43.5 فیصد زیادہ تھا۔ کمپنی کی جانب سے کہا گیا کہ ریونیو میں اضافہ اسکی تمام ذیلی کمپنیوں کو بھی ہوا ہے اور اس میں زیادہ کردار ڈالر کی اڑان اور روپیہ کی گراوٹ نے ادا کیا ہے۔ صرف Ibex business اکیلی کمپنی کا ریونیو 42.7 ارب روپے تھا جبکہ اسی مدت کےدوران پاکستانی کرنسی کی قدر میں 15.7 فیصد کمی ہوئی۔

مالی سال 2018 کے پہلے 9 ماہ کے دوران کمپنی کا گروس پرافٹ مارجن 28.5 فیصد سے 36.3 فیصد تک بڑھ گیا۔ آپریٹنگ پرافٹ مارجن میں بھی 983 بیسز پوائنٹس اضافہ ہوا اور یہ 2018ء کے منفی 9.81 فیصد سے 2019 میں 0.02 فیصد ہو گیا، 2 جولائی 2019 کو ٹی آر جی کے سٹاک کی قیمت 28.95 روپے تھی جو 29 مارچ 2019ء تک 20.3 فیصد کم ہو کر 23.06 روپے پر آ گئی۔ تاہم رواں سال کے شروع سے ہی ٹی آر جی کے سٹاک کی قیمت 43.1 فیصد کمی ہو چکی ہے، یکم جنوری کو قیمت 23.41 روپے تھی جو 20ستمبر کو 13.31 روپے پر آ گئی۔

ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ کمپنی کو اربوں روپے کے نقصان اور خراب مالی کارکردگی کا اثر سٹاک کی قیمت پر بھی پڑا۔ 2018ء کے دوران ٹی آر جی کو 49.1 ارب روپے آمدنی ہوئی جبکہ مجموعی منافع 29.2 فیصد رہا جو کہ گزشتہ سال کے 8.8 فیصد کی نسبت 2043 بیسز پوائنٹس زیادہ تھا، تاہم کمپنی کو آپریشنز کے دوران 3.5 ارب کا نقصان بھی اٹھانا پڑا، یہ نقصان 2017ء کی نسبت کم تھا کیونکہ 2017 میں مختلف اخراجات اور ٹیکسوں کو چھوڑ کر صرف آپریشنز کی مد میں 8 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ 2018ء کیلئے پرافٹ مارجن منفی 7.2 فیصد رہا اور اس میں 2017ء کی نسبت 15 فیصد بہتری آئی کیونکہ 2017ء میں پرافٹ مارجن منفی 22.2 فیصد تھا۔

ٹی آر جی کی مطابق وہ اپنی ذیلی کمپنی Afiniti کی توسیع کیلئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس وجہ سے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، 2017ء میں Afiniti پر اٹھنے والے اخراجات 5.8 ارب تھے جو کہ 2018 میں 9.6 ارب روپے ہو گئے۔

بطور انویسٹر ان کمپنیوں تک رسائی کیسے حاصل کی جائے؟

یہ واضح ہے کہ کمپنیاں مالی طور پر ترقی کر رہی ہیں، یہاں تک کہ ٹی آر جی بھی، حالانکہ یہ اس وقت بہت بڑا نقصان اٹھا رہی ہے، لیکن یہ چند سالوں تک منفی سے مثبت کی جانب منافع کے راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔

جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجموعی معیشت نے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں بھی نیچے آئی ہیں، جیسے ہی کچھ معاشی بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں ان کمپنیوں کی مالی کارکردگی کی بنیاد پر اصل قیمت کے مطابق ہونے جا رہی ہیں، لیکن ابھی تک تو ان کمپنیوں کی بہترین کارکردگی کی جھلک سٹاک مارکیٹ میں بھی پوری طرح نظر نہیں آتی۔

Capital Stake میں ریسرچ ڈائریکٹر ماہا جعفر بٹ نے پرافٹ ارد کو بتایا کہ ایکویٹی مارکیٹ میں مجموعی طور پر اعتماد کم ہے اور مجموعی طور پر معیشت کے بارے میں خدشات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد اور مارکیٹ میں شرکت کو کم کر رکھا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here