ریٹیل بزنس میں عروج حاصل کرنے کے بعد Saphire کا ای کامرس میں قسمت آزمائی کا فیصلہ

1074

سفائر نے جب ریٹیل بزنس شروع کیا تو مارکیٹ پر اپنی دھاک بٹھائی، سفائر پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی گروپ کا حصہ ہے، اس نے 2014 میں ریٹیل کے کاروبار میں سرمایہ کاری شروع کی اور اپنے مدمقابل کمپنیوں سے بھی باصلاحیت لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیا، لیکن پانچ سالہ عروج کے بعد اب کمپنی نے اپنے ای کامرس بزنس کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پانچ سالہ ترقی کے بعد سفائر ٹیکسٹائل ملز کی ذیلی کمپنی سفائر ریٹیل کی رفتار اب قدرے ماند پڑچکی ہے اور یہ گزشتہ 18 ماہ سے معاشی سست روی اور مہنگائی سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔

کمپنی کی فنانشل سٹیٹمنٹس کے مطابق 31مارچ 2019 تک اسکی آمدنی 13 ہزار 417 ملین روپے تھی اور گزشتہ سال کی نسبت 20.2 فیصد اس میں اضافہ ہوا لیکن گزشتہ سال کی نسبت گروتھ ریٹ کم رہا،مثال کے طور پر 2014 سے 2018 کے درمیان کمپنی کا گروتھ ریٹ 42.2 فیصد سالانہ تھا۔

ریٹیل بزنس کی ترقی:

سفائر پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی گروپس میں سے ایک ہے جو ٹیکسٹائل، پاور جنریشن، ریٹیل کلاتھنگ اور ڈیری پروڈکٹس تک میں کم و بیش 800 ملین ڈالر سے زیادآمدن کما رہا ہے، اسکے ریٹیل بزنس کی کہانی بھی قابل ذکر ہے، سفائر ریٹیل لندن سکول آف اکنامکس کے 33 سالہ گریجوایٹ نبیل عبداللہ کی ذہنی تخلیق ہے، وہ سفائر میں حصص کی اکثریت رکھنے والے خاندان کے ایک رکن ہیں، نبیل عبداللہ سفائر ریٹیل کے سی ای او اور سفائر ٹیکسٹائل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ ہیں، انہوں نے سفائر ریٹیل دسمبر 2014 میں 10 ملین روپے کی سرمایہ کاری سے کراچی کے ڈولمن مال میں ایک سٹور کی شکل میں شروع کی تھی۔

سفائر ریٹیل بنیادی طور پر ایک کلاتھنگ برانڈ ہے لیکن گھریلو آرائش کی دیگر چیزیں بھی پیش کرتا ہے، مال سال 2018 میں سفائر ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ کی کل آمدن 11 ہزار 164 ملین روپے رہی جس میں سے 8 ہزار ملین روپے سفائر ریٹیل کی آمدن تھی۔

سفائر ریٹیل جب شروع ہوا تو اس نے کپڑوں اور گھریلو آرائش کے سب سے بڑے برانڈ کھادی (Khaadi)  سے بڑی تعداد میں باصلاحیت ملازمین کو بلا لیا، کمپنی گو کہ اپنے حریف سے قدرے چھوٹی تھی لیکن آمدن کے لحاظ سے بہت کم مدت میں سفائر کھادی کے قریب تر پہنچ گیا۔

10 ملین روپے کی سرمایہ کاری سے ایک سٹور کھولنے والے سفائر ریٹیل نے گزشتہ پانچ سال کے دوران خاطر خواہ ترقی کرتے ہوئے اپنی سالانہ آمدن کو ناصرف ایک ارب روپے تک پہنچا دیا ہے بلکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالا، ملتان اور بہاولپور میں مزید 21 سٹور کھول دیے ہیں اس کے علاوہ کمپنی اپنے ای کامرس سٹور کیساتھ دراز مال پر آن لان بھی اپنی پروڈکٹس فروخت کر رہی ہے۔

نبیل عبداللہ کہتے ہیں کہ سفائر ریٹیل کی اس ترقی میں اس کی پیرنٹ کمپنی نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ کمپنی نے نئے بننے والا مالز میں بہترین جگہ حاصل کرنے کیلئے بھی کافی سرمایہ کاری کی، تاہم اب معاشی سست روی کی وجہ سے کمپنی کے توسیعی منصوبے رک چکے ہیں۔ نبیل عبداللہ کہتے ہیں کہ ’’ اب ہمارے اخراجات زیادہ ہو رہے ہیں، اس لیے اب ہماری توجہ ترقی اور توسیع پر کم اور کمپنی کو مستحکم کرنے اور مارجن بڑھانے پر زیادہ ہے۔‘‘

کساد بازاری کے دور میں اپنا راستہ بنانا:

 ایک ایسے وقت میں جبکہ سفائر کو مسائل کا سامنا ہے تب بھی یہ اپنا منافع کے مارجن محفوظ بنانے اور مزید زیادہ کرنے کیلئے کوشاں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ یہ سب ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب کسٹمر میں ان کی مصنوعات خریدنے کی سکت ہی نہیں۔ ایسے میں کمپنی کے پاس دو راستے ہیں یا تو قیمتیں کم کردے یا پھر اسکی گروتھ کم رہے گی۔ اس حوالے سے نبیل عبداللہ نے بتایا کہ ’’اگر ہم 100 یونٹس بیچنے کا سوچیں تو معاشی سست روی کی وجہ سے ہم محض 50 یونٹ فروخت کر پاتے ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈسکائونٹ دینا پڑتا ہے، ہر ماہ کسی نہ کسی بڑانڈ پر کلئیرنس سیل لگائی جاتی ہے، یہ صورتحال پوری صنعت کو متاثر کر رہی ہے لیکن کسٹمر صرف اسی وقت خریدنا چاہتا ہے جب ڈسکائونٹ چل رہا ہو۔‘‘

یہ مارکیٹنگ کی ایک چال بن جاتی ہے کہ جب آپ اپنی پروڈکٹس ڈسپلے پر رکھیں تو قیمتیں زیادہ رکھیں اور پھر ہر ماہ ’سیل‘ لگا کر اپنے منافع کوپورا کرنے کیلئے چیزوں کو اصل قیمت پر فروخت کریں۔ اس حوالے سے نبیل نے کہا کہ سیل پر چیزیں فروخت کرنا بھی بزنس کی ضرورت ہے، عام طور پر سیزن کے اختتام پر سیل لگا کر مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں۔

تاہم حریف کمپنیوں کا مقابلہ کرنے اور منافع کی شرح برقرار رکھنے کیلئے سفائر کے پاس پلان موجود ہے، وہ قیمتوں کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی پروڈکٹس کو دوبارہ سے ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں۔ سفائر کو اپنی پیرنٹ کمپنی کا اس میدان میں کافی زیادہ فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ مینوفیکچرنگ کے عمل میں کسی بھی سطح پر وہاں سے مدد لے سکتی ہے۔ کیونکہ وہاں دھاگے سے لیکر کپڑے کی پرنٹنگ اور سٹیچنگ تک ہر چیز کی پروڈکشن اِن ہائوس ہوتی ہے، کچھ بھی باہر سے تیار نہیں کروایا جاتا، اسی لیے نت نئے ڈیزائن متعارف کرانا سفائر کیلئے قدرے آسان رہتا ہے۔ تاہم نبیل عبداللہ کہتے ہیں کہ ’’کاٹن اور دھاگے کی قیمتیں ڈالر کے اتار چڑھائو سے متاثر رہتی ہیں، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے کپڑے کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں، اس کے نت نئے ٹیکسوں کی وجہ سے بھی ہماری مینوفیکچرنگ کاسٹ بڑھ چکی ہے۔‘‘

نبیل دراصل اس حقیقت کا حوالہ دے رہے تھے کہ پاکستان میں دھاگے کی قیمتیں ڈالر کے اتار چڑھائو کے ساتھ جڑی ہیں، کیونکہ جب عالمی منڈی میں کپاس کی قیتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں کپاس کے کاروربار سے منسلک لوگ مقامی جننگ فیکٹریوں کو کپاس فروخت کرنے کی بجائے اسے برآمد کردیتے ہیں، یہی صورتحال دھاگے کیساتھ ہوتی ہےکہ جب قیمتیں زیادہ ہوں تو مقامہ سپننگ یونٹس دھاگا باہر بھیج دیتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی فیکٹریوں کو عالمی منڈی کی قیمتوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔

نبیل عبداللہ کے مطابق انہیں اپنے مارجن کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سارا بوجھ کسٹمرز کی جیب پر نہیں ڈال سکتے، کپڑے کا معیار بہتر بنانے کے ساتھ اسکی قیمت بھی کم رکھنا پڑتی ہے۔

سفائر ہر سال ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر بھی اپنے سیلز کا ایک فیصد خرچ کرتا ہے، ’’ٹیکسٹائل ہماری طاقت ہے اور ہم پروڈکٹ ڈویلپمنٹ پر کام کرتے ہیں، ہماری پیرنٹ کمپنی نے ڈیجیٹل پرنٹنگ پر کافی سرمایہ کاری کی ہے جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ڈیزائن تیار کیے جاسکتے ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ہی کولیکشن کیلئے ہم مختلف قسم کے کپڑے مہیا کرسکتے ہیں، اسکے علاوہ رنگوں کا انتخاب ہماری حریف کمپنیوں سے کم نہیں ہے، حالانکہ وہ پرنٹنگ کے روایتی طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

ریٹیل اور ای کامرس کا موازنہ:

جیسے جیسے کسٹمرز کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اسی رفتار سے شاپبنگ مالز میں ریٹیل آّئوٹ لیٹس قائم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، 2009 اور 2018 کے دوران جب کنزیومرز کا عروج تھا تو اس دوران جن مالز اور کمپنیوں نے ریٹیل کا کام کرنے کا سوچا تھا انہوں نے معاشی کساد بازاری کے شروع ہوتے ہی اپنے منصوبے تبدیل کر لیے ہیں اور اب آن لائن بزنس کی جانب آ رہی ہیں، شاپنگ مالز میں کرائے بے حد بڑھ گئے ہیں اور اس کے مقابلے میں آمدن خاطر خواہ کم ہو چکی ہے۔

نبیل کہتے ہیں کہ ’’اگر سیل کم ہو چکی ہے تو اس میں شاپنگ مالز کا قصور نہیں، جب آپ کسی مال میں سٹور کھولتے ہیں تو اس مال میں آنے والے ہزاروں افراد آپکے سٹور اور آپکی پروڈکٹس کو بھی دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کے ریٹیل کے کاروبار کو بھی فائدہ ہوتا ہے، لاہور میں پیکجز اور امپوریم مالز اچھے چل نکلے ہیں، کراچی کا ڈولمن مال کافی عرصے سے چل رہا ہے، میرے خیال سے ریٹیل کے کاروبار میں یہ شاپنگ مالز کافی حصہ ڈال رہے ہیں کیونکہ لوگ ایسی جگہوں پر جانا پسند کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں کسی بھی مال کی مینجمنٹ بھی کافی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر انتظامیہ ہر خاص مواقع پر کوئی نہ کوئی پروگرام کرواتی رہے تو وہاں کسٹمرز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہماری حکمت عملی رہی ہے کہ ہم نے مالز میں بہترین جگہ دیکھ کر بڑے سٹورز بنانے کو ترجیح دی ہے۔‘‘

سفائر نے آئندہ ترقی کیلئے ای کامرس میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا ہے، نبیل عبداللہ کے مطابق ای کامرس کے تین کلیدی فائدے ہیں: یعنی کم قیمت پر آپکے برانڈ کی تشہیر ہوتی ہے اور آمدن بھی زیادہ ہو جاتی ہے، اشتہارات پر بھی زیادہ خرچ نہیں ہوتا اور آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ نبیل کے مطابق اب سفائر ای کامرس سے 15 فیصد آمدن حاصل کر رہی ہے اور اسے آئندہ چند سالوں میں 30  فیصد تک لے جانے کی خواہاں ہے۔

1.2 ارب کے آن لائن ریونیو کے ساتھ سفائر پاکستان میں درمیانے درجے کی آن لائن ریٹیلرز مٰن سے ایک ہے اور اسے آن لائن کمپنی دراز سے آگے نکلنے کیلئے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی لیکن نبیل کے مطابق انکا مقابلہ دراز سے بالکل نہیں ہے، بلکہ سفائرکی پروڈکٹس بھی دراز پر دستیاب ہیں۔ نبیل عبداللہ نے بتایا کہ ’’ ایک سٹور 200 سے 250 روپے فی سکوئر فٹ میں پڑتا ہے، ای کامرس کیلئے آپکو محض ایک وئیرہائوس کی ضرورت ہوتی ہے جو 15 روپے فی مربع فٹ میں پڑے گا اور کرایہ بھی نہیں بڑھے گا، طویل مدت کیلئے ای کامرس زیادہ شاندار ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم ای کامرس کے ذریعے اپنی برانڈنگ کو بڑھا رہے ہیں اور گوگل، فیس بک اور انسٹاگرام پر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کر رہے ہیں، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی اچھی بات یہ ہے کہ آپکو اپنی ریٹرنز کا پتہ چلتا رہتا ہے، اگرہم 100 ڈالر کمانے کیلئے ڈیجیٹل مارکیٹنگ پر 10 ڈالر بھی خرچ کریں تو ہم اسے مانیٹر کرسکتے ہیں۔‘‘

دوسرے چیلنج پر بات کرتے ہوئے نبیل عبداللہ نے بتایا کہ ’’ کہ ہمارا کاروبار سیزنل ہے، اس میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے، سیل کے دنوں میں ہم دو لاکھ یونٹ ایک ہی دن میں بھی بیچ لیتے ہیں، جبکہ عام دنوں میں بیس سے پچیس ہزار یونٹس بک پاتے ہیں، یعنی سیل لگا کر 200 سے 250 ملین روپے بآسانی کمائے جا سکتے ہیں، لیکن چیلنج تب درپیش ہوتا ہے جب پروڈکٹس وقت کے مطابق ختم سیل کرنا ہوتی ہیں۔ ہم اس سے بھی نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

تیسرا مسئلہ جس کا ای کامرس میں بقول نبیل سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ مصنوعات کی واپسی یا تبدیلی ہے، کسی کا سائز ٹھیک نہیں تو اسے واپس کرنا بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے، نبیل کہتے ہیں ہم اس کیلئے بھی بالکل ویسی ہی کسٹمر کئیر سروس مہیا کرنے جا رہے ہیں جیسے ہمارے سٹورز پر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈلیوری ٹائم کم سے کم کرنے کیلئے کچھ کورئیر کمپنیوں کیساتھ بھی کام کرر ہے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here