جون 2018 میں سامنے آنے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کے 230 ممالک میں 2017ء تک 857 ملین آتشیں ہتھیار(بندوقیں، پسٹل وغیرہ) موجود تھے، خوفناک بات یہ ہے کہ یہ تعداد دنیا میں ہتھیاروں کی کل تعداد کا 84.6 فیصد ہے، جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کی افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اتنے ہتھیار موجود نہیں جتنے عام شہریوں کے پاس ہیں۔ یہ سروے جنیوا کے گریجوایٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے’’سمال آرمز سروے‘‘ نامی ریسرچ پروجیکٹ کے تحت کیا گیا۔
دنیا میں ایک ارب آتشیں ہتھیاروں میں سے صرف 133 ملین (13.1 فیصد) افواج کے پاس ہیں، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس 22.7 ملین (2.2 فیصد) ہتھیار ہیں، پاکستان کا کیس بھی مختلف نہیں، سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2007 میں عام پاکستانیوں کے پاس 18 ملین ہتھیار موجود تھے یہ تعداد 2017 کے اختتام تک 43.9 ملین ہو گئی، جس کا مطلب ہے کہ عام پاکستانیوں کے پاس فوج سے زیادہ ہتھیار موجود ہیں، مذکورہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے پاس 2.3 ملین جبکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس وغیرہ) کے پاس 9 لاکھ 44 ہزار ہتھیار موجود ہیں، اور یوں پاکستان عام شہریوں کی مسلح صلاحیت میں چوتھے نمبر پر آتا ہے، صرف امریکہ، چین اور بھارت اس سے آگے ہیں۔
ملک بھر میں 44 ہزار ہتھیار موجود ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کاروبار خاصا بڑا ہے، سب سے کم کیلیبر یعنی 9ایم ایم کے پسٹل کی پاکستان میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے، یہ 25 ہزارروپے تک مل جاتا ہے، اس کے علاوہ کافی مہنگے پسٹل بھی موجود ہیں۔ لیکن چونکہ ایک سستا ترین پستول 25 ہزار میں مل جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں موجود 43.9 ملین ہتھیاروں کی قیمت ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
سمال آرمز سروے کے مطابق پاکستان میں چھوٹے ہتھیاروں کی مارکیٹ میں گزشتہ ایک دہائی سے 9.3 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سنہء 2019ء کے اختتام تک ملک میں ہتھیاروں کی تعداد 52.5 ملین ہو جائیگی، اگلے سال مزید 4.9 ملین گنز کا اضافہ ہو جائیگا جس کا مطلب ہوا کہ پاکستان میں سالانہ 122 ارب روپے (764 ملین ڈالر) سے زائد کے چھوٹے ہتھیارفروخت ہوتے ہیں۔ یہ قیمت پاکستان میں سالانہ فروخت ہونے والے موٹرسائیکلز اور رکشوں کی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔
لیکن اگر آپ لاہور میں کسی اسلحہ کی دکان پر جائیں تو آپکو کوئی گاہک نظر نہیں آئیگا، ڈیلرز کہتے ہیں کہ گزشتہ 6 سال سے کاروبار مندا چل رہا ہے، یہ کاروباری مندی 2013 میں نواز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوئی، اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اینٹی گن پالیسیوں کی وجہ سے ہتھیاروں کی درآمد متاثر ہوئی، لائسنس پر پابندی لگا دی گئی، یہ اقدامات ایک ایسے ملک میں کیے گئے جہاں مختلف مواقع پر مسلح لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں اور جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ لیکن حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہتھیاروں کی قانونی ڈیلرشپ میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
لاہور میں ہتھیاروں کی ایک بڑی دکان بخش الٰہی اینڈ کو کے مالک نے بتایا کہ ’’ہمیں امید تھی کہ حکومت اس شعبے پر کچھ توجہ دیگی لیکن پھر بھی ہم انہیں (حکومت کو) الزام نہیں دیتے کیونکہ وہ اِس سے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہیں، جو کچھ ہم فروخت کرتے ہیں یہ حکومت کی ترجیح نہیں اور یہ ضروریات زندگی میں بھی شامل نہیں۔‘‘
پاکستان گنز کا قانونی کاروبار بھی انحطاط پذیر ہے، درآمد کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے جہاں سپلائی متاثر ہے وہیں لائسنس پر پابندی کی وجہ سے ڈیمانڈ بھی نا ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں آرمز لائسنس کے اجراء پر مکمل پابندی ہے، ڈی سی آفس لاہور کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ پابندی 2015 سے نافذ ہے، ڈیلرز کہتے ہیں کہ دوسرے صوبوں میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔
Arsenal نامی اسلحہ کی ڈیلرشپ کے مالک اور امپورٹر سید یاسر حسن کہتے ہیں کہ پہلے اسلحہ کی کافی ڈیمانڈ تھی، نومبر سے فروری تک شکار کا موسم ہوتا ہے اور اس دوران ہماری کافی سیل ہوتی تھی، لوگ ہمارے پاس شارٹ گن، رئفلز اور دیگر ہتھیار خریدنے آتے تھے، بہت سے لوگ ذاتی دفاع، مقابلے بازی یا پھر کھیلوں کیلئے کسی نہ کسی کا ہتھیار خریدنے آ جاتے تھے لیکن اب ایک دن میں بمشکل 15 گاہک آتے ہیں، جن میں شائد 8 کے پاس لائسنس ہوتا ہے اور پابندی کی وجہ سے سات کے پاس نہیں ہوتا، لائسنس یافتہ 8 افراد میں سے ہم بمشکل 2 افراد کو ان کی ضرورت کے ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ درآمد پر پابندی کی وجہ سے کافی اسلحہ نہیں مل پاتا۔‘‘
ڈیلرز کہتے ہیں کہ قواعدو ضوابط کی وجہ سے ہتھیاروں کے پھیلائو پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ یہ کام قانونی دائرے میں رہ کر کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ملک میں ہتھیاروں کی تعداد روز افزاں بڑھ رہی ہے اور 2017 میں اگر ملک میں 44 ملین ہتھیار موجود تھے تو صرف 6 ملین قانونی طور پر رجسٹرڈ تھے جبکہ باقی سارے بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 2007 میں پاکستان میں ہتھیاروں کی قانونی درآمد 8.27 ملین ڈالر تھی جو 2009 میں زرداری حکومت کے دوران یکدم 36.63 ملین ڈالر ہو گئی، وہ کاروبار کیلئے اچھا وقت تھا۔
جب 2013 میں نواز شریف مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو چھوٹے ہتھیاروں کی درآمدات 16 ملین ڈالر تھیں جو 2018 میں جب حکومت نے درآمد پر پابندی ہٹائی تو صرف 6 ملین رہ گئیں۔ درآمد کنندگان کہتے ہیں کہ گو کہ پابندی اٹھائی جا چکی ہے اس کے باوجود وزارت کامرز درآمدی لائسنس جاری نہیں کر رہی۔ اس حوالے سے سید یاسر حسن کہتے ہیں کہ ’’درآمدات کی اجازت دینے کیلئے صرف ایک ایس آر او جاری کردیا گیا لیکن لائسنس جاری نہیں کیے گئے، پرانی پالیسی تبدیل ہوئی تو پرانے لائسنس بھی ختم ہو گئے۔ ہم بطور درآمد کنندہ رجسٹرڈ ضرور ہیں لیکن ہماری دستاویزات ہر سال نئے سرے سے بنائی جاتی ہیں، اگر ہمارے پاس مطلوبہ دستاویزات نہ ہوں تو ہم مینوفیکچرر کو کچھ نہیں دکھا سکتے اور نہ ہی وہ ہمیں کوئی چیز دے گا۔‘‘
دوسری طرف کامرس منسٹری کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے آخری دنوں میں ایس آر او جاری کرنے کے بعد اسلحہ کی درآمدات کی اجازت دے دی گئی تھی۔
گن ڈیلرز یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلحہ کا قانونی طور پر کاروبار کافی مشکل بنا دیا گیا ہے، یاسر نے کہا کہ ’’پورے ملک میں ہی اسلحہ سے متعلقہ قوانین سخت ہیں، غیر قانونی کاروبار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کسی کو بھی آٹو میٹک ہتھیار درآمد کرنے کی اجازت نہیں، اگر کوئی ایسا کرے تو یقیناََ اس نے یا تو جعلی ڈاکومنٹس پر وہ ہتھیار منگوایا ہو گا یا پھر ہتھیار سے متعلق حقائق چھپائے ہونگے جو کہ ایک جرم ہے۔ کلاشنکوف اور دیگر آٹو میٹک اسلحہ ملک میں اسملگل کر کے لایا جا رہا ہے، یہ سارا غیر قانونی دھندہ ہے، اگر اس پر حکومت قابو پانا چاہتی ہے تو بارڈر کو محفوظ بنائے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب بھی اسلحہ کا کوئی ذخیرہ قانونی طور پر پاکستان لایا جاتا ہے تو اس کی ایک پیکنگ لسٹ ہوتی ہے جس پر ہتھیاروں کے سیریل نمبر اورماڈل سمیت مینوفیکچرر اور ملک سے متعلق ساری تفصیلات موجود ہوتی ہیں، یہ ڈیٹا کسٹمز کے ڈیٹا بیس میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور ہمیں ہمارا مال تب ملتا ہے جب ہر قسم کے ٹیکس ادا کر دئیے جائیں، جب تک مال کلئیر نہیں ہوتا ہمیں اس پر ڈیوٹی (ٹیکس جو بندرگاہ پر مال پڑا رہنے پر دنیا ہوتا ہے) کرنا پڑتی ہے۔‘‘
پرانی پالیسی کے تحت امپورٹرز کو ویلیو بیسڈ لائسنس جاری ہوتے تھے جس پر وہ ایک مخصوص تعداد میں ہتھیار درآمد کر سکتے تھے اور تعداد ہر امپورٹر کیلئے مختلف ہوتی تھی۔ مثلاََ کسی کو سالانہ دو ملین روپے کے ہتھیاروں کی درآمد کا کوٹہ ملتا تو کسی کو 4 ملین روپے کا۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے پاکستانی مارکیٹ میں چینی اور ترکی ساختہ چھوٹے ہتھیاروں کی بہتات ہوگئی کیونکہ وہ سستے تھے اور امورٹرز کو ان کے کوٹے میں زیادہ مل جاتے تھے۔ اس کے مقابل امریکی، یورپی یا برازیلین ساختہ ہتھیار مہنگے ہیں اور امپورٹرز کم ہی درآمد کرتے ہیں۔
ویلیو بیسڈ لائسنس کی وجہ سے انڈر انوائسنگ کا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا، اگر کوئی بندوق 200 ڈالر کی ہوتی تو درآمد کنندہ اسے کسٹمز حکام کے سامنے 80 ڈالر کی ظاہر کرتاجس کی وجہ سے ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو نقصان پہنچتا۔ لیکن اگر یہ مال کلئیرنس کے بغیر رکا رہتا تو درآمد کنندہ کو بھاری ٹیکس دیکر چھڑوانا پڑتا جس کی وجہ سے اسے نقصان ہوتا۔
اسلحہ کی قانونی تجارت کا خاتمہ:
آرمز ڈیلرز کہتے ہیں کہ اگر حکومت اسلحہ کی قانونی تجارت میں مدد کرے تو ملک میں گن اونرشپ کو بآسانی ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی شخص کوئی اسلحہ خریدنے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے صوبائی یا وفاقی محکمہ داخلہ کے ہاں لائسنس کے لیے اپلائی کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں دو ہفتوں سے دو ماہ کا وقت لگتا ہے۔ حکومت نے اسلحہ کی قانونی ملکیت جاننے کیلئے ایک ڈیٹا بیس بنا رکھا ہے تمام نئے لائسنس بھی اس ڈیٹا بیس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک لائسنس پر ایک شخص ہتھیار خرید سکتا ہے، لیکن یہ عمل یہاں ختم نہیں ہوتا۔
سید یاسر حسن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’سیلز رسید پر کسٹمر کی ساری معلومات بشمول اسکا نام، فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر، ڈیلر کی ساری معلومات مثلاََ لائسنس نمبر اور سیلز ٹیکس نمبر وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔ ہتھیار کا سیریل نمبر بھی اس پر موجود ہوتا ہے۔ ڈیلر اس رسید کی ایک کاپی پولیس اسٹیشن کو جبکہ ایک محکمہ داخلہ کو بھیجتا ہے۔ بعد ازاں کسٹمر کو محکمہ داخلہ کے دفتر جا کر اپنے خریدے گئے ہتھیار کی تصدیق کرنا ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اگر پولیس یا کوئی اور محکمہ کسی قسم کی جانچ کرنا چاہیں تو ان کے پاس ان تمام ہتھیاروں کی فہرست موجود ہوتی ہے جو ہم نے درآمد کیے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے فروخت کردہ ہتھاروں کا مکمل ریکارڈ بھی ان کے پاس ہوتا ہے۔ وہ ہمارا سٹاک بھی دیکھ سکتے ہیں اور یوں ہر قسم کی تصدیق ہو سکتی ہے۔‘‘
تاہم مختلف قسم کے قوانین کے نفاذ کے بعد اسلحہ کی قانونی تجارت مشکلات کا شکار ہے، لائسنس پر پابندی ہے، یہ بھی رپورٹس آ رہی ہیں کہ سرکاری حکام رشوت لیکر گزشتہ تاریخوں میں جعلی لائسنس بنا کر جاری کر رہے ہیں، حال ہی میں لاہور ڈی سی او آفس میں اسد قسم کا ایک سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں سرکاری حکام جعلی لائسنس بنا کر دینے میں ملوث پائے گئے، دیگر ضلعی دفاتر میں ایسا ہی چل رہا ہے۔
بخش الٰہی اینڈ کو کے مالک نے بتایا کہ ’’جب کسی کام کو قانونی طور پر روک دیا جائیگا تو لوگ غیر قانونی طور پر کریں گے، اب قانونی طور پر اسلحہ لائسنس پر پابندی ہے تو لوگ ڈی سی آفس سے غیر قانونی لائسنس حاصل کر رہے ہیں۔ بے شمار سکینڈلز ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ قانونی طور پر لائسنس کا اجراء شروع کرے، کوئی بھی یہاں غیر قانونی ہتھیار نہیں رکھنا چاہتا لیکن پابندی کی وجہ سے لوگوں کے پاس غیر قانونی طور پر ہتھیار حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لیے جو اسلحہ ڈیلرز ٹیکس ادا کرتے ہیں، اور قانونی طور پر کام کرنا چاہتے ہیں وہ اب مشکل میں ہیں اور غیر قانونی کام کرنے والے دھڑا دھڑ کمائی کر رہے ہیں۔‘‘
تاہم یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک میں معاشی سست روی کا دور دورہ ہے، لاہور میں ہتھیاروں کے ایک درآمد کنندہ محمد صلاح الدین کہتے ہیں کہ ’’گزشتہ پانچ سالوں کے دوران خاص طور پر ڈالر کے مقابل روپے کی قدر گرنے کے بعد ہتھیاروں کی ڈیماند کم ہو چکی ہے۔‘‘
گن خریدنے کا عمل کافی بوجھل اور پیچیدہ ہے، سید یاسر کہتے ہیں کہ اگر کسی نے گن خریدنی ہو تو لائسنس کے ساتھ اسے محکمہ داخلہ سے ایک اجازت نامہ بھی لینا ہو گا۔ لیکن پالیسی مزید بہتر ہو سکتی ہے، محکمہ داخلہ کو چاہیے کہ پاسپورٹ کی طرح کے بک لیٹس جاری کردے کیونکہ جب بھی کسی نے نیا ہتھیار خریدنا ہو یا پہلے سے موجود ہتھیار تبدیل کرنا ہو تو اسے دوبارہ لائسنس بنوانا پڑتا ہے جس میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ محکمہ داخلہ کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
’’منافع کے علم میں آیا ہے کہ محکمہ داخلہ پنجاب ٹیکس فائلرز کیلئے لائسنس کی پابندی ہٹانے پر غور کر رہا ہے تاہم ہمارے رابطہ کرنے محکمہ داخلہ کے حکام نے اس پر کسی قسم کے تبصرے سے انکار کردیا۔