مہنگی موٹرسائیکلیں، پھر بھی اطلس ہونڈا سب سے آگے کیوں ہے؟

موٹرسائیکل ساز 50 کمپنیوں کی مارکیٹ میں 62 فیصد بائیکس اطلس ہونڈا بناتی ہے اور اسکی سالانہ فروخت 10 لاکھ یونٹ سے زیادہ ہے

1121

اطلاس ہونڈا کے زیادہ تر کسٹمرز لوئر مڈل ورکنگ کلاس سے آتے ہیں لیکن اس کی پراڈکٹ مہنگی ہے اور اگر کوئی خریدنا چاہے تو شاید اسے اپنے دو مہینوں کی تنخواہ خرچ کرنا پڑے، ابھی تک کمپنی مارکیٹ میں سب سے آگے ہے اور مارکیٹ میں دیگر تمام کمپنیوں بشمول سستی چینی کمپنیوں سے بھی زیادہ ہونڈا اطلس کی پراڈکٹس کی طلب ہے۔ پاکستان میں موٹرسائیکلز کی مارکیٹ پر یہ غلبہ ہونڈا اطلس نے کیسے پایا؟

پاکستان آٹو موٹیو مینو فیکچررز ایسوسی ایسشن کے مطابق 30 جون 2019 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران اطلس ہونڈا (پاکستانی اطلس گروپ اور جاپان کی ہونڈا موٹرز کمپنی کا اشتراک) نے 1.11 ملین موٹر سائیکلز ملک بھر میں فروخت کیے، یہ ملک میں ایک سال کے دوران فروخت ہونے والی موٹرسائیکلوں کی آدھی تعداد ہے۔ یوں مقامی طور پر تیار کردہ موٹرسائیکلوں کی مارکیٹ کا 62 فیصد حصہ اسی کمپنی کے پاس ہے۔

اس کمپنی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی موٹرسائیکل سی ڈی 70 ہے، یہ 70 کیوبک سینٹی میٹر (سی سی) انجن کی حامل موٹرسائیکل پاکستان میں بے حد مقبول ہے اور اسکی قیمت 74 ہزار روپے ہے جبکہ اس کامقابلہ چینی ساختہ موٹرسائیکلوں سے ہے جن کی قیمتیں 50 ہزار اور اس سے بھی کم ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ چینی موٹرسائیکل خرید کر 32 فیصد بچت کر سکتے ہیں پھر بھی پاکستانی صارفین ہونڈا ہی خریدنا پسند کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں کمپنی کی اشتہاری ٹیگ لائن ’’میں تے ہونڈا ای لیساں‘‘ کسی بھی کمپنی کے اشتہار سے زیادہ اچھی ہے اور یہ سچ بھی ہے ۔ تو یہ سب کیسے ہوا؟ اہم بات یہ کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی مینوفیکچررز سستی چینی موٹرسائیکلوں کا مقابلہ کرر ہے ہیں تو اطلس ہونڈا کیا چیز بہتر کر رہا ہے؟

        مختصراََ اس کا جواب بہترین کوالٹی اور برانڈ سے متعلق آگاہی ہے۔

ہونڈا کی موٹرسائیکلیں چینی کمپنیوں کی تیار کردہ موٹرسائیکلوں سے زیادہ لمبا عرصہ چلتی ہیں، زیادہ تر خریداروں نے بتایا کہ ہونڈا کی کوئی بھی موٹرسائیکل سات سے دس سال بہترین حالت میں لازمی چل جاتی ہے، جبکہ چیینی ساختہ موٹرسائیکل بمشکل تین سال نکالتی ہے۔

        پاک وہیلز کے اعدادوشمار کے مطابق اگر چینی موٹرسائیکل 50ہزار کی خرید کر تین سال بعد بیچی جائے تو وہ بمشکل 15 سے 20 ہزار روپے میں بکے گی، یعنی تین گنا کم قیمت پر۔ اس کے مقابلے میں 74 ہزار کی ہونڈا موٹرسائیکل تین سال چلانے کے بعد بھی اوسطاََ 50 ہزار تک فروخت ہو جائے گی۔

ایندھن خرچ کرنے کے حساب سے موازنہ کیا جائے تو 70 سی سی ہونڈا موٹرسائیکلز عام طور پر ایک لٹر میں 50 سے 70 کلومیٹر تک چل جاتی ہیں، جبکہ 125 سی سی ہونڈا کی اوسط 40 سے 45 کلومیٹر فی لٹر ہوتی ہے، انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں 95 فیصد موٹرسائیکلیں 70 سی سی اور 125 سی سی فروخت ہوتی ہیں۔ جس میں سے 70 فیصد فروخت 70 سی سی کی ہے جبکہ 25 فیصد 125 سی سی کی ہے۔

پاکستان میں کم و بیش 50 کمپنیاں مختلف ناموں سے چینی ساختہ موٹرسائیکلیں فروخت کر رہی ہیں، ان میں یونائٹڈ، یونیک، سپر سٹار، ایگل، سپر پاور، ہائی سپید اور روڈ پرنس شامل ہیں لیکن یہ سب ملکر بھی اطلس ہونڈا کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔

ہونڈا کی پروڈکٹ لائن کافی وسیع ہے اور یہ لاتعداد موٹرسائیکلیں تیار کرتی ہے، 70 سی سی کی کیٹیگری میں سی ڈی 70، سی ڈی 70 ڈریم، مڈ رینج میں 100 سی سی پرائڈر، سی جی 125، سی جی 152 سیلف، سی بی 125 ایف اور سی بی 150 ایف شامل ہیں۔ سب سے بڑی موٹرسائیکل سی بی 250 ایف ہے۔ ہونڈا کی قیمتیں 73 ہزار 900 سے لیکر 6 لاکھ 40 ہزار تک ہیں۔

ایسویس ایشن آف پاکستان موٹرسائیکلز اسمبلرز کے چیئرمین صابر شیخ نے بتایا کہ ’’اطلس ہونڈا ناصرف موٹرسائیکلز اسمبل کرتی ہے بلکہ کمپنی بہترین قسم کے نٹ بولٹ بھی تیار کرتی ہے، اور اسکے ساتھ بہترین قسم کا پینٹ بھی مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے ہونڈا کے سپئیر پارٹس چینی موٹرسائیکلوں سے پانچ گنا مہنگے ہیں۔‘‘

 یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ کم آمدن والے کسٹمرز برانڈ کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں بہ نسبت دولتمند کسٹمرز کے۔ مارکیٹنگ ماہرین نے دیکھا ہے کہ کم آمدن والے کسٹمرز کوئی چیز خریدنے پر اسے بدلنے کیلئے کم ہی مالی سکت رکھتے ہیں، اس لیے وہ پہلی بار میں کسی نامعلوم برانڈ کی بجائے ہونڈا جیسے معروف اور اچھے برانڈ کی موٹرسائیکل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مارکیٹ میں سست روی کا ہونڈا کی سیل پر اثر:

اطلاس ہونڈا پاکستان مارکیٹ میں سے نمایاں برانڈ ہے اس کے باوجود یہ مارکیٹ میں سست روی اور دبائو کیخلاف مدافعت نہیں کر پایا، 2019 میں اس کی موٹرسائیکلوں کی فروخت میں گزشتہ سال کی نسبت 3.1 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، رواں سال پاکستان میں موٹڑسائیکل انڈسٹری کی فروخت کو اپنی پروڈکٹس کی فروخت میں 7.7 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے مقابلے میں اطلس ہونڈا کی حالت پوری انڈسٹری سے بہتر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں 31 مارچ 2019 کو ختم ہونے والے مالی سال کے آخر پر گزشتہ سال کی نسبت اطلس ہونڈا کی آمدن میں 6.2 فیصد اضافہ ہوا اور اس کی آمدن 77.5 ارب روپے سے 82.4 ارب روپے ہو گئی۔ البتہ کمپنی کے منافع میں فرق ضرور پڑا، مالی سال 2019 میں اس کی نیٹ انکم 4.7 ارب روپے سے کم ہو کر 3.2 ارب روپے رہ گئی یعنی اس میں 31.2 فیصد کمی ہوئی۔

منافع کی اس کمی کی وجہ سے کمپنی کے دیگر امور پر بھی اثر پڑا، ایک ذریعہ کے مطابق اطلس ہونڈا نے 150 ملازمین کو فارغ کردیا ہے جو اس کمپنی کی پاکستان میں افرادی قوت کا 9 فیصد ہیں۔ تاہم ’’منافع‘‘ کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر کمپنی نے ملازمین کو نکالے جانے کی اطلاعات کے حوالے سے کسی قسم کا بیان دینے سے انکار کردیا۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ حکومت معیشت کے عدم توازن سے نمٹ رہی ہے، کرنسی کی قدر تیزی سے گرنے سے مہنگائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، شرح سود میں اضافے کی وجہ سے کسٹمرز اور بینکوں کی جانب سے کریڈٹ پر آٹو موبائلز کی خریداری بھی بے حد متاثر ہوئی ہے، حتیٰ کہ اس ساری صورتحال کی وجہ سے کمپنیوں نے بھی قیمتیں بڑھا دی ہیں جس کی وجہ سے کسٹمرز مزید بددل ہو گیا ہے۔

اطلس ہونڈا کے سی ای او ثاقب ایچ شیرازی کہتے ہیں کہ ’’مشکل وقت ضرور چل رہا ہے اور ہم اپنی مرضی کی پالیسی نہیں چلا پا رہے لیکن ہم مینوفیکچرنگ پالیسی پر مشاورت کیلئے پرامید ہیں۔‘‘

ثاقب شیرازی کو یقین ہے اعلیٰ سطح پر پالیسی ساز ملکی معاشی مسائل کے حل کیلئے ضرور کوشاں ہیں اور وہ اطلس ہونڈا جیسے انڈسٹری کے  بڑے کھلاڑیوں سے مشاورت کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس بارے میں کافی متفکر ہیں اور ملک کے معاشی مسائل کے حل پر بات چیت کیلئے وہ ہر سوموار کو اپنی معاشی ٹیم کا اجلاس کرتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں ہمیشہ ابھرنے صلاحیت رہی ہے۔

تاہم ثاقب شیرازی نے حکومت پر اس حوالے سے تنقید کی کہ معیشت کے حوالے سے بڑے فیصلے ہمیشہ مختصر مدت کیلئے لیے جاتے ہیں، ہر دفعہ ہمیں معاشی کی بجائے مالی بحران کا سامنا ہوتا ہے، ملک کی معاشی پالیسی کو مالیاتی بحران کے تابع بنا دیا جاتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ آئندہ عشروں کیلئے قومی معاشی حکمت عملی مرتب کرے۔ انہوں نے کہا کہ اب درست بیانیہ اپنی جگہ بنا رہا ہے، اب ہر جنرل بھی یہ کہتا ہے کہ ملک کی معاشی خودمختاری بے حد اہم ہے۔

 اطلس کی ترقی کی کہانی:

بہرحال اطلس ہونڈا وقت کیساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک بڑی کمپنی بنا چکی ہے، گزشتہ دو عشروں سے اس کی موٹرسائیکلوں کی سالانہ فروخت میں 15.6 فیصد اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ گزشتہ عشرے سے اس کی آمدن میں 13.9 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوتا رہا ہے۔

اطلس ہونڈا پاکستان میں انڈس موٹرز کمپنی کے بعد دوسری بڑی آٹو موبائل  کمپنی ہے، پاکستانی آٹو موبائل مارکیٹ پر تین جاپانی کار ساز کمپنیوں کا غلبہ ہے، ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی۔ ان میں سے دو کمپنیاں ہونڈا اور سوزوکی موٹرسائیکل بھی بناتی ہیں۔

تاہم سوزوکی ہر قسم کی گاڑیاں تیار کرتی ہے جبکہ ہونڈا کے پاکستان میں اطلس گروپے کے ساتھ دو جوائنٹ وینچر ہیں، ہونڈا اطلس کارز سیڈان گاڑیاں بناتی ہے، جبکہ اطلس ہونڈا موٹرسائیکلیں تیار کرتی ہے۔

اطلس ہونڈا سالانہ 1.5 ملین موٹرسائیکلیں تیار کرتی ہے، 2018 میں کمپنی نے 10 لاکھ سے زائد موٹرسائیکلیں فروخت کیں۔ یہ ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جو بھارت میں بھی کام کر رہی ہے کیونکہ بھارت کے دیہی علاقوں میں اس کی 70 سی سی اور 125 سی سی کے کسٹمرز موجود ہیں۔

پاکستان میں ہونڈا کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اطلاس ہونڈا 1962 سے کام کر رہی ہے، جبکہ جاپان میں خود ہونڈا 1948 میں شروع ہوئی، جس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنی 15 سال سے بھی کم عمر میں پاکستان آ گئی، بھارت میں ہونڈا نے 1995 میں کام شروع کیا اور 1999 میں وہاں اپنی موٹرسائیکلیں متعارف کرائیں۔

ہونڈا موٹرز کمپنی اطلس ہونڈا میں 35 فیصد حصص کی مالک ہے اور آٹھ رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے تین ارکان جاپانی کمپنی کے ہوتے ہیں۔ باقی ارکان پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک شیرازی خاندان سے ہوتے ہیں۔ کمپنی پاکستان سٹاک ایکسچینج کا بھی حصہ ہے۔

کیا بڑھتی ہوئی مسابقت سے کمپنی کی سیلز پر اثرا پڑا ہے؟

پاکستانی مارکیٹ میں نئی آنے والے کمپنیوں کی وجہ سے کافی مسابقت پیدا ہو گئی ہے، ہونڈا سی ڈی 70 کی طرح چینی بائیکس بھی 70 سی سی کا کہہ کر بیچی جا رہی ہیں تاہم ان کے انجن سائز 78 سی سی ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ ہونڈا موٹرسائیکلوں سے زیادہ تیز رفتار ہیں اور سستی ہونے کی وجہ سے کم آمدن لوگوں میں زیادہ مقبول ہیں۔

ایک موٹر سائیکل مکینک نے بتایا کہ کراچی میں ہونڈا موٹرسائیکلوں کی فروخت میں اس لیے کمی آ رہی ہے کیونکہ چینی بائیکس زیادہ بہتر ایکسلریشن رکھتی ہیں اور انکا انجن سائز بھی بڑا ہوتا ہے۔ ’’میرے خیال میں آج کل کے نوجوان صرف پک اپ چاہتے ہیں، چینی بائیکس سستی بھی ہیں، تیز رفتاری اور کم قیمت کی وجہ سے ان کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here