شیخ عمران الحق کی گرفتاری کیسے کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ افراد کو خوفزدہ کرنے کا سبب بن رہی ہے؟

اینگرو کے سابق CEO کو پکڑ کر حکومت نے خود کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں فریق ثانی کیلئے ناقابل اعتبار ثابت کیا ہے اور سرکاری اداروں میں کام کرنے کے خواہاں باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے

743

شیخ عمران الحق گزشتہ ایک ماہ سے جیل میں ہیں اور حکومت میں بیٹھا کوئی وزیر مشیر انکا جرم بتانے کو تیار نہیں، ان پر الزامات لگانے والے اور روزانہ انکا نام ٹی وی پر اچھالنے والے بھی کوئی جواب نہیں دے پا رہے۔

            یقیناََ وہ بڑے بڑے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہیں گے کہ شیخ عمران نے حکومت کو فلاں فلاں ادائیگی نہیں کی، لیکن ان کے خلاف کسی قسم کا غلط کام کرنے کے الزامات نہیں ہیں، پھر بھی گرفتاری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، انرجی سیکٹر سے متعلق قوانین ایسے ہیں جن سے زیادہ تر لوگوں کو واقفیت نہیں۔

            نیب کی جانب سے شیخ عمران الحق کیخلاف دائر کردہ ریفرنس کی ایک کاپی ’’منافع‘‘ نے دیکھی تو اس میں کچھ نہیں ملا کہ شیخ عمران نے کس خاص قانون کی خلاف کی خلاف ورزی کی۔ ان کے خلاف محض الزامات لگائے گئے ہیں، جن کے ثبوت بھی بہت کم ہیں۔ ایک الزام یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء اور پبلک پروکیومنٹ رولز 2004ء کی خلاف ورزی کی، لیکن شیخ عمران الحق نے کس قانون کی خلاف ورزی کی؟ اس معاملے پر مکمل خاموشی ہے۔

            ’’منافع‘‘ نے اس سارے معاملے کی چھان بین کرکے ایک تصویر وضع کرنے کی کوشش کی ہے، ہمارے تجزیے کے مطابق 2015ء میں ایل این جی ٹرمینلز کے ٹھیکے دیتے وقت شائد سرکاری افسران سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں تاہم حکومت ابھی تک کسی قسم کی بدعنوانی کے ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ اصل میں حکومت یہ الزام نہیں لگا رہی کہ کنٹریکٹ دیتے وقت فریقین میں کسی قسم کا لین دین ہوا، کیونکہ عموماََ کرپشن کرنے یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا یہی طریقہ کار ہے۔

            باالفاظ دیگر حکومت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ شیخ عمران الحق نے کیا غلط کام کیا ہے؟ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ مذکورہ کنٹریکٹ انہیں کسی قسم کا فائدے پہنچانے کیلئےملا، یہ بھی ثابت کرنا پڑیگا کہ کنٹریکٹ حاصل کرنے کے بدلے شیخ عمران نے سرکاری افسران کو کیا دیا؟

            اس کیس میں حکومت کیلئے بھی اچھا شگون نہیں کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے محض یہ کہتی رہے کہ Engro elengy کو کنٹریکٹ کسی قسم کا فائدہ پہنچانے کیلئے دیا گیا،  حتیٰ کہ شاہد خاقان عباسی پر بھی یہ الزام نہیں ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں کوئی فائدہ اٹھایا ہوگا۔ بلکہ الزامات اس کے برعکس ہیں۔ وہ یہ کہ جس کمپنی کیلئے عمران الحق نے کام کیا تھا اسے فائدہ پہنچایا گیا اور عباسی  نے انہیں مزید نوازتے ہوئے پاکستان سٹیٹ آئل کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔

اس سارے معاملے کو سمجھنے کیلئے اس کو آغاز سے سمجھنا ضروری ہے۔

ایل این جی معاہدہ:

            یہ کہانی پاکستان میں ایل این جی گیس کے ٹرمینل کی تلاش سے شروع ہوتی ہے۔ 2006ء میں حکومت نے فیصلہ کیا وہ ملک میں کھاد کی تیاری کیلئے کمپنیوں کو سہولتیں فراہم کریگی، جس کیلئے کمپنیوں کو 100 ملین کیوبک فٹ روزانہ  کے حساب سے گیس فراہم کی جانی تھی، کیونکہ یوریا کی تیاری میں گیس بنیادی جز ہے۔ اُس پرمٹ کے حصول کیلئے ہونے والی بولی میں دو کمپنیوں اینگرو اور فاطمہ گروپ نے حصہ لیا۔ اینگرو نے کھاد کی پیداوار کیلئے اپنا پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کسی نجی کمپنی کی جانب سے پاکستان میں یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی، اینگرو نے دنیا کا سب سے بڑا یوریا کا پیداواری یونٹ لگانے کیلئے 1.1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ یہ پلانٹ 2010ء میں آزمائشی بنیادوں پر چلنے کیلئے تیار تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہی وہ وقت تھا جب ملک میں گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی جو کہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

       اس صورتحال نے حکومت کو اینگرو کیساتھ 100 ملین مکعب فٹ گیس فراہمی کے معاہدے کی تجدید کرنے پر مجبور کیا، اینگرو پہلے ہی فرٹیلائزر پلانٹ تیار کرنے کی تیاری کرچکی تھی جس کیلئے زیادہ تر رقم قرضوں پر اٹھائی گئی، اس دھچکے کی وجہ سے اینگرو کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی دوران اینگرو نے ایل این جی امپورٹ ٹرمینل لگانے پر غور کرنا شروع کردیا۔ اس خیال کے پیچھے کارفرما منطق بالکل سادہ سی تھی کہ اگر حکومت معاہدے کے مطابق گیس فراہم کرنے سے قاصر ہے تو کیوں نہ گیس باہر سے درآمد کی جائے۔ اس کیلئے اینگرو کو حکومتی اجازت کے علاوہ کراچی پورٹ یا پورٹ قاسم سے ڈھرکی (سندھ) میں اینگرو فرٹیلائزر پلانٹ تک گیس کی ترسیل کیلئے گیس کمپنیوں (سوئی سدرن، سوئی نادرن اور انٹرسٹیٹ گیس) کی پائپ لائنوں کو استعمال کرنے کی اجازت درکار تھی۔

      زرداری دور حکومت میں کمپنی نے اجازت لینے کی کوشش کی تاکہ وہ خود ہی اپنے وسائل سے پلانٹ تعمیر کرسکے، اس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے 2013 میں اینگرو کے مسائل حل کرنے کا اشارہ دیا تو کچھ امید پیدا ہوئی۔ نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل بنایا، عباسی انرجی اور پیٹروکیمکلز کے کاروبار سے زیادہ واقف نہ تھے، تاہم ایک انجنئیر ہوتے ہوئے انہیں ان تمام مسائل کا ادراک ضرور تھا جو اینگرو کے انڈسٹریل اور میکینیکل انجنئیرز کو درپیش تھےاور اس سلسلے میں حکومت اپنے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر رہی تھی۔

       دو سال کی بحث و تمحیض کے بعد آخر کار حکومت نے ایل این جی ٹرمینل لگانے کیلئے بولیاں کھول دیں، اینگرو اولین کمپنیوں میں سے تھی جس نے بولی جیت لی، نیب کا الزام ہے کہ بولی کے عمل میں دھاندلی کی گئی اور اینگرو کو جتوایا گیا، تاہم نیب یہ واضح نہیں کر رہا کہ وہ کونسے غیر قانونی اقدامات تھے جن کی وجہ سے اینگرو نے ٹھیکہ حاصل کیا۔

حکومتی الزامات:

        ایل این جی پروجیکٹ سے متعلق تین بڑے الزامات ہیں جو نیب نے اینگرو اور شیخ عمران الحق پر لگائے ہیں۔ پہلا الزام کپیسٹی چارجز سے متعلق ہے کہ ہر دفعہ حکومت یہ ادا کرنے پر کیوں راضی ہو جاتی ہے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ اینگرو کو ٹھیکہ دیتے ہوئے حکومت نے اسے فائدہ پہنچایا۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ بطور ایم ڈی PSO یہ ’فائدہ‘ شیخ عمران الحق نے اٹھایا اور انہوں نے اسے تسلیم بھی کیا۔

        نیب وضاحت کیے بغیر یہ الزامات لگاتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور اس وقت کے دیگر متعلقہ حکام نے سرکاری قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹریکٹ اینگرو کو دیا لیکن اس میں یہ واضح نہیں کہ کس طرح اینگرو یا شیخ عمران نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ کیا انہوں نے کسی کو رشوت دی؟ کسی کو دھمکایا؟ یا ٹھیکا حاصل کرنے کیلئے کسی پر اپنا اثرورسوخ استعمال کیا؟ ان میں سے کوئی بھی نکتہ حکومت کی جانب سے واضح نہیں کیا گیا کہ کس طرح اینگرو یا شیخ عمران الحق نے قانون کی خلاف ورزی کی۔

        تاہم کپیسٹی چارجز کا مسئلہ خاص طور پر زیادہ خطرناک ہے، نیب دعوٰی کر رہا ہے کہ ٹھیکا غیر معمولی طور پر منافع بخش ہے، لیکن اس حوالے سے نیب کوئی ثبوت فراہم نہیں کر رہا، حالانکہ جس کپیسٹی چارجز سے نیب حکام کو مسئلہ ہے وہ ایک عام استعمال کیا جانے والا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے حکومتیں یا نجی کاروباری ادارے انرجی انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری لیکر آتے ہیں۔

        کپیسٹی چارجز کے پیچھے منطق یہ ہے کہ یہ اس صورت میں لگتے ہیں جب کسی چیز کا خریدار پوری مارکیٹ میں صرف ایک ہو اور اسے اپنے کاروبار کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کیلئے آپ کی پروڈکٹ کی ضرورت ہو۔

        پاکستان میں گیس کی ترسیل اور تقسیم سے وابستہ تینوں کمپنیاں حکومتی کنٹرول میں ہیں، اس لیے جب حکومت کمپنیوں کو انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبے لگانے کا حکم دیتی ہے تو حکومت کمپنیوں کو یقین دہانی کراتی ہے کہ وہ انکی پراڈکٹ خریدنا جاری رکھے گی۔

        اینگرو کا حکومت کیساتھ معاہدہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے کہ حکومت یا تو درآمدی گیس خرید لے یاپھر کچھ ادائیگی کرتی رہے تاکہ پلانٹ لگانے پر جو کمپنی کے اخراجات ہوئے ان کا کچھ ازالہ ہو سکے، بنیادی طور پر یہ معاہدہ بھی انہی معاہدوں کی طرح ہے جو حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کیساتھ کرتی ہیں، حکومت یا تو ان سے بجلی خریدتی ہے یا پھر انہیں منصوبے لگانے کی مد میں کیے گئے اخراجات ادا کرتی ہے۔

        تاہم نیب کی جانب سے انہی کپیسٹی چارجز کو سکینڈل بنا دیا گیا ہے، ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو اینگرو کو ایسے معاہدے کرنے سے روکتا ہو یا ان کے حکام کو مجرم بناتا ہو۔

        مختصر طور پر اس ساری صورتحال کو کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اینگرو نے اس وقت حکومت کی یقین دہانی پر عمل کیا جب حکومت نے کمپنی کو کہا وہ یوریا پروڈکشن میں ہونے والی 1.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر کمپنی کو گیس فراہم کریگی۔ ایک بار جب کمپنی پر واضح ہو گیا کہ حکومت گیس فراہمی کا اپنا وعدہ پورا نہیں کر رہی تو اس نے قدرتی گیس کی درآمد کیلئے اپنا انفراسٹرکچر بنانا شروع کردیا، جس کیلئے اسے کئی طرح کے اجازت ناموں کی ضرورت تھی لیکن وہ اجازت نامے ملنے میں ہی کئی سال لگ گئے۔

        لیکن معاہدے ہوجانے اور انفراسٹرکچر کیلئے سرمایہ کاری جمع کرلینے کے بعد اینگرو کے حکام کو مجرمانہ چارجز کا سامنا کرنا پڑا،  اور پہلی دفعہ نجی سیکٹر سے ایک اعلیٰ عہدیدار کو بغیر کسی غلط کاری کے الزامات کے گرفتار کیا گیا۔ حکومت نے ناصرف اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی بلکہ اینگرو کی اس ٹیم کے سربراہ کو جیل میں بند کر دیا جس نے بغیر حکومتی مدد کے سارے مسئلے کو حل کیا تھا۔

اینگرو پروجیکٹ:

        اینگرو کو ٹرمینل لائسنس جاری کرنے کیلئے جو بولی ہوئی وہ بالکل ویسے ہی تھی جیسے داسو ڈیم کا ٹھیکا دیتے وقت ہوئی تھی، اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ دونوں نے حتمی بولیاں لگائیں، لیکن پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ کی بولی یو ایس ایڈ کے مقرر کردہ ایک آزاد کنسلٹنٹ نے تکنیکی بنیادوں پر نامنظور کر دی۔

        ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ بھی آّئی پی پیز جیسا کنٹریکٹ تھا، اس کی قیمت کے لحاظ سے بھی یہ عالمی اور علاقائی منصوبوں کے مطابق تھا اور اسکا ٹیرف 0.44 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو(ملین برٹش تھرمل یونٹس) تھا۔ یو ایس ایڈ کے کنسلٹنٹ نے اس کا ٹیرف 0.57 ڈالر سے 0.78 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کیا، انڈونیشیا میں یہ ٹیرف 1.50 ڈالر سے 2.0 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ جاپان میں 0.66 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ بھارت میں 0.80 ڈالر سے 1.10 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔

        اس طرح پہلے سال کے دوران حکومت کی جانب سے اینگرو کو 2 لاکھ 72 ہزار ڈالرز فی دن کے حساب سے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کرنے تھے جبکہ دوسرے سال سے لیکر پندرہ سال تک روازانہ 2 الکھ 28 ہزار ڈالرز کے حساب سے ادائیگیاں کرنا تھیں لیکن ابھی اینگرو کو کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

        کمپنی کے منافع کے حوالے سے میڈیا میں بیان کیے گئے اعدادوشمار توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے ہیں۔ اس پروجیکٹ سے اینگرو کے منافع کا کل تخمینہ 1.5 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منافع کا ایک تہائی (0.45 ارب ڈالر) وہ حکومت کو دیتی ہے، یہ پورٹ قاسم اتھارٹی اور وفاقی حکومت کو مختلف ٹیکسوں اور شپنگ رائیلٹی کی مد میں ادا کی جاتی ہے۔

        فلوٹنگ سٹوریج اور ری گیسیفکیشن یونٹ کا ٹھیکہ 15 سال کیلئے 750 ملین ڈالر ہے، اسی طرح دیگر سہولیات کا ٹھیکا 130 ملین ڈالر ہے، تب سے ایک دوسرا ٹرمینل پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ کو انہی شرائط پر دیا گیا ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر دو لاکھ 24 ہزار ڈالر ادا کرتے ہیں۔

        ایل این جی ٹرمینل اپنی ڈیڈ لائن پر پانچ دن پہلے ریکارڈ 330 دن کی مدت میں مکمل ہوا، 2006 سے حکومت کی اس سلسلے میں پانچ کوششیں ناکام ہوئی تھیں، ایل این جی ٹرمینل کی وجہ سے خام تیل کی درآمد میں بھی کمی ہوئی اور حکومت کو سالانہ 1.2 ارب ڈالر کی بچت ہوئی، اس کے علاوہ ایل این جی پروکیورمنٹ کیلئے بہتر ڈیل کی وجہ سے 600 ملین ڈالر کی بچت ہوئی۔

شیخ عمران الحق اس تنازع کا حصہ کیسے بنے؟

            شیخ عمران الحق گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے جیل میں ہیں اور ذرائع کے مطابق ابھی تک ان کے خلاف کسی قسم کا ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔ نیب کی ٹیم نے صرف ایک بار اینگرو پورٹ کا دورہ کیا ہے جبکہ شاہد خاقان عباسی اور شیخ عمران الحق کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔

            گزشتہ سماعت مین تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ 14 دن میں تفتیش ختم کردے گا، لیکن سوال اٹھتا ہے کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے کچھ نہیں کرسکے تو 14 دن میں کیا کریں گے، نیب کو جواب تھا کہ وہ اینگرو کے بورڈ ممبرز کو انٹرویو کریگا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان میں سے کوئی کرپشن میں ملوث تو نہیں، جب دو ہفتوں بعد شیخ عمران نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کی تو تفتیشی نے عدالت سے مزید دو ہفتوں کو وقت لے لیا۔

شیخ سلمان الحق کے بیٹے سلمان الحق نے ’’منافع‘‘ کو بتایا کہ ’’ نیب نے کہا تھا کہ وہ دو ہفتوں میں تفتیش مکمل کر لیں گے اور ہمیں بھی ایسی ہی امید تھی، والد کو جیل میں رکھنے کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔‘‘

            انہوں نے مزید کہا کہ ’’ والد کیساتھ جیل میں انکا رویہ بہتر رہا، یہ بات میں ضرور کہوں گا، انہیں روزانہ جیل سے نکالا جاتا اور ہمیں بھی ہفتے کے مختلف اوقات میں والد سے ملنے کی اجازت ہے، انکا کھانا بھی گھر سے جاتا ہے، تاہم انہیں اب بھی ایک سیل میں رکھا گیا ہے جہاں ایک ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، اور یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ والد نے اپنی نوکری کو زمہ داری سے انجام دیا۔‘‘

جیسا کہ پہلے اس پر بات ہو چکی ہے کہ حکومت کیساتھ اچھی ڈیل کرنے کی وجہ سے شیخ عمران الحق کے خلاف سارے الزامات لگائے گئے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ عباسی یا شیخ عمران کسی قسم کی بارگین کرلیں، شیخ عمران کو بطور  سی ای او اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دینے کی سزا مل رہی ہے۔

            شیخ عمران کے قریبی ذرائع کے مطابق ان سے کیس سے متعلق کسی قسم کے سوالات نہیں کیے گئے، کچھ دن بعد کوئی تفتیشی افسر 20 یا 30 منٹ کیلئے آکر ادھر ادھر باتیں کر کے چلا جاتا ہے۔ لیکن تفتیش کاروں کے پاس بھی پوچھنے کو کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں کیونکہ بطور سی ای او شیخ عمران کے تمام اقدامات قانونی تھے، ان کی بطور ایم ڈی پی ایس او تعیناتی بھی مکمل طور پر قانونی تھی۔

حکومتی فیصلوں کے اثرات:

                        پلک پرائیویٹ اشتراک کے معاملات پر حکومت ہمیشہ مخالف پارٹی کے سامنے ناقابل اعتبار ثابت ہوئی ہے، ایسی صورت میں جب حکومت کسی سیکٹر میں آئندہ سرمایہ کاری کیلئے کہے گی تو کونسی کمپنی سرمایہ کاری پر تیار ہوگی؟ اور جس صورتحال سے شیخ عمران الحق گزر رہے ہیں ایسے میں کونسا سی ای او حکومت کیساتھ گفت و شنید پر آمادہ ہو گا؟

            عمران الحق میں وہ تمام صلاحتیں تھیں جو سرکاری کمپنیوں کو چلانے کیلئے کسی حکومت کا مطمئہ نظر ہوتی ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انرجی اور پیٹروکیمیکلز سے متعلق بڑی کمپنیوں سے تجربہ کار تھے جو ایک سرکاری ادارے کیلئے کام کرنا چاہتے تھے۔ کیا حکومت کی معاشی اصلاحات یہی ہیں؟

پروفیشنلز پر ان فیصلوں کے کیا اثرات ہونگے؟

            یہ جاننا ضروری ہے کہ شیخ عمران الحق کی گرفتاری اور نیب کے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے اثرات ان قابل پروفیشنلز پر کیا ہونگے جو سرکاری اداروں میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس سارے عمل پر وہ لوگ اعتماد کریں گے کہ حکومت ملکی مفادات کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے اور انہیں سیاسی انتقام کی بھنیٹ نہیں چڑھائے گی؟ ان سوالوں کے جوابات سرکاری اور نجی دونوں سیکٹرز کیلئے تکلیف دہ ہیں۔

مضمون نگار: فاروق ترمذی اور سیدہ معصومہ

(اس مضمون کیلئے اضافی رپورٹنگ عبداللہ نیازی نے کی ہے)

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here