مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال سے بھارتی معیشت پر بھی برے اثرات پڑے ہیں اور مودی سرکار کے پالیسی تھنک ٹینک کے مطابق بھارت کو جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اس کی مثال پچھلے ستر سال میں نہیں ملتی۔ کئی غیر ملکی سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ سے پیسہ نکالنے لگے ہیں۔
رواں سال مئی میں نریندر مودی دوسری مدت کیلئے بھارتی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے تو بھارتی سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، کیونکہ سرمایہ کاروں کو مودی حکومت سے معیشت میں بڑی اصلاحات کی توقع تھی۔
تاہم جولائی میں جب مودی حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا تو سرمایہ کاروں کی ساری خوشی کافور ہو گئی کیونکہ بجٹ میں کوئی ریلیف دینے کی بجائے ناصرف اندرونی بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں پر بھی نت نئے ٹیکس لگا دئیے گئے تھے۔
کچھ بزنس مینوں کا خیال ہے کہ مودی حکومت کو تیز رفتار معاشی اصلاحات کیلئے کرنے کی ضرورت ہے تاہم اکثر معاشی سست روی کو مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ بھارتی اقدامات کی وجہ سے جاری لاک ڈائون کے ملک کی معیشت پر اثرات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
Gogrej گروپ کے چئیرمین آدی گودریج کے مطابق ہو سکتا بھارتی نکتہ نظر سے کشمیر سے متعلق کیا گیا فیصلہ درست ہو لیکن کاروبار کے حوالے سے بھارتی حکومت کے فیصلے ٹھیک نہیں ہیں۔
بھارتی کاروباری طبقہ اس لیے بھی پریشان ہے کہ ہو سکتا ہے حالیہ معاشی سست روی مزید بڑھ جائے، ایک انٹرویو میں گوڈراج نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آٹو سیکٹر پر ٹیکس کم کرے اور معاشی حوالے سے مناسب اقدامات کرے۔
جنوری سے مارچ کے دوران بھارت کی جی ڈی پی گروتھ میں بھی کمی ہوئی اور یہ گزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح 5.8 فیصد پر آ گیا، اور بہت سارے تجزیہ نگاروں کے مطابق اپریل سے جون تک مزید کمی ہوئی ہوگی۔
گاڑیوں کی فروخت میں بھی گزشتہ دو عشروں کے بعد اس سال جولائی میں 31 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
کئی کمپنیوں نے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنا شروع کردیا ہے، صرف آٹو سیکٹر سے اپریل کے بعد ساڑھے تین لاکھ ورکرز کو نکالا گیا ہے، بسکٹس بنانے کی مشہور کمپنی پارلے نے بھی کہا ہے کہ وہ دس ہزار ملازمین کو اس لیے نکالنا چاہ رہی ہے کیونکہ اس کی مصنوعات کی ڈیمانڈ کم ہو چکی ہے۔
کئی بیرونی سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ سے پیسہ نکال چکے ہیں، صرف رواں ماہ کے دوران 1.8 ارب ڈالر بیرونی سرمایہ کاروں نے نکال لیے ہیں۔
گوڈراج کے علاوہ ایک درجن سے زائد کاروباری افراد، فنڈ مینجرز، بیرونی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایگزیکٹوز نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جنہوں نے کبھی مودی کے دوبارہ حکومت میں آنے کیلئے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب کاروباری طبقے کے تحفظات دور کرنے کیلئے بھارت کا وزیر اعظم آفس مکمل خاموش ہے۔
بھارت کی خراب اقتصادی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس کی قومی فضائی کمپنی ائیر انڈیا تقریباً 7 ماہ سے فیول کی مد میں اپنے واجبات ادا نہیں کر سکی اور واجب الادا رقم ساڑھے 4 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اس صورت حال میں ائیر انڈیا کو فیول فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اُسے 6 ائیر پورٹس پر جیٹ فیول کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت ائیر انڈیا پر 58 ہزار کروڑ روپے کا قرضہ ہے۔