کئی مسائل کے باوجود بھی پاکستان سے سرمایہ کاری نہیں نکال رہے: سی او سی KIA موٹرز

445

کراچی: KIA Lucky Motors (کے ایل ایم) کے سی ای او آصف رضوی نے کہا ہے گوکہ کہ پاکستان ان دنوں مشکلات سے دوچار ہے تاہم ایسے کئی اشارے موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری اوپر اٹھے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کیا سپورٹیج کی تعارفی تقریب کے دوران ’’منافع‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آصف رضوی شائد پاکستان کی آٹو اندسٹری کے بارے میں اس لیے پر اعتماد ہیں کیونکہ پاکستان میں فروخت کی جانے والی کاروں کی شرح 1.65 فی ہزار ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار میں سے کم وبیش ایک یا دو افراد سالانہ کار خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 12.8 فی ہزار یعنی ہر ہزار لوگوں میں سے 12 لوگ کاریں خریدتے ہیں۔ عالمی شرح کو دیکھا جائے تو پاکستان میں سالانہ 2.5 ملین کاریں فروخت ہونی چاہییں لیکن 2018ء میں صرف 3 لاکھ 20 ہزار کاریں فروخت ہو سکیں۔

تاہم فی کس آمدنی کےحساب سے دیکھا جائے تو سالانہ سیلز ساڑھے 4 لاکھ ہونی چاہیے جو کہ ابھی تک نہیں ہے، پاکستان میں فی کس کے آمدنی کے مطابق عالمی پیرامیٹرز کو اپنایا جائے تو ایک لاکھ 30 ہزار کاروں کی کمی نظر آتی ہے اور اس خلاء کو پر کیا جا سکتا ہے، اسی لیے آصف رضوی کو پاکستان کی آٹو اندسٹری میں کافی پوٹینشل نظر آتا ہے۔ آصف رضوی کے مطابق پاکستان کی 2025ء تک کاروں کی فروخت سالانہ پانچ لاکھ جبکہ مزید 10  سے 12 سال میں 10 سال تک پہنچ جائے گی۔

یہ افواہیں بھی سرگرم رہی ہیں کہ پاکستان میں آٹو اندسٹری کے شعبے میں نئے سرمایہ کار تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد کاروبار سمیٹنے کا فیصلہ کر چکے ہیں، کیونکہ زیادہ تر ماہرین کے مطابق حکومتی پالیسیاں اندسٹری کے موافق نہیں ہیں جس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ، سیلز اور منافع میں کمی ہوئی ہے۔

رضوی کے مطابق آٹو انڈسٹری پالیسی 2016-21ء کے بعد اس شعبے میں لوگوں کی آمد کی موجودہ پلئیرز کو جھنجھوڑ ڈالےگی اور سب سے اہم بات یہ کہ پاکستانی کنزیومرز کے پاس کاریں خریدنے کیلئے جہاں پہلے محدود چوائس ہوتی تھی اب زیادہ بہتر آپشنز ہونگے کیونکہ مقابلہ بازی بڑھے گی۔ اس سے پہلے پاکستانی کنزیومرز کے پاس ایک مخصوص قیمت اور انجن سائز کی کاریں خریدنے کیلئے زیادہ سے زیادہ دو برانڈز کے آپشن ہوتے تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگی۔

کیا لکی موٹرز 175 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے نیا پلانٹ لگا رہی جو سالانہ پچاس ہزار کاریں بنائے گا۔ تاہم رضوی کہتے ہیں کہ حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، حکومت ٹیکس کا دائرہ بڑھا کر لیکن ٹیکس کم کرکے اس اندسٹری سے بہت زیادہ آمدن حاصل کر سکتی ہے۔

ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کی وجہ سے رواں سال کاروں کی فروخت 2 لاکھ 70 ہزار تک رہی جبکہ گزشتہ سال یہ 3 لاکھ 20 ہزار تھی، رضوی کہتے ہیں کہ لیویز میں اضافہ آٹو اندسٹری سے جعع ہونے والی آمدن کے الٹ ہونا چاہیے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here