لاہور کے علاقہ ٹائون شپ کی بوسیدہ گلیوں میں ایک ٹوٹی سڑک کے آخری کنارے پر ایک پانچ منزلہ عمارت ہے جس کا سامنے کا حصہ نیچے سے اوپر تک چمکدار شیشے سے ڈھکا ہے، اس عمارت کی کسی بھی منزل پر کھڑے ہو کر لاہور کی چہل پہل دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ دیو ہیکل عمارت پہلی نظر میں اپنے بڑے سائز کی وجہ سے بے ڈھنگی لگتی ہے تاہم جس پسماندہ علاقے میں یہ موجود ہے وہاں بڑی شاندار لگتی ہے۔
یہ پانچ منزلہ عمارت دراصل سٹی میڈیا گروپ کا صدر دفتر ہے جہاں صحافت اور کاروبار ایک ساتھ چلتے ہیں، یہ گروپ پانچ ٹی وی چینلز اور ایک ٹیبلائیڈ سائز اخبار نکال رہا ہے، اس گروپ کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ یہ وہ کچھ کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے جو کسی دوسرے نے کرنے کا سوچا تک نہیں ہوتا۔
اس ساری جدت کے پیچھے صرف اور صرف ایک شخص کا ہاتھ ہے اور وہ ہیں اس  کے مالک محسن نقوی۔ شیشے کی دیواروں سے مزین اپنے دفتر کے باہر کھڑے محسن نقوی البتہ دیکھنے میں کوئی میڈیا ٹائیکون نہیں لگتے۔ کمر پر ہاتھ باندھے، گردن کسی حد تک مخاطب کی جانب جھکائے، نرم سرگوشیوں میں سر ہلاتے ہوئے وہ کسی بھی مشتعل سیلیبریٹی یا رمضان ٹرانسمشن میں شامل شخص کی بات بڑے تحمل سے سنتے ہیں۔ ان کا یہ انداز تخاطب یا آداب کسی بھی طرح شاطرانہ نہیں لگتے بلکہ وہ بالکل ایک عاجز اور حلیم شخص نظر آتے ہیں۔

محسن نقوی زیادہ لوگوں سے نہیں ملتے، وہ پردے کے پیچھے رہ کر کام کرتے ہیں، لیکن جب وہ کسی سے ملیں تو بڑے حاضر دماغ  ثابت ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ گفتگو کرنا آسان ہوتا ہے، وہ انٹرویوز اور شہرت سے گھبراتے ہیں، ان کے سفید بال اور شرارتی مسکراہٹ اس بوڑھے اور عمر رسیدہ انکل کی مانند لگتی ہے جو آپکے ہمسائے میں رہتا ہو۔

پہلی بار ملنے پر ان کی جو دوستانہ اور خوشگوار شخصیت سامنے آتی ہے، ان کے بارے میں جاننے کیلئے اس کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے، بمشکل 40 سالہ محسن نقوی نیوز چینلز کے بزنس میں 10 سال گزار چکے ہیں، آج وہ لاہور میں ناقابل تردید رسائی رکھتے ہیں، ان کا پہلا پروجیکٹ سٹی فورٹی ٹو لاہور میں  سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل ہے۔ ملکی سیاسی اشرافیہ کیساتھ ان کے تعلقات بھی اچھے خاصے مضبوط ہیں، ان کی شادی گجرات کے چوہدری خاندان میں ہوئی لیکن اس کے باوجود انہوں نے چوہدریوں کے سیاسی حریف نواز شریف کیساتھ تعلقات میں کمی نہیں آئی۔ ان کے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  اگر آپکو سابق صدر آصف علی زرداری سے متعلق کچھ جاننا ہے تو محسن نقوی کو مل لیں۔
لاہور کیلئے سٹی فورٹی ٹو کے بعد انہوں نے فیصل آباد کیلئے سٹی فورٹی وَن، سرائیکی بیلٹ کیلئے روہی ٹی وی اور اوورسیز پاکستانیوں کیلئے یوکے فورٹی فور کے نام سے چینل قائم کیا، اسکے علاوہ قومی سطح کا چینل ٹونٹی فور نیوز کے نام سے شروع کیا جو آج کل ملک کے دیگر میڈیا ہاوسز کی طرح بحران کی زد میں ہے، اس کے علاوہ ان کا گروپ اردو زبان میں ایک اخبار بھی نکال رہا ہے۔
سٹی گروپ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں پائینیر کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن محسن نقوی کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ  تصورات کو حقیقت کا رنگ دینا جانتے ہیں۔
لیکن محسن نقوی کہاں سے آئے اور کیسے گزشتہ ایک عشرے میں وہ میڈیا ٹائیکون بن گئے؟ سب سے اہم بات یہ کہ وہ جس طرح صحافت اور کاروبار کو ساتھ ساتھ چلا رہے ہیں کیا اس سے نیوز میڈیا انڈسٹری کے موجودہ بحرانی دور میں اپنی بقا قائم رکھنے میں انہیں کچھ مدد مل سکتی ہے؟
گو کہ وہ اپنے سارے کیرئیر کے دوران جدت پسند رہے ہیں اور ہمیشہ مشکل راستوں کا انتخاب کرتے آئے ہیں لیکن وہ میڈیا انڈسٹری میں تیزی سے بڑھتے بحران سے کیسے نبرد آزما ہونگے؟ سن دو ہزار نو میں انہوں نے سٹی فورٹی ٹو متعارف کرایا تو یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن کیا میڈیا کا بادشاہ گر ہوتے ہوئے وہ اپنے قومی سطح کے چینل ٹونٹی فور نیوز کو اپنی زندگی کا آخری کارنامہ بنا پائیں گے؟
محسن نقوی انٹرویو نہیں دیتے تاہم منافع نے ان سے اور ان کے کچھ قریبی لوگوں سے ایک غیر رسمی ملاقات کی اور انکی ذاتی کہانی کیساتھ ملک میں میڈیا انڈسٹری کی صورتحال پر بات چیت کی۔

سٹی 42 کا قیام:
سن دو ہزار نو میں سٹی فورٹی ٹو کے نام سے لاہور کے کیبل نیٹ ورک پر ایک چینل آنا شروع ہوا جس کا نام کوئی اتنا زیادہ پرکشش نہ تھا بلکہ لاہور کا لینڈ لائن ٹیلی فون ڈائلنگ کوڈ ہی استعمال کیا گیا تھا لیکن اس کے پیچھے یہ تصور موجود تھا کہ یہ چینل خاص طور پر لاہور کی خبریں نشر کریگا،اسی خوبی نے اس چینل کو لاہور کا سب سے بڑا اور معتبر چینل بنا دیا۔
یہ چینل کسی بھی دوسرے نیوز چینل کی طرح ہر گھنٹے بعد خبری بلیٹن نشر کرتا ہے، مارننگ شوز اور دیگر پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں۔ ملک کے کسی دور دراز حصے میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہو تو وہ اسے اپنے بلیٹنز میں جگہ ضرور دیتے ہیں لیکن جو چیز اس چینل کو نمایاں کرتی ہے وہ ہے اس کی رپورٹنگ ٹیم جو مکمل طور پر لاہور کو فوکس کیے ہوئے ہے۔ آج جبکہ گروپ کے پاس تین مزید چینلز اور ایک اخبار بھی ہے لیکن اس کے باجود سٹی فورٹی ٹو گروپ کا سب سے اہم اثاثہ ہے۔

نقل خوشامد کی سب سے بڑی قسم ہے، محسن نقوی کے آئیڈیا پر کام کرتے ہوئے پہلے دنیا گروپ اور پھر نیو نیوز نے اپنے اپنے لوکل چینلز قائم کیے، دنیا نیوز نے ’لاہور نیوز‘ بنا تو لیا لیکن وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ وہاں تک کبھی نہیں پہنچ سکتے جہاں سٹی فورٹی نیوز پہنچ چکا ہے حالانکہ ان کے پاس ایک بڑا قومی سطح کا نیوز چینل ہے۔

ٹرینڈ سیٹر بننا کبھی بھی آسان نہ تھا، سن دو ہزار نو میں میڈیا انڈسٹری پاکستان میں پھل پھول رہی تھی تو تب انہوں نے اس کارزار میں قدم رکھا، اگرچہ اتنی جدوجہد کے بعد بھی اس میڈیا انڈسٹری کیلئے اچھا وقت نہیں آیا، مشرف دور کے آخری سالوں میں اسے ناصرف بدترین قسم کی سینسرشپ کا سامنا رہا بلکہ خون بھی دینا پڑا، سن دو ہزار سات صحافیوں پر بھاری ثابت ہوا، اس وقت آمریت کا خاتمہ ہو رہا تھا اور وکلاء تحریک زور پکڑ چکی تھی۔
سن دو ہزار نو میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو جمہوریت کو ترستے ملک میں ایک لبرل اور جمہوری پارٹی کے اقتدار میں آنے کا مطلب یہ تھا کہ میڈیا مکمل آزاد ہو گیا، پی پی حکومت 1996 کے بعد دوبارہ برسراقتدار آئی تھی تو وہ میڈیا کیلئے زیادہ کشادہ دل واقع ہوئی، ان کے وزراء صحافیوں کے سوالوں کے جوابات خندہ پیشانی سے دیتے تھے اور خبریں بھی فراہم کرتےتھے۔
ایسے ماحول میں جبکہ ٹیلیویژن چینلز ہر جانب نمودار ہو رہے تھے، ناصرف یہ ایسا بزنس تھا جو آپکو طاقتور بناتا تھا بلکہ کافی منافع بخش بھی تھا۔ اس لیے جب محسن نقوی نے لاہورکے لیے چینل بنانے کا سوچا تو ہر کسی نے یہ کہہ کر حیرت کا اظہار کیا کہ صرف لاہور کی بجائے ایک قومی سطح کا باقاعدہ چینل کیوں نہیں؟ لیکن اس کیلئے جس قسم کے اخراجات چاہیے تھے اس کی نسبت ایک مقامی سطح کے چینل کا نقصان میں جانا بھی زیادہ قابل قبول تھا۔

لیکن محسن نقوی کے پاس اپنا ویژن تھا جسے وہ دنیا کے سامنے لانے پر تلے تھے، ابتداء میں ہی انہوں نے یہ یقینی بنایا کہ ان کے چینل میں ہر چیز ڈیجیٹل ہو گی، حالانکہ باقی انڈسٹری اس کی جانب حال ہی میں توجہ دے رہی ہے، حتیٰ کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور سرکاری چینل پی ٹی وی بھی اس قابل نہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے دوران تکنیکی خرابی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ تقریر ڈیجیٹل کیمرے پر ریکارڈ کی گئی تھی لیکن پی ٹی وی کا پرانا سسٹم اسے نشر نہ کرسکا۔ محسن نقوی کے ذہن میں یہ چیز بھی واضح موجود تھی کہ وہ چینل کو کس طرز پرچلائیں گے اور اس کی حدودو قیود کیا ہونگی۔

سٹی فورٹی ٹو جیسے چینل کیلئے ناظرین کے ساتھ جڑنا ایک خاص طرح کی رپورٹنگ کا تقاضا کرتا تھا، محسن نقوی کیساتھ کام کرنے والے ایک سینئر صحافی بتاتے ہیں کہ محسن خود کسی اور سے زیادہ اس انڈسٹری کو سمجھتے ہیں۔ ناظرین کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے سٹی فورٹی ٹو نے ایسے خوش نما سپرہیرو ’رپورٹرز‘ کا انتخاب کیا جو چھوٹے موٹے جرائم کی خبروں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ماہر تھے۔ یہ روایت گو کہ شروع میں کافی عام رہی اب بھی کسی حد تک موجود ہے، ایک مائیکروفون سے لیس رپورٹر کیمرہ مین کے ہمراہ کسی بھی دکان، کلینک، ہوٹل یا کسی بھی سرکاری ادارے میں گھس سکتا ہے اور تہلکہ خیز ’انکشافات‘ کر سکتا ہے، اے آر وائے نیوز کے اقرارالحسن بھی یہی کچھ کرتے ہیں، اور کئی دیگر چینلز کے رپورٹرز بھی مین اسٹریم پر آنے کیلئے ایسے سٹنٹ کرتے رہتے ہیں۔

اس کام کیلئے بس تھوڑی بد لحاظی اور بدتمیزی اور چیخ و پکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے یہ بات قابل مواخذہ ہے لیکن سٹی42 کے نقطہ نظر کے مطابق لوگ یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ سٹی42 نے ناصرف یہ طریقہ رپورٹنگ کیلئے اختیار کیا بلکہ اسے اپنا سٹائل ہی بنا لیا، لاہور میں کچھ غلط کرتے ہوئے حکام کو بار بار سوچنا پڑتا ہے کہ کسی بھی لمحے چینل کی وین آئے گی اور مائک ان کے منہ سے لگا دیا جائیگا۔

تاہم سٹی42 کی رپورٹنگ صرف دودھ کی دکانوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شہر میں وقوع پذیر ہونےوالے ہر چھوٹے بڑے واقعے پر اسکی نظر رہتی ہے، لاہور میں کسی معمولی سماجی یا سیاسی شخصیت کی شادی ہو، کوئی گلی خراب ہویا سڑک ٹوٹی ہو، کوئی ادبی میلہ یا پھولوں کی نمائش ہو اس چینل کی وین وقت سے پہلے وہاں پہنچ جائےگی، کسی مریض کی موت ہوجانے ہر اس کے لواحقین ہسپتال کے باہر احتجاج کر رہے ہیں تو اس کی بھی کوریج ہوگی۔ غرضیکہ لاہور میں چھوٹا یا بڑا کیسا بھی واقعہ رونما ہو سٹی فورٹی اسے ضرور نشر کرے گا۔

لیکن محسن نقوی یہ سب کیسے کر رہے ہیں؟ یقیناََ وہ میڈیا کی کافی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ بوجھ کہاں سے آئی؟ سٹی42 بنانے سے پہلے وہ کوئی مہشور صحافی نہیں تھے، ٹی وی چینل چلانے کیلئے کافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، سٹی42  کیلئے رقم کہا سے آئی؟ اور کیسے یہ لوکل چینل سے ایک بڑے میڈیا گروپ میں تبدیل ہو گیا؟

محسن نقوی کی کہانی:
لاہور میں پیدا ہونے والے محسن نقوی کی پرورش ان کے ماموں نے کی، ان کے والدین جوانی میں ہی چل بسے تھے، آج ان کے ماموں بھی سٹی گروپ میں بطور چیئرمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لاہور کے کریسنٹ ماڈل سکول سے تعلیم حاصل کرنے والے محسن خاصے ذہین اور تیز طرار تھے اور ان میں قائدانہ صلاحتیں بچپن میں ہی نظر آ رہی تھیں، بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم رہے اور راوین بنے، نوجوان طالبعلم کے طور پر ایک سادہ مسکراہٹ اور ہاتھ ملانے کا مخلتف سٹائل ان کی پہچان بنا اور محسن نے اپنا حلقہ احباب کافی وسیع کر لیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ہی انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سے روابط قائم کیے، بعد ازاں مزید تعلیم کیلئے وہ امریکا منتقل ہو گئے۔
میامی میں قیام کے دوران محسن نے سی این این میں انٹرن شپ شروع کردی جہاں انہیں صحافت کا پہلا تجربہ حاصل ہوا، امریکی میڈیا انڈسٹری میں سینکڑوں مقامی نیٹ ورک کام کر رہے ہیں، شائد یہی سے محسن نقوی نے پاکستان میں ایک لوکل میڈیا نیٹ ورک قائم کرنے کا آئیڈیا لیا لیکن سی این این نے انہیں پاکستان بھیجنا چاہا تو انہوں نے بخوشی یہ آفر قبول کر لی، پاکستان آکر انہوں نے میڈیا انڈسٹری میں نام پیدا کرنے کیلئے اپنے تجربے کے ساتھ سی این این کی شناخت کو بھی استعمال کیا اور نیوز میڈیا کے بزنس میں جلد اپنا مقام پیدا کر لیا۔

سی این این میں انہوں نے بطور پروڈیوسر کام شروع کیا، پاکستان میں انہوں نے سی این این کیلئے متعدد کام سرانجام دئیے، یہاں انکی  ذمہ داری ’’فکسر‘‘ کی تھی، یعنی سی این این کا کوئی صحافی بیرون ملک سے پاکستان آکر کسی اعلیٰ شخصیت کا انٹرویو کرنے کا خواہاں ہوتا تو متعلقہ شخصیت سے انٹرویو کا وقت لینے سے لیکر دیگر تمام انتظامات محسن نقوی کی ذمہ داری تھے۔
اس ملازمت کے دوران انہوں نے سیاستدانوں، صحافیوں اور ملک کی اشرافیہ کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے، انہوں نے کبھی بھی کیمرہ کے سامنے کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پس منظر میں رہ کر کام کیا بالکل ایسے جیسے اب وہ اپنے ادارے میں کرتے ہیں،ان کے بااخلاق رویے اور دلکش مسکراہٹ نے انہیں لوگوں کے ساتھ تعلقات بنانے میں کافی مدد کی۔ اس مدت کے دوران انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کی قربت حاصل کی، تاہم گجرات کے چوہدری خاندان میں شادی کرنا ان کی تعلقات بنانے کی صلاحیتوں کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ سٹی 42 کے عروج کے حوالے سے جن مشکوک باتوں کا ذکر کیا جاتا ان میں سے سب سے اہم شائد یہی ہے، اس کاروبار کیلئے ضرور ان کے سسرال نے سرمایہ کاری کی ہوگی، اس کے علاوہ وہ کیسے اتنی بڑی ذمہ داری کا خطرہ مول لے سکتے تھے۔

تاہم ان کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ سٹی42 محسن نقوی کا ذاتی  کارنامہ ہے، کیونکہ ان کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے ہے اور انہوں نے وراثت میں بھی کافی سرمایہ حاصل کیا، اس کے علاوہ سی این این کے نوکری سے کمائے ڈالرز بھی کام آئے اور محسن نقوی نے 30 سال کی عمر میں نیا چینل متعارف کروا دیا، انہیں اگر پوچھیں کہ انہوں نے سٹی فورٹی ٹو کتنی سرمایہ کاری سے شروع کیا تو وہ قہقہہ لگا کر کہتے ہیں کہ لوگ اسے مذاق سمجھیں گے اور ان کا سر توڑ دیں گے اور انہیں جھوٹا قرار دیں گے اگر وہ یہ بتا دیں کہ انہوں نے کتنے پیسے سے یہ چینل شروع کیا۔
لیکن کفایت شعاری ان کے تمام انٹرپرینیورل وینچرز کا بنیادی جز ہے، مثال کے طور پر انہوں نے صرف3 لاکھ روپے میں اردو اخبار شروع کیا وہ بھی 3 لاکھ اس لیے خرچ ہوئے کیونکہ انہیں پرنٹرز اور فرنیچر خریدنا پڑا۔ ان کا اخبار بھی ان کے باقی کام کی طرح ہے۔


جب اخبار پہلی بار شائع ہوا تو محسن کا اصرار تھا کہ اسے مفت تقسیم کیا جائے، تاہم ان کی ٹیم میں موجود لوگوں نے اس پر احتجاج کیا، اور اب وہ تقریباََ اپنا مفت اخبار تقسیم کرنے والا طریقہ اختیار کر چکے ہیں، وہ اپنا اخبار زیادہ تر چھوٹی جگہوں پر بھیجتے ہیں جہاں انہیں معلوم ہے کہ یہ پڑھا جائیگا، پنجاب سیکریٹریٹ اور سرکاری دفاتر جیسے نارمل ٹارگٹ کو پس پشت ڈال کر ڈیلی سٹی 42  زیادہ تر شہر کی مرکزی جگہوں اور چھوٹے کاروباری مراکز میں بھیجا جاتا ہے۔

محسن نقوی کے دوسرے پراجیکٹ بھی اسی طرح اپنی مثال آپ ہیں، یوکے فورٹی فور برطانیہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کیلئے قائم کیا گیا جو کہ کسی حد تک کامیاب بھی ہے، سٹی فورٹی وَن فیصل آباد شہر کیلئے قائم کیا گیا اسی طرح سرائیکی بیلٹ کیلئے محسن نقوی نے پی ٹی آئی رہنماء جہانگیر ترین سے روہی ٹی وی خرید لیا، تاہم ان کی پہلی محبت انکا پہلا چینل ہی رہا۔
سٹی 42 ان کا پسندیدہ ہونے کے باوجود وہ 24 نیوز  کیلئے زیادہ پر عزم تھے، یہ چینل بھی ایک مخلتف تصور پر قائم ہوا اور قومی سطح پر انکا یہ پہلا کارنامہ تھا، رپورٹنگ کی بجائے یہ صرف حالات حاضرہ کا چینل تھا جس میں زیادہ توجہ ٹاک شوز اور تجزیات پر دی جاتی تھی اور خبری بلیٹن بھی اکثر دوسرے چینلز کی نسبت مخلتف گھنٹوں میں ہوتے تھے۔

اس چینل کیلئے محسن نقوی نے ملک کے بہترین اینکرز کو بھرتی کیا اور سینئر صحافیوں کی ٹیم تشکیل دی۔ اس آئیڈیا نے کام کر دکھایا، کیونکہ زیادہ تر لوگ جیو اور اے آر وائے کے سوا کسی اور کے نیوز بلیٹنز کم ہی دیکھتے ہیں اور زیادہ دلچسپی ٹاک شوز میں ہی رکھتے ہیں۔
لیکن ایڈورٹائزر اس چینل کو سنجیدہ نہیں لیتے تھےاور اسے بی یا سی کیٹیگری میں رکھتے تھے، ٹکرز اور بلیٹنز کیلئے دبائو جاری رہا، ٹیم کی توقعات کے مطابق ریٹنگ حاصل نہ ہوئی اس لیے نتیجتاََ محسن نقوی نے چینل کو دیگر چینلز کی طرز پر چلانا شروع کردیا۔

اس چینل کو جس طرح چلانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کے مطابق  کام نہ کرنے کی وجہ شائد یہ بھی تھی کہ یہ سٹی میڈیا گروپ کے بزنس ماڈل کے برعکس تھا، جو زیادہ تر مقامی طرز کا تھا اور زیادہ تر مقامی کاروباری ادارے اس کو انڈورٹائزنگ دیتے تھے کیونکہ اس طرح ان کی پروڈکٹس کی تشہیر مقامی سطح پر بھرپور طریقے سے ہوتی تھی، دوسری طرف 24  نیوز سرکاری اشتہارات کے علاوہ قومی سطح کے ملٹی نیشنل اداروں کے اشتہارات پر انحصار کرتا تھا جس طرح باقی ماندہ میڈیا انڈسٹری کر رہی تھی۔

پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کی صورتحال:

سن 2009 میں جب محسن نقوی نے چھوٹی سی سرمایہ کاری سے ایک چینل قائم کیا تو ان کے نقاد ہنس رہے تھے تاہم انکا چینل کامیاب رہا، آئندہ عشرے میں انہوں نے 3 مزید چینل قائم کیے، ایک کو خریدا اور ایک اخبار بھی نکالا، لیکن سن 2019  میں باقی میڈیا انڈسٹری کی مانند وہ بھی بحران سے دوچار پاتال میں گرنے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔صحافتی اداروں میں لوگوں کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے، ہمارے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران محسن نقوی نے آہ بھرتے ہوئے بڑے تاسف سے بتایا کہ  اپنے 18 ہزار ملازمین میں سے ایک تہائی کو نکال کر ان پر کیا گزری، واضح رہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل 24 نیوز کا پشاور بیورو بند ہوا ہے اور یہاں کام کرنے والے 600 ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ بحرانی دور میں نیا چینل قائم کرنا کیسا رہے گا تو انہوں زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے  کہا کہ ایسی سوچ رکھنے والے کو چاہیے کہ اپنے اربوں روپے اس شعبے میں لگانے کی بجائے کسی گندے نالے میں پھینک دے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت کوئی چینل کمائی نہیں کر رہا، ہم خوش قسمت ہیں کہ کسی طرح کام چل رہا ہے، جب ہم نے سٹی 42 شروع کیا تھا تو اتنا اچھا چلا تھا کہ لاہور میں ہی 2 مزید چینلز اس کی دیکھا دیکھی کھل گئے لیکن اس کے بعد صورتحال کافی خراب ہو گئی ورنہ وہ ہمیں کسی طور چیلنج نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

بہتت سے لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ صوتحال کا ذمہ دار میڈیا خود بھی ہے، سب سے زیادہ اشتہارات سرکار کی طرف ملتے تھے اور انڈسٹری کا زیادہ ریونیو یہی سے آتا تھا، حکومت کسی نہ کسی مقصد کیلئے میڈیا کو سبسڈی دیتی رہتی تھی لیکن اسی نے میڈیا ٹائکونز کو سست کردیا اور انہوں نے اپنی مشینری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
تاہم حسن نقوی کا نقطہ نظر الگ ہے، میڈیا انڈسٹری پر اب صنعتکار چھا چکے ہیں، انہوں نے پاور ٹول کے طور پر چینل قائم کرلیے ہیں، زیادہ تر اب پچھتا رہے ہیں اور غصہ اپنے ورکرز پر نکال رہے ہیں۔ محسن نقوی ان چنیدہ مالکان میں سے ہیں جنہوں نے خود بطور صحافی کام کر رکھا ہے اور اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ کسی ورکر کو جب نکالا جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ گزشتہ عرصے میں ہم نے کافی دولت کمائی، لیکن بعد ازاں 24 نیوز میں کافی نقصان اٹھانا پڑا، بعض اوقات قومی سطح کے چینلز کی نسبت سٹی 42 زیادہ کمائی کرجاتا ہے، میں جھوٹ نہیں بولوں گا، میڈیا انڈسٹری میرے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوئی لیکن اب صورتحال کافی خراب ہے۔‘‘

سرکاری اشتہارات کی بندش یا کمی اور سنسرشپ کے بڑھتے خطرات کی وجہ سے نیوز چینلز اب بمشکل سانس لے پا رہے ہیں، یہاں تک کہ 8 جولائی کو جب یہ آرٹیکل لکھا جا رہا تھا تو مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی پریس کانفرنس براہ راست دکھانے 24 نیوز اور دو مزید چینلز کو بند کردیاگیا، بڑھتے مالی بحران اور سنسرشپ کی وجہ سے ہر کوئی حیرت میں ہے کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کا مستقبل کیا ہوگا جبکہ ایسے حالات میں کچھ نیا کر دکھانے کا جذبہ اور آپکی جدت پسندی کی صلاحیت بھی آپکو نہیں بچا سکتی۔ بزنس کو ایک طرف رکھ کر بھی دیکھیں تو ریاست کے چوتھے ستون کا مستقبل غیر یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here