بلال عارف سافٹ وئیر کمپنی بلاک ۳۶۰کے بانی ہیں، ان کے سارے کلائنٹس پاکستان سے باہر یورپ سے ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں پاکستان میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کم آگاہی کی وجہ سے مقامی کلائنٹس نہیں آتے۔
ان کی کمپنی کے پاس تاحال بیرون ملک سے چار کلائنٹس ہیں جن میں سے دو جرمنی، ایک برطانیہ اور ایک ڈنمارک سے ہے۔ بلال کے مطابق ان کا سٹارٹ اپ کافی پوٹینشل رکھتا ہے اور ایک ملین روپے ماہانہ کی آمدن دے رہا ہے جو کہ ان کی کمپنی یوروز میں وصول کرتی ہے۔
کمپنی کرپٹو کرنسی اور مشینز اکانومی کیلئے انفراسٹرکچر فراہم کرتی ہے، کمپنی بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے اثاثہ جات کی منتقلی کیلئے کاروباری اداروں، حکومتوں، مختلف تنظیموں اور افراد کو سافٹ وئیر سلوشن نہ صرف فراہم کرتی ہے بلکہ اس سلسلے میں اپنی دیگر خدمات بھی پیش کرتی ہے۔
اپنے آغاز سے لیکر کمپنی ۱۵ سٹارٹ اپش اور کمپنیوں کے قیام میں خدمات فراہم کر چکی ہے جن میں زیادہ تر یورپ اور امریکا میں ہیں۔
فیس بک، ایمازون، ای بے اور علی بابا جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کرکے بیرون ممالک کسٹمرز تک رسائی ممکن بنا کر چھوٹے کاروبار اب ’مائیکرو ملٹی نیشنل‘ بن ہے ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی عالمی سطح کا بن سکتا ہے۔ مکینزی سروے کے مطابق ۸۶ فیصد ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس کراس بارڈر کام کر رہے ہیں، چھوٹے کاروبار بھی نئی مارکیٹ تک رسائی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہر جگہ معاشی ترقی ہوتی ہے۔
تاہم پاکستان میں اس شعبے کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، ہمارے ملک میں سٹارٹ اپ کلچر ابھی خود کو منوانے کیلئے کوشاں ہے اور انٹرپرینیوز اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں، انٹرپرینیورشپ کیلئے کلچرل سپورٹ کی کمی ہے اور ملک میں ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر کا فقدان بھی کافی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ تاہم اس سے بھی بڑی شکایت یہ ہے کہ سٹارٹ اپس کی فنڈنگ کیلئے مناسب سرمایہ لگانے والے بھی موجود نہیں ہیں۔
ایک انٹرپرینیورر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر بہت برا ہے، کوئی بھی اس کے مسائل حل کرنے کو تیار نہیں اور جو ایسا کرنے پر تیار نظر آتا ہے اس کے اپنے ذاتی مفادات ہیں۔‘‘
یہ انٹرپرینیور کامیابی سے ایک مشہور انکیوبیشن سینٹر میں ان ٹیم کیساتھ کام کرچکے ہیں تاہم اس حوالے سے ناخوش ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انکیوبیشن سینٹر میں کام کرتے ہوئے محض ایک اچھی یہ تھی کہ انہیں بیٹھنے کی جگہ اچھی ملی جو کہ ایک عارضی دفتر جیسی تھی جبکہ ہماری ٹیم اس وقت دفتر کرائے پر لینا افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔ ’’ کنٹریکٹ میں ایک شق ایسی تھی جس کی رو سے انٹرپرینیور کو تمام ورکشاپس میں بیٹھنا پڑتا تھا چاہے وہ اس سے متعلق ہوں یا نہ ہوں۔‘‘
ٹیکنالوجی سے متعلق سٹارٹ اپ پر کام کرنے والے ایک انٹرپرینیور کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کار ٹیکنالوجی سے متعلق کسی کاروبار میں پیشہ نہیں لگاتے، اور جو لگاتے ہیں وہ کمپنی میں بہت زیادہ حصہ مانگتے ہیں، ’’ہم نے ایک آئیڈیا پر کام کیا، اور جب ایک پیسے کیلئے ایک سرمایہ کار سے رابطہ کیا تو انہوں نے زیادہ شیئرز لینے کا مطالبہ رکھ دیا، یہی ہمارے سٹارٹ اپ کلچر کی سب سے بڑی خامی ہے۔ ‘‘
پاکستان ۲۰ کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ہے اور زیادہ تر تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں وینچر کیپٹل انویسٹمنٹ کا کافی سے بھی زیادہ پوٹینشل موجود ہے، ایششیا کی چوتھی بڑی مڈل کلاس یہاں رہتی ہے، پینسٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم اور بائیس سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، دو ہزار سولہ سے لیکر دو ہزار اکیس تک پاکستان کی رٹیل مارکیٹ کی ترقی کی شرح آٹھ ایعشاریہ دو فیصد رہنے کی توقع ہے، جو بھارت کی پانچ اعشاریہ تین اور ویت نام کی چار اعشاریہ آٹھ سے زیادہ ہے، جبکہ رٹیل مارکیٹ کا مجموعی حجم دو سو دس ارب ڈالر ہے۔
گزشتہ چار سلا کے دوران پاکستان میں آن لائن رٹیل ایک سو چالیس فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور دو ہزار اٹھارہ میں یہ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم عالمی ای کامرس مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ محض ۰۔۳۴ فیصد ہے۔ جبکہ بھارت کا عالمی مارکیٹ میں حصہ پانچ فیصد، انڈونیشیا کا چار فیصد ہے۔ تاہم پاکستان کی ای کامرس سیلز دو ہزار اکیس تک چار سے پانچ ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے۔
وینچر سرمایہ کاروں اور ’ولچر‘ سرمایہ کاروں میں فرق:
زویا امام ٹی پی ایل ای وینچرز میں سرمایہ کاری کے شعبے کی سربراہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ سٹارٹ اپس میں زیادہ شیئرز مانگنے والے سرمایہ کار ’گدھ‘ ہیں، ایسے سرمایہ کار سٹارٹ اپ کلچر کیلئے نقصان دہ تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ ذاتی کاروبار شروع کرنے والے انٹرپرینیورز کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہ رجحان ایسی انڈسٹریز کیلئے بھی نقصان کا باعث ہے جو شائد سٹارٹ اپ کلچر کی وجہ سے ترقی کرسکیں۔
تاہم ٹی پی ایل ای وینچرز کے سی ای او علی سمیر عثمان کا کہنا ہے کہ یہ ولچرز زیادہ تر پرانے خاندانی کاروبار چلا رہے ہیں، شروع میں ان کی اہمیت تھی کیونکہ ابتدا میں پاکستانی سٹارٹ اپس کوئی بھی فنانس نہیں کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ہماری خواہش ہے کہ ہم کسی سٹارٹ اپ کے آتے ہی اس میں پہلی سرمایہ کاری کریں، کسی بھی کمپنی کی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے کیلئے ہمارے پاس ایک سرگرم ٹیم ہے۔‘‘
علی سمیر عثمان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی پی ایل مختلف کمپنیوں کو ناصرف مالیاتی وسائل فراہم کرتی ہے بلکہ سٹریٹجک اور آپریشنل سپورٹ کے ساتھ قومی و بین الاقوامی نیٹ ورک تک رسائی بھی مہیا کرتی ہے۔ ہمارا مقصد ایک اچھے مقصد کیلئے کاروبار کو فروغ دینا ہے، ہم جامد یا غیر فعال فنانسرز نہیں ہیں، مختلف نوعیت کے سٹارٹ اپس کو ناصرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بلکہ انہیں نئے فنانسرز تلاش کرنے میں بھی ہم مدد دیتے ہیں۔
درحقیقت ہم نے کئی سٹارٹ اپس کو ان کے بزنس پلان اور سٹریٹجی کے مطابق ایسے وقت میں دوسرے انویسٹرز کیساتھ جوڑا ہے جب ہم خود ان کے سٹارٹ اپ میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے تھے، ہمارے مقصد میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان سٹارٹ کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع مل سکیں اور اس صنعت کی ترقی ہو سکے۔
انٹرپرینیور: جو کھیل آپ کھیل رہے ہیں کیا اس کے بارے میں معلوم ہے؟
سرمایہ حاصل سے قبل کسی بھی انٹرپرینیور یا سٹارٹ اپ کیلئے اپنے بزنس سے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ ان کے سٹارٹ اپ کا مقصد کیا ہے، اس حوالے سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ کسی وینچر کیپٹلسٹ سے ملنے سے قبل یہ تصدیق کرلیں کہ ان کے مقاصد آپ کے سٹارٹ اپ سے ہم آہنگ بھی ہیں یا نہیں۔
وینچر کیپٹل فنڈز میں سرمایہ کاروں کی رقم برابر کے حصص پر سٹارٹ اپس میں لگائی جاتی ہے، ایسے فنڈز عام طور پر کمپنیوں کے ابتدائی دنوں میں سرمایہ لگاتے ہیں اور پانچ سے دس سال کیلئے کچھ حصص لے لیتے ہیں، عموماَ یہ سرمایہ کاری ٹیکنالوجی کی کمپنیوں میں کی جاتی ہے، یہاں سرمایہ کاری ڈوبنے کا جتنا خطرہ ہوتا ہے اتنے ہی منافع کا مواقع ہوتے ہیں، تاہم یہ خصوصیات مختلف وینچرز اور مارکیٹس میں مخلتف ہوتی ہیں۔ صرف ایک چیز ساری دنیا میں مشترک ہوتی ہے وہ یہ کہ تمام سرمایہ کار انوویٹو بزنس میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں جو ترقی کرے۔
اس حوالے سے علی کا کہنا تھا کہ ’’اچھے سٹارٹ اپس کو سرمایہ کاری کی کمی ہوتی، لیکن ایسا سرمایہ کار ڈھونڈنا مسئلہ ہے جو سارٹ اپ کے بانی کے خیالات کو سمجھے اور سٹارٹ اپ کو کامیاب کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں اس شعبے کو میسر سرمایہ کاری کم ہے اس لیے اکثر سٹارٹ اپس دستیاب سرمایہ کاری میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ’’ میں نے ایسے کئی سٹارٹ اپس دیکھے ہیں جنہوں نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کیا، آپ سوچیں کہ کوئی انٹرپرینیورر سٹارٹ اپ شروع کرے اور پھر ایک دم اسے بیچنے کا سوچے تو اس کا مطلب یہ ہو گا اسے اپنے آئیڈیا پر مکمل اعتماد ہی نہیں تھا۔ ورنہ انویسٹر کوئی ایگزٹ پلان دیتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ انٹرپرینیور کیلئے قطعاَ ٹھیک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جو کیپٹل انویسٹمنٹ کی تلاش میں ہوں وہ اپنا ہوم ورک بھی مناسب طور پر نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے سرمائے کا ذریعہ کا ہوگا اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔
’’ایک چیز جو انٹرپرینیورز کو کام شروع کرنے سے قبل خود سے پوچھنی چاہیے وہ یہ کہ میں کیا غلط کر رہا ہوں اور اسے بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
ہم بہت سے سٹارٹ اپس دیکھتے ہیں جنہوں نے سرمایہ کاری کیلئے اپنا بزنس پلان دیا ہوتا ہے تاہم بہت سارے بزنس پلانز پر مناسب طور سے کام ہی نہیں کیا گیا ہوتا، میری سٹارٹ اپس شروع کرنے والوں کو ایک ہی ہدایت ہے کہ ’’بزنس بڑھانے کیلئے فنڈز جمع کریں آپ نے اس کے ارد گرد جو کچھ بنایا ہے اسے بیچنے کیلئے نہیں۔‘‘
دنیا بھر میں سٹارٹ اپس کے مالکان اپنے کاروبار کو ختم کرنے یا اسے بیچنے کے مواقع تلاش نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنا تو سرمایہ کار کا کام ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات وہ وقت کا پابند ہوتا ہے، مالکان تو اپنے کاروبار کو مزید بڑھانے اور بہترکرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔
علی سمیر کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں زیادہ تر سٹارٹ اپ شروع کرنے والے سرکاری فنڈز پر چلنے والے نیشنل انکییوبیشن سینٹرز میں بیٹھے ہیں اور جن مسائل کا سٹارٹ اپ چلاتے ہوئے سامنا رہتا ہے اسے حل کرنے سے معذور ہیں۔ ان میں سے بہت سارے فریش گریجوایٹ ہیں، نوجوان انٹرپرینیورز کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ کوئی پروجیکٹ شروع کرنے سے قبل دو سے تین سال ملازمت کریں۔ بجٹ بنانا، ٹیم مینجمنٹ، ٹائم لائن مینجمنٹ، کسٹمر سروسز وغیرہ سیکھیں اور پھر انٹرپرینیورشپ کے چیلنجز سے نبر آزما ہونے کیلئے وہ تیار ہوں گے، وہ پہلے کی نسبت زیادہ پر اعتماد ہوں گے اور مسادئل کو بہتر طور سے حل کر سکیں گے۔
پاکستان میں ایکسلریٹرز سٹارٹ اپس کیلئے آگے بڑھنے اور سیکھنے کے بہترین پلیٹ فارم ہیں، ہمارے یہاں ابھی یہ ماحول ابتدائی سطح پر ہے اور ہر کوئی نتیجہ نکالنے کی کوشش میں ہے کہ کیا چیز چلے گی اور کیا نہیں، اگرچہ ایکسلریٹرز آئیڈیل نہیں تاہم پھر بھی یہ تخلیق کاروں اور سوچنے والوں کو ملنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ مختلف تربیتی پروگراموں اور اندسٹری کے لوگوں سے رابطہ پیدا کروا کر یہ نوجوان تخلیق کاروں کو سیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ مارکیٹ کے مطابق پروڈکٹ تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
بعض اوقات زیادہ تر سٹارٹ اپس کے فائونڈرز امپوسٹر سینڈروم کا شکار ہو جاتے ہیں ایسی صورت میں ایکسلریٹرز اس صورتحال سے نکلنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، یہ وینچر کیپٹل اور انویسٹرز دونوں کیلئے اہم ہیں۔
سٹارٹ اپس معیشت کیلئے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
ٹیکنالوجی سے متعلق ستارٹ اپس کیلئے پاکستان بہترین ثابت ہو سکتا اور اس طرح معاشی مسائل اور بیروزگاری پر قابو پا سکتا ہے، ڈیجیٹل انقالاب لانے میں سب سے زیادہ کردار وینچر کیپٹلسٹس کا ہے۔
علی، جو کہ خود بھی سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی فن ٹیک کمیٹی کے رکن ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان میں وینچر کیپٹل کا مستقل کافی تابناک ہے، ہم کئی ایسی ڈیلز دیکھ چکے ہیں جہاں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستانی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ’’ ٹیکنالوجی سے متعلق بہت سارے سٹارٹ اپس ناصرف مقامی طور پر بلکہ عالمی سطح پر بھی کام کر رہے ہیں جو کہ ناصرف وینچر کیپٹل کیلئے بلکہ حکومت کیلئے بھی اچھا شگون ہے۔‘‘
پانچ سال سے بھی کم مدت میں پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال دو اعشاریہ چھ فیصد سے بڑھ کر ستائیس فیصد ہو چکا ہے اور ہر روز چالیس ہزار لوگ انترنیٹ سبسکرائبر بن رہے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان میں موبائل فون استعمال کنندگان کی تعداد دس کروڑ سے زائد ہو چکی ہے جن میں سے چھ کروڑ تھری جی اور فور جی استعمال کرتے ہیں، چاڑھے تین کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
عام طور پر سرمایہ کار ایک یا دو سیگمنٹس میں سرمایہ کاری زیادہ کرتے ہیں جیسے کہ انڈسٹری سیگمنٹ۔ وہ موبائل فونز، بائیوٹیک، سافٹ وئیر، فن ٹیک وغیرہ سے متعلق سٹارٹ اپس میں سرمایہ لگاتے ہیں، یا پھر کسی کمپنی کی ابتدائی سٹیج پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، یا پھر جغرافیائی نوعیت کے سٹارٹ اپس کو ترجیح دیتے ہیں جیسے کہ پاکستان سے متعلق کوئی سٹارٹ اپ، ایمرجنگ مارکیٹس، سلیکون ویلی وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم جن سیگمنٹس کے بارے میں زیادہ پر جوش ہیں ان میں فن ٹیک، ہیلتھ ٹیک، ایگری ٹیک، اور کسٹمر سینٹرک سلیوشنز ہیں جن سے لوگوں کے روزمرہ کے مسائل حل ہوں۔ ایسے سٹارٹ اپس پر سرمایہ کاری سے لوگوں کے کافی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
سرمایہ کار انٹرپرینیورز کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
ایک اچھا سرمایہ کار جانتا ہے کہ جس سٹارٹ اپ میں اس نے سرمایہ لگا رکھا ہے وہاں کیا چل رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، اور قانون کیا کہتا ہے۔ انہیں ٹارگٹ مارکیٹ کے حوالے سے سٹارٹ اپس کے مسائل کی نوعیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اچھے سرمایہ کار کو اچھے ٹیلنٹ کی پہچان ہونی چاہیے۔ ان کا ایک بڑا نیٹ ورک بھی ہونا چاہیے اور سٹارٹ اپ کا سب سے بڑے معترف وہ خود ہوں، اگر وہ خود اس سٹارٹ اپ کو اہمیت نہیں دیں گے تو کوئی دوسرا کیوں دے گا؟
اچھا سرمایہ کار صرف فنڈنگ کا ذریعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ طویل المدتی شراکت دار ہوتا ہے۔ وہ مالی وسائل کی فراہمی کے علاوہ سٹارٹ اپ کی ترقی اور دیگر معلامات کے حوالے سے بھی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ابتدائی سطح کے کاروبار کے لیے زیادہ اہم ہے۔
’’ہم لمبے عرصے سے مخلتف کاروباروں کیلئے سرمایہ کاری کرتے چلے آ رہے ہیں اسی لیے آج ٹی پی ایل ملک کے بہترین سرمایہ کاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہم ٹریکنگ، ڈیجیٹل میپنگ، لوکیشن بیسڈ سروسز، انشورنس، پیمنٹس، پراپرٹیز اور لوجسٹکس کے کاروباروں میں سرمایہ لگاتے ہیں۔
’’فن ٹیک اور ڈیجیٹل پیمنٹ کا استعمال پاکستان میں ڈیجیٹل کامرس کے صحیح پوٹینشل کو سامنے لانے کیلئے بنیادی کردار ہے، بہت سارے ادارے چونکہ ادائیگیوں سے متعلق مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں تو ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل روشن ہے۔‘‘