1. محسن عبید:
لوگ انہیں energiser کہتے ہیں.
لاہور سکول آف اکنامکس سے انڈرگریجوایٹ کرنے کے بعد محسن عبید 3 سال تک مختلف نوعیت کے کام کرتے رہے، انہوں نے AkzoNobel Paints میں مینجمنٹ ٹرینی کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور بعد ازاں ایک سال کیلئے پروکیورمنٹ مینجر کے طور پر سپلائی چین کے محکمے میں کام کیا، یہاں کام کرتے ہوئے ان میں سیلز کے شعبہ میں کام کرنے کا شوق بڑھا تو وہ کمرشل شعبے میں چلے گئے اور مزید ایک سال ایریا سیلز مینجر کے طور پر کام کیا، اس کے بعد نیسلے پاکستان میں ایریا سیلز مینجر کے طور پر ایک سال کام کیا جس کے بعد لمز میں ایم بی اے کیلئے داخلہ لے لیا، لمز کی جانب کس چیز نے متوجہ کیا اس سوال کے جواب میں محسن کہتے ہیں کہ case study methodology دیکھ کر انہوں نے لمز سے ایم بی اے کرنے کا سوچا.
لمز میں تعلیم کے دوران وہ یونیورسٹی کے سیلز کلب کے سربراہ، کرکٹ، باسکٹ بال اور سکوائش کی ٹیموں کے رکن رہے.
ایم بی اے کے بعد کمرشل شعبے میں نوکری کرنا محسن عبید کی ترجیح ہے اور 10 سے 12 سال بعد اپنا کاروبارشروع کرنے کا ارادہ ہے، تاہم آئندہ 3 سے 4 سال میں وہ کسی کنزیومر گڈز انڈسٹری میں ٹریڈ کیٹیگری ہیڈ یا ریجنل ہیڈ کی طور پر ملازمت کے خواہاں ہیں.
2. سلمان رشید:
سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے دوستیاں 40 ممالک میں ہیں.
لمز کا ایم بی اے پروگرام جوائن کرنے سے قبل سلمان نے میکینیکل انجنئرنگ میں انڈرگریجوایٹ کر رکھا ہے، انہوں نے فوجی فرٹیلائزر کمپنی میں بطور مینٹی نینس انجنئیر کام کیا اور اس کے منجمنٹ ٹرینی گروپ میں ٹاپ کیا. انجنیئرنگ میں تعلیمی پس منظر کے باوجود سلمان نے لمزمیں ایم بی اے میں اس لیے داخلہ لیا کیونکہ انہیں ملک کے سب سے بہترین بزنس سکول میں پڑھنے کا موقع مل رہا تھا، لمز میں قیام کے دوران انہیں ایک ایکسچینج پروگرام کے تحت فرانس میں پڑھنے کا موقع بھی ملا، وہ ڈین کی آنر لسٹ میں شامل رہے اور ایم بی اے سپورٹس سوسائٹی کے رکن بھی رہے.
ایم بی اے کے بعد سلمان کسی ایف ایم سی جی کمپنی (Fast-Moving Consumer Goods) میں پانچ سال کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں، مینجمنٹ کنسلٹنٹ یا کسی عالمی کمپنی کے سپلائی چین ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنا ان کا خواب ہے. جس کے بعد وہ تعلیم کے شعبے میں اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.
3. مجتبیٰ سفری:
مجتبیٰ فری سٹائل اور لیکوئڈ ڈانس بہترین کر سکتے ہیں.
انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے بی بی اے کرنے کے بعد دو سال تک انڈس موٹرز کمپنی میں مینجمنٹ ٹرینی کے طور پر کام کیا جس کے بعد انہیں ترقی دیکر اسسٹنٹ مینجر بنا دیا گیا، کمپنی کی فنانس ٹریژری ڈویژن کا رکن ہوتے ہوئے انہوں نے لیٹر آف کریڈٹ کے عمل کو ڈیجیٹلائز کرکے چار دن کا کردیا اور 40 ارب روپے کا ایک فنڈ بھی قائم کردیا.
دوسالہ نوکری کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ متعلقہ محکمے میں مزید ترقی ممکن نہیں تو انہوں نے لمز میں ایم بی اے کیلئے داخلہ لے لیا، سلیمان دائود سکول آف بزنس میں پڑھنےکے دوران انہوں نے بطور صدر ہیومن ریسورس ایگزیکٹو کلب اور رکن لمز سٹوڈنٹ کونسل بھی کام کیا.
مجتبیٰ اب کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے کے خواہاں ہیں جس کے بعد وہ اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس طرح وہ زیادہ بہتر طور پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر سکتے ہیں.
4. شہریار علی:
شہریار 30 سے زیادہ ممالک دیکھ چکے ہیں.
شہریار علی نے لمز سے ہی انڈرگریجوایٹ کیا، جس کے دوران ہی انہوں نے اپنا کاروبار شروع کردیا، انہوں نے ٹیلی نار اور ریڈ بل میں بھی ملازمت کی، ٹیلی نار کی دو سالہ ملازمت میں انہیں اعلیٰ صلاحتیوں کا مالک قرار دیا گیاتاہم یہ نوکری چھوڑنے کے بعد انہوں نے کسی دوسرے کام کا سوچا۔ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے انہوں نے ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا، یہ سوچ کر کہ انہوں نے پاکستان میں ہی رہنا ہے اور سلیمان داؤد سکول آف بزنس کے فارغ التحصیل طلباء کے نیٹ ورک کا حصہ بننا انہوں نے لمز میں ایم بی اے کیلئے داخلہ لے لیا۔
اب شہریار اپنی کنسلٹنسی فرم چلا رہے ہیں اور جوتوں کا مشہور برانڈ ہش پپیز بھی ان کے کلائنٹس میں شامل ہے، مستقبل میں مختلف شہروں میں وہ میگنم آئس کریم کی چار فرنچائزز کھولنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
5. جواد ناصر:
بالوں کے رنگ کی وجہ سے لوگ انہیں غیر ملکی گورا سمجھ لیتے ہیں.
2013ء میں جواد ناصر امریکا کی یونیورسٹی آف جارجیا کے جارجیا روٹری سٹوڈنٹ پروگرام کیلئے منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی سکالر تھے، اسی سال کے آخر میں انہیں سٹوڈنٹ آف دی ائیر کا انعام بھی ملا.
اکنامکس اور فنانس میں بیچلرز کے بعد جواد نے کل ملا کر دو سال ملازمت کی جن میں سے 6 ماہ مٹسوبشی کارپوریشن کی کیمیکلز اینڈ جنرل ٹریڈنگ ڈویژن میں کام کیا.
بعد ازاں انہوں نے کنسائی پینٹس میں بطور اسسٹنٹ مینجر بزنس ڈویلپمنٹ کام کیا، اسی دوران انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی اور ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کرلیا، انہوں نے کئی امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے اپلائی کیا اور برائون، یو ایس سی، روچیسٹر سے داخلے کی آفرز بھی موصول ہوئیں تاہم لمز کی جانب سے ریٹرن آن انویسٹمنٹ کی پیشکش کے بعد انہوں نے یہاں ایم بی اے میں داخلہ لے لیا.
لمز میں پڑھائی کے دوران جواد ناصر گلوبل مینجمنٹ کلب کے صدر، سپورٹس سوسائٹی کے ڈائریکٹر اور ایم بی اے فٹ بال ٹیم کے کیپٹن رہے. مستقبل میں وہ اچھی کاروباری ٹیمیں تیار کرنے بہترین ٹیلنٹ کو سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں.
6. زین رحمان:
زین رحمان لمز کے ایک کمیونیکیشن کورس میں نمایاں رہے
لمز میں ایم بی اے شروع کرنے سے قبل زین میکینکل انجنیئر تھے، انہوں نے تین سال تک Lotte Chemical Pakistan میں کام کیا جہاں انہوں نے ایک سال تک بطور اسسٹنٹ مینجر مارکیٹ انٹیلی جنس دنیا کی تیل کی بڑی کمپنی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شریک ہوتے رہے وہیں وہ سرکاری حکام کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے دوران بھی سی ای او کے قریب رہ کر کام کرتے رہے.
Fortune 100 کی فہرست میں کمپنی GE کے آپریشنز ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے انہوں نے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی بچت کی اور جدید ٹربائن ٹیکنالوجی پر کام کے دوران 200 لوگوں کی ٹیم کی قیادت کی.
زین کاروں کا شوق رکھتے ہیں، وہ ایک شیل کی تعاون سے ایک پروجیکٹ کے تحت الیکٹرک کار بنا چکے ہیں جو فلپائن میں منعقدہ ایک شو میں رکھی گئی. انہوں نے معذوروں کیلئے پاکستان میں پہلی بار ایک خاص قسم کی وہیل چیئر تیار کی، اس وہیل چیئر سے متعلقہ پروجیکٹ انہوں نے آئیرلینڈ کے دارالخلافہ ڈبلن میں ایک ایونٹ میں پیش کیا جہاں ہارورڈ، ییل اور دیگر بڑی یورنیورسٹیوں سے لوگ حصہ لے رہے تھے.
انجنئیرنگ سے کمرشل مارکیٹ میں کیرئیر بنانے کیلئے زین نے لمز سے ایم بی اے شروع کیا، انہوں نے سمیسٹر ایکسچینج پروگرام کے تحت ترکی میں بھی پڑھا، وہ یونیورسٹی میں ٹوسٹ ماسٹرز کلب کے صدر کے علاوہ فٹ بال، کرکٹ، باسکٹ بال اور دیگر ٹیموں کے رکن رہے، مستقبل میں کارپوریٹ اور ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کے علاوہ اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.
7. محمد قاسم اسد:
قومی سطح کے تیراکی کے مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتا
لمز سے ایم بی اے شروع کرنے سے قبل قاسم اسد نے اکنامکس میں بیچلرز کیا جس میںانہوں نے میتھ اور سٹیٹکس کے مضامین بھی پڑھے. ان کا تحریر کردہ مقالہ ایک عالمی جریدے میں بھی شائع ہو چکا ہے، انڈرگریجوایٹ کرنے کے بعد انہوں نے تین سال تک میٹرو کیش اینڈ کیری میں مخلتف پورزیشز پر کام کیا.
تاہم خاندانی کاروبار میں شمولیت کی وجہ سے انہوں نے میٹرو کیش اینڈ کیری کی ملازمت چھوڑی دی اور لمز میں ایم بی اے میں داخلہ لے لیا، لمز میں پڑھائی کے دوران وہ سوئمنگ اور فٹ بال ٹیموں کے رکن رہے، ایم بی اے کے بعد قاسم خاندانی کاروبار کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں.
8. فرقان طارق:
برفباری کے دوران پہاڑی راستوں پر ڈرائیونگ کرنے کا ان کا پہلا تجربی ترکی میں ہوا.
فرقان طارق نے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے، وہ Xavor Corporation میں میں سینئر سافٹ وئیر ڈویلپر کے طور پر کام کیا، یہاں انہوں نے ایک ایسا سافٹ وئیر بنایا جس میں Oracle کے Agile PLM کو مائیکروسافٹ ایکسل کے ستاھ ضم کیا اور ایک سال میں 20 ہزار ڈالر کے حساب سے چار کمپنیوں کو یہ سافٹ وئیر فروخت کیا.
تاہم فرقان نے فیصلہ کیا کہ یہ مزید پڑھنے کیلئے درست وقت ہے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ “ایک انجنیئر کے طور پر میری ٹریننگ کام کرنے اور چیزوں بنانے کے حوالے سے تھی تاہم ان چیزوں کے پس پردہ عوام کیا ہوتے ہیں ان سے میں ناواقف تھا، بزنس فیملی کا پس منظر ہونے اور نوکری کے دوران کلائنٹس کیساتھ بات چیت میں اپنی صلاحتیوں میں مزید بہتری لانے کے احساس کی وجہ سے میں نے ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا.”
ایم بی اے کے بعد فرقان گوگل، ایمازون، AirBnB یا ایسی ہی کسی بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنی میں بزنس انٹیلی جنس کے شعبے میں کام کرنے کے خواہاں ہیں.
9. احمد مکرم ملک:
پبلک ایڈمنسٹریشن میں انڈرگریجوایشن کے دوران فنانس کے مضمون میں دو بار ناکام ہونے والے مکرم ملک اب سی ایف اے لیول 2 کے امیدوار ہیں. وہ نیویارک میں دو انویسٹمنٹ مینجمنٹ فرمز میں انٹری لیول کی پوزیشنز کیلئے شارٹ لسٹ ہو چکے ہیں. لمز میں ایم بی اے شروع کرنے سے قبل انہوں نے اسلام آباد میں Naan Stop اور Little Athens کے نام سے دو بزنس وینچرز شروع کیے اور کئی ریسٹورنٹس کو کنسلٹنسی فراہم کی. وہ کہتے ہیں کہ ” ایک پراجیکٹ ناکام ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ میں کاروبار سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا اور مجھے سیکھنے کی ضرورت ہے. اسی وجہ سے لمز سے ایم بی اے کرنے کا سوچا.”
احمد شادی شدہ ہیں، انہیں فیملی لائف اور سی ایف اے کے امتحانات کے ساتھ ایم بی اے کی اسائنمنٹس کیلئے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے. وہ مستقبل میں انویسٹمنٹ بینکنک یا پورٹ فولیو مینجمنٹ کے شعبوں میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے نیویارک منتقل ہونے کا بھی ارادہ ہے.
10. حامد شاہد:
2017 میں حامد سیمنٹ سیکٹر کے حوالے سے سٹاک ویلیو ایشن کرتے رہے اس کے بعد بڑی فنانشل اینالسز شروع کردیا اور بعد ازاں سٹاک مارکیٹ میں اپنی ساری جمع پونجی لگا بیٹھے.
لمز میں آنے سے ابل حامد شاہد نے میکینیکل انجنیئرنگ میں انڈرگریجوایٹ کیا اور آئی سی آئی پاکستان میں چار سال تک سپلائی چین مینجر کے طور پر کام کرتے رہے، انہیں فیشن ریٹیل، ہائیڈروپاور، واٹر ٹریٹمنٹ اور آٹو موبائل سیکٹر میں کام کرنے کا بھی تجربہ ہے. آئی سی آئی پاکستان میں انہوں کام کی جگہ پر زندگی کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے اقدامات کیے اور آئی سی آئی پاکستان چیف ایگزیکٹو سیفٹی ایوارڈ جیتا.
لمز میں وہ فنانشل مارکیٹس کلب اور فٹ بال ٹیم کے رکن اور ٹینس ٹیم کے کپتان رہے، کسی اچھے بزنس میگزین میں پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے حوالے سے لکھنا ان کا خواب ہے.
11. یسریٰ راشد:
یسرٰی Doctor Who کی بہت بڑی فین ہیں اور انڈرگریجوایشن کے دوران چار بار یہ سیریز دیکھ چکی ہیں.
انڈرگریجوایشن میں یسریٰ نے اکائونٹنگ اور فنانس کے مضامین پرھے اور بنک الفلاح میں بطور میجمنٹ ٹرینی آفیسر اور نیسلے پاکستان میں پروجیکٹ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کیا. دو سالہ ملازمت کے بعد انہوں نے ایم بی اے کرنے کا سوچا. وہ بتاتی ہیں کہ ” میں نے کچھ مارکیٹ اینالٹکس پروگراموں کیلئے امریکا میں اپلائی کیا، تاہم میں پاکستان میں رہنے کا ہی سوچ رہی تھی تو اس لیے ملک کے بہترین بزنس سکول میں داخلہ لینے کی کوشش کرنے کا سوچا.”
کنسلٹنسی انڈسٹری میں ملازمت کرنا یسریٰ کا خواب ہے، مستقبل میں وہ کسی کمپنی میں مینجمنٹ کے میں نوکری کا بھی ارادہ رکھتی ہیں.
12. ماہم حامد:
اکوئنٹنگ اینڈ فنانس میں انڈرگریجوایشن کرنے کے بعد ماہم حامد نے نپن پینٹس میں بطور مارکیٹنگ ایگزیکٹو ملازمت کی، انہوں نے نپن پینٹس کو سوشل میڈیا پر نمایاں کیا اور وہ کمپنی میں ٹی وی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹ ریسرچ کی ذمہ دار تھیں، انہوں نے ایک ماہ کے دوران چار مختلف ایونٹس کا انتظام تن تنہا کرکے دکھایا.
یہ سوچ کر کہ کیرئیر کو آگے بڑھانے کیلئے ماسٹرز ڈگری ضروری ہے ماہم نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا. وہ بتاتی ہیں، ” میں نے ایم بی اے کیلئے کہیں بھی اپلائی نہیں کیا تھا، ماسٹرز پروگرام کیلئے بیرون ملک اپلائی کیا، تاہم میں نے سوچا کہ اگر رہنا اور کام پاکستان میں ہی کرنا ہے تو کیوں نا لمز سے ایم بی اے کیا جائے.”
ماہم لمز کی ایچ آر سوسائٹی کا حصہ بھی رہیں. مستقبل میں وہ مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرنا چاہتی ہیں.
13. مشال مبشر:
بچے اور جانوروں سے مشال کو خاص لگائو ہے اور وہ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں.
مشال کی کہانی اپنے دیگر کلاس میٹس سے مخلتف ہے، بزنس، اکنامکس، انجنیئرنگ جیسے بیک گرائونڈ سے آنے والے ہم جماعتوں کے برعکس مشال کی بیچلرز ڈگری انگریزی میں تھی، لمز میں آنے سے قبل وہ لاہور گرائمر سکول میں آئی بی پرائمری پروگرام کے بچوں کو پڑھاتی رہیں، کچھ مدت کام کے بعد انہوں نے کیرئیر تبدیل کرنے کا سوچا اور پاکستان اور بیرون ملک مخلتف پروگراموں میں اپلائی کرنا شروع کیا جس کے بعد انہیں لمز کے ایم بی اے میں داخلہ مل گیا.
وہ بتاتی ہیں کہ ” بیرون ملک کی نسبت لمز کا ایم بی اے سستا ہے، باہر جا کر کوئی سکالرشپ بھی نہیں ملتا.” ایم بی اے کے بعد مشال مینجمنٹ اور لیڈرشپ کے شعبوں میں کام کرنا چاہتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ “جانوروں سے متعلق کسی غیر منافع بخش تنظیم کے ساتھ کرنا میرا خواب ہے جس دوران سفر کا موقع بھی ملتا رہے.”
14. محمد زبیر بسرا:
زبیر بھی کئی کلاس فیلوز کی طرح انجنئیرنگ کا پس منظر رکھتے ہیں. انہوں نے مکینیکل انجنئیرنگ میں بیچلرز کیا، جس کے بعد فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی میں ساڑھے 3 سال تک ملازمت کی، دوران ملازمت انہوں نے کمپنی کے دو بڑے منصوبوں کی نگرانی کی جن میں پہلا امریکی ریاست انڈیانا میں گرین فیلڈ فرٹیلائزر پلانٹ لگانا اور دوسرا افریقی فرٹیلائزر مارکیٹ میں انٹری کیلئے فیزیبلٹی سٹڈی مکمل کی.
کچھ مالی رکاوٹون اور بیرون ملک سکالرشپ حاصل نہ کرسکنے کی وجہ سے انہوں نے لمز میں داخلہ لے لیا. یہاں ایم بی اے کے دوران ہی انہیں AT Kearney میں سینئر بزنس اینالسٹ کی پوزیشن مل گئی اور وہ براہ راست یہ پوزیشن حاصل کرنے والے لمز کے پہلے گریجوایٹ تھے، بزنس سٹریٹجی کنسلٹنگ فرمز میں بطور کنسٹنٹ کام کرنا زبیر کا خواب ہے.