کیا لاہوریے اپارٹمنٹ طرز رہائش کیلئے تیار ہیں؟ ایک ٹیکسٹائل گروپ اس شعبے میں سرمایہ لگا رہا ہے

869

کراچی تاحال پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے تاہم گریٹر لاہور میٹروپولیٹن شائد سائز میں کراچی کے تقریباََ برابر ہی ہو، لاہور کے باسیوں نے اب تک شہر کی عمودی توسیع نہیں کی اس لیے شہر میں رہائشی اپارٹمنٹس ڈھونڈنا مشکل ہے.

تاہم حالیہ سالوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور کچھ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز لاہور میں رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کرنے پر سرمایہ کار کر رہے ہیں. اب لاہور میں ایک ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ خریدنا ممکن ہے، کم از کم زمین ڈاٹ کام پر دی گئی قیمتیں تو یہی کہتی ہیں.

ٹیکسٹائل بزنس میں نمایاں نگینہ گروپ بھی لاہور میں اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے رجحان سے منافع کمانے والوں میں سے ایک ہے، نگینہ کاٹن ملز، ایلکوٹ سپننگ ملز (Ellcot Spinning Mills ) اور پراسپیرٹی ویوینگ ملز (Prosperity Weaving Mills) نگینہ گروپ کی کمپنیاں ہیں، یہ گروپ اب رئیل اسٹیٹ میں بھی پیسہ لگا رہا ہے.

گروپ ڈائریکٹرامین الٰہی شیخ کہتے ہیں کہ نگینہ گروپ 1967ء سے ٹیکسٹائل کا کاروبار کر رہا ہے، گروپ نے سب سے پہلے پاکستان میں سپننگ مل کوٹری (سندھ) میں لگائی تھی جو اب بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس کے بعد پنجاب میں کاروبار کو توسیع دی گئی اور یہاں ایک اور سپننگ یونٹ لگایا گیا، بعد ازاں 1990ء کے آخر اور 2000ء کے آغاز میں ویونگ (weaving) سیکٹر میں کام شروع کردیا.

انہوں نے بتایا کہ مزید ایک عشرے بعد اور جب نوجوان نسل نے نگینہ گروپ کے انتظامی امور سنبھال لیے تو یہی سوال سامنے تھا کہ کیا ہمیں ٹیکسٹائل کے علاوہ کوئی اور کاروبار بھی کرنا چاہیے؟ کچھ سوچ بچار کی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور میں طلب کے باوجود بلند و بالا رہائشی عمارتوں کی کمی ہے. یہ سوچتے ہوئے کہ اس شعبے میں ہم کچھ کرسکتے ہیں ہم نے گلبرگ میں اپارٹمنٹس بنانے کا فیصلہ کیا. گلبرگ لاہور کی اپر مڈل کلاس کا گڑھ ہے اور ہم نے پہلے لگژری اپارٹمنٹس گلبرگ میں ہی بنائے.

تاہم لاہور میں اپارٹمنٹل رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے حوالے سے کافی مسائل بھی ہیں جن پر نگینہ گروپ اور دیگر سرمایہ کاروں کو قابو پانے کی ضرورت ہے.

اپارٹمنٹ طرز رہائش کے حوالے سے لاہوریوں کی ناپسندیدگی:
لاہور کے شہری اپارٹمنٹس میں رہنا پسند نہیں کرتے، یہ شائد ٹھوس پنجابی ذہنیت کا نتیجہ ہو حالانکہ پنجابیوں کی بڑی تعداد کراچی، دبئی سمیت دنیا بھر میں اپارٹمنٹس کی مالک ہیں. اس کے باوجود لاہوریوں کیلئے ذاتی گھر ہونا ایک سماجی اہمیت کا مسئلہ ہے.

لاہور میں بلند رہائشی عمارتوں کے فقدان کی ایک سادہ سی وجہ امین الٰہی شیخ یہ بتاتے ہیں کہ ابھی تک لاہور باسیوں کو ایسی عمارتوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی. “منافع” کو ایک انٹریو میں انہوں نے کہا کہ “کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پنجابیوں کی زمین کی ملکیت کے حوالےسے ذہنیت کی وجہ سے لاہور میں اپارٹمنٹس فروخت کرنا مشکل ہے، لیکن ہمارا خیال مختلف ہے، لاہوری پہلے سے ہی اپارٹمنٹل طرز رہائش کے معترف ہیں، اور اب بھی یہاں اس کی اچھی مارکیٹ ویلیو ہے.”

اب چونکہ ضرورت بھی بڑھ چکی ہے تو کراچی والوں کی طرح لاہور کے شہری بھی اس طرز رہائش کو قبول کرلیں گے. امین شیخ نے کہا کہ ” کراچی اور لاہور بالکل مختلف لیکن دلچسپ شہر ہیں، کراچی ساحلی شہر ہے اور دنیا بھر کے ساحلی شہر اندرون کے شہروں کی نسبت الگ خصوصیات رکھتے ہیں، ایسے شہروں میں کاروباری افراد اور مسافروں کی زیادہ آمدورفت رہتی ہے، کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے جو لاہور سے کم وبیش 50 فیصد زیادہ ہے، سب سے اہم بات یہ کہ جغرافیائی طور پر بھی کراچی کی مزید توسیع کے مواقع محدود ہے.”

“کراچی کے ڈی ایچ اے کا فیز 8 تین اطراف سے سمندر کے ساتھ لگ چکا ہے اور جغرافیائی حدود کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے،شہر کی توسیع کیلئے مزید زمین نہیں ہے، اب ایک ہی آپشن باقی ہے کہ شہر کو شمال کی جانب توسیع دی جائے یا پھر بلند و بالا عمارتیں بنائی جائیں، شمال میں بحریہ ٹائون جیسا اچھا منصوبہ بن ہے، ڈی ایچ اے سٹی بھی بننے جا رہا ہے، تاہم دونوں ہی کراچی کے مرکز سے کافی دور ہیں، اس لیے میرے خیال سے کراچی کو لاہور کی نسبت زیادہ تیزی سے بلند عمارتوں کی تعمیر کی ضرورت ہے.”

لاہور میں بھی اب افقی توسیع کی حدود مقرر کرنا ہوں گی، کیونکہ اس شہر کی بھی جغرافیائی حدود میں کچھ رکاوٹیں بہرحال موجود ہیں، شمال مشرق میں بھارتی سرحد ہے، زیادہ تر سوسائٹیوں کا رجحان رائیونڈ اور ملتان روڈ کی جانب ہے جس کی وجہ سے ان تک رسائی مشکل تر ہو رہی ہے، اس لیے لاہور کو بھی کراچی کی طرح اپارٹمنٹ طرز رہائش قبول کرنا پڑے گا بس اس میں تھوڑا وقت لگے گا.

سستی رہائش اور اسکے لیے سرمایہ کاری کا سوال:
رہائشی رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کیلئے سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ تعمیر کردہ گھر لوگوں کی آمدن کے مطابق سستے نہیں‌ ہوتے، “منافع” نے پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ لاہور میں اوسطاََ ہر گھرانہ 72 ہزار 300 روپے ماہانہ کماتا ہے، مالیاتی ماہرین نے کے مطابق ایک سستا گھر کسی بھی گھرانے کی سالانہ آمدن سے 4 گنا مہنگا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک درمیانے درجے کا لاہوری خاندان 35 لاکھ سے نیچے کا گھر ہی لے سکتا ہے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام لاہوری خاندان کتنا مہنگا گھر خرید سکتا ہے؟

زمین ڈاٹ کام کے اپریل کے رئیل اسٹیٹ پرائس انڈیکس کے مطابق لاہور میں گھر کی اوسطاََ قیمت 10 ہزار 401 روپے فی مربع فٹ ہے. اس طرح ایک چھوٹا 125 اسکوئر یارڈ (5 مرلہ) کا گھر 11.7 ملین (1.1 کروڑ روپے) کا بنتا ہے اور ہماری بیان کردہ لاہوری فیملی کیلئے قطعاََ قابل برداشت نہیں.

پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق لاہور کے ٹاپ 1 فیصد شہریوں کی ماہانہ آمدنی 3 لاکھ 10 ہزار سے زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ 14.9 ملین روپے کا گھر خرید سکتے ہیں، اسی طرح ٹاپ 2 میں جگہ بنانے کیلئے آپکی ماہانہ آمدن 2 لاکھ 47 ہزار ہونی چاہیے اور ایسے شہری 11.9 ملین روپے کا گھر خریدنے کی سکت رکھتے ہیں. باالفاظ دیگر ایک عام 125 سکوئر یارڈ کا گھر صرف 2 صرف شہری افورڈ کرسکتے ہیں.

سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2019ء میں پاکستان کی ساری مارگیج (گروی) مارکیٹ کا حجم 92.4 ارب روپے تھا اور اس میں گزشتہ سال سے سالانہ ایک فیصد اضافہ ہو رہا تھا، دسمبر 2018ء کے آخر تک پاکستان میں اس طرز پر قرضے لینے والوں کی کل تعداد 62 ہزار 432 تھی جو گزشتہ سال کی نسبت 8.9 فیصد کم رہی.

امین شیخ کے مطابق دنیا میں کہیں بھی لوگ اپنے گھر تعمیر کرنے کیلئے مکمل سرمایہ کاری نہیں کرتے، پاکستان میں اس انڈسٹری میں واضح خلاء موجود ہے، دنیا میں ایسے مالیاتی ادارے موجود ہیں جو لوگوں کو گھر بنانے کیلئے سہولیات فراہم کرتے ہیں، پاکستان میں بنکوں سے رئیل اسٹیٹ کیلئے قرض لینے پر کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے.”

امین شیخ نے کہا کہ کسٹمرز کو بھاری ڈائون پیمنٹ دینا پڑتی ہے اور پھر اس امید پر قسطیں بھی ادا کرتے ہیں کہ ڈویلپر وعدے کے مطابق پروجیکٹ مکمل کرے گا کبھی کبھی تو ایسا ہو جاتا ہے لیکن اکثر نہیں بھی ہوتا، مجھے امید ہے موجودہ حکومت عوام کے رہائشی مسئلے کا بہتر حل پیش کرنے کے قابل ہے کیونکہ سبھی کو اس کی ضرورت ہے، اس مسئلے کے حل کیلئے ایک بہتر مورگیج فنانس سسٹم تشکیل دینا بھی اہم کردار ادا کریگا.

گزشتہ دو سال سے ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں گراوٹ اور دیگر وجوہات کی بناء پر گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، “ہم نے یہ منصوبہ تین سال قبل شروع کیا تھا، تب سے لیکر خام مال کی قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں، سیمنٹ کی تیاری کیلئے کوئلہ بھی استعمال ہوتا ہے جو باہر سے دالروں میں منگوایا جاتا ہے اس لیے روپے کی قدر میں کمی کا اثر اس کی درآمدی قیمت پر بھی پڑتا ہے،جس کے بعد سیمنٹ کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی روپے پر دبائو جاری رہے گا، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ عام زمین کی قیمت روپے میں زیادہ لگائی جاتی ہے جبکہ مکمل طور پر ڈویلپ شدہ پراپرٹی کی قیمت کم لگائی جاتی ہے.

اس کےعلاوہ فنانسنگ کا مسئلہ صرف خریدنے والے کیلئے ہی نہیں بلکہ ڈویلپرز بھی اس سے برابر متاثر ہوتاہے کیونکہ وہ کسی پراجیکٹ کو تعمیر کرتے وقت قرضہ نہیں لے سکتا پھر اسے مارکیٹ فنانسنگ پر انحصار کرنا ہوتا ہے، سادہ الفاظ میں یہ کہ اگر تو آپ کے پاس پروجیکٹ مکمل کرنے کا پیسہ موجود ہے تو یہ ایکویٹی فنانسنگ ہوگی لیکن اگر آپ کو انسٹالمنٹس کی ضرورت ہوتو یہ مارکیٹ
فنانسنگ ہو گی. جب قیمتیں زیادہ ہوں اور پروجیکٹ مکمل فروخت ہو جائے تو ڈویلپر بھی فائدے میں رہتا ہے لیکن اگر قیمتیں گر جائیں اور انسٹالمنٹس کا عمل بھی سست روی کا شکار ہو تو پھر پروجیکٹ بھی لمبے عرصے تک تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں. جس کی وجہ سے ناصرف رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کیلئے مسئلے پیدا ہوتے ہوتے ہیں بلکہ کسٹمر بھی کافی متاثر ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈویلپر پر انحصار کرتا ہے.

پاکستان میں بعض دفعہ ڈویلپرز پراجیکٹ کی تکمیل کی بجائے اس کی مارکیٹنگ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ یونٹ بروشر یا صرف زبانی وعدے پر ہی فروخت ہو جاتے ہیں.

امین شیخ کے مطابق نگینہ گروپ کا معاملہ مختلف ہے، “ہم اس وقت تک کوئی اپارٹمنٹ فروخت نہیں‌کرتے جب تک تعمیراتی کام مکمل نہیں‌ ہو جاتا، متعلقہ اداروں سے ہر طرح کی منظوری ملنے اور اپارٹمنٹ کے تعمیراتی کام کے اختتامی مراحل سے قبل ہم سیل شروع نہیں کرتے. تین بیڈ کے اپارٹمنٹ پر عام طور پر ڈویلپر کیلئے انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کم ہو جاتا ہے تاہم اس کی وجہ سے کسٹمر کو اچھی پروڈکٹ مل جاتی ہے.

نگینہ گروپ کی ٹارگٹ مارکیٹ کیا ہے؟
گلبرگ میں 19Q اپارٹمنٹس میں ہر ایک کی قیمت 55 ملین روپے ہے یہ جانتے ہوئے کہ لاہور کی صرف دو فیصد آبادی ایسے مہنگے اپارٹمنٹس خریدنے کی سکت رکھتی ہے. امین شیخ کے مطابق نگینہ گروپ نے ایسے کسٹمر کا انتخاب کیا ہے جو مالی طور پر مستحکم ہونے کیساتھ ایسے مہنگے طرزرہائش سے مطابقت رکھتا ہو، منصوبے کے آغاز سے ایک سال قبل ہم نے اپنے مجوزہ کسٹمرز کو ایک سوالنامہ بھیجا جس کا مقصد کسٹمرز کے مطالبات اور پسند کا پتہ چلانا تھا. اس طریقے سے دیگر بہت سی چیزوں کے ساتھ یہ چیز بھی سامنے آئی کہ کسٹمرز پارٹمنٹ طرز رہائش کا قبول ضرور کیا لیکن وہ اس بات پر تشویش کا شکار تھے کہ ان کا ہمسایہ کون ہو گا؟ ان کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں کون رہائش پذیر ہو گا.

ایسے فیصلوں کی وجہ سے ناصرف اپارٹمنٹس تیزی سے فروخت ہونگے بلکہ ڈویلپرز کو مطلوبہ نتائج بھی ملیں‌گے. امین شیخ کہتے ہیں “کہ ہر ڈویلپر آپ کو یہی بتائے گا کہ انہوں نے اپارٹمنٹ فروخت سے قبل رہائشیوں کے انٹرویوز کیے تاہم ہم نے اس سے ایک قدم آگے جا کر پروجیکٹ کو ڈیزائن ہی ایسا دیا کہ مسائل کم از کم ہو گئے، کم نے ایک اور دو بیڈ روم کے اپارٹمنٹس ہی نہیں بنائے.

چونکہ ایک اور دو بیڈ روم کے اپرٹمنٹس کی قیمتیں کم ہوتی ہیں اس لیے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں، تاہم تین بیڈ روم کے اپارٹمنٹس فروخت ہونے میں وقت لگتا ہے کیونکہ فیملیز اور ملازمت پیشہ لوگ ہی ایسے بڑے اپارٹمنٹس خریدتے ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ جتنا کوئی رہائشگاہ بنانا اہم ہے اتنا ہی اس کا ڈیزائن اور اس سے متعلق دیگر منصوبہ بندی اہم ہے.

Density کے فوائد:
نگینہ گروپ حقیقت بہترین جگہوں پر سستی رہائش فراہم کرنے اور اپارٹمنٹ بلڈنگ کے اردگرد تجارتی مراکز اور معاشی سرگرمیوں کا خیال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کر رہا ہے کیونکہ لاہوریوں کیلئے ایسی ہی جگہیں پرکشش ہوتی ہیں. امین شیخ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” اگر آبادی بڑھے تو اس کے آس پاس کاروبار بھی پھلتا پھولتا ہے، پہلے 5 افراد پر مشتمل خاندان 12 ہزار سکوئر فٹ کے کورڈ ایریا میں رہتا تھا اب اسی زمین پر 100 افراد رہتے ہیں. چھوٹی چھوٹی عمارتوں کی وجہ سے قریبی تجارتی مراکز میں بھی کاربارکو فائدہ ہوتا ہے، اب سیلونز میں خواتین کا رش ہوتا ہے، ریسٹورنٹس اور سینیما لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں.

مالی استطاعت کی بات دوسرے نمبر پر آتی ہے، امین شیخ کے مطابق ایک اتنی ہی قیمت کا گھر خود بنانا سردرد کے سوا کچھ نہیں، پہلے زمین خریدو پھر اس پر گھر تعمیر کرو. سہولت تو یہ ہے کہ گھر یا اس کیلئے زمین آسانی سے حاصل ہو جائے. گھر کی تعمیر کے بعد اس کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات دوسری بات ہے.
“ایک گھر کی حفاظت کیلئے گارڈ اور صفائی ستھرائی کا عملہ درکار ہوتا ہے، اگر گھر میں جنریٹر لگا ہے تو اس کا ایندھن اور دیکھ بھال کے اخراجات ہوتے ہیں، گھر میں سوئمنگ پول بنا ہے تو اس کیلئے علیحدہ سے بندہ چاہیے، جم بنا ہوا ہے تو اس کے سامان کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، ان سب چیزوں کا انتظام سنبھالنا کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں اور ایک گھر کے اخراجات ہی آپ کی اوقات سے بڑھ جکاتے ہیں، تاہم اپارٹمنٹ بلڈنگ میں ان سب چیزوں کا انتظام بلڈنگ مینجمنٹ ٹیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے.”

اپارٹمنٹس طرز رہائش کے حوالے سے اختلافی نقطہ نظر:
لاہوریوں کے خیالات رہائش کے حوالے سے کسی حد تک تبدیل ہوتے رہتے ہیں، فاطمہ بخاری لاہور میں رہائش پذیر ایک نفیساتی ماہر ہیں، ان کے خیال میں اپارٹمنٹ میں رہنا گھر کی نسبت زیادہ بہتر ہے. وہ کہتی ہیں، “لاہور کے جوہر ٹائون میں سکیورٹی کے حوالے سے کافی پریشانی کا سامنا رہتا ہے، گزشتہ چند برس میں ہمارے گھر دو بار چوری ہو چکی ہے، میرے خیال میں اپارٹمنٹ چوروں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں.”

زیادہ تر لوگوں میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ عام گھروں کی نسبت اپارٹمنٹس زیادہ محفوظ ہوتے ہیں، اسد احسان متحدہ عرب امارات کے کسی بینک میں ملازم ہیں تاہم ان کی فیملی لاہور میں رہتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ چوری چکاری کے حوالے سے اپارٹمنٹس زیادہ محفوظ ہیں، گھروں میں چوریاں زیادہ ہوتی ہیں.

تاہم فاطمہ اور اسد دونوں ہی کچھ وجوہات کی بناء پر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، فاطمہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپارٹمنٹس میں پرائیویسی کا کافی مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ اپارٹمنٹ بالکل ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوتے ہیں، اور اگر ہمسائے اچھے نہیں‌ تو سکیورٹی کا ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ 20 یا 30 سال کے عرصہ میں اپارٹمنٹس کو دوبارہ فروخت کرنے پر انکی قدروقیمت پہلے والی نہیں رہتی، بلڈنگ پرانی ہو جاتی ہے اور لوگ سرمایہ لگاتےہوئے ہچکچاتے ہیں.

اسد احسان بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں، وہ کہتے ہیں‌کہ گھر میں دھوپ کھانے کیلئے آپ لان میں بیٹھ سکتے ہیں لیکن اپارٹمنٹ میں یہ مزہ نہیں‌ اٹھایا جا سکتا. گھر میں لفٹ کی بھی ضرورت نہیں‌ ہوتی، لاہور جیسے شہر میں جہاں بجلی کا بھی مسئلہ رہتا ہے، یہاں آپ چھٹی منزل پر رہتے ہوں اور سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑے تو یہ بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here