وفاقی حکومت مالی سال 2019-2020ء کیلئے بجٹ آج (منگل) پیش کرنے جا رہی ہے اور اس کیلئے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنائے جانے کا امکان ہے.
اگر بجٹ تقریر سے قبل حفیظ شیخ کو وزارت دی جاتی ہے تو قوانین کے مطابق آئندہ چھ ماہ کے دوران انہیں الیکشن جیت کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا ہو گا یا پھر حکومت کو انہیں سینیٹر منتخب کرانا ہوگا.
مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کیلئے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا تھا.
اس وقت تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ “ایک غیر منتخب شخص کے ذریعے بجٹ پیش کرکے غلط مثال قائم کی گئی.”
باخبر ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ آرٹیکل 91/92 کے تحت ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے مشیر خزانہ کو وفاقی وزیر کا درجہ دلوا دے.
ذرائع کے مطابق صدر مملکت 6 ماہ کے لیے وزیر خزانہ کو تعینات کرسکتے ہیں، جس کے بعد انہیں الیکشن لڑ کر باقاعدہ رکن اسمبلی منتخب ہونا ہوگا، اس کے علاوہ حکومت بھی انہیں 6 ماہ کیلئے سینیٹر منتخب کرا سکتی ہے، اس کے علاوہ انہیں وزیر مملکت برائے خزانہ کا عہدہ دینے کا آپشن بھی موجود ہے.
آئین کے آرٹیکل 91(9) اور 92(1) کے تحت کسی ایسے مشیر کو جو قومی اسمبلی کا رکن نہیں ہے اسے حکومت 6 ماہ کیلئے وزیر کا عہدہ دے سکتی ہے، 6 ماہ کی مدت ختم ہونے سے قبل حکومت کو اس کی جگہ باقاعدہ کسی وزیر کو ذمہ داری تفویض کرنا ہو گی یا بصورت دیگر اسے الیکشن جیت کر رکن منتخب ہونا ہوگا. مسلم لیگ ن کی سابق حکومت بھی آئین کو مذکورہ آرٹیکل استعمال کر چکی ہے جب انہوں مفتاح اسماعیل کو بجٹ پیش کرنے کیلئے وزیر خزانہ بنایا تھا.
مشیر خزانہ ہوتے ہوئے حفیظ شیخ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے اجلاس کی صدارت بھی نہیں کرسکتے.