لاہور: امریکی ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد سوشل میڈیا کے صارفین نے مقامی صنعتوں کے فروغ کیلئے میڈ اِن پاکستان (Made in Pakistan) کی مہم کا آغاز کر دیا۔
سوشل میڈیا کے بلاگرز یکم جون سے 31 اکتوبر تک درآمدی مصنوعات کی خریداری کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں. مقامی تاجروں نے بھی اس مہم کا خیر مقدم کیا ہے۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے مطابق اپریل 2019ء میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 2.7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا. ملک کی مجموعی برآمدات 2.1 ارب ڈالر جبکہ مجموعی درآمدات کا حجم 4.8 ارب ڈالر تھا۔
ایک مقامی تاجر ماجد شاہ نے میڈ اِن پاکستان مہم کو سراہتے ہوئے کہا ’’میں لیدر گارمنٹس، ہینڈ بیگز اور جوتوں کا کاروبار کرتا ہوں. ہم نے کچھ مصنوعات برآمد کیں لیکن ان پر بھی غیرملکی کمپنی کا لیبل تھا. میرا خیال ہے کہ پاکستان کی لیدر انڈسٹری عالمی معیار کی مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ عوام صرف اس وجہ سے غیرملکی لیدر مصنوعات کی خریداری کرتی ہے کیونکہ ان بین الاقوامی برانڈز کے پیچھے مضبوط مارکیٹنگ کمپین شامل ہے۔
’’پاکستان میں ہمارے پاس ایسی مارکیٹنگ تکنیکوں کا فقدان ہے. میرا خیال ہے کہ نوجوان نسل کا اس مہم کو شروع کرنے کا فیصلہ قابل تحسین ہے. اس سے یقیناً معیشت کی ترقی اور مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا۔‘‘
ریڈی میڈ کپڑوں کے ایک تاجر قاسم رضا کا کہنا ہے ’’میڈ ان پاکستان مہم میں ہماری معاشی بقاء یقینی ہے لیکن ہماری عوام کو اس اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ درآمدی ملبوسات کی وجہ سے پھر چاہے وہ سلے ہوئے ہوں یا بغٍیر سلے ہوئے ہمارے کاروبار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں. ہمیں اس وقت مقامی مصنوعات کیلئے ایک متاثر کُن مہم سازی کی ضررت ہے۔‘‘
ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی ایک رہائشی انعم فاطمہ کا کہنا ہے ’’میں پاکستانی مصنوعات کا استعمال کرتی ہوں اور مجھے ان میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ وجہ بس اتنی سی ہے کہ درآمدی مصنوعات کو مارکیٹ ہی کچھ اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ امپورٹڈ ہیئر آئل، صابن، کاسمیٹکس، کوکنگ آئل اور دیگر مصوعات استمال کرنے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے جبکہ ہمارے یہاں اچھی اور معیاری مصنوعات بھی ملتی ہیں۔‘‘
سوشل میڈیا ایک فعال صارف کاشف قریشی نے کہا ’’پاکستان کی تین بڑی برآمدی مصنوعات صوتی کپڑا، چاول اور نان ریٹیل خالص کپاس ہیں جبکہ کولڈ ڈرنکس سے لے کر گاڑیوں اور الیکٹرانکس جیسی مصنوعات کی ایک وسیع فہرست ہے جنہیں ہم درآمد کرتے ہیں۔ ہمیں اِن کی بجائے پاکستانی مصنوعات خریدنی چاہیئیں۔‘‘
معاشیات کے پروفیسر ریاض احمد کہتے ہیں ’’میرے مطابق یہ بہترین وقت ہے کہ ہم روز مرہ استعمال میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیاء کو نظرانداز کر دیں کیونکہ درآمدی اشیاء کی خریداری افراط زر میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’میں اس مہم کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہوں اور میرے خیال میں سب کو میڈ ان پاکستان مہم کا حصہ ہونا چاہیئے۔‘‘