امریکہ تائیوان میں دخل اندازی سے باز رہے: چین کا انتباہ

581

چین کے وزیر دفاع ‘وی فینگی’ نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ تائیوان کے معاملے پر دخل اندازی سے گریز کرے۔ ان کے بقول اگر امریکہ کے ساتھ جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کی بدقسمتی ہو گی۔
چین کے وزیر دفاع کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے خود مختار تائیوان کی حمایت کرتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین میں اپنی بحری نقل و حمل میں اضافہ کیا ہے جس پر چین برہم ہے۔
سنگا پور میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے اس کے اور تائیوان کے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو چین آخری وقت تک لڑے گا۔
واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے تاہم اس کے اور تائیوان کے درمیان بحیرہ جنوبی چین میں امریکی نقل و حمل ماضی میں بھی جاری رہی ہے۔
امریکہ کے براہ راست تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم وہ امریکہ سے اسلحے کا خریدار رہا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کے دوران چین کے وزیر دفاع نے کہا کہ چین حملے میں کبھی پہل نہیں کرے گا لیکن اگر اس پر حملہ ہوا تو اپنا بھرپور دفاع کرے گا۔ وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ امریکہ کے ساتھ جنگ کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
اس سے قبل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر دفاع پیٹرک شناہن نے کہا تھا کہ ایشیا میں چین کے رویے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے دبے لفظوں میں چین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
فوجی وردی زیب تن کیے چین کے وزیر دفاع نے قدرے جارحانہ انداز میں امریکی وزیر دفاع کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین کو تقسیم کرنے کی کوششیں کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر چین اور تائیوان کو الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو فوج کے پاس سوائے لڑنے کے کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے، حال ہی میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سو ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کردیے تھے۔
امریکی کمپنی ‘گوگل’ نے چین کی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے لیے اپنی سروسز بھی معطل کردی تھیں جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کا یہ موقف رہا ہے کہ چین نے اپنے معاشی منصوبوں میں اصلاحات کے وعدوں پر عمل نہیں کیا جس سے امریکی کسانوں کا استحصال ہو رہا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here