پروفیسر صفدر اے بٹ اسلام آباد کی کیپٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں فنانس اور کارپوریٹ گورننس پڑھاتے رہے ہیں اور حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں publicly listed کمپنیوں میں بطور ڈائریکٹر تعینات ہونے والے 60 فیصد سے70 فیصد افراد ان کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز کے فیملی ممبرز ہی ہوتے ہیں.
پاکستان میں کمپنی ڈائریکٹرز کی اکثریت اقرباء پروری کی بنیاد پر تعینات کی جاتی ہے، یہی پروفیسر صفدر اے بٹ کی نئی کتاب A Handbook for Company Directors in Pakistan کا موضوع ہے. پہلی نظر میں ضخیم نظر آنے والی اس کتاب کے اندر دراصل وہی سارا کچھ ہے جو اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے، یہ ملک میں کارپوریٹ گورننس کے فکری محافظوں (directors) کے لیے ایک ہینڈ بک ہے.
اس کتاب میں کسی کمپنی کی ‘سٹریٹجک ڈائریکشن’ لیکر ‘رسک مینجمنٹ’ اور ‘کمپنی اور معاشرے’ تک تمام موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور بحرانی دور میں کسی بھی کمپنی ڈائریکٹر کیلئے یہ کتاب بہترین مددگار ثابت ہو سکتی ہے. جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دو تہائی کمپنیوں کے ڈائریکٹرز خاندان کے اندر سے ہی لیے جاتے ہیں تو کسی بھی کمپنی ڈآئریکٹر کیلئے یہ غلط نہیں ہو گا کہ وہ اس کتاب کو اپنی الماری میں رکھے کیونکہ کسی بھی وقت اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے.
پروفیسر بٹ کے مطابق، جبکہ ڈائریکٹرز قانونی طور پر کمپنی کے اصول و ضوابط کے ذمہ دار ہوتے ہیں، کوئی بھی کمپنی چلانا آسان ہوتا ہے نا ہی خطرے سے خالی ہوتا ہے.
“منافع” کو ایک انٹرویو میں پروفیسر بٹ نے بتایا کہ “زیادہ تر ڈائریکٹرز کام کرنا نہیں جانتے، کسی وجہ سے ہمیں حقیقت کا احساس نہیں ہو پاتا کیونکہ کمپنی ڈائریکڑ کے طور پر انہیں پوزیشن پر بٹھانے والے خاندان کے افراد یا دوستوں کو ہی نہیں دیگربہت سے لوگوں کو بھی جواب دہ ہونا پڑتا ہے.”
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں میں بہت کم انڈرسٹینڈنگ نظر آتی ہے جن کو اصل میں ڈائریکٹر کی نوکری کی پیشکش ہوتی ہے کیونکہ اس کا مطلب چند اجلاسوں میں حاضری لگوانا یا دن کے اختتام پر پے چیک لے جانا نہیں ہوتا بلکہ بطور ڈائریکٹر آپ ہر چیز کے ذمہ دار اور جواب دہ ہوتے ہیں.
پروفیسر بٹ کے مطابق یہ کتاب اس لیے ضروری تھی کیونکہ لوگ، یہ جانے بغیر کہ اس نوکری میں کیا ذمہ داریاں شامل ہیں اور کس قسم کے خطرات درپیش ہیں، ڈائریکٹر کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں. اگر کسی شخص کو ڈائریکٹر بننے کا تجربہ نہیں ہوا یا جیسا پاکستان میں اکثر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں یہ کتاب مفید ثابت ہو سکتی ہے.”
پرفیسر صفدر اے بٹ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں ڈائریکٹرز کیلئے اس قسم کی 40 کتابیں دستیاب ہیں لیکن پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے.
حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کی کتاب کی پاکستان میں کس قدر ضرورت تھی، اب یہ کتاب پاکستان میں مفت دستیاب ہے، ہائی ٹیک لبرویکنٹس لمیٹڈ نے سوشل رسپانسی بیلٹی پروجیکٹ کے طور پر اپنے مرحوم ڈائریکڑ محمد باسط کی یاد میں اس کتاب کی اشاعت کیلئے فنڈنگ مہیا کی ہے.
پروفیسر بٹ کے مطابق اخلاقیات اور قانون ہمیشہ ایک صفحے پر نہیں ہوتے، بطور ڈائریکٹر بعض اوقات ہو سکتا ہے آپ سوچیں کہ جو آپ جو کر رہے ہیں وہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے اور ذہنی طور پر آپ اسے بالکل جائز سمجھتے ہوں لیکن ممکن ہے کہ آپ اس طرح قانون توڑ رہے ہوں، فرض کیا کہ آپ ایک ڈائریکٹر ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے چار میں سے تین مینجرز بونس کے مستحق ہیں آپ اپنے طور پر تو اسے ٹھیک سمجھ رہے ہیں لیکن جب تک بونس دینے کا کوئی طریقہ کار طے نہیں ہو جاتا تو آپ کی مرضی کے باوجود یہ مجرمانہ رویہ قرار پائے گا.
آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہاں کوئی بھی یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ ہر چیز نہیں جانتا بلکہ اکثر لوگ باور کراتے ہیں کہ وہ دنیا و مافیہا کی ہر چیز سے متعلق جانتے ہیں یہی زعم بعد میں ان کیلئے پچھتاوا بن جاتا ہے، پرفیسر بٹ کی یہ کتاب ایسے ناگوار حالات سے باز رہنے کیلئے ہی ہے.
ایک کارپوریٹ سوشل رسپانسی بیلیٹی (corporate social responsibility) پروجیکٹ سے شروع ہونے والی یہ کتاب مکمل سنجیدگی سے لکھی گئی ہے، پاکستان میں کاروبارکے قوانین اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے معیارات کے حوالے سے مکمل جانفشانی سے تحقیق کی گئی ہے اور اس کتاب کی ایک کاپی اپنے پاس رکھنا کسی بھی ڈائریکٹر کیلئے بہت اچھا آئیڈیا ہوگا. گو کہ یہ عام قارعین کی دلچسپی کی چیز نہیں تاہم پھر بھی عام قارعین کو پاکستان میں کاروبار کے حوالے سے بیش قیمت معلومات مل سکتی ہیں.
یہ کتاب کارپریٹ سوشل رسپانسی بیلیٹی کا نتیجہ ہے جس سے متعلق پروفیسر بٹ نے بالکل صاف صاف لیکن مکمل جذبے کے ساتھ لکھا ہے. وہ کارپریٹ سوشل رسپانسی بیلیٹی کو ایک سرمایہ کاری قرار دیتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ جو کمپنی اپنے ملازمین کا خیال رکھتی ہے اس کی شہرت اچھی ہوتی ہے، اس کے ملازمین خوش ہونگے اور زیادہ دلجمعی سے کام کریں گے اور لوگ دیگر کمپنیوں کی نسبت ملازمین کا خیال رکھنے والی کمپنی کو ترجیح دیں گے.
لیکن یہ کہنے جتنا سادہ نہیں ہے، پاکستان میں پروفیسر بٹ کو اس آئیڈیا کے حوالے سے بے شمار ناکامیاں دیکھنے کو ملیں. کتاب میں وضاحت کی گئی ہے کہ زیادہ تر ایگزیکٹوز اسے خیرات کے طور پر لیتے ہیں لیکن یہ خیرات نہیں ہے. اس کی بجائے یہ ایک ایسا وضع شدہ اور نپا تلا راستہ ہے جس پر چل کر کوئی آرگنائزیشن اپنی معاشرتی ذمہ داری ادا کرتی ہے. آپ اچھا کام کریں لیکن کوشش کریں مزید اچھا ہوجائے.
اس کے علاوہ اس کتاب میں کاروباری اخلاقیات اور کارپریٹ فراڈ پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے. کتاب میں وِسل بلوئنگ کے حوالے سے بھی وضاحت کی گئی ہے. اس میں بتایا گیا ہے کہ کمپنی سٹاف کو اس کے آڈیٹرز کی طرح اچھا ہونا چاہیے کیونکہ وِسل بلوئنگ آج کل قانونی تقاضا ہے.
کمپنی ڈائریکٹر کے لیے مددگار ہونے کے علاوہ کتاب میں مکمل کاروباری تجاویز بھی دی گئی ہیں. کتاب میں چیزوں کی تشہیر سے لیکر کاروباری اخلاقیات، بزنس کے طریقوں، کمپنی میں شفافیت اور پیشہ واریت جیسے موجوعات پر جامع بحث کی گئی ہے.