وہ وسط مارچ کی ایک گرم دوپہر تھی جب میں نماز جمعہ کے بعد مسجد سے باہر ایک تنگ سی جگہ پر پھنس گیا. مجھے شاہراہ قائدین کی طرف جانا تھا جو شاہراہ فیصل سے مزار قائد کی طرف جاتی ہے. سڑک پر پہنچ کر میری نظر کراچی یونیورسٹی کی طالبات سے بھری ہوئی ایک بس پر پڑی، ایسا لگتا تھا جیسے یہ یونیورسٹی کی بس نہیں بلکہ تیلیوں سے بھرپور کوئی ماچس کی ڈبیا ہے.
ایک لمحے کیلئے میں نے خود کو خوش قسمت محسوس کیا تاہم اگلے ہی لمحے یہ احساس شرمندگی میں بدل گیا، میرے ذہن میں خیال آیا کہ مجھے موٹرسائیکل چلانے کی آزادی کیوں حآصل ہے جبکہ یہ خواتین آنے جانے کیلئے بس استعمال کرنے پر مجبور ہیں.
دنیا بھر میں موٹرسائکل زیادہ تر مردوں کی سواری ہے، امریکا کی موٹرسائیکل انڈسٹری کونسل کے مطابق امریکا میں ایک عشرہ قابل 10 میں سے ایک خاتون کے پاس موٹرسائیکل تھی تاہم اب ہر 5 میں سے ایک خاتون موٹرسائیکل چلاتی ہے، اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ جلد امریکا میں ایک چوتھائی خواتین موٹرسائیکلیں چلا رہی ہونگی جو کہ امریکا میں موٹرسائیکل استعمال کرنے والے افراد کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی ہوگی.
پاکستان میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ کتنی خواتین کے پاس ذاتی موٹرسائیکلیں ہیں یا کتنی خواتین موٹرسائیکلیں چلاتی ہیں. انڈسٹری ذرائع کے مطابق تو تعداد بالکل ناقابل ذکر ہے. پاکستان میں 15 لاکھ موٹرسائکلیں استعمال ہو رہی ہیں جن میں سے صرف مٹھی بھر خواتین استعمال کر رہی ہیں.
یہ صورتحال ایک بڑے سماجی و اقتصادی مسئلے کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ ایسے ماحول میں جہاںاب بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کاریں خریدنے کی سکت نہیں رکھتی اور زیادہ تر شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بھی کمی ہے.
ابھی تک خواتین موٹرسائیکل کیوں نہیں چلاتی ہیں؟
“منافع” کو انٹرویو دیتے ہوئے یونیورسٹی آف کراچی میں معاشیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر نورین مجاہد نے کہا کہ طالبات کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے. اپنی گاڑی ہو تو طلباء کا کافی وقت بچتا ہے خاص طور پر طالبات کیلئے کیونکہ وہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا قبول عام ذریعہ استعمال کرتی ہیں.
انہوںنے کہا کہ طالبات کو یونیورسٹی آنے یا گھر جانے کیلئے گھنٹوں یونیورسٹی بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے. بہت کم لڑکیاں اپنی کاروں پر یونیورسٹی آتی ہیں، کیونکہ زیادہ تر لڑکیاں کار رکھنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتی ہیں، انہوںنے اندازاََ بتایا کہ یونیورسٹی آف کراچی میں صرف 40 فیصد لڑکیاں سکوٹر لینے کی استطاعت رکھتی ہوں گی جبکہ اس کی قیمت بھی 70 ہزار روپے تک ہوتی ہے.
مدیحہ حسن “پنکھ” کے نام سے خواتین کیلئے موٹرسائیکل ٹریننگ سینٹر چلاتی ہیں، یہاں اب تک 500 خواتین موترسائیکل چلانا سیکھ چکی ہیں. مدیحہ کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں خواتین سکوٹر کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ اسے چلانا آسان ہوتا ہے اور وہ زیادہ وزنی بھی نہیں ہوتا.
تاہم پروفیسر نورین مجاہد کہتی ہیں کہ سماجی اور ثقافتی مسائل کی وجہ سے سکوٹر کو خواتین کے لیے بطور ذریعہ نقل و حمل عام ہونے میں وقت لگے گا. لیکن میں نے یونیورسٹی کمپس میں چند لڑکیوں کو سکوٹر چلاتے دیکھا ہے.
تاہم خواتین میں سکوٹر کا استعمال بڑھانے کیلئے بہت سے دیگر ایسے عوامل ہیں جن پر اسی سمت میں کام کرنا ہوگا، مثال کے طور پر بہت سی لڑکیوں پر کار چلاتے ہوئے بھی خوف آتا ہے چہ جائیکہ وہ اکیلی سکوٹر یا موٹرسائیکل چلائیں، کیونکہ موٹرسائیکل یا سکوٹر پر تو حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے خواتین کو ڈرائیونگ سیکھنے کے مواقع دینے کی ضرورت ہے.
انہوںنے مزید کہا کہ معاشرے کو بھی تیار کرنا ہو گا کہ وہ خواتین کے سکوٹر چلانے کو قبول کرے. ان کا خیال ہے کہ جو 40 فیصد لڑکیاں سکوٹر خریدنے کی استطاعت رکھتی ہیں وہ ٹرانسپورٹ کیلئے یہ طریقہ اپنا لیں گی.
معاشرتی پابندیوں کو توڑنا:
کراچی میں موجود ایک تھنک ٹینک اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر زاہد فاروق کہتے ہیں کہ خواتین برابر کی ٹرانسپورٹ کیلئے کوشاں ہیں اور موٹرسائیکل چلانا اس سلسلے میں مددگار ہوگا یوں معاشرتی پابندی بھی جلد ختم ہو جائے گی، انہیں اپنے خیال پر مکمل اعتماد ہے.
وہ کہتے ہیں کہ 1977ء سے قبل بڑی تعداد میں خواتین سائیکلوں پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتی تھی. خواتین کے موٹرسائکل چلانے پر پابندی بھی دو یا پانچ سال میں ختم ہو جائے گی. انہوں نے کچھ خواتین وکلاء کی مثال دی جو کراچی سٹی کورٹ کے پاس موٹرسائیکل چلاتی دیکھی جا سکتی تھیں.
زاہد فاروق نے کہا کہ خواتین کو دفتر یا یونیورسٹی سے پک کرنے کیلئے انہیں شوہر یا خاندان کے کسی مرد کا گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے. بچے والد پر انحصآر کرتے ہیں اور خاتون خانہ کو اگر گروسری منگوانا ہو تو شوہر کا انتظار کرنا پڑتا ہے، خواتین کو متحرک کرکے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے.
انہوں نے انڈیا، سری لنکا اور اسلامی ملک انڈونیشیا کی مثال دی جہاں خواتین سکوٹرز چلاتی ہیں. انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہماری خواتین ضرورت کے تحت اس ‘لگژری’ سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتیں؟
فاروق کہتے ہیں کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال کو فوری بہتر کرنے کی ضرورت ہے وہاں خواتین کو موٹرسائیکل چلانے کی سہولت دیکر مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے.
اس حوالے سے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ کتنی خواتین موٹرسائیکل خریدتی ہیں، تاہم انڈسٹری کے اندازوں کے مطابق ملک میں موٹرسائیکلوں کی کل تعداد میں سے ایک فیصد سے بھی کم خواتین استعمال کرتی ہیں.
خواتین ذمہ داری اٹھا رہی ہیں:
کراچی کی مرینہ سید خواتین کو بااختیار بنانے کے مشن پر ہیں، وہ خواتین کو موٹرسائیکل چلانے کی تربیت دیتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ کار ہونے کے باوجود وہ موٹرسائیکل چلانا پسند کرتی ہیں کیونکہ اس سے کافی وقت بچ جاتا ہے، اگر کہیں کار سے جانا ہو تو ایک گھنٹہ پہلے نکلنا ہو گا، موٹرسائیکل پاس ہو تو 15 منٹ لگیں گے اور پھر کار پارکنگ بھی اپنی نوعیت کا ایک مسئلہ ہے.
مرینہ اقراء یونیورسٹی میں بزنس کی طالبہ ہیں، انہوں نے 2017ء میں جب ذاتی بچت سے سکوٹر خریدا تو فیملی اور دوستوں نے کافی ناک بھوں چڑھائی، اب ان کے پاس 70 سی سی بائیک ہے، لیکن وہ اپنے سٹوڈنٹس کو سکوٹر خریدنے کا کہتی ہیں کیونکہ وہ ہلکا ہوتا ہے اور حادثے کی صورت میں سوار کسی حد تک کم زخمی ہوتا ہے.
مرینہ کہتی ہیں کہ لوگ آپ کو کچھ نہیں کرنے دیں گے، یہی سننے کو ملے گا کہ لوگ کیا کہیں گے. آپ کو ڈرائیں گے کہ حادثے میںآپکا ہاتھ یا ٹانگ ٹوٹ سکتی ہے. لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ موٹرسائیکل چلائوںکی تو پھر میں نے کر کے دکھایا. خواتین کو دفاتر یا یونیورسٹی جانے کیلئے بھائیوں، باپوں اور شوہروں ہر انحصار نہیں کرنا چاہیے.
مرینہ نےحال ہی میں ٹریننگ سینٹر کھولا ہے اور ان کے پاس 13 لڑکیاں سکوٹر چلانا سیکھ رہی ہیں. وہ کہتی ہیں کہ لڑکیاں عموماََ سیکھ جاتی ہیں تاہم بڑی عمر کی خواتین جلدی ڈر جاتی ہیں. جب ایکسلریٹر پر دبائو پڑتا ہے اور موٹرسائیکل کی آواز تیز ہوتی ہے تو وہ ڈر جاتی ہیں اور اکثر نے تو کامیابی سے موٹرسائکل کا توازن بنانا سیکھ لیا تاہم پھر چھوڑ گئیں.
مرینہ کے پاس زیادہ تر مڈل کلاس لڑکیاں آتی ہیں اور وہ سوچتی ہیں کہ انہی خواتین کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ عموماََ امیر خواتین کو ٹرانسپورٹ کے ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا.
انہوں نے بتایا کہ ایک لڑکی دو بسیں تبدیل کرکے اپنی ماہ کےساتھ ایک گھنٹے کا سفر طے کرکے موٹرسائیکل سیکھنے آتی ہے، اس کی ماں نے مجھے کہا کہ میں اس کی بیٹی کو پہلے سائیکل چلانا سکھانے کی بجائے براہ راست موٹرسائکل ہی سکھائوں کیونکہ ان سے اتنا لمبا سفر کرکے آنا مشکل ہے، یہ تکلیف دہ بات تھی لیکن میں تربیت کے اصول مدنظر رکھتی ہوں اس لیے ان کی بات نہیں مانی.
اداکارہ اور سماجی کارکن فریال گوہر کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں صنفی تقسیم بہت گہری ہے، عام طور پر ثقافتی اقدار کی وجہ سے خواتین کی خود سے نقل و حرکت پر محدود کر دی جاتی ہے. انہوں نے کہا خواتین میں سکوٹر چلانے کی حوصلہ افزائی کیلئے مخصوص ساخت کے سکوٹرز بنانے ہوں گے، خواتین کی آسانی کیلئے سائیکلیں ایسی بنائی جاتی ہیں جن کی سیٹ اور ہینڈل کے درمیان کو سلاخ نہیں ہوتی لیکن یہ وکٹرین سٹائل تھا، شائد موٹرسائیکلوں کو ایسےبنانے کی ضرورت نہ پڑے، تاہم ہو سکتا ہے یہ روایتی خاندانوں کیلئے اچھا آئیڈیا ہو.
انہوں نے کہا کہ لاہور می کچھ خواتین سکوٹر چلا رہی ہیں، دہلی اور ممبئی تو بہت زیادہ خواتین ذاتی سکوٹر چلاتی ہیں، میرا نہیں خیال کہ کم ہارس پاور کے سکوٹر چلانے میں خواتین کو کوئی مسئلہ ہو گا کیونکہ اسے کنٹرول کرنا بھی آسان ہوتا ہے.
فریال گوہر نے کہا کہ سماجی روایات کو بدلنا ہو اور یہ بدلی بھی جا رہی ہیں.
سکینہ اشفاق حسین ایک ٹیچر، ہائوس وائف اور چار بچوں کی ماں ہیں، وہ سکوٹر چلانے کا شوق رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ “روزمرہ کے کاموں میں سکوٹر میرے لیے بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے. میں بچوں کو سکوٹر پر ہی سکول چھوڑتی اور لیکر آتی ہوں، کام پر جائوں یا شاپنگ کرنے خود بھی سکوٹر پر جاتی ہوں، مجھے نا تو اپنے شوہر کو پک اینڈ ڈراپ کیلئے زحمت دینا پڑتی ہے نا پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے پریشانی اٹھانا پڑتی ہے بلکہ سکوٹر چلا کر میں خود کو کافی آزاد محسوس کرتی ہوں.”
سکینہ کے نزدیک سکوٹر کا سب سے بڑا فائدہ پارکنگ کے مسئلے کا نا ہونا ہے، وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک سستا اور قابل برداشت ذریعہ نقل وحمل ہے. انہوںنے کہا کہ “پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا ایک سردرد ہے، اس لیے ذاتی ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا، میں نے اکبر مارکیٹ سے 70 سی سی سکوٹر خریدا جس پر میں برقعہ پہن کر بھی آجا سکتی ہوں.”
سکینہ کو اس معاملے میں اپنے خاوند کی تائید بھی حآصل رہی، محلے میں بعد ازاں انہیں پائلٹ کہا جانے لگا کیونکہ وہ اپنے چار بچوں کو بٹھا کر بائیک چلا سکتی ہیں.
دوسری کئی خواتین کی طرح سکینہ کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی، لیکن ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی، وہ بتاتی ہیں کہ ایک بار مزار قائد کے اطراف میں جا رہی تھیں تو ایک شخص نے ان کی ہمت کی داد دیتے ہوئے انہیں ہیلمٹ تحفتاََ دے دیا.
پنکھ کی مدیحہ حسن نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کے موٹرسائیکل نہ چلانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ معاشرہ یہ طے کرتا ہے کہ خواتین کو ٹرانسپورٹ کیلئے کیا استعمال کرنا چاہیے. انہوںنے کہا کہ “بطور معاشرہ ہم بہت زیادہ صنفی تعصب کا شکار ہیں، موٹرسائیکل مردوں کیلئے ٹھیک اور خواتین کیلئے خطرناک ہیں، کوئی مرد موٹرسائیکل چلا رہا ہو تو کوئی نہیں دیکھےگا لیکن کوئی خاتون موٹرسائیکل چلا رہی ہو تو ہر کوئی کام کاج چھوڑ کر اسے دیکھنے لگ جائے گا جیسے وہ کچھ غیر معمولی کر رہی ہو. بہ حیثیت قوم ہمیں خواتین کو عام زندگی میں زیادہ جگہ دینا ہوگی.”
مدیحہ کہتی ہیں کہ سماجی پابندیوں کو ختم کرنے کیلئے مڈل کلاس علاقوں میں تربیتی مراکز بنانا ہونگے، خواتین صرف تربیت کیلئے ہی گھروں سے ایک بار نکل پڑیں تو وہ پراعتماد ہو جائیں گی اور پھر وہ موٹرسائیکل بھی چلا سکیں گی.
جو مرد اس خیال کی تائید کرتے ہیں انہیں ساتھ ملایا جا سکتا ہے اور جب لوگ دیکھیں گے کہ مرد اس خیال کے حامی ہیں تو پھر سب کچھ معمول پر آ جائیگا اور لوگوں کا ذہن بھی بدل جائیگا.
مدیحہ کیمطابق آہستہ ہی سہی رجحان بدل رہا ہے جو کہ ایک اچھی چیز ہے، پہلے ایک بھی خاتون بائیک چلاتی نظر نہیںآتی تھی اب بہت ساری نظر آنے لگی ہیں، وقت کیساتھ یہ رجحان زور پکڑے گا.
موٹرسائیکلوں کیلئے مارکیٹ:
گزشتہ سال پاکستان میں 2.3 ملین موٹرسائیکل فروخت ہوئے لیکن کسی خاتون نے ذاتی استعمال کیلئے کم ہی خریدا ہوگا، اس کی وجہ کوئی بھی موٹرسائیکل ڈیلر بآسانی بتا سکتا ہے.
ایک ڈیلرشپ مینجر نے بتایا کہ اسے کام کرتے تین سال ہو گئے ہیں لیکن اس نے کسی خاتون کو اپنے لیے موٹرسائیکل خریدتے نہیں دیکھا اگرچہ کئی خواتین آتی ہیں لیکن وہ اپنے مرد رشتہ داروں کیلئے موٹرسائیکل خریدنے آتی ہیں.
مردوں کو قسطوں پر بآسانی موٹرسائیکل مل جاتی ہے لیکن جب خواتین کو قسطوں پر موٹرسائیکل فراہمی کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈیلرشپ کے ملازم نے واضح ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیااور بہانہ یہ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ خاتون کے پاس لائسنس نہ ہو، تاہم لائسنس والا بہانہ مردوں کو موٹرسائیکل بیچنے ہوئے نہیں کیا جاتا.
ایسوسی ایشن آف موٹرسائیکل اسمبلرز (APMA) کے چیئرمین محمد صابر شیخ کے مطابق یونائٹڈ موٹرز کی ایک اچھی موٹرسائیکل ایک لاکھ دس ہزار کی ہے، سوپر پاور کی 70 ہزار روپے کی مل جاتی ہے لیکن مارکیٹ ذرائع کے مطابق یہ زیادہ بہتر نہیں. لائسنس اور رجسٹریشن کی زیادہ سے زیادہ فیس 5 ہزار ہے.
انہوں نے کہا کہ “سکوٹر اس لیے مہنگے ہیں کیونکہ وہ مکمل یونٹ (Completely Built Units) کے طور پر درآمد کیے جاتے ہیں اور ان پر 50 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہوتی ہے، اگر حکومت خواتین کے موٹرسائیکل چلانے کی حوصلہ افزائی کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کسٹم ڈیوٹی 25 کر دے اور صرف CKD یعنی (Completely Knocked Down) امپورٹ کی اجازت دے.
انہوں نے کہا کہ جو بائیکس مرد استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ 45 ہزار میںمل جاتی ہیں لیکن خواتین کے لیے متبادل موٹرسائیکلیں مہنگی ہیں.
یونائٹڈ موٹرز مارکیٹنگ کے سربراہ سلام اللہ نے اعتراف کیا کہ مردوں کی نسبت خواتین کیلئے موٹرسائیکلوں کی قیمتیں زیادہ ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سکوٹرز کی پیداوار میں کمی ہے. انہوں نے بتایا کہ نواز حکومت نے خواتین کے لیے سکوٹر فراہم کرنے ان کے ساتھ ایک منصوبہ تیار کیا تھا جب انہوں نے اس کا ٹھیکہ حاصل کیا، جس کے مطابق طالبات، وکلاء، ملازمت پیشہ خواتین کیلئے سکوٹر فراہم کیے جانے تھے لاہور کیلئے 10 ہزار یونٹ جبکہ پورے پنجاب کیلئے 50 ہزار یونٹس کا منصوبہ تھا جو بعد میں ملک بھر میں شروع کیا جاتا لیکن پانامہ سکینڈل کے بعد حکومت بحران کا شکار ہوگئی اور نئی حکومت آنے سے منصوبہ بھی ملتوی ہوگیا.
انہوں نے کہا کہ ٹینڈر کی وجہ سے ہم نے بڑے پیمانے پر پروڈکشن کا آغاز کرنا تھا تاہم بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، موجودہ حکومت کے ساتھ ایسا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں.
سلام اللہ نے کہا کہ یونائٹڈ موٹرز نے پہلے 100 سی سی کیساتھ 80 سی سی موٹرسائیکل متعارف کروائی تھی لیکن چھوٹے انجن کے سکوٹر کی طلب کم تھی اس لیے ہم ماڈل ختم کرنے پر مجبور ہو گئے، اب ہم صرف 100 سی سی موٹرسائیکل ہی تیار کر رہے ہیں.
انہوں نے کہا کہ صرف یونائٹڈ موٹرز ہی واحد کمپنی ہے جو خواتین کے لیے سکوٹرز بناتے ہوئے مخصوص ڈیزائن اور ان کی ضروریات کا خیال رکھ رہی ہے، کلچ، ٹیوبز، ٹائر وغیرہ بناتے ہوئے خواتین کی ضروریات کو مدنظر رکھا جاتا ہے.
سلام اللہ کے مطابق 70 سی سی سے کم پاور کی بائیکس یا سکوٹر رجسٹر ہو سکتے ہیں نا ہی سڑکوں پر لائے جا سکتے ہیں. ریگولیٹری رکاوٹوں کی وجہ سے کمپنیوں کیلئے چھوٹے سکوٹر بنانا مشکل ہو گیا ہے، تاہم ایسا نہیں ہے کہ چھوٹے سکوٹرز کی طلب نہیں ہے.
وقاص ملک، جو کہ پاکستان میں جاپانی سکوٹرز کے سب سے بڑے درآمد کنندہ ہیں، کہتے ہیں کہ گزشتہ سال انہوں 49 سی سی انجن والے 300 سکوٹر پاکستان کے مخلتف حصوں میں فروخت کیے جن کی زیادہ سے زیادہ رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے. یہ سکوٹر طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے اسمگل کرکے لائے گئے تھے.
یہ سکوٹر 50 ہزار سے کم قیمت میں بیچے گئے، چونکہ یہ 50 سی سی سے کم ہیں اس لیے پاکستان میں رجسٹریشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، قانونی طور پر یہ سکوٹر سائیکل کی طرح ہیں جن پر کوئی کسٹمز ڈیوٹی لگتی ہے، رجسٹریشن ہوتی ہے نا ہی لائسنس بنوانا پڑتا ہے. وقاص ملک کہتے ہیں کہ ان کے گاہکوں میں 80 فیصد خواتین ہیں، وہ چھوٹے علاقوں چنیوٹ جھنگ وغیرہ میں ایسی خواتین کو جانتے ہیں جو میڈیکل کے شعبوں میں کام کرتی ہیں یا طالبات ہیں.
سکوٹرز ابھی تک بند کیوں نہیں کیے گئے؟
The Hindu Business Line کے ایک آرٹیکل کے مطابق بھارت میں اب بھی بغیر گئیر کے سکوٹر چلتے ہیں جو چار دہائیاں قبل یعنی 1980ء سے پہلے کے ہیں. اس وقت یہ Kinetic Honda برانڈ کا حصہ تھا. یہ خواتین کے لیے نقل و حمل کا پہلا ذریعہ تھا، یہ اس وقت ہوا جب ہونڈا نے Activa کے ساتھ ملکر بغیر گئیر کے سکوٹر متعارف کرائے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین نے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن مردوں نے سکوٹر پر بیٹھنا اپنی ہتک سمجھا، Activa نے شہروں میں خواتین کو سکوٹرز فراہم کرکے بااختیار بنایا اور وقت گزرنے کے ساتھ دیگر کمپنیاں بھی اس کاروبار میں آ گئیں.
ایک عشرہ پہلے پاکستان میں بھی سکوٹرز کی بڑی مارکیٹ تھی تاہم اب ختم ہو کر رہ گئی ہے، Piaggioکمپنی کا بنایا گیا Vespa پاکستان میں بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا تاہم فروخت میں کمی کی وجہ سے 20 سال قبل بند کر دیا گیا، شبیر شیخ کے مطابق آزاد کشمیر میں پروڈکشن پلانٹ سے ویسپا کی پیداوار 40 سال جاری رہی، اصل میں یہ وہیکل کم ٹریفک والی سڑکوں کیلئے زیادہ سازگار تھی، عشروں تک یہ پاکستان میں مشہور رہا، چونکہ زیادہ ٹریفک والی سڑکوں پر ویسپا چلانا مشکل تھا اس لیے اس کی فروخت میں کمی کی بڑی وجہ بھی یہ تھی. اس کے علاوہ زیادہ تر ویسپا خواتین کی بجائے مردوں کیلئے ڈیزائن کیے گئے تھے، یہ بھاری ہونے کی وجہ سے خواتین کیلئے چلانا مشکل تھا.
بجلی پر چلنے والا سکوٹر:
شبیر شیخ کہتے ہیں کہ اب جبکہ دنیا بجلی کی کاروں کی طرف جار ہی ہے تو حکومت کو بھی مقامی مینوفیکچررز کو اس حوالے سے سہولتیں دینی چاہیے کیونکہ پاکستان کے آٹو پارٹس مینوفیکچررز انجن کے سوا ہر چیز بنا سکتے ہیں اور بجلی کی کاروں میں انجن کی ضرورت ہی نہیں.
انہوںنے کہا کہ پاکستان میں تین جاپانی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور جب بھی آٹو انڈسٹری سے متعلق پالیسی کی بات آئے گی وہ کبھی بھی انجن کو مکمل ختم کرنے کی حمایت نہیں کرینگی. چین بجلی کی کاروں پر کافی کام کر رہا ہے، جرمنی میں پٹرول و ڈیزل پر چلنے والے گاڑیاں 2022ء تک مکمل ختم ہو جائیں گی اور زیادہ تر یورپ میں 2025 تک ختم ہو جائیں گی، اس لیے الیکٹرک وہیکلز ہی آٹو انڈسٹری کا مستقبل ہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو دیگر گاڑیوں کیساتھ بجلی پر چلنے والے سکوٹرز پر بھی توجہ دینا ہوگی، بجلی پر چلنے والی گاڑیاںمکمل طور پر پاکستان کے اندر تیار کی جا سکتی ہیں.
پاکستان میں Sunra الیکٹرک بائیکس فروخت کرنے والی جواد کارپوریشن میں حصہ دار عدیل گوہر بنے کہا کہ دنیا بھر میں حکومتیں بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے حوالے سے حوصلہ افزائی کر رہی ہیں جبکہ پاکستان میں اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں.
انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی ایسی الیکٹرک بائیکس فروخت کر رہی ہے جو 65 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو پہنچ سکتی ہیں، اگر 6 گھنٹے چارج کیا جائے تو 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتی ہیں. یہ بائیک صارفین کو ایک لاکھ اٹھائیس ہزارروپے میں پڑتی ہیں تاہم اس میں زیادہ تر حکومتی ٹیکس شامل ہیں.
عدیل گوہر نے کہا کہ انہیں 40 فیصد ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو بائیک 70 ہزار سے کم قیمت پر فروخت کی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ اگر بائیکس کی فروخت 5 ہزار تک ہو جائے تو Sunra نے پاکستان میں اپنا پلانٹ لگانے کا عندیہ بھی دیا ہے.
قیمت کی وجہ سے بائیکس کی فروخت میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ کمپنی کا بیرونی شراکت دار کمپنی پاکستان میں پیداوار شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.
عدیل نے پاکستان میں کل یونٹس کی فروخت کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ 5 ہزار کے قریب ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو یہ کمپنی کیلئے بڑی حوصلہ افزاء بات ہے. انہوں نے کہا کہ ان کے خریدار بہت خوش ہیں کیونکہ ایندھن پر کچھ خرچ نہیں اٹھتا، چارجنگ کی قیمت بھی ناقابل ذکر ہے.
ماحولیات پر اثرات:
کمپنی نے ابھی تک ماحول دوست الیکٹرک بائیکس کے تین کنٹینر فروخت کیے ہیں اور یہ تمام بائیکس ابھی تک ایک لاکھ کلومیٹر چلی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ 100 درختوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی اپنی ڈیوٹی سے نجات ملی ہے. اوسطاََ اگر پٹرول پر چلنے والی ایک بائیک ایک ہزار کلومیٹر چلے تو اس سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کیلئے ایک درخت چاہیے.
الیکٹرک بائیکس پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک الیکٹرک موٹرسائیکل کے ذریعے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اتنی کمی ہو سکتی ہے جتنی ایک سال میں 10 سے 12 درخت کر پاتے ہیں.
خواتین میں سکوٹرز کی مارکیٹنگ:
جواد کارپوریشن جلد ہی الیکٹرک سکوٹرز درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور انہیں امید ہے کہ یہ خواتین میں بہت مقبول ہونگے. تاہم عدیل گوہر نے ان سکوٹرز کی قیمت بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ سکوٹرز پاکستان پہنچنے کے بعد قیمت کا تعین کیا جائیگا.
پاکستانی خواتین میں موٹرسائیکل چلانے کی حوصلہ افزائی کیلئے کچھ کمپنیوں نے مخلتف قسم کی تشہیری مہمیں بھی کی ہیں، جس میں بین الاقوامی خواتین بائیکرز کو بلا کر انہیں لاہور سے درہ خنجراب تک کا دورہ کرایا گیا، اب بھی اس حوالے سے کام ہو رہا ہے.
بائیکس بنانے والی ایک بڑی کمپنی حکومت پنجاب کے منصوبے “ویمن آن وہیلز” کیساتھ کام کر رہی ہے، اس کمپنی نے ناصرف خواتین کیلئے موٹرسائیکل فراہم کیے ہیں بلکہ سرٹیفائیڈ ٹرینرز سے انہیں تربیت بھی دلوائی ہے.
تاہم “منافع” کو جو انڈسٹری کے ذرائع سے پتہ چلا وہ یہ ہے کہ ابھی خواتین کیلئے سکوٹرز متعارف کرانے کا کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ طلب بہت کم ہے.
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پے انڈسٹری کے ایکن عہدیدار نے بتایا کہ “کسی چیز کو بنانے کا منصوبہ اس کی طلب دیکھ کر بنایا جاتا ہے. ایسی موٹرسائیکلز کی ایک معقول طلب جتنی جلدی پیدا ہوگی انڈسٹری موٹرسائکل بنانا شروع کر دے گی. کچھ مینو فیکچررز نے پہلے سے دستیاب سکوٹرز فروخت کرکے تجربہ کیا ہے تاہم نتیجہ حوصلہ افزاء نہیں ہے.”
انہوں نے مزید کہا کہ انڈسٹری کے پاس مارکیٹ یا معاشرے کے کسی طبقے سے لگائو یا رقابت پیدا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی. یہ مکمل طور پر ایک کاروبار ہے، انڈسٹری خواتین میں موٹرسائیکل چلانے کی ہر ممکن طور پر حوصلہ افزائی کر رہی ہے تاہم کچھ ثقافتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جوکہ آسان کام نہیںہے. یہ کام آہستہ آہستہ جاری ہے.
خواتین کو میسر ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مڈل کلاس اور ملازمت پیشہ خواتین کے پاس اپنی اپنی مشکلات کی الگ سے کہانیاں ہیں.
اربن ریسورس سینٹرکے فاروق نے بتایا کہ ملازمت پیشہ خواتین کو آر سی ڈی ہائی وے سے واپس جانے کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے. آپ ہرروز 2 بجے شہید ملت روڈ پر ہزاروں خواتین کو ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے دیکھ سکتے ہیں. بدقسمتی سے خواتین کی بڑی تعداد کے مطابق مناسب ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے. ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں وہ لفٹ لیکر گھر واپس پہنچیں یا پھر گھنٹوں تک انتظار کی سولی پر لٹکتی رہیں.