اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا جس کے تحت شرح سود بڑھا کر 12.25 فیصد کردی گئی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق مرکزی بینک نے مانیتری پالیسی سٹیٹمنٹ میں کہ اہے کہ مارچ 2019ء کی گزشتہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سے تین قسم کی پیشرفت ہو چکی ہے.
پہلی یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کا معاہدہ طے پا چکا ہے جس کے ذریعے معیشت کی استحکام دیا جائے گا اور پائیدار معاشی ترقی کیلئے بھی متوقع ہے. دوسری یہ کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران حکومتی قرضوںکی وجہ سے مالی خسارہ بڑھا ہے جوکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران کم تھا. تیسری پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ڈالر 149 روپے کا ہونے کی وجہ سے زرمبادلہ کی شرح 5.93 فیصد کم ہوئی ہے.
مانیٹری پالیسی میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران جولائی سے مئی تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے ڈھائی گنا زائد قرض لیے جو تقریباً 48 کھرب روپے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کی اوسط شرح 3.8 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ امکان ظاہر کیا گیا کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکسز میں رد و بدل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ممکنہ اضافہ اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔
مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے بتایا گیا کہ آئندہ مالی سال کے دوران شرح نمو سست رہے گی جبکہ زراعت اور صنعت کے شعبوں میں سست روی معاشی سست روی کی اہم وجوہات ہیں۔
توقعات کا ذکر کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں سال حقیقی جی ڈی پی نمو کا دو تہائی سے زائد حصہ خدمات سے آنے کی توقع ہے اور سال 2020ء میں شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔
رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 29 فیصد کمی ہوئی، گزشتہ مالی سال یہ خسارہ 13 ارب 60 کروڑ ڈالر تھا جو رواں مالی سال کم ہو کر 9 کھرب 60 ارب روپے ہوگیا۔
خسارے میں کمی سے متعلق مرکزی بینک نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ درآمدات میں کمی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہے، تاہم اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ نہ ہوتا تو خسارہ مزید کم ہوسکتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران جولائی سے مارچ کے دوران نان-آئل تجارتی خسارہ کم ہوکر 11 ارب ڈالر رہ گیا، جبکہ گزشتہ برس یہ خسارہ 13 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا۔
مرکزی بینک کے مطابق اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ درآمدات اور برآمدات میں فرق کم ہو رہا ہے، طلب اور رسد میں فرق کے باعث شرح مبادلہ دباؤ میں ہے اور اس کے اتار چڑھاؤ کی اصل وجہ ماضی کا عدم توازن ہے۔
ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے پر بھی مانیٹری پالیسی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک، کرنسی مارکیٹ میں کسی بڑی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کو تیار ہے۔
رواں مالی سال مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رہنے کا امکان ہے جس کی بڑی وجہ ٹیکس میں کمی اور سود کی مد میں ادائیگیاں ہیں۔
رواں سال حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 2.4 گنا زیادہ قرض لیا جبکہ مانیٹری پالیسی سخت کیے جانے کے باوجود نجی شعبے کے قرض میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا۔