اسلام آباد: حکومت ملک بھر میں موٹر سائیکلوں کے لیے کم معیاری پیٹرول متعارف کروانے سے متعلق تجاویز پر غور کررہی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے موٹرسائیکل مالکان کو کم قیمت پر ایندھن فراہم کیا جاسکے۔
انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ایک رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کو موٹر سائیکلوں کے لیے 80-82 رون پیٹرول متعارف کروانے کے لیے تجاویز اور عملی معاملات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے. یہ تجاویز آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے عہدیدار ڈاکٹر عبداللہ ملک نے پیش کی ہیں.
2 سال پہلے ہی پاکستان عالمی ایندھن کے معیار کے مطابق 87 رون سے 92 رون پیٹرول پر منتقل ہوا ہے جبکہ 3 دہائیوں سے غیر معیاری 82 رون پیٹرول کا استعمال چھوڑ چکا ہے.
ریسرچ اوکٹین نمبر(رون ) ایندھن کے معیار کا پیمانہ ہے اور عام طور پر زیادہ رون والا ایندھن ہی صاف اور بہتر معیار کا مانا جاتا ہے۔
وزارت پیٹرولیم کے ایک عہدیدار کیمطابق تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں نے کم معیاری پٹرول کی مخالفت کی ہے کیونکہ انہیں ملک بھر میں علیحدہ اسٹوریج اور سپلائی چین کے علاوہ پٹرول پمپس پر الگ مشینیں لگا کر اضافی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی.
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا جبکہ دلچپسپ بات یہ ہے کہ اوگرا اور آٹوموبائل انڈسٹری بھی اس اقدام سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
ترجمان اوگرا نے کہا کہ مصنوعات کی خصوصیات میں تبدیلی کرنا اوگرا کا کام نہیں بلکہ پروڈکٹ کی خصوصیات کی منظوری دینا پیٹرولیم ڈویژن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ ملک نے بتایا کہ وزارت توانائی کو اس معاملے میں غور کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح سالانہ 1 ارب ڈالر کے درآمدی بوجھ میں کمی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے درآمدی اشیا استعمال کرنے کی عادت بنالی ہے ورنہ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے رون ایندھن کو موٹر سائیکل میں استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 80-82 رون پیٹرول حکومت کی جانب سے ایک نوٹس کے اجراء کے بعد متعارف کروایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 35 سے 40 فیصد پیٹرول موٹرسائیکلوں کیلئے استعمال ہوتا ہے، چین میں پیٹرول کے 7 معیار ہیں۔ موٹر سائیکلوں کے لیے 80 سے 82 رون پیٹرول کی تجویز دینے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کم معیاری ہوگا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ درحقیقت یہ یورو- ٹو پیٹرول سے بہتر ہوگا کیونکہ اس میں کوئی کیمیکل یا اضافی اجزا شامل نہیں ہوں گے۔
دسری جانب پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی اے ایم اے)، نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے۔
ایسوسی ایشن نے کہاکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اکثر مقامی ریفائنریز کے پاس جدید سہولیات نہیں اور ہم زیادہ رون ایندھن تیار نہیں کرسکتے جس کے لیے انہیں ایندھن میں اضافی جزو کے طور پر درآمد کیا جانے والا رون خریدنا پڑنا تھا۔
اگر کم معیاری ایندھن متعارف کروایا جائے تو ان اضافی اجزا کے درآمدی اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
پی اے ایم اے نے کہا کہ یہ پالیسی اقدام بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کے طویل المدتی قومی ہدف سے پیچھے ہٹنے کے برابر ہوگا۔