عابد ستار نے اگست 2018ء میں عسکری بینک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا عہدہ سنبھالا. اگر لنکڈ اِن (LinkedIn) پر ان کے پروفائل کو دیکھا جائے تو وہاں ابھی تک حبیب بینک کی انٹرنیشنل بینکنگ برائے ایشیا و افریقہ کے سربراہ کا عہدہ لکھا ہوا ہے. کیا ہمیں مطالعہ نہیں کرنا چاہیئے کہ عسکری بینک کا سی ای او اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر اپنے سی ای او لکھنے سے زیادہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے؟
بینکنگ کے شعبے میں عابد ستار کا 37 سال تجربہ ہے اور انہوں نے گلوبل فنانس کے بڑے ناموں کے ساتھ کام کیا ہے. انہوں نے 1982ء میں اپنا کیریئر اے این زیڈ گرنڈلیز بینک (ANZ Grindlays Bank) سے شروع کیا جہاں سے وہ چیز مینہیٹن (Chase Manhattan) اور پھر سٹی گروپ (Citigroup) اور سٹینڈرڈ چارٹرڈ (Standard Chartered) چلے گئے. اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے بینک حبیب بینک میں اپنی خدمات پیش کرتے رہے.
عابد ستار نے جن اداروں میں کام کیا ہے عسکری بینک ان کے مقابلے چھوٹا اور مختلف ادارہ ہے. شاید وہ بینک کو بہتر کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں اپنا سوشل میڈیا پروفائل اپ ڈیٹ کرنا بھی یاد نہیں. ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ عسکری بینک میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے.
پرافٹ/منافع کو دیئے گئے انٹرویو میں عابد ستار نے کہا “مجھے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالے 7 سے 8 ماہ ہوئے ہیں. ابتدائی کچھ مہینے بینک کے معاملات کو سمجھنے، اس میں موجود خامیاں تلاش کرنے اور اصلاحات میں گزر گئے. اب سمجھ آ گئی ہے کہ مسائل کیا ہیں اور ان پر قابو پانے کیلئے اگلے 2 سے 3 سالوں میں ایجنڈا کیا ہونا چاہیئے.”
کچھ عرصہ قبل تک عسکری بینک پاکستان کے 10 بڑے بینکوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اب یہ گیارھویں نمبر پر آ گیا ہے. 2016ء اور 2017ء میںاس کی شرح آمدن بالترتیب 3.2 فیصد اور 0.9 فیصد تھی. 2016ء میں اس کے ترقی کا حجم محض 5.7 فیصد رہا اور 2017ء میں یہ بھی 2 فیصدگھٹ گیا.
اسی طرح 2018ء بھی کچھ اچھا نہیں رہا. گو کہ آمدن پچھلے سال کی نسبت 8.6 فیصد زیادہ رہی لیکن 2 سال میں منافع 13.5 فیصد کم ہو گیا.
عبدالستار نے کہا “سٹاک مارکیٹ انویسٹمنٹس کی صورتحال کئی سالوں سے کچھ بہتر نہیں ہے اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی وصولیوں میں بھی کمی ہوئی ہے اس لئے ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ایسی صورتحال تقریباً ہر بینک کو پیش آئی ہے.”
انہوں نے مزید کہا “بعد از ٹیکس منافع کی شرح میں 15 سے 16 فیصد کمی واقع ہوئی ہے. لیکن ہماری کوششوں سے بینک کی مرکزی آمدن میں اضافہ ہوا ہے. بیرون ملک سے حاصل کی گئی آمدنی اور بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے. ہماری مصنوعات تک رسائی میں اضافے کیلئے سال 2019ء میں ہمارے پاس بہتر منصوبے ہیں اور ہمارے منافع کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا.”
عابد ستار کا کہنا ہے کہ وہ عسکری بینک کو پاکستان میں ٹاپ 10 بینکوں کی فہرست میں لانے کیلئے پرعزم ہیں. ان کے عزائم میں عسکری بینک کو نہ صرف حریف روایتی بینکوں بلکہ مائیکروفائنانس بینک، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے فنانشل سروسز آرمز اور فن ٹیک سٹارٹ اپس کے مقابلے میں مضبوط کرکے پہلے عسکری بینک کے منافع میں اضافہ اور پھر دوسرے اہداف کا حصول ہے.
عسکری بینک کی عجب کہانی
عسکری بینک پاکستان کے دوسرے بینکوں سے کچھ حد تک مختلف ادارہ ہے کیونکہ یہ فوج کے زیر ملکیت فوجی فاؤنڈیشن گروپ کے زیر انتظام ہے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بینک ریاست کی ملکیت ہے اور مکمل طور نجی ملکیتی کمرشل بینکوں کی طرح نہیں ہے.
تاہم فوجی فاؤنڈیشن دیگر سرکاری اداروں کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس کا اپنی زیر ملکیت اداروں کیلئے کوئی خاص پبلک پالیسی ایجنڈا نہیں ہے. فوجی فاؤنڈیشن گروپ کے زیر ملکیت عسکری بینک بالکل دوسرے اثاثہ جات کی طرح ہے جیسے کسی بھی سرمایہ کار کے پاس ہو سکتے ہیں. فوجی فاؤنڈیشن کے زیر ملکیت ہونے کے باوجود ان کی ملازمتوں پر اس کا کوئی واضح اثر نہیں ہے البتہ عسکری بینک کے کچھ ملازم سابق فوجی افسران اور سپاہی ہیں.
بینک کی انتظامیہ اپنے بڑے شیئرہولڈر ہونے کے بارے میں کافی محتاط ہے. پرافٹ/منافع نے جب بینک کے آپریشنز یا گورننس پر فوجی دباؤ کے بارے میں دریافت کیا تو عابد ستار نے کہا “مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہے اور اگر ایسا ہوتا تو بھی میں آپ کو اس بارے میں بتانے سے گریز کرتا.”
بینک کے نام سے ہی اس کا فوج سے تعلق واضح ہے جو پاکستانی معاشرے میں مثبت انداز سے جانا جاتا ہے. اور عابد ستار کا ماننا ہے کہ برانڈ کی مضبوطی سے ہی بینک کی آمدن میں اضافہ کا حصول ممکن ہے.
اور فوج سے تعلق کی وجہ سے اسے کئی طرح کے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں. عابد کا کہنا تھا “ہم مسلح افواج کو اپنی تنخواہیں اور نان کمیشنڈ آفیسرز کی پینشنز کی ترسیل و منتقلی بھی ہم سے ہی کروانے پر اصرار کر رہے ہیں.” یہ بینک پہلے ہی پاکستان آرمی کے افسران کی تنخواہوں اور پاکستان آرمڈ فورسز کی تمام برانچوں کے افسران کی پینشنز کے نظام کو ہینڈل کرتا ہے.
ملک کا واحد سب سے بڑا ادارہ ہونے کی وجہ سے اگر یہ کنٹریکٹ عسکری بینک کو مل جاتا ہے تو یہ بینک کا سب سے بڑا سیلری کنٹریکٹ ہوگا. اس کے بعد انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ اسی طرح کی پیشکش اپنے کارپوریٹ کلائنٹس کے سامنے بھی رکھی جائے. ان کا کہنا تھا “اور یہ پہلا مرحلہ ہے، ہماری کوشش ہے کہ اسی طرح کی سروسز دیگر کسٹمر سیکٹرز کو بھی پیش کی جائیں.”
فوج سے تعلق کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ عسکری بینک کے کچھ کارپوریٹ کلائنٹس ایسی کمپنیا ہیں جو چیرٹ ایبل فاؤنڈیشن کے ذریعے فوج کی ملکیت ہیں. فوجی فرٹیلائزر اور اس کے زیر انتظام فوجی فرٹیلائزر بن قاسم فوج کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ نفع بخش ادارہ ہے. ان کمپنیوں کو اپنی خدمات پیش کرکے نہ صرف عسکری بینک کی کارپوریٹ ڈپوزٹنگ میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ دیگر طرح سے بھی بینک کیلئے مفید ہے.
عابد ستار کا کہنا ہے “ہم ہماری دیگر کمپنیوں جیسا کہ فوجی فرٹیلائزرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں. ان کے پاس پہلے سے ہی رورل سپلائی سسٹم کا نیٹ ورک موجود ہے اور ان کے ساتھ ساتھ مل کر ہم ہماری زرعی بینکنگ کو زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں.”
عسکری بینک کا محنت کش کلچر
عسکری بینک کارکردگی کے حساب سے نیشنل بینک سے زیادہ برا نہیں. یہ نجی شعبے کے بینکوں سے مختلف طریقہ کار پر کام کرتا ہے.
عابد ستار کا کہنا ہے “ایک کمرشل آرگنائزیشن کی حیثیت سے ہمیں پرفامنس کلچر کو اپنانے کی ضرورت ہے جس سے اچھی کارکردگی والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ناقص کارکردگی والوں کی نشاندہی ہو سکے گی. وقت کے ساتھ ساتھ عسکری بینک نے میں ایسا رحجان غالب آگیا جہاں لوگوں کی کارکردگی کے مطابق حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی. اس جانب نہ ہی اہداف مقرر کئے گئے نہ ہی مراعات کا تعین کیا گیا. ہر کسی کو ایک ہی طرح کے بونس اور مراعات ملتی ہیں.”
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بینک مسلسل صحیح نوکری کیلئے صحیح افراد کو جگہ دینے میں ناکام رہا ہے جس کے نتیجے میں بینک کے باہر سے افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے. عابد ستار بطور سی ای او ان اقدامات کے ذریعے بینک کی بہتری کرنا چاہتے ہیں. انہوں نے کہا “ہمیں مزید افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے جنہیں ہم تربیت اور قابلیت کے حساب سے ترقی دے سکیں. طویل مدت مڈل منیجمنٹ لیول کیلئے ہمیں بھرتیوں کی بجائے ذاتی سٹاف پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے.”
ستار کا ماننا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بینک کے پاس بھرتیوں کیلئے مناسب افراد نہ ہوں اور انہیں ان کی ملازمتوں کے حساب سے تربیت دینے میں کمی ہو. سی ای او ہونے کی حیثیت سے آپ کو اس صورتحال سے نپٹنا آنا چاہیئے.
ان کا کہنا تھا “ہمیں اپنے ٹریننگ سنٹرز میں مناسب ترامیم کی ضرورت ہے جو ہم پہلے ہی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کر چکے ہیں. اس کے ساتھ ہم ای لرننگ ماڈلز پر کام کر رہے ہیں جہاں لوگ پراڈکٹس اور منی لانڈرنگ، کسٹمر کے بارے میں آگاہی اور انفارمیشن سیکیورٹی جیسے عالمی طریقہ کار کے بارے میں جان سکیں گے جس کی تربیت تمام بورڈ اور ہر سٹاف ممبر کیلئے ضروری ہے.”
اس کے علاوہ بینک میں سٹاف میں تفریق کا فقدان ہے. ستار کا کہنا تھا کہ عسکری بینک کو صرف مہارت اور پروفیشنل ازم کی ہی ضرورت نہیں بلکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے اس لئے مختلف شعبہ ہائے جات سے لوگوں کی یکساں نمائندگی کی ضرورت ہے.
عابد ستار کا یہ بھی خیال ہے کہ خواتین کیلئے بینک میں ترقی کے مواقع مردوں کی نسبت کم ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر خواتین کی بھرتی جونیئر پوزیشن پر ہے. ان کا کہنا تھا “ہم نے ٹارگٹ مقرر کیا ہے کہ ہمارے سٹاف میں کم از کم 30 فیصد خواتین ہونی چاہیئں.”
ان تمام نقائص کو پورا کرنے کیلئے ستار کا ماننا ہے کہ سروس کوالٹی کے حساب سے بینک کو جس مقام پر ہونا چاہیئے وہ وہاں نہیں ہے. “میرا ماننا ہے کہ اس حجم کے بینک کیلئے ہمیں مارکیٹ میں سرفہرست کوالٹی بینک ہونا چاہیئے. ہمارے خیال میں بینک کی سروس کوالٹی کا معیار صارفین کی توقع کے مطابق نہیں. مختلف برانچیز، علاقوں اور پراڈکٹ لائنز میں قابلیت اور اعلیٰ معیار کی سروسز کی کافی گنجائش ہے لیکن تمام برانچوں اور بزنس لائنز میں عام طور پر سروس کوالٹی کا معیار ایک جیسا نہیں ہے.”
ان چیلنجز سے نپٹنے کیلئے عابد ستار عسکری بینک کے آرگنائزیشنل سٹرکچر اور انسٹیٹیوٹ پرفارمنس منیجمنٹ سسٹمز میں ترامیم کیلئے ایک اگریسو حکمت عملی کا نفاذ کر رہے ہیں اور بینک ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر پر خاص دھیان کے ساتھ کارپوریٹ کلائنٹس اور ریٹیل کسٹمرز کو پراڈکٹ سوٹ کی پیشکش کے مدنظر دوبارہ سے کھڑا کرنے کیلئے پرعزم ہیں.
ان اقدامات سے کچھ گڑبڑی کی ہوا بھی پیدا ہوئی ہے اور خاص طور پر اس کے نتیجے میں اس بینک میں کوتاہیوں اور نقائص کی نشاندہی ہوئی ہے. نئی بھرتیوں کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر موجودہ اور سابقہ ملازمین کی جانب سے تنقید بھی کی جارہی ہے جنہیں اب نوکریوں کے جانے کا بھی ڈر ہے.
پہلا اقدام سینئر منیجمنٹ میں تبدیلیاں تھی. “آغاز میں سینئر منیجمنٹ میں کچھ خلا تھے جنہیں میں نے کچھ متعلقہ ایکسپیرئینس کے حامل افراد سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے. ہمارے پاس خزانچی، رسک منیجر اور ہیومن ریسورس کے سربراہ کے طور پر نئے لوگ ہیں. کچھ سیٹیں ابھی بھی خالی ہیں، کچھ ان کاموں کیلئے اِتنے سینئر نہیں تھے. اس لئے ہمیں کچھ تنظیمی تبدیلیاں کرنا پڑیں تاکہ ہم مارکیٹ کی ضرورت کے حساب سے خود کو درست کر سکیں اور اپنے مستقبل کیلئے مقرر کئے گئے مقاصد کو پورا کر سکیں.”
عابد ستار کو نئے لوگ کو بھرتی کرنے میں جو قابل ہوں اور بینک کیلئے مفید ہوں اتنی دلچسپی نہیں جتنی وہاں کارکردگی جانچنے کا نظام بدلنے میں ہے تاکہ بینک میں کام کرنے والے حالیہ ملازمین اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائیں. نئے نظام کی بدولت نوکریوں پر عدم تحفظات کی وجہ سے بینک ماحول پر چھائی افسردگی کو ختم کرکے نیا عزم بھرا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ نیا نظام دراصل ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے جو اپنے کیریئر میں ترقی کے خواہاں ہیں.
“جس بہتری کے ہم خواہاں ہیں اس کا یہ بنیادی جزو ہے. ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں جو بہتر کام کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان کے ریوارڈز بھی بہتر کریں گے. یہ کافی آزمایا ہوا پرفامنس منیجمنٹ اسکیل ہے. ہر ادارے میں آپ کے پاس 10 سے 15 فیصد ٹاپ کیٹیگری، 20 سے 25 فیصد سیکنڈ کیٹیگری اور باقی عام سٹاف پر مشتمل ہے حتیٰ کہ بیوریوکریسی، ہماری افواج اور ہماری اکیڈمک کلاسز میں بھی یہ درجہ بندیاں ہمیشہ موجود رہی ہیں. ہر جگہ انتہائی قابل لوگ موجود ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مختصر سی تعداد ایسے افراد کی بھی ہوتی ہے جو صحیح طریقے سے اپنا کام نہیں کر رہے. ان افراد کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے انہیں تنبیہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا مزید ایک موقع دیا جانا چاہیئے یا انہیں اپنے لئے کوئی دوسرا پیشہ اپنانے کا مشورہ دیا جانا چاہیئے جہاں وہ بہتر کام کر سکیں.. اس طرح حالات معمول کے مطابق رہتے ہیں اور یہ سسٹم میرا آئیڈیا نہیں بلکہ یہ ہر ادارہ بیل کرو (bell curve) کے اصولوں پر کام کرتا ہے.
اخباروں اور ٹی وی چینلز پر عسکری بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے سے متعلق تشہیر عابد ستار کی سٹریٹجیز کا آغاز ہے تاکہ مارکیٹ میں اپنی گرفت مزید مضبوط کی جائے.
وہ چاہتے ہیں کہ بینک کریڈٹ کارڈ اور ہاؤسنگ لون پر زیادہ توجہ دے جو حکومت کی کم قیمت ہاؤسنگ پالیسی کے مطابق ہو. “ہم ان چند بینکوں میں سے ایک ہیں جو پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں. عسکری بینک ان 5 بینکوں میں سے ہے جنہیں مرکزی بینک نے ورلڈ بینک کے تعاون سے کم قیمت ہاؤسنگ لون کی سہولت فراہم کرنے کی اجازت دی ہے.”
عسکری بینک نے کارپوریٹ بینکنگ کسٹمرز کیلئے ٹرانزیکشنل بینکنگ کی سہولت کا بھی آغاز کیا ہے تاکہ اپنے نئے نظام کی بدولت وصولیوں اور ادائیگیوں پر قابو پا سکیں. بڑے پیمانے پر قرضوں کی فراہمی اور پیسے جمع کرنے کیلئے کارپوریٹ اور دوسرے اداروں سے تعلقات بہتر بنانے کی غرض سے انسٹیٹیوشنل سیئرز (institutional seer) کے نام سے ایک نئی ڈویژن بھی تشکیل دے دی گئی ہے. جس کی توجہ ان اداروں کے ملازمین کو کریڈٹ کارڈز، پرسنل لون اور ہاؤسنگ فنانسز جیسی سہولیات فراہم کرنے پر ہوگی.
عابد ستار کا کہنا تھا “ہم نے بورڈ سے ڈیجیٹل بینکنگ کی پالیسی بی منظور کروا لی ہے اور ہم اس کا نفاذ بھی کر رہے ہیں تاکہ ہم موبائل بینکنگ اور انٹرنیٹ ٹرانزیکشنز جیسی پراڈکٹس کے حوالے سے انڈسٹری میں مقابلہ کر سکیں جو جو کسٹمرز کو ہم سے جوڑے رکھتی ہیں.
آخرکار عابد ستار نے یہ جان لیا کہ جاز کیش اور ایزی پیسہ کی طرح ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی فنانشنل سروسز آرمز نے پاکستانی بینکوں کو موبائل پیمنٹس کے میدان میں کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے. ان کا یہ ماننا ہے کہ مائیکرو فنانس بینک اور فن ٹیک سٹارٹ اپس نے پہلے ہی انڈسٹری میں مقابلہ سخت کر دیا ہے.
“فنانشل سیکٹر میں ہمیشہ سے مقابلہ سخت رہا ہے لیکن بعد میں فن ٹیک، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں اور مائیکروفنانسنگ بھی پیمنٹس کی دوڑ میں شامل ہو گئیں اور ای کامرس جہاں بینکوں کی روایتی اجارہ داری تھی اب اس میں کمی آتی جارہی ہے. اس لئے بینک اب یا تو الائنسز کی طرف جا رہے ہیں یا خود کی پراڈکٹس تیار کر رہے ہیں.”
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ خالصتاً بینکنگ پراڈکٹ جیسے آسان موبائل والٹ کی سست رفتار پراگریس ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے پریشر کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جب بھی ڈیجیٹل طریقوں سے مالیاتی شمولیت کی بات ہو بینکوں کا یہی طریقہ کار رہا ہے.
عابد ستار کا کہنا ہے “پاکستان میں اصل چیلنج مالیاتی شمولیت کا ہے. یہاں کے 20 فیصد لوگ بینک اکاؤنٹ ہولڈر ہیں اور بڑی تعداد میں وہ لوگ ہیں جن کے بینک اکاؤنٹس ہی نہیں ہیں اگر بینک انہیں شامل نہیں کرے گا تو کوئی اور کر لے گا.
میرا خیال ہے کہ بینکنگ سیکٹر کا ماحول بدلتا جا رہا ہے اور آپ جتنے ایفیشنٹ، موٹیویٹو اور تیز رفتار ہوں گے اتنا جلد ہی آپ اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں. ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے اس کا آغاز کیا اور یقیناً اپنے آپ کو اس کے قابل بھی کیا. بینک اپنے روایتی طور پر ہی چلتے رہے لیکن اب انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے. پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کئی روایتی شعبوں سے زیادہ تیز ہے. اس میں جدت ہے اور اس کی کسٹمرز تک رسائی زیادہ تیز ہے. بغیر کیس سابقہ ریکارڈ کے انہوں نے پری پیڈ سسٹم متعارف کروایا جو کافی کامیاب رہا. ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبہ نے 80 فیصد آبادی تک رسائی حاصل کر لی جبکہ بینکوں کی رسائی صرف 20 سے 25 فیصد آبادی تک ہی محدود ہے.”
مالیاتی شمولیت کے اہداف اور خاص طور پر عسکری بینک کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے عابد ستار کا کہنا تھا “ہمارے سپانسرز کی کم آمدنی والے صارفین، دیہاتی اور زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد میں دلچسپی زیادہ ہے. اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایگریکلچرل بینکنگ اور دیہی علاقوں میں بینکنگ پر کام کر رہے ہیں. ہم زیادہ سے زیادہ مضبوط ڈیجیٹل صلاحیتیں اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں ایسی جگہوں تک بھی پہنچنا ہے جہاں ہماری برانچیں نہیں ہیں. ہمیں منی ٹرانسفر، پینشنز اور اسی طرح کی دیگر سہولیات میں بھی اپنی رفتار تیز کرنا ہوں گی جس کیلئے ہم اپنے خود کے پراسیسز تیار کر رہے ہیں اور ٹیلی کمیونیکیشن، مائیکروفنانس بینک اور فین ٹیک کے لئے الائنسز بھی تلاش کر رہے ہیں.”