بیل آئوٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف کی 700 ارب کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے، ریونیو ہدف 5550 ارب تک بڑھانے کی شرائط

آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کیا گیا تو حکومت کو آئندہ بجٹ میں 350 ارب روپے کا سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پرعائد اہم ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا پڑے گا

2097

اسلام آباد: پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کے مابین بیل آئوٹ پیکج کیلئے مذاکرات اہم دور میں داخل ہو گئے ہیں. آئی ایم ایف نے آئندہ دو سال کیلئے 700 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے اور آئندہ بجٹ کیلئے ٹیکس ہدف بڑھا کر 5550 ارب روپے کرنے کی شرائط رکھی ہیں.

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے 700 ارب روپے کا ٹیکس استسثنیٰ ختم کرنے کی شرط پر عمل کی صورت میں حکومت کو آئندہ مالی سال 2019-20 کے بجٹ میں 350ارب روپے کا سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پر عائد اہم ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا پڑے گا.

اس کے علاوہ رواں مالی سال میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی نظر ثانی شدہ ٹیکس وصولی 3950 ارب روپے سے اوپر جاتی دکھائی نہیں دیتی لیکن آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ کیلئے ایف بی آر کیلئے ٹیکس ہدف کو بڑھا کر 5550ارب روپے کرنے کاکہا ہے.

یہ صورتحال نئے چیئرمین ایف بی آر کے لئے یقیناََ مشکل ہوگی کہ ایک سال کے دوران وہ 1600ارب روپے کا اضافی ٹیکس وصول کرسکیں.

بہرحال ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف کےسامنے کہا کہ ٹیکس وصولی حقیقت پر مبنی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طے کی جائے۔

آئی ایم ایف کی دیگر شرائط میں موجودہ پالیسی ریٹ 10.75فیصد کے مقابلے میں شرح سود 75سے بڑھا کر 100بیسس پوائنٹ کردی جائے۔

این آر آئی(نیٹ انٹرنیشنل ریزروز) پر غور کیا جائے جیسا کہ اسٹیٹ بینک سے کہا جائیگا کہ غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے کیلئے سہ ماہی ہدف پورا کیاجائے، جس کے لئے اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ سے ڈالرز خریدنا پڑینگےجس کے باعث شرح مبادلہ پر دبائو بڑھےگا۔

پاور اور گیس سیکٹرپر سے سبسڈیز کا خاتمہ اور گردشی قرضوں کے خاتمے کیلئے روڈ میپ کی تیاری آئی ایم ایف کی اہم شرائط کا حصہ ہونگی۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران ایف بی آر حکام نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کے پانچ اہم برآمدی شعبوں پر زیرو ریٹنگ کے ساتھ ٹیکس استثنیٰ کے باعث سالانہ 90 سے100 ارب روپے کی آمدن کم ہوئی ہے، ورلڈ بینک کی جانب سے تخمینہ لگایاگیا ہےکہ پاکستان کو سالانہ 300ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کا جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) حقیقت میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس موڈ کی شکل میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں جس کے باعث اس کی اسکی اصل شکل تبدیل ہوگئی ہے۔ حکام کا کہنا ہےکہ آئی ایف ایم نے ان تبدیلیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here