میں‌ اس آرٹیکل کا آغاز سرمایہ کاری سے متعلق ماہر سمجھے جانے والے دو افراد کی رائے سے کروں گی. پہلے شخص نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پائول سمیولسن ہیں.، وہ کہتے ہیں کہ “سرمایہ کاری دراصل کسی پینٹ کو خشک ہوتے دیکھنا یا گھاس کو اگتے دیکھنا ہے، اگر آپ موج مستی چاہتے ہیں‌ تو 800 ڈالر لیں اور لاس ویگاس چلے جائیں.” دوسرے دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک وارن بفٹ ہیں، وہ کہتے ہیں‌ کہ “کسی سرمایہ کار کی اہم ترین خوبی اس کی ذہانت نہیں بلکہ اس کا مزاج ہے.”

دونوں کی رائے کی اکٹھا رکھ کر دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ لازم نہیں کہ آپ کس قدر درست طور پر مارکیٹ سے متعلق پیشگوئی کر سکتے ہیں یا یہ اندازہ لگانے میں کتنے ذہین واقع ہوئے ہیں کہ سرمایہ کاری کا رجحان کس شعبے کی جانب رہے گا بلکہ دونوں کی رائے میں اہم ترین چیزیں یہ ہیں کہ اطمینان، سکون اور صبر سے سرمایہ کاری کو وقت دیا جائے.

زیر نظر آرٹیکل میں ہم مقامی سٹاک مارکیٹ (پاکستان سٹاک مارکیٹ) میں سرمایہ کاری پر بات کریں گے.

تحریک اانصاف کی حکومت پاکستان کے مقامی انویسٹمنٹ کلچر کو بہتر بنانے اور لوگوں کو بچت اور سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے. میڈیم ٹرم اکنامک فریم ورک (MTEF) کے آغاز کے موقع پر سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے درست ہی کہا تھا کہ پاکستان جیسی معیشتوں کا موازنہ کیا جائے تو بچت کی شرح پاکستان میں سب سے کم ہے. 2017-18ء میں نجی شعبے میں بچت کی شرح ملکی مجموعی پیداوار (GDP) کے 12.2 فیصد کے برابر رہی اس میں سے بھی 1.4 فیصد رقم حکومت نے اپنے اخراجات کیلئے پہلے ہی حاصل کرلی.

2017-18ء میں مجموعی بچت کی شرح 10.8 فیصد تھی جو 2002ء کی شرح سے پھر بھی آدھی رہی. بھارت میں بچت کی شرح جی ڈی پی کا 34 فیصد ہے. میڈیم ٹرم اکنامک فریم ورک میں یہ وعدہ شامل ہے کہ ریٹیل سرمایہ کاروں کی تعداد ایک ملین تک لانے کیلئے پاکستان سٹاک ایکسچینج ڈسٹری بیوشن چینلز تلاش کرے گا اور رضارانہ پینشن فنڈز کا اجزاء کرے گا. سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے جنوری میں اعلان کردہ ترمیمی بل کے مطابق سٹاک ٹریڈنگ میں سرمائے کے نقصان کی مدت تین سال کردی گئی.

تاہم اس وقت ماسوائے چند شہروں کے ایوان صنعت و تجارت میں کچھ سیشنز کے حکومت یا سٹاک ایکسچینج کی جانب سے سرمایہ کاری میں دچلسپی رکھنے والوں کیلئے کسی قسم کی آگاہی مہم نظر نہیں آتی.

پاکستان میں عام شہری سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ اس حوالے سے “منافع” نے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) اور لاہور سکول آف اکنامکس کے کچھ طلبہ اور چند سرمایہ کاروں سے گفتگو کی. گفتگو کے عمومی جوابات کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1. سٹاک ٹریڈرز پر اعتماد میں کمی اور پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کا علم نہ ہونا.
2. لوگ سٹاک ایکسچینج کو سرمایہ کاری کیلئے محفوظ نہیں‌ سمجھتے، اس لیے وہ رئیل سٹیٹ یا سونے کے کاروبار میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں.
3. چونکہ سٹاک مارکیٹ بڑے امراء کی سرمایہ کاری کی جگہ ہے اور مندی کی صورت میں یہ نقصان بھی بڑے لیول پر کرتی ہے تو یہ چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے موزوں جگہ نہیں ہے.

اس آڑٹیکل میں نہ صرف ان تینوں اعتراضات کا جواب دیا جائے گا بلکہ نئے اور چھوٹے سرمایہ کاروں کی رہنمائی بھی کی جائے گی کہ وہ نقصان سے بچتے ہوئے کس طرح سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں. کچھ اصطلاحات جیسے کہ deposits, dividends, risk appetite, margins وغیرہ مشکل ہوں‌گے تاہم ان سے متعلق مکمل رہنمائی کیلئے آپ Investopedia سے رہنمائی لے سکتے ہیں.

آگہی کا فقدان اور سٹاک بروکرز پر کم اعتمادی:
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں بہت زیادہ ایسے چینلز نہیں ہیں جن سے اگر کوئی شخص سٹاک مارکیٹ یا سرمایہ کاری سے متعلق سیکھنا چاہے تو سیکھ سکے. جو آیک آدھ چینل موجود ہے اسے جارحانہ طور پر مارکیٹنگ کی ضرورت ہے.

زاہد لطیف خان سکیورٹیز کے جنرل مینجر سید طفر عباس کہتے ہیں‌ کہ چینلز پر زیادہ سے زیادہ خبر ایک لائن کی ہوتی ہے وہ بھی سٹاک مارکیٹ کے رجحان کے بارے میں. ایسے میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے عام عوام کی دلچسپی سرمایہ کاری میں بڑھے؟

ایک مثال جمع پونجی ویب سائٹ کی ہے جو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے چلائی جا رہے. اس ویب سائٹ پر سٹاک ٹریڈنگ سمولیٹر موجود ہے اور مختلف طرح کی سرمایہ کاری سے متعلق بھی مکمل وضاحت دی گئی ہے. لیکن جب “منافع” نے کچھ طلباء اور سرمایہ کاروں سے اس پلیٹ فارم کے متعلق پوچھا تو حیران کن طور پر تاجروں کے ایک گروپ کے علاوہ کوئی بھی اس ویب سائٹ کے بارے میں نہیں‌جانتا تھا.

تو لوگ سرمایہ کاری کیسے کرتے ہیں؟ آئیے ان لوگوں سے کچھ سیکھتے ہیں.

منصور احمد لاہور سکول آف اکنامکس کے گریجوایٹ ہیں. انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بزنس ایجوکیشن کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی طرف آئے اور investorguide360 ویب سائٹ سے مدد لی. اس ویب سائٹ پر فنانشل ماہرین سرمایہ کاری پر بلاگز لکھتے ہیں اور سٹاک مارکیٹ سے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں.
منصور نے کہا کہ “میں نے مخلتف قسم کے آرٹکلز پڑھنے شروع کیے اور اگر اس فلیڈ کے لوگ ملے تو ان سے بات چیت کی. میں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے قبل اس کے بارے میں‌ آن لائن کافی معلومات حاصل کیں.”

منصور نے 2014ء میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ساتھ کام شروع کیا، اسے 30 فیصد نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ اس نے شیئرز جس قمیت پر خریدے تھے اس سے کم قیمت پر بیچنے پر آمادہ نہیں تھا. اب وہ اپنے شیئرز کی ریکوری کے انتظار میں ہے. تاہم جب سے اس نے margin financing اختیار نہیں کی تب سے وہ اپنی سرمایہ کاری کی ریکوری کا اختیار رکھتا ہے.

جہانزیب طاہر آئی بی اے میں ماسٹرز کے طالبعلم ہیں، ان کے سپورٹس میٹس انویسٹرز ہیں جنہوں نے جہانزیب کو بھی زیادہ کمانے کے ذریعے کے طور پر سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ ” میرے ساتھ ٹینس کھیلنے والے دوست ایک عرصے سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگا رہے ہیں، میں نے بھی ان سے ابتدائی چیزیں سیکھ لیں تاہم سرمایہ کب لگانا ہے یہ میں نے اپنے طور پر سیکھا.”

جہانزیب کا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا تجربہ بھی احمد جیسا ہی رہا تاہم وہ یہاں سے حاصل ہونے والے سرمایہ سے خوش ہیں، “جب مارکیٹ میں تیزی تھی تو مجھے 12 فیصد منافع ہوا جو اب 15 فیصد ہو چکا ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اب تک اچھا منافع کمایا ہے.”

ان دونوں سرمایہ کاروں نے بتایا کہ سرمایہ کاری شروع کرنے سے قبل انہیں بروکر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی، البتہ کچھ قانونی ضروریات ہوتی ہیں جیسا کہ سٹاک ایکسچینج کیساتھ بطور بروکریج پائوس رجسڑڈ کسی سکیورٹیز کمپنی کے ساتھ اپنا اکائونٹ کھولنا. ایسے بروکرز کو ایک خاص کمیشن ملتا ہے، تاہم دونوں انویسٹرز نے بتایا کہ کہ انہیں سٹاک خریدنے یا فروخت کرنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر کسی قسم کی رہنمائی کی ضرورت نہیں پڑی.

نتیجہ اس کا یہ ہے کہ کسی سرمایہ کاری کیلئے ضروری نہیں کہ وہ کسی دلال (broker) پر انحصار کرے، ٹریڈر رپورٹس اور تجزیات کی شکل میں کافی زیادہ مواد موجود ہے، سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ پر بھی تمام معلومات مل جاتی ہیں، جہاں تک آگاہی کی کمی کا سوال ہے تو جب تک متعلقہ اتھارٹیز یا ریگولیٹرز اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے، دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے طورپر معلومات حاصل کریں.

کیا رئیل اسٹیٹ اور گولڈ کی شکل میں سرمایہ کاری زیادہ محفوظ ہے؟
پاکستانی معیشت غیر مستحکم ہے، اس کا مزاج بنتا بگڑتا رہتا ہے، لیکن پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اس سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہے، تاہم اپنی طرز میں یہ چیز بھی سرمایہ کاری کو غیر محفوظ نہیں بناتی، بلکہ جیسے ہم نے آغاز میں ذکر کیا کہ یہ کسی انویسٹر کا مزاج ہے جو اس کیس سرمایہ کاری کو محفوظ یا غیر محفوظ بناتا ہے.

عسکری سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد عرفان نے بتایا کہ نوجوان سرمایہ کار عموماََ راتوں رات اپنی سرمایہ کاری کو ڈبل ٹرپل کرنے کی سوچ کے ساتھ آتے ہیں، اس لیے بیعانے کی مصنوعات یا سٹے کی ٹریڈنگ میں سرمایہ کاری کر بیٹھتے ہیں، اس لیے جب مارکیٹ مندی کا شکار ہوتی ہے تو یہ چوھٹے سرمایہ کار مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ زیادہ پرجوش سرمایہ کار نقصان اٹھاتے ہیں.

انویسٹوپیڈیا کے مطابق Speculative trading میں سرمائے کو خطرہ زیادہ ہوتا ہے تاہم اس میں‌ اتار چڑھائو آتا رہتا ہے جس کی وجہ سے منافع کمانے کے بھی زیادہ مواقع دستیاب رہتے ہیں تو اس لیے ٹریڈرز Speculative trading زیادہ کرتے ہیں. تاہم طویل مدت کیلئے سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار اور ادارے اس میں سرمایہ کاری نہیں‌ کرتے.

سٹاک مارکیٹ میں Speculation کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے “ایسی فنانشل ٹرانزیکشن جس میں ویلیو کھونے کے خطرے کا متبادل موجود ہو لیکن بڑا فائدہ بھی نظر آ رہا ہو”. باالفاظ دیگر آپ زیادہ جتنا بڑا نقصان اٹھاتے ہیں اتنا بڑا فائدہ بھی ہوتا ہے. سٹاک مارکیٹ کے حساب سے دیکھیں تو یہاں کئی نو آموز اور عارضی سرمایہ کار اپنے سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں اور پھر دوبارہ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتے.

عرفان مارجن فنانسنگ میں موجود ایک اور طریقہ کے بارے میں بتاتے ہیں جس میں سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری سے بڑھ کر ٹریڈنگ کرتا ہے، مثلاََ اگر آپ ایک لاکھ روپے پہلے ہی انویسٹ کر چکے ہیں، لیکن آپ تین یا چار گنا زیادہ قرضہ لے لیتے ہیں، کہہ لیں کہ اپ نے چار لاکھ لیا ہے اور اس پر ٹریڈنگ کر رہے ہیں. اس پر آپ کو روزانہ 8 فیصد کے حساب سے سود بھی دینا پڑے گا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپکی speculation ٹھیک ہے تو آپ کو حاصل ہونے والا منافع کمیشن اور سود سے زیادہ ہوگا. تاہم اسی وقت اگر آپکی مارکیٹ کے حوالے سے توقع غلط ثابت ہو جاتی ہے تو نقصان بھی اتنا ہی ہوگا.

عرفان نے کہا کہ “اگر آپ صرف اتنی ہی ٹریڈنگ کر رہے ہیں جتنی آپ نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے تو ایسے میں اگر مارکیٹ مندی کا شکار ہو جاتی ہے تو اپ کو مارکیٹ کے اوپر اٹھنے کا انتطار کرنا چاہیے، تاہم مارجن فنانسنگ کی صورت میں آپکو اس سپورٹ کی ضرورت نہیں. روازنہ ہونے والے نقصان کی رقم سرمایہ کار کے اکوئونٹ سے کٹتی رہتی ہے جب تک اس کی اصل رقم 30 فیصد تک نہیں رہ جاتی.”

ایک دوسری چیز جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ غیر محفوظ سمجھی جاتی ہے وہ یہ غلط فہمی ہے کہ پیسہ کمانے کیلئے آپکو مسلسل ٹریڈنگ کرنی چاہیے. ایک بروکر نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اگر ہم سرمایہ کاروں کو رقم لگانے سے روکیں تو ہمیں سست سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہم روزانہ ٹریڈنگ نہیں کر رہے، اگر ہم روزانہ ٹریڈنگ کرنے لگیں اور ان کا پیسہ ڈوب جائے تو پھر بھی الزام ہم پر آئے گا.

تیسری چیز سونے یا رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری اور اس سے حاصل منافع کی نسبت سٹاک ٹریڈنگ میں عدم تحفظ کا احساس ہے، جو لوگ سونا یا پلاٹ خریدتے ہیں وہ اگلے ہی دن یا ہفتے ہیں اسے فروخت نہیں کردیتے، تو پھر سٹاک مارکیٹ میں جلد بازی کیوں کی جاتی ہے، اگر سٹاک مارکیٹ میں بھی طویل المدتی سرمایہ کاری کی جائے تو خطرات کم سے کم ہو سکتے ہیں.

پاکستان سٹاک ایکسچینج چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے نہیں‌ اور یہاں جوڑ توڑ بہت زیادہ ہوتا ہے:

اس دلیل کا پہلا حصہ غلط جبکہ دوسرے میں کسی حد تک سچائی ہے. ہم پہلے حصے کو پہلے دیکھتے ہیں:

زاہد لطیف خان سکیورٹی پر کم سے کم سرمایہ کاری 50 ہزار روپے تک کی کر سکتے ہیں، باقی کمپنیوں کا بھی کم وبیش یہی طریقہ ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ. اگر شیئرز کی قیمت 100 روپے فی شیئر ہے تو سرمایہ کاری کو قابل قدر بنانے کیلئے ایک انویسٹر کو کم از کم ایک سو یونٹ خریدنا ہوں گے جو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار کے ہونگے، اسی طرح 50 ہزار میں وہ 500 شیئرز خرید سکتے ہیں. شیئرز کی قیمتیں 100 روپے سے زیادہ ہوں تو شیئرز کی تعداد اسی لحاظ سے کم یا زیادہ ہو جائیگی.

اب اس کو لوازنہ سونے کیساتھ کریں 12 اپریل 2019ء کو سونے کی فی تولہ قیمت 70 ہزار 700 روپے تھی، اب کوئی سرمایہ کار سونے میں اگر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو وہ ایک تولے کیساتھ تو کرے گا نہیں، زیادہ سونا خریدنے کیلئے اسے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی. اب اس کا موازنہ اگر سٹاک مارکیٹ سے کریں تو معلوم ہوگا کہ سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے کافی جگہ موجود ہے.

مندرجہ بالا دلیل کا دوسرا حصہ (انسائیڈر ٹریڈنگ اور سٹاک مارکیٹ میں قیمتوں کا اتارچڑھائو) دیکھیں تو یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ صرف پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی بھی سٹاک مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو یہ مسئلہ درپیش رہے گا. اس صورتحال سے بچنے کا واحد طریقہ سکیورٹی کمپنیوں کی جانب سے دی جانے والی سرمایہ کاری کی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جائے تاہم اس سے بروکرز کے مفادات پر زد پڑتی ہے.

قیمتوں کے اتارچڑھائو مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے جب کوئی شیئر سرمایہ کار کے مفاد میں نہ ہوں مصنوعی طریقے سے قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں. پہلے مارکیٹ کے بارے میں سنسنی پھیلا دی جائے اس کے بعد طلب ورسد پر مارکیٹ کو چھوڑ دیا جائے. سٹاک بروکرز خود نہ بھی سرمایہ کاری کریں‌تو بھی مصنوعی اتار چڑھائو وہ سرمایہ کار کرتے رہیں گے جو جنہوں نے بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہوگی. یہاں آکر غیر یقینی اور مارکیٹ رسک سے بچنا محال ہو جاتا ہے. تاہم تھوڑے صبرو تحمل، مارکیٹ ریسرچ اور حوصلے کے ساتھ کام لیتے ہوئے انفرادی سرمایہ کار بھی مارکیٹ کے اتارچڑھائو کے دور میں بھی منافع کما سکتے ہیں.

سرمایہ کاری شروع کرنے والے کیلئے رہنمائی:
نئے آنے والے کہاں سے شروع کریں؟ انہیں اثاثہ جات مینجمنٹ کمپنیوں (Asset management companies) کی مدد لینی چایئے. انویسٹوپیڈیا کے مطابق یہ کمپنیاں کلائنٹس سے پیسے لیکر سٹاک مارکیٹ، بونڈز، رئیل اسٹیٹ و دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں. یہ کمپنیاں میوچل فنڈز، انڈیکس فنڈز یا ایکسچنج ٹریڈڈ فنڈز کی شکل میں چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے بہتر رہتی ہیں.

اثاثہ جات مینجمنٹ کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ مخلتف سرمایہ کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیتی ہیں جس کی وجہ سے ایک بڑی سرمایہ کاری اکٹھی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو زیادہ بہتر اور مہنگے شیئرز میں کاروبار کا موقع ملتا ہے. اس طریقے سے سرمایہ کاری کیلئے کم سے کم ضروری سرمائے کی بھی ضرورت نہیں رہتی. ایسی کمپنیاں شیئرز کے انتخاب کے علاوہ خریدو فروخت کرتی ہیں.

اختتامیہ:
ایسے لوگ جو سٹاک مارکیٹ کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے انہیں اچاثہ جات مینجمنٹ کمپنیوں کے ساتھ کام شروع کرنا چاہیے. تاہم جو لوگ تھوڑا بہت علم رکھتے ہوں انہیں براہ راست اور طویل المدتی سرمایہ کاری کرنی چاہیے. جن لوگوں کو یہ پتا ہو کہ سٹاک مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے وہ مارجن ٹریڈنگ کر سکتے ہیں اور اگر آپ ان لوگوں میں سے جو خود کو سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے بخوبی واقف رکھتے ہیں تو آپ کو derivationsکی چھان پھٹک کرنی چاہیے.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here