اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا گیا ہے کہ مختلف ٹیکس چھوٹ سے قومی خزانے کو 186 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ کمیٹی نے بجٹ تجاویزپر نوٹس نہ لینے پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا۔ پیر کے روز کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فیض اللہ کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہوا۔ کمیٹی نے گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی بجٹ تجاویز پر عملدرآمد کے معاملے کا جائزہ لیا۔
ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی ارکان کو بتایا کہ تجاویز خزانہ ڈویژن کو بھیجی جائیں گی جہاں ان کو بجٹ کا حصہ بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ایف بی آر اپنے طور پر ٹیکس کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
اس موقع پراراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ابھی تک ان تجاویز پر فیصلہ نہ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کمیٹی کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ہماری تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لینا تو پھر ہمیں ان پر کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
رکن نفیسہ شاہ نے کہاکہ بھارت نے پاکستان سے تجارت بند کر دی ،سندھ کے کھجورکے کسان اور برآمد کندہ بہت متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت نے برآمدات بڑھانے کیلئے انفراسٹرکچر اور سٹوریج پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ کمیٹی بجٹ سازی میں زیادہ کردار کیلئے رولز میں تبدیلی کرے۔ انہوں نے کہاکہ فی الحال تو ہم تجویز دے سکتے ہیں مگر اختیار صرف حکومت کے پاس ہے۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے۔
فیض اللہ نے کہاکہ ایف بی آر نے ہماری تجاویز پر کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔ ممبر کسٹم پالیسی نے کہا کہ ممبران کی تجاویز پر غور کے بعد اپنی سفارشات دیں ہیں فیصلہ حکومت کریگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کوئی اپنی رائے تو دیں کہ قابل عمل ہے بھی یا نہیں۔ فیض اللہ نے کہا کہ کمیٹی بجٹ میں اپنی سفارشات دے گی۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی تجاویز پر غور کیا جائے ورنہ کمیٹی کا کوئی فائدہ نہیں۔
عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ہماری تجاویز پر رائے دیں کہ بجٹ میں کون سی تجویز شامل کریں گے۔
ڈاکٹر رمیش کمار نے کہاکہ ایف بی آر بتائے کہ تجاویز کا ریونیو اثر کیا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ آپ کمیٹی کی تجاویز پر اپنی رائے دے کر فیصلے کیلئے حکومت کو بجھوا دیں۔
ایف بی آر کے حکام نے بتایا کہ کسٹمز ڈیوٹیز میں تبیدیلیاں زیرغور ہیں۔ ایف بی آر ایسی ڈیوٹیز چاہتا ہے جس سے پاکستان میں نہ صرف کاروبار میں آسانیاں ہوں بلکہ مقامی صنعت کو تحفظ بھی مل سکے۔
وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ ایسے قوانین زیرغور ہیں جس میں ریگولیٹری ڈیوٹیز اور کسٹمز ڈیوٹیز کو کم کیا جا سکے۔ آزاد تجارتی معاہدے کے ممالک سے ملنے والی سستی اشیا کی سہولت دوسرے ملک سے اسی ڈیوٹی کے ساتھ درآمد کرنے کی بھی اجازت دے رہے ہیں۔