تبدیلی کی ہوا بعض اوقات بڑی کمپنیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں‌ لے لیتی ہے ایسی کمپنیوں کو بھی جن کا نام ہی کافی ہے۔ زیادہ تر شہری علاقوں میں جب لوگوں نے کوئی چیز بھیجنی ہوتی ہے تو اکثر بس اتنا کہتے ہیں “TCS کروا لو” پھر چاہے وہ کسی بھی کورئیر کمپنی سے بھجوانا ہو۔ اس معیار کی کمپنی جس پر صارف اعتماد کرتے ہوں اسے عموماً محفوظ گردانا جاتا ہے جس کا مستقبل مستحکم ہو۔
TCS کے معاملات خوش اسلوبی سے نہیں چل رہے۔ اور اس کی وجہ انتظامیہ میں ہنگامی تبدیلیاں، مسابقت کی مشکل دوڑ، ناقص کسٹمر سروسز اور ناقص مالی کارکردگی مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے اس بڑے برانڈ کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا؟ اور کیا یہ کمپنی دوبارہ اٹھے گی یا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا جائے گا؟
TCS کمپنی 36 سال سے کاروبار کر رہی ہے اور ریٹیل لاجسٹکس کے کاروبار میں سب سے بڑا نام ہے۔ TCS ہر سال تقریباً 13 کروڑ شپ منٹس کرتی ہے۔ بڑے نیٹ ورک کی بدولت اس کمپنی میں 4 ہزار کوریئر سمیت 10 ہزار سے زائد پیشہ وار افراد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 740 TCS مقامات، ایک مخصوص چارٹرڈ بوئنگ 737 ہوائی جہاز، سیٹلائیٹ سے ٹریک کی سہولیات کیساتھ 375 گاڑیاں موجود ہیں۔ بین الاقوامی برانڈز ڈی ایچ ایل (DHL) اور فیڈ ایکس (FedEx) کی موجودگی کے باوجود یہ ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔
TCS کے ایکسپریس اینڈ لاجسٹکس، میل منیجمنٹ سولیوشنز، ایئر فریٹ سولیوشنز اور ویزا ڈلیوری سمیت 14 کاروباری ادارے ہیں۔ جو اپنے شراکت داروں سے مل کر 3500 سے زائد بین الاقوامی مقامات تک اپنی سہولیات پہنچاتے ہیں۔ فن تعمیر اور جدت سے بھرپور یہ کمپنی ایک دن سے بھی مختصر وقت میں 20 لاکھ تک اسٹیمپ اور 6 لاکھ لفافہ جات پرنٹ کرنے کی قابلیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں جب بھی کوریئر سروسز کی بات ہو تو پہلا خیال TCS کا ہی ابھرتا ہے اور یہ کمپنی اس میدان میں ابتداء سے ہی موجود ہے۔
جب ہم آپ کو TCS کی کہانی بتائیں گے تو آپ اس میں اپنی فیلڈ میں جدت پسندی، عالمی معیار پر کھرے جیسے کچھ موضوعات کو متواتر پائیں گے اور ایک ایسا مالک جو باہر سے منیجرز کو کمپنی کے روزمرہ معاملات کیلئے کنٹرول دینے پر راضی ہے۔ تاہم اس کمپنی کے مالک نے ہمیشہ کامیاب حکمت عملی کے ساتھ کوشش کی ہے اور اس کمپنی کو پروفیشنل تنظیم بنانے کیلئے تمام بانیوں کی کوششیں شامل رہیں لیکن بعض اوقات گھریلو مسائل کاروبار میں فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
یہ بھی ماضی کی ایک روایت چلتی آ رہی ہے۔ اگرچہ TCS نے اپنے ہر مسئلے سے بخوبی قابو پا لیا اور بعض اوقات پہلے سے بہتر بن کے ابھری۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ اس دفعہ بھی سب اچھا ہی ہوگا۔
خالد اعوان اور نجی کوریئر کا عروج
اس کمپنی بانی خالد اعوان نے اپنے کیریئر کا آغاز پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) میں بطور فلائیٹ انجینئر کیا۔ 1983ء میں 35 برس کی عمر میں انہوں نے پی آئی اے کو خیرباد کہہ کر اپنے بڑے بھائی صدیق کے ساتھ لاجسٹک کے کاروبار کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا جو ان سے عمر میں 23 سال بڑے تھے۔ دونوں بھائیوں نے جرمن پوسٹ آفس کی زیر ملکیت انٹرنیشنل کوریئر سروس ڈی ایچ ایل (DHL) کے اشتراک سے ایک نئی کمپنی کا آغاز کیا۔
ابتدائی کچھ سال کٹھن تھے حتیٰ کہ اس سروس کیلئے ریگولیٹری منظوری بھی آسان نہ تھی۔ 1898ء پوسٹ آفس ایکٹ کے تحت پوسٹ آفس کے علاوہ کوئی شخص یا ادارہ “خطوط” بھیجنے کا مجاز نہیں تاہم لفظ “خطوط” کی واضح نشاندہی قانون میں موجود نہیں۔ ٹی سی ایس بحث کے قابل ہو گیا کہ اسے “کاروباری کاغذات” کی ترسیل کی اجازت دی جائے اور اس کے پارٹنر ڈی ایچ ایل کو پیکج ڈلیوری اور پاکستان سے ڈاک دوسرے ممالک بھیجنے کی اجازت دی جائے۔
ڈی ایچ ایل کے ساتھ معاہدے کے مطابق بین الاقوامی پیکج ڈلیوری مشترکہ بنیادہ پر ہوگی جس میں ڈی ایچل 51 اور ٹی سی ایس 49 فیصد کی حقدار ہوگی جبکہ مقامی ڈلیوری کا بزنس سو فیصد ٹی سی ایس کے پاس ہوگا۔ اتنظامی کنٹرول مکمل طور پر اعوان برادرز کے پاس ہوگا جس میں خالد اعوان بطور سی ای او اور صدیق اعوان کمپنی کے بورڈ کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیں‌گے۔
خاص طور پر انتظامی کنٹرول کے حوالے سے ڈی ایچ ایل معاہدے پر رضامند ہوگیا لیکن صرف اسی صورت میں اگر خالد ڈی ایچ ایل کے کاروباری رموز سمجھنے کیلئے وہاں تربیت لیں جس پر دونوں بھائی فوری رضامند ہوگئے۔
اس معاہدے کا ڈی ایچ ایل کو فائدہ ہوا کیونکہ اسے پاکستان میں اپنے حریفوں کی نسبت تیزی سے آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ اور ٹی سی ایس کو اس کا فائدہ ہوا کیونکہ اسے ایک عالمی معتبر ادارے سے تکنیکی اور انتظامی معاونت حاصل ہوئی۔
اس دوران حکومت اس سوال کا جواب مکمل طور پر نہ ڈھونڈ سکی کہ آیا ٹی سی ایس جو ڈلیور کر رہا ہے وہ “خطوط” ہی ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ پوسٹ آفس مخصوص پیکج کی ترسیلی کے حق سے متعلق ٹی سی ایس پر عدالتی کارروائی کر سکتا ہے۔ تاہم یہ طویل قانونی جنگ حکومت کو ٹی سی ایس کے آپریشنز پر 10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی لگانے سے روک نہ سکی جو بعد میں جنرل سیلز ٹیکس میں‌ بدل گیا۔
حکومت ٹی سی ایس کو قوانین کے تحت منظورشدہ ہونے کی گارنٹی نہیں‌دینا چاہتی تھی لیکن یہ کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں‌کہ ان سہولیات کی فراہمی کیلئے اس پر ٹیکس لگائے گئے۔
1985ء میں ٹی سی ایس کو ابتدائی کامیابی تب ملی جب اس نے ایک دن کے دورانیے میں ملک بھر میں بینکوں کی 4000 برانچز پر ڈلیوری کیلئے پاکستان بینکنگ کونسل کا کنٹریکٹ حاصل کیا اور اس وقت سے یہ کاروبار ترقی کی جانب گامزن رہا۔
جانشینی کا پہلا مسئلہ
خالد اور صدیق نے مل کر شاندار کامیابی سمیٹیں لیکن جب یہ کاروبار مستحکم ہو گیا تو اندازہ ہوا کہ انہیں اس کاروبار کےاگلے جانشین کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ چونکہ صدیق عمر میں بڑا تھا اس لئے وہ اپنی جائیداد اپنے اکلوتے بیٹے سلیم کو منتقل کرکے جلد ریٹائرڈ ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ تاہم سلیم کو خاندانی کاروبار میں خاص دلچسپی نہ تھی اور خالد پریشان تھا کہ اگر اپنے والد کی جگہ سنبھالنے کیلئے سلیم سے اصرار کاربار کیلئے نقصان دہ نہ ہو۔
تاہم خالد معاملہ فہم تھا اور آنے والے تضاد کے بارے میں پہلے سے باخبر تھا۔ 1991ء میں اس نے اپنے بھائی کو کاروبار تقسیم کرنے کا مشورہ دیا جس میں صدیق زیادہ منافع بخش بین الاقوامی بزنس کا مکمل مالک ہوگا اور خالد مقامی کوریئر کے کاروبار کا مکمل نظام سنبھالے گا۔ سلیم خاندانی کاروبار کی تقسیم سے مکمل طور پر خوش نہیں تھا لیکن کم از کم خالد نے کسی بھی ناخوشگوار تجربے سے سب کو بچا لیا تھا۔
زیادہ اہم بات یہ کہ انہوں نے غیرجانبدارانہ فیصلے کئے جن کا اکثر خاندانی کاروباروں میں فقدان ہوتا ہے۔ خالد اعوان دونوں کاروباروں کے درمیان آسانی کیلئے کاروبار پر اثرانداز ہونے والے خاندانی مسائل کو علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ غیر جانبداریت 2000ء میں دوبارہ دیکھنے کو ملی۔ 90ء کی دہائی میں کئی منیجرز ٹی سی ایس کو چھوڑ کر ایک حریف کمپنی لیپرڈ میں منتقل ہو گئے اور خاص طور پر 1996ء میں ان کے دست راست اور کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر جمیل جنجوعہ کمپنی چھوڑ کر برٹش کونسل میں ملازمت شروع کرنے پر خالد اعوان پریشان ہو گئے کہ شاید انہیں ایک مرتبہ پھر جانشینی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسی لئے 1997ء میں خالد اعوان نے اپنے ایک مرحوم بڑے بھائی کے بیٹے کو ممکنہ نامزد جانشین کے طور پر کاروبار میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ جب تک خالد موجود ہیں نوید کی کاروبار سے متعلق تربیت کی جائے اور بتدریج انتظامی اختیارات اسے سونپ دیئے جائیں۔ نوید کی بحیثیت منیجر حوصلہ افزائی کیلئے اسے کمپنی کا 10 فیصد حصہ دیا گیا۔
تاہم سنہ 2000ء میں یہ واضح ہو گیا کہ نوید اس طرح کا جانشین ثابت نہیں ہو رہا جیسا خالد اسے بنانا چاہ رہا تھا اور شاید اسی وجہ سے نوید نے کمپنی کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ بات واضح نہیں کہ وہ ابھی بھی کمپنی کا 10 فیصد حصہ رکھتا ہے یا نہیں اگرچہ کمپنی کو چھوڑنے کے کچھ عرصہ تک وہ اس حصہ کا مالک تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ جمیل جنجوعہ نے ٹی سی ایس واپسی کا فیصلہ کیا اور خالد اعوان ان کی واپسی پر اتنا خوش تھے کہ انہیں‌کمپنی کا سی ای او بنا دیا اور خود بورڈ کے چیئرمین بن گئے۔ جمیل جنجوعہ اگلے 8 سال تک کمپنی کے سی ای او رہے۔
منان کی آمد
2014ء میں‌خالد اعوان کی سترویں سالگرہ سے پہلے ان کے ذہن میں ایک مرتبہ پھر جانشینی کا خیال ابھرا اور ایک مرتبہ پھر خاندان میں کوئی ان کے معیار پر پورا اترنے میں قاصر تھا۔
خالد اعوان کا چھوٹا بیٹا ایک معقول نوجوان تھا۔ لندن کی سٹی یونیورسٹی میں کیس بزنس سکول یارک سے منیجمنٹ میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرکے اس نے دبئی کی ایک اکاؤنٹنگ فرم میں‌کچھ سال ملازمت کی جس کے بعد وہ کراچی واپس آیا اور خاندانی کاروبار میں‌ بحیثیت بورڈ آف ڈائریکٹرز شمولیت اختیار کر لی۔
کسی بھی عام پاکستانی خاندانی کاروبار میں وہ خودکار طریقے سے ہی جانشین بن جاتا لیکن خالد اعوان ایک عام پاکستانی کاروباری شخصیت نہیں تھے۔ ان کا بیٹا ان کی واحد آپشن نہیں تھا۔
خالد اعوان کی بیٹی سائرہ اعوان نے اپنے آپ کو چھوٹے بھائی سے زیادہ قابل ثابت کیا۔
اس نے 1999ء میں ییل یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا اور پھر یونیورسٹی آف کیمبرج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کلیری گوٹیلیب اسٹین اینڈ ہیملٹن کے برطانوی آفسز میں بحیثیت کارپوریٹ وکیل کام کیا جو دنیا بھر کی سب سے بڑی اور معتبر لاء فرم میں سے ایک ہے۔
سائرہ کو یقینی طور پر خالد اعوان کا نامزد جانشین ہونا چاہیئے؟ وہ بھی کچھ ایسا ہی سوچتی ہے۔
پرافٹ/منافع کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا “جی ہاں، میں ہی اپنے والد کی جانشین ہوں” اگرچہ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ دونوں بھائی بہن کاروبار میں مختلف مناسبت سے اپنے والد کے جانشین کے طور پر بورڈ آف ڈائریکٹرز کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
کمپنی میں موجود ذرائع کے مطابق سائرہ اپنے بھائی کی نسبت زیادہ ذہین ہیں۔ لیکن ٹی سی ایس جیسی بڑی کمپنی کو چلانے کیلئے انہیں ابھی کچھ تجربہ درکار ہے۔
خالد اعوان کی ایک بات کی تعریف کرنی پڑے گی کہ اپنے بچوں کے بلند معیار قائم کرنے کے باوجود انہیں ٹی سی ایس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی کرسی پر براجمان ہونے کا خیال ذہنوں میں لانے کی اجازت نہیں دی۔ یہ بھی قابل تعریف بات ہے وہ اپنوں کو نوازنے کی بجائے کمپنی کی کامیابی میں لگن اور جذبے کو اہم کنجی مانتے ہیں۔
اور اسی لئے خالد اعوان نے کمپنی کے محفوظ مستقبل کیلئے باہر سے ایک ایسے سی ای او کی تلاش شروع کر دی جو کمپنی کا نظام اپنے ہاتھ میں لے اور اس دوران ان کی ملاقات محمد احمد منان سے ہوئی۔
ایم اے منان ایک کامیاب بینکر تھے اور اپنے کیریئر کے عروج پر تھے۔ انہوں نے 1991ء میں آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی اور سٹی بینک میں اُس ٹیم کے ساتھ بطور ٹرینی کام شروع کر دیا جس کی قیادت شوکت ترین کر رہے تھے اور جس نے پاکستان میں‌ بینکن کے نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان اور بیرون ملک کئی مالیاتی اداروں میں اپنے کامیاب کیریئر کے بعد 2014ء میں منان کی ملاقات خالد اعوان سے ہوئی جہاں انہوں نے ہمیشہ کیلئے خالد اعوان کی وراثت کو محفوظ کرنے اور اس طریقے سے معقول سرمایہ اکٹھا کرنے کا نظریہ پیش کیا۔
منان کے پیش کردہ نظریہ یہ تھا کہ کمپنی میں نئی سروسز کی ایک نئی لہر متعارف کروائی جائے جس سے ٹی سی ایس کی آمدن میں اضافہ ہو سکے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر خالد اعوان اپنی کمپنی کو مکمل طور پر یا تو بیچ دے یا اس کا ایک حصہ مہنگے داموں بیچ دیا جائے اور اس کی آمدن سے کمپنی میں مزید سرمایہ کاری کی جائے۔ اس سے خالد کو ان تمام گارنٹیوں سے چھٹکارہ مل سکتا تھا جو ٹی سی ایس کیلئے بینک سے قرض لینے کیلئے درکار ہوتی رہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ کاروبار کی وجہ سے اس کی ذاتی جائیداد بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔
منان کے ساتھ 7 گھنٹوں کی گفتگو کے بعد خالد اعوان نے نہ صرف منان کو سی ای او بنانے کا فیصلہ کیا بلکہ کمپنی کا 20 فیصد حصہ دینے کا بھی فیصلہ کر لیا۔
یہ فیصلہ خالد اعوان کا خاصہ ہرگز نہ تھا گو کہ وہ اپنی وراثت کو بچانے میں بہت محتاط تھا لیکن یہاں وہ اپنی کمپنی کا مستقبل ایک ایسے شخص کے ہاتھ سونپنے کیلئے تیار تھا جسے جانتے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔
لیکن ایک وقت کیلئے یہ فیصلہ بہت اچھا ثابت ہوا۔
ترقی کی کوشش
منان کے سی ای او بننے کے 3 سال تک بیشتر معاملات بخوبی چلتے رہے۔ منان نے اپنے بینکنگ دور کے کئی افراد کو زیادہ تنخواہوں پر کمپنی میں بھرتی کیا۔ ٹی سی ایس میں پہلے سے کام کرنے والے کچھ اہم سٹاف ممبرز کی حوصلہ افزائی کیلئے تنخواہوں میں 300 فیصد تک اضافہ کیا۔
منان نے بہترین آغاز کیا، “ٹی سی ایس حاضر” اور “یہ وہ Yayvo” دو بالکل نئے پراجیکٹس کا آغاز کیا پہلا پراجیکٹ ایک گھنٹے کے اندر ڈلیوری تھا جس سے لوگ قریبی ریٹیلر سے کچھ بھی آرڈر کروا کر ڈلیوری کروا سکتے تھے۔ اور دوسرا ای کامرس کاروبار تھا جو راکٹ انٹرنیٹ (موجودہ علی بابا) کی کمپنی دراز ڈاٹ پی کے کیلئے حریف کے طور پر سامنے آئی۔
اور وعدے کے مطابق منان نے کمپنی کیلئے قرضہ جات کے حصول کیلئے مالک کی ذاتی گارنٹی کے عنصر کو ختم کر دیا۔
یہ دونوں پراجیکٹس مہنگے ثابت ہوئے۔ کمپنی کے مالیاتی مسائل کے آگاہ ذرائع کے مطابق ٹی سی ایس نے 2014ء سے 2018ء تک 4 سال میں اندازاً 80 کروڑ روپے اپنے مرکزی اخراجات کی مد میں خرچ کئے۔
پہلے دو سال یہ سب بہتر چلتا رہا۔ Yayvo پاکستان کا دوسرا بڑا ای کامرس پلیٹ فارم بن گیا اور ٹی سی ایس حاضر نے بھی اپنے کچھ اہداف حاصل کئے۔
لیکن پھر حالات گڑبڑی کی جانب بڑھنے لگے۔
گڑبڑی کی جانب سفر
اس کے بعد حالات نے ایک اور کروٹ لی۔ ہم نے کچھ ٹکڑے جوڑ کر ایک تصویر بنانے کی کوشش کی ہے اور کسی جانب جھکاؤ کی بجائے سائرہ اور منان کے مابین کمپنی کیلئے وژن میں ٹکراؤ کی صورتحال کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
منان کی اپروچ میں بڑی تنقید یہ ہے کہ منان اپنے ساتھ کئی ایسے بینکرز کو اس کمپنی میں لایا جن کے پاس پہلے کبھی لاجسٹک کمپنی کا تجربہ نہیں تھا اور انہیں اس کاروبار کی سمجھ نہیں‌تھی۔ اور اپنے من پسند لوگوں کو بڑی تنخواہوں پر لانے کے نتیجے میں کمپنی میں خوشامد اور چاپلوسی کی نئی فضا نے جنم لیا جو ٹی سی ایس میں پہلے کبھی نہ تھی۔
منان کو بات کرنے کا فن آتا تھا جس سے اسے کافی فائدہ بھی حاصل ہوا لیکن اس کے آئیڈیاز میں کاروبار کی سمجھ کا فقدان تھا۔ مثال کے طور پر ایک گھنٹے میں ڈلیوری کیلئے ٹی سی ایس حاضر کی ابتداء۔
نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش پر ذرائع نے بتایا “ایک دن منان نے میٹنگ بلائی اور سٹاف کو دو قطاریں بنانے کو کہا اور درمیان میں ایک ٹینس بال پھینک دی۔” اس نے بتایا کہ کسی نے درمیان میں پڑی گیند نہ اٹھائی۔ منان نے کہا کہ یہ گیند ہمارا پارسل ڈلیوری رائیڈر ہے۔ جب وہ پارسل ڈلیوری کیلئے باہر جائے تو وہ اپنے راستے میں آنے والے لوگوں کیلئے پارسل پہنچا سکتا ہے۔
شاید لوگوں کو اس کی سمجھ آ جاتی لیکن جس انداز میں ٹی سی ایس حاضر کی ابتدا کی گئی وہ لمحہ فکریہ تھا۔
کمپنی کا مقصد یہ تھا کہ رائیڈرز کے فارغ وقت کو استعمال کرنے کیلئے لوگوں کو آفس یا گھر میں قریبی ریٹیلر سے چیزیں خرید پہنچائی جائیں۔ یہ فوری طور پر کسی ریٹیلر اور ای کامرس کے درمیان آسانی کیلئے رابطہ قائم کرنے کی کوشش تھی۔ دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین آئیڈیا تھا۔
تاہم اس آئیڈیا کو حقیقی شکل دینے میں کمپنی نے وقت کی معیاد کو زیادہ اہمیت نہیں دی کیونکہ اس کے رائیڈرز کو اس طرح کی‌ ڈلیوری کیلئے ہر وقت موجود رہنے کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں کمپنی کے ریگولر پیکجز کی ڈلیوری کا کام متاثر ہوئی جس سے آمدن میں بھی فرق پڑا۔
ذرائع نے کہا “ذرا سوچئے ایک ایسی سنجیدہ کوریئر سروس کا کیا حال ہو جہاں اہم ڈاکیومنٹس پر مشتمل پارسل کی ڈلیوری کی بجائے رائیڈر سگریٹ اور نہاری لینے کیلئے لائن میں کھڑا رہے۔ اس سے ٹی سی ایس کی ڈلیوری میں تعطل آنا شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں کمپنی کا امیج اور بزنس دونوں بری طرح متاثر ہوئے۔
ذرائع نے مزید کہا “ٹی سی ایس حاضر فوری طور پر ایک ناکام کاروبار ثابت ہوا لیکن منان کی انا نے اسے اس پراجیکٹ کو ختم کرنے نہیں دیا۔”
دراز پی کے کے حریف کے طور پر شروع ہونے والی کمپنی Yayvo کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس مدعے پر پر دو مختلف آراء سامنے آئیں۔ منان کے حامی افراد کے مطابق بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او کو اس پراجیکٹ کیلئے سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دی جس کے نتیجے میں کامیابی کا سفر شروع ہی نہ ہو سکا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ Yayvo خالد اعوان کا پیش کردہ پراجیکٹ تھا اور منان کو اس پر عمل درآمد کیلئے کہا گیا تھا۔
تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں‌کہ نامناسب کاموں پر سرمایہ کاری پیسے کا ضیاع ہے۔ دراز پی کے سابق چیف مارکیٹنگ آفیسر حماد راودا کا کہنا ہے “پاکستان میں ایک ای کامرس کاروبار کو شروع کرنے کیلئے 2 سے 3 کروڑ ڈالر لاگت آتی ہے اور دراز پی کے کے علاوہ کوئی بھی ایسا کرنے پر راضی نہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو آپ اپنا وقت اور ذرائع کا ضیاع کر رہے ہیں۔”
اور کمپنی کے ملازمین متفق ہیں کہ Yayvo دراز سے دوڑ میں‌ بہت پیچھے تھی۔ ایک سابق ملازم کا کہنا ہے ” Yayvo کبھی بھی دراز پی کیلئے خطرے کی علامت نہیں رہی۔ اگر Yayvo کے پاس 500 وینڈرز ہیں تو دراز کے پاس 5000 وینڈرز ہیں۔ Yayvo پر اشیاء بھی مہنگی ہیں اور دراز کے پروموشنل ڈسکاؤنٹس بھی زیادہ بہتر ہیں۔”
لیکن کچھ ایسے بھی افراد ہیں جن کا ماننا ہے کہ ٹی سی ایس کو ای کامرس کے کاروبار میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ خاص طور پر جب سے ای کامرس اس کاروبار کا بڑا حصہ بنتا جا رہا تھا۔ باخبر ذرائع نے پرافٹ/منافع کو بتایا کہ ٹی سی ایس دراز پی کے کا ایک تہائی چیزوں کی ڈلیوری کرتا تھا جو ٹی سی ایس کی آمدن کا 8 سے 9 فیصد تھا۔
نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش پر ایک سابق ملازم نے کہا کہ Yayvo کے آغاز سے کچھ اختلافات نے جنم لیا جس کے نتیجے میں سروس کوالٹی میں کمی آئی۔
ذرائع نے بتایا ” Yayvo کی لانچ نے ٹی سی ایس کے وینڈرز کو نقصان پہنچایا۔ پہلے آپ سرمایہ کاری میں شراکت دار تھے جہاں آپ کا کام وینڈرز کو لاجسٹکس کی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ لیکن اپنے شراکت دار کے بزنس ماڈل کو سمجھنے کے بعد آپ نے ان کے مخصوص کام میں دخل دینا شروع کر دیا۔ یہ مفادات کے ٹکراؤ کی واضح‌ مثال ہے۔”
ٹی سی ایس کے ذمہ منان کے بحیثیت سی ای او لئے جانے والے بڑے قرضہ جات، دیر سے ڈلیوری اور اس کی وجہ سے جنم لینے والے پیسے کے بہاؤ کے مسائل شروع ہوتے ہی مفادات کے اس ٹکراؤ کی بدترین صورتحال کا آغاز ہوا۔ ٹی سی ایس نے ای کامرس کیلئے کیش آن ڈیلیوری کے ذریعے حاصل کئے گئے پیسے کو اپنی ذاتی ضروریات کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا
باخبر ذرائع کے مطابق ٹی سی ایس اس وقت ای کامرس وینڈرز کو کیش آن ڈلیوری کی ادائیگی کی مد میں 10 کروڑ روپے کی مقروض ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نہ ہی وینڈرز اور نہ ہی دراز پی کے جیسے پلیٹ فارم اس صورتحال سے خوش تھے۔ وینڈرز اور پلیٹ فارمز نے لیپرڈ، ایم اینڈ پی کوریئرز، بلیو ایکس لاجسٹکس اور دیگر کوریئر سروسز کا استعمال شروع کر دیا۔
کئی ای کامرس وینڈرز اس بارے میں فیس بک پر بھی ٹی سی ایس اور کچھ دیگر کوریئر سروسز سے متعلق ادائیگیوں میں تاخیر پر شکایت کرتے نظر آئے۔


اور اس وقت ٹی سی ایس کے سب سے بڑے کسٹمر دراز پی کے پاس بھی دراز ایکسپریس کے نام سے اپنی کوریئر سروس ہے۔ ایک سابق ملازم کا کہنا تھا “میرا ماننا ہے کہ ٹی سی ایس کے Yayvo پراجیکٹ جیسے ناخوشگوار تجربے کی وجہ سے دراز نے اپنی خود کی کوریئر شروع کی۔”
اور اب یہ دراز علی بابا کے پاس ہے جو ہے جو لاجسٹکس کے کاروبار میں تیزی سے اپنی جگہ بناتے ہوئے ٹی سی ایس کے مرکزی کاروبار کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
سائرہ کا کہنا ہے “جی بالکل، ہم جانتے ہیں کہ دراز اپنی سروس شروع کر رہی ہے۔ ہم دراز کے ساتھ قریبی کاروباری تعلقات رکھتے ہیں اور ہم نے اس بارے میں‌ گفتگو کی ہے اور ہم یہ بات جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جسے بیرون ممالک ای کامرس کمپنیاں بھی اپناتی ہیں۔ ایمازون نے بھی امریکہ میں ایسا ہی کیا۔ ہمیں اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں‌ہوتا۔ جیسا میں نے کہا ہم ان کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ ہم میدان میں ذہین اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کھلاڑیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے ہمیں‌ بھی خود میں کافی تبدیلیوں کی گنجائش ملے گی۔ تو یہ سب مثبت اقدام ہیں اور یہ ان پاکستانی صارفین کیلئے بھی بہتر ہے جنہیں‌ ہم اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں‌مجموعی طور پر اس کا جائزہ لینا چاہئے۔
دال میں کچھ تو کالا ہے۔
فروخت کی ڈیل اور منان کی علیحدگی
اس وقت تک منان اور اور خالد اعوان مختلف سمتوں میں کام کر رہے تھے۔ خالد کو منان کی سمت پستی کی جانب جاتی محسوس ہوتی تھی جبکہ منان کا خیال تھا کہ وہ کامیابی سے ایک کمپنی کے قیام کی طرف سفر کر رہا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے تیار ہے۔
خالد اعوان نے کمپنی پر اپنا تاثر دوبارہ جمانا شروع کر دیا اور اسی وقت سائرہ پاکستان واپس آئی اور کمپنی جوائن کر کے اپنا تاثر جمانا شروع کر دیا۔ خاندان کی جانب سے کمپنی میں لی جانے والی نئی دلچسپی منان کو ہلکی سی کھٹکی لیکن اس نے اپنی کوششیں ایسے سرمایہ کار تلاش کرنے پر مرکوز کر دیں جو کمپنی کے تمام حصص خریدنے کو تیار ہو جائیں۔
کمپنی کی آمدن بڑھنا شروع ہو گئی۔ رواں مالی سال میں‌ ٹی سی ایس کی آمدن 14 ارب 50 کروڑ روپے رہی لیکن اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ Yayvo کی وصولیاں 1 ارب 80 کروڑ تک جا پہنچی جو اس کی کل آمدن کا تقریباً 12.4 فیصد ہے۔
2018ء کے وسط میں منان کو ایک خریدار مل گیا۔ امارات کے کئی امیر خاندانوں کے زیرملکیت ملٹی پرائیوٹ ایکوئٹی فرم اجرا کیپیٹل نے 20 کروڑ ڈالر کے عوض کمپنی خریدنے میں‌ دلچسپی ظاہر کی۔
پچھلے سال اگست میں منان اور خالد اعوان نے اس سودے کی تفصیلات پر بات چیت کی اور ایسا لگتا تھا کہ شاید وہ سوموار کے روز ہونے والی منیجمنٹ میٹنگ میں اس کے بارے میں اعلان کریں گے۔ عین اس وقت صورتحال نے ایک عجیب موڑ لیا۔
منیجمنٹ کمیٹی میں سب امید کر رہے تھے کہ منان اور خالد دونوں سودے کی تفصیلات بارے اعلان کریں گے۔ تاہم منان نہیں آیا اور صرف خالد نے میٹنگ اٹینڈ کی اور کچھ الگ ہی اعلان کر دیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق “انہوں نے کہا مالی اور کام کرنے کے حوالے سے کمپنی ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صدر اور سی ای او (منان) کو الوداع کہا جائے۔” ذرائع نے مزید کہا “یہ ہم سب کیلئے ایک جھٹکا تھا۔”
باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ خالد اعوان کی اولاد خاص طور پر سائرہ اس سودے کے حق میں نہیں تھی اور انہوں نے اپنے والد پر زور دیا کہ انہیں یہ قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ اور جب سے منان نے ٹی سی ایس کا سارا زور ایک کمپنی کی کامیاب فروخت پر لگا دیا اس کے بعد کمپنی میں اس کی ضرورت نہیں رہی۔ منان کو کمپنی سے نکالا گیا یا اس نے خود استعفیٰ دیا یہ غیر واضح ہے اور شاید غیر اہم بھی۔
ان کے مطابق منان کو بورڈ کی جانب سے نکالا گیا۔ سائرہ نے کہا “کچھ وقت گزرنے کے بعد ہمیشہ آپ کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہم نے محسوس کیا کہ ستمبر 2018ء جب سے منان صاحب گئے اور جب وہ گئے وہ ایسا وقت تھا جب بورڈ میں اختلافات کی بجائے سب کا ایک صفحہ پر ہونا زیادہ ضروری تھا۔ بورڈ کے ان سے اچھے تعلقات تھے، منیجمنٹ‌ کے ان سے اچھے تعلقات تھے اور اس وجہ سے ان سے کوئی اختلاف نہیں کرتا تھا۔
ہم بطور خاندان بہت زیادہ کمٹڈ ہیں اور اگلی نسل اس کاروبار کو مزید آگے لے جانا چاہتی ہے۔ اور ہمیں یہ لگا کہ ہمیں اپنے مرکز پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مانتے یں کہ لاجسٹکس ہماری بنیادی طاقت ہے اور ہماری پہلی ترجیح بھی ہے۔ اسی لئے بورڈ‌ میں کچھ اصلاحاتی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آئی اور کمپنی کو اس کے مقام پر پہنچانے کیلئے ہم نے محسوس کیا کہ مختلف ہونا ضروری ہے۔ میری مراد مختلف لیڈرشپ سے نہیں ہے بلکہ میں یہ واضح کر دوں کہ ہمارے حالیہ سی ای او سلمان اکرم نے ٹی سی ایس میں نیچے سے ترقی کی ہے۔ تو دوبارہ، ہم اپنی منیجمنٹ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ ٹی سی ایس میں کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین کو یہاں کام کرتے 10 سے 15 سال گزر گئے تو یہاں کمپنی کو سیکھنے اور سمجھنے کی بہت گنجائش ہے۔ تو ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں سمت اور اپنی توجہ بدلنی پڑے گی۔”
2013ء میں ٹی سی ایس نے سٹینڈرڈ چارٹرڈ پرائیوٹ بینک (مشرق وسطیٰ) سے 5 کروڑ ڈالر کی پیشکش قبول کر لی تھی۔ اس ڈیل کیلئے مذاکرات اس وقت کے سی ای او ثاقب ہمدانی نے ٹی سی ایس کی جزوی فروخت کیلئے کئے تھے جو سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی مذاکراتی ٹیم میں اعلیٰ‌ سطحی تبدیلیوں کی وجہ سے آخری وقت میں ناکام ہو گئی تھی۔
جانشینی کی لپیٹ اور اس کے اثرات
باخبر ذرائع کے مطابق اس فیصلہ کن سوموار کے بعد منان اور اس کی ٹیم کا شروع کیا گیا ہر کام روک دیا گیا۔ ہر وہ شخص جو منان کی ٹیم کا حصہ تھا کو بھی خاموشی سے اس کمپنی سے جانا پڑا۔
ہر وہ شخص جو منان کے قریب تھا اس نے یا تو استعفیٰ‌ دیا یا اسے مستعفی ہونا پڑا۔ ٹی سی ایس ای کامرس کے سربراہ سلمان حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے زیرانتظام دو ادارے Yayvo اور سینٹیمنٹس تھے۔ ہیومن ریسورسز کی سربراہ اسما شیخ، ڈائریکٹر آف انوویشن اینڈ کسٹمر سروس سہیل شیخ اور مارکیٹنگ کے سربراہ نیر سیفی سب اس جانشینی کی لپیٹ میں آگئے۔
ایک اور ذرائع کا کہنا تھا “منان اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو کنٹریکٹ کے مطابق پورا معاوضہ ملا۔ تاہم کمپنی کے سب سے اہم ادارے ہیومن ریسورس کو اس کی قیمت بھگتنی پڑی۔ منان کے جانے کے بعد جن لوگوں انتظامی امور سنبھالے انہوں نے مالی دباؤ کو کم کرنے کیلئے ملازمین کو نکالنا شروع کر دیا۔”
ذرائع نے مزید کہا “وہ لوگ جو 35 سال سے یہاں ملازمت کر رہے تھے انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ جن لوگوں نے 3 سال بعد ریٹائرڈ ہو جانا تھا انہیں ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا۔”
ذرائع نے کہا کہ چیئرمین خالد اعوان ماضی میں ایک اچھے مالک تھے لیکن منان کے معاملے میں اور اس کے بعد انہوں نے اختیارات انتظامیہ کو سونپ دیئے ہیں اور خود آنکھیں بند کر لیں ہیں۔
ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ انتظامیہ نے ملازمین کو نوکریوں سے نہ نکالنے کی ہدایات کو بھی رد کر دیا ہے۔ ایک ذرائع نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ محنت سے کھڑی کی ہوئی کمپنی کی یہ حالت دیکھ کر نہایت صحتمند اور جسمانی لحاظ سے تندرست خالد اعوان کو حال ہی میں ایک ہارٹ اٹیک آیا ہے۔
ذرائع نے کہا “مالکان کی جانب سے غیریقینی کی صورتحال ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اب کس کو نکال دیا جائے۔ ہر کوئی اپنا سی وی دوستوں‌ اور رشتہ داروں کو بھیج رہا ہے اور اب کسی کی بھی روزمرہ کاموں میں دلچسپی باقی نہیں رہ گئی۔ اس سے کمپنی کا کام متاثر ہو رہا ہے۔”
تاہم سائرہ کا اس تمام صورتحال پر مختلف مؤقف ہے۔ اس کا کہنا ہے “معاشی دباؤ اور مالی دباؤ کا دور سنہری مواقعوں کا بھی دور ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بعض اوقات آپ کو ایسے فیصلے مجبوری میں کرنا پڑتے ہیں جنہیں آپ نہیں‌کرنا چاہتے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ گزر گیا۔ اگرچہ مالی حالات نامناسب ہیں لیکن اس میں ہمیں تبدیلی کا پلان بنانے میں مدد ملی ہے جو ہم سب کیلئے فائدہ مند ہے۔”
شاید سائرہ صحیح کہہ رہی ہے۔ 90ء کی دہائی کے اختتام اور 2000ء کے آغاز اس کمپنی کے منافع کی شرح 15 فیصد اور خالص منافع کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ان دنوں ٹی سی ایس کے آپریٹنگ منافع کی شرح تقریباً 6.5 فیصد تھی اور خالص‌منافع کی شرح 2 فیصد تھی۔
اس وقت کمپنی کے ذمہ تقریباً 4 ارب 70 کروڑ روپے کے بھاری قرضے ہیں جن میں سے زیادہ تر قرضے منان کے دور میں لئے گئے اور یہ کمپنی کے کیپیٹل سٹرکچر کا 75 فیصد ہے۔ ٹی سی ایس کے اس رویے سے متعدد بینک منان کے بعد آنے والی ٹیم پر اعتماد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عامر اقبال کو نیا چیف فنانشل آفیسر کے طور پر لایا گیا ہے۔ عامر اقبال کا ٹریک ریکارڈ بینکوں کی جانب سے کچھ خاص پسند نہیں کیا جاتا۔ وہ 1998ء اور 2002ء کے دوران گلستان گروپ کے کنٹرولر تھے اس وقت یہ گروپ قرض دہندگان کو ادائیگیاں کرنے میں قاصر رہا تھا۔
عامر اقبال کو کمپنی کی منیجمنٹ میں سائرہ نے متعارف کروایا تھا جبکہ منان سی ای او ہی تھے۔ اگرچہ منان کے پاس سی ایف او ریاض الدین موجود تھا جو ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا اور اس سے پہلے 10 سال کوکا کولا پاکستان میں بحیثیت سی ایف او کام کر چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عامر اقبال سائرہ کے خاوند مدثر ملک کا اچھا دوست ہے۔ جو سرمایہ کاری بینکر اور بی ایم اے کیپیٹل کا شریک بانی ہے۔ ان دونوں نے اس وقت اکٹھے کام کیا تھا جب عامر بی ایم اے کے ایک ذیلی ادارے میں چیف فنانشل آفیسر تھا۔
اپنے پاس رکھیں گے یا فروخت کریں گے؟
اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹی سی ایس کو کہیں سے تو اپنے سرمایے میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ منیجمنٹ کا یہ خیال ہے کہ Yayvo کو بیچ کر 10 کروڑ ڈالر کا سرمایہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ برے وقت میں یہی سب سے بہتر ہے۔ دراز پی کے کی 15 کروڑ ڈالر میں‌ فروخت کے بعد زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ Yayvo 2 سے 3 کروڑ ڈالر میں بکے گی۔
Yayvo کی فروخت کے انکار کے بعد بالآخر ٹی سی ایس انتظامیہ کو سمجھ آ ہی گئی کہ اس آپشن پر تھوڑا غور کرنا چاہیئے۔ سائرہ اعوان نے کہا ” Yayvo کیلئے ہمارا حالیہ پلان یہ ہے کہ سرمائے میں اضافہ کیا جائے اور کچھ سٹریٹجک پارٹنرشپ کی گنجائش پیدا کی جائے تاکہ Yayvo کی ترقی کو تیز کیا جا سکے۔”
Yayvo کی فروخت سے ٹی سی ایس کے ذمہ قرضہ جات میں کمی کی جا سکتی ہے لیکن زیادہ تر قرض دینے والے اداروں کا ماننا ہے کہ یہ کمپنی اپنے کچھ حصص فروخت کر کے پیسہ اکٹھا کر سکتی ہے اور انتظامی اتار چڑھاؤ نے عوامی لحاظ سے بھی کمپنی کو متاثر کیا ہے۔ سی ای او کی اچانک برطرفی سے سرمایہ کاروں کا کسی بھی ادارے سے اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔
سائرہ نے اپنا مؤقف واضح کر دیا کہ وہ کمپنی کو کسی صورت فروخت نہیں‌ کرنا چاہتی اور اس کمپنی کو ہر قیمت پر چلانا چاہتی ہے۔
اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ شاید خالد اعوان کا اندازہ غلط ہے اور سائرہ ٹی سی ایس کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لائق ہے۔ اگر وہ Yayvo کی شاندار فروخت میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور کمپنی کے ذمہ تمام قرضہ جات اور واجبات کی ادائیگی کر دیتی ہیں تو وہ ناقدین کو حیران کر سکتی ہیں۔ اس کیلئے وہ چائنہ اور متحدہ عرب امارات میں خریدار کی تلاش کر رہی ہیں۔
خالد اعوان نے اپنی ساری زندگی ایک ایسا کاروبار کھڑا کرنے میں انتھک محنت کی ہے جس میں خاندانی اثر کا تاثر بھی نہیں ہے اور جہاں میرٹ ہی پہلی ترجیح ہے۔ ان کی بیٹی کو آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ خالد اور ٹی سی ایس دونوں کیلئے سائرہ اس کمپنی کا بہتر مستقبل ثابت ہوں گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here