کیا تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع پاکستان میں مذہبی سیاحت کا سب سے بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے؟
لاہور کے گردونواح میں بسا ایک چھوٹا سا شہر رائیونڈ جو جنوب کی سب سے بڑی مذہبی تحریک تبلیغی جماعت کا گڑھ ہے. ہر سال یہاں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اور پیروکار سالانہ اجتماع میں اکٹھے ہوتے ہیں. لوگوں کی آمد کا یہ سلسلہ اپنے ساتھ ایک بہت بڑی معاشی سرگرمیوں کی بھی وجہ بنتا ہے.
پرافٹ/منافع سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحیم نامی دکاندار کا کہنا تھا “جب سے جماعت نے اپنا مرکز رائیونڈ کو بنایا ہے تب سے میرا خاندان یہاں آنے والوں کیلئے اشیائے ضروریہ کی فروخت کا کاروبار کر رہا ہے. عام دنوں میں تقریباً 10 سے 15 ہزار کا سامان یومیہ فروخت ہو جاتا ہے.”
تاہم اجتماع کے دنوں میں یہ تخمینہ لگ بھگ 45 سے 50 ہزار یومیہ تک پہنچ سکتا ہے.
زیادہ تر دکانداروں کی طرح عبدالرحیم سلیپنگ بیگز، بیگز، کیمپنگ کیلئے ٹینٹ اور دیگر متعلقہ اشیاء فروخت کرتا ہے. رائیونڈ میں آنے والوں کیلئے ان اشیاء کی مانگ بہت زیادہ ہے. یہاں 4 لاکھ مربع فٹ سے زیادہ جگہ کشادگی کا احساس دلاتی ہے. مرکز میں ایک مسجد، ایک مدرسہ، رہائشی علاہ اور تحریک کا ہیڈکوارٹر موجود ہے اور دنیا بھر میں موجود تبلیغی جماعت کے پیروکار اسے روحانی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز مانتے ہیں.
پیروکار سال بھر رائیونڈ مرکز کا دورہ کرتے ہیں جہاں انہیں مذہبی تربیت دی جاتی ہے اور پھر گروپس کی شکل میں پاکستان اور بیرون ملک تبلیغی سرگرمیوں کیلئے بھیج دیا جاتا ہے. ہر سال نومبر کے مہینے میں یہاں ایک سالانہ اجتماع بھی ہوتا ہے.
روایتی طور پر یہ اجتماع سہ روزہ ہوتا ہے جو جمعرات کی شام سے شروع ہو کر اتوار تک جاری رہتا ہے جس میں خصوصی دعا کروائی جاتی ہے. سالانہ اجتماع میں دنیا بھر سے تقریباً 20 لاکھ عقیدت مند شرکت کرتے ہیں. خاص طور پر اجتماع کے آخری روز مشہور شخصیات اور سیاستدانوں سمیت کئی لاکھ افراد اپنی روزمرہ کی زندگی سے ہٹ کر اجتماع میں شریک ہوتے ہیں.مرحوم گلوگار جنید جمشید بھی جماعت کے ساتھ عظیم کرکٹر سعید انور اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی بھی جماعت کے ساتھ منسلک ہیں.
نومبر کے علاوہ مارچ کے مہینے میں بھی ایک اجتماع ہوتا ہے جو قدرے مختصر ہوتا ہے. مارچ 2019ء میں اندازاً 3 لاکھ افراد نے اس اجتماع میں شرکت کی جن میں 5 ہزار 3 سو 24 افراد نے 93 مختلف ممالک سے پاکستان آ کر شرکت کی.
قریبی بازار میں ملنے والے سلیپنگ بیگز کی مالیت 15 سو روپے سے لے کر 4 ہزار 5 سو روپے، سفری میٹرس کی قیمت 750 روپے سے 900 روپے، کیمپنگ ٹینٹ کی قیمت 900 سے 1 ہزار روپے اور جماعت کے اراکین اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی پسندیدہ خوشبو عطر کی قیمت فی بوتل 75 روپے سے 40 ہزار روپے تک ہے.
عبدالرحیم کا کہنا ہے “میری دکان سے خریداری کرنے والوں میں زیادہ تعداد عقیدت مندوں کی ہے. قیمت میں نسبتاً سستا ہونے کے باعث لاہور سے کچھ لوگ بھی یہاں آکر کیپمنگ کیلئے مجھ سے خریداری کرتے ہیں.”
رائیونڈ میں عقیدت مندوں کی بڑی تعداد کی آمد کے باعث دوسرے کئی مقامی کاروباری افراد بھی یہاں موجود معاشی مواقعوں سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے یہاں کا رخ کرتے ہیں. الیکٹرانک اشیاء کے بڑھتے استعمال کے باعث اس بڑے اجتماع میں عقیدت مندوں کیلئے موبائل فون کو چارج کرنا ایک نہایت اعصاب شکن کام ہے کیونکہ رش کے باعث چارجنگ کیلئے کوئی بجلی کی ساکٹ ہی دستیاب نہیں ہوتی. اس مشکل کو آسان بنانے کیلئے بازار میں کچھ چھوٹے دکانداروں نے آنے والے عقیدت مندوں کیلئے 20 روپے فی موبائل فون چارج کی سہولت مہیا کر رکھی ہے. ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دکان یومیہ 150 سے 250 افراد کو یہ خدمات دیتی ہے.
اگرچہ چھوٹے کاروباری افراد ان مواقع سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن پاکستان کو بحیثیت قوم اس طرح کے اجتماعات میں معاشی مواقعوں پر انحصار کرنا ہوگا. اس سے یقیناً مذہب یا عقائد سے متعلق سیاحت کی رحجان سازی کا آغاز ہوگا اور عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گا. متحدہ اقوام کے زیر انتظام عالمی سیاحت کو یقینی بنانے اور اس کے فروغ کیلئے قائم عالمی ادارہ سیاحت 2014ء سے اب تک مذہبی سیاحت کے ممکنات سے متعلق متعدد کانفرنسز کا انعقاد کر چکا ہے.
حج اور تبلیغی جماعت کا اجتماع
اگر ان ممالک کی بات کی جائے جنہوں نے مذہبی سیاحت سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے تو سعودی عرب کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے جس نے مکہ اور مدینہ میں حجاج کرام کی آمدورفت کو بلین ڈالر مارکیٹ میں بدل کر رکھ دیا.
گزشتہ سال تقریباً 24 لاکھ مسلمانوں نے حج کیلئے مکہ مکرمہ کا رخ کیا. خام اندازے کے مطابق سعودی عرب نے اس زمرے میں تقریباً 8 ارب امریکی ڈالر کمائے. صحیح اور منظم حکمت عملی سے پاکستان مذہبی سیاحت کے زمرے میں کافی زرمبادلہ کما سکتا ہے.
مکہ مکرمہ جانے کیلئے نجی ٹور آپریٹرز اسپیشل پیکجز فراہم کرتے ہیں. ریٹرن ٹکٹ، ویزا، ہوٹل میں قیام و طعام شامل کرکے پاکستان میں اس قسم کے اسپیشل پیکج کی لاگت زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ روپے فی کس ہو سکتی ہے. فی الحال رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں بیرون ممالک سے آنے والے عقیدت مندوں کیلئے کسی قسم کی سفری سہولیات دستیاب نہیں ہیں.
سعودی عرب میں حج کی غرض سے آنے والی مسلمانوں کی بڑی تعداد سعودی عرب کی اریبین ایئرلائنز استعمال کرتی ہے جس سے 2017ء میں اس کی شرح ترقی میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا. اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) 19 ممالک میں 26 بین الاقوامی مقامات پر ہی پرواز کرتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ پاکستان میں آنے کیلئے دیگر ایئرلائنز کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو عارضی قیام کی مد میں وقت اور پیسہ دونوں کا ہی ضیاع ہوتا ہے.
تبلیغی جماعت کا اجتماع اور معاشی سرگرمیاں
اگرچہ تبلیغی جماعت کے ایسے اجتماعات عبدالرحیم جیسے چھوٹے کاروباری افراد کیلئے تو معاشی مواقع ہو سکتے ہیں لیکن جماعت کے سادگی پسند رحجان کے باعث یہاں معاشی سرگرمیاں محدود ہیں.
اراکین کے وفود بیرون ممالک اور پاکستان کے مختلف حصوں میں مذہبی سرگرمیوں کیلئے بھیجے جاتے ہیں جن کی مدت ایک یوم سے ایک سال ہو سکتی ہے. لیکن اس کیلئے تمام ممبران مل کر سفری اخراجات کیلئے رقم اکٹھی کرتے ہیں.
سعودی عرب میں حجاج کرام کیلئے دستیاب مہنگے ہوٹلوں کی نسبت جماعت کے اراکین سفر کے دوران مقامی مساجد میں قیام کرتے ہیں. اور باہر سے کھانا کھانے یا منگوانے کی بجائے زیادہ تر مساجد کے اندر ہی کھانا تیار کیا جاتا ہے اور قریبی گھروں میں مفت تقسیم کیا جاتا ہے. اراکین کا کہنا ہے کہ بازار میں زیادہ وقت گزاری کو جماعت کی جانب سے پسند نہیں کیا جاتا.
تبلیغ اور قومی استعداد کار
شاید ابھی یہ بات واضح نہ ہو سکے لیکن تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں شمولیت مزدوروں کی استعداد کار (لیبر پروڈکٹویٹی) کی صورت میں بالکل ہی مختلف معاشی اثر بھی پڑتا ہے.
لاہور مقیم ایک کاروبار کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے پر پرافٹ/منافع کو بتایا “جب ایک شخص تبلیغ کیلئے ایک وقت میںکئی مہینوں کیلئے جاتا ہے تو اس دوران وہ کام نہیں کر رہے ہوتے جو کہ معاشیات کیلئے غیر پیداواری عمل ہے.” اس نے مزید کہا “میری کمپنی کے ایک ملازم (جو تقریباً 50 ہزار روپے ماہانہ کما رہا تھا) نے تبلیغی مشن پر جانے کیلئے تنخواہ کے ساتھ 4 ماہ کی رخصت کی درخواست کی. کمپنی نے یہ درخواست رد کر دی لیکن اس نے پھر بھی جانے کا فیصلہ کیا.”
جب وہ ملازم واپس آیا تو 4 ماہ کوئی آمدن نہ ہونے کے باعث اسے گھریلو ضروریات کیلئے مشکلات پیش آئیں اور اسے کمپنی سے قرضہ مانگنا پڑ گیا. “اسی شخص نے تبلیغ سے واپس آ کر کام کے دوران نماز کے وقفے کے دورانیے میں اضافہ کر دیا جس سے اس کی استعداد کار (پروڈکٹویٹی) مزید متاثر ہوئی.”
رائیونڈ مرکز جانے والے کئی افراد کی اسی قسم کی کہانیاں ہیں جہاں مذہبی عقیدت بعض اوقات مالی ذمہ داریوں کے احساس کو بھی کم دیتی ہے جبکہ ادارے اپنی پالیسیوں کے بارے میں سخت ہوتے ہیں.
فیصل آباد کی ہوزری کا سامان تیار کرنے والی کمپنی انٹرلوپ کے چیئرپرسن مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے “ہمارے بانیوں میں تبلیغی جماعت کے سینئر رہنما بھی ہیں لیکن ہمارے یہاں ایک پالیسی لاگو ہے کہ ہم مذہب اور فرقہ وارانہ تبلیغ اور تعصب کی اجازت نہیں دیتے. کمپنیوں کو سیکولر ہونا چاہیئے. میں لوگوں کو ان کا مذہب چھوڑنے کا نہیں کہہ رہا. میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ کمپنی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا. انٹرلوپ میں کام کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ انہیں سال کی مخصوص چھٹیاں ملتی ہیں اور ان چھٹیوں کو وہ جیسے چاہیں گزار کر سکتے ہیں.”

تبلیغی اجتماع اور معاشی پہلو
1797