اسلام آباد: وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے معیشت کو لگنے والے دھچکے اور مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال کے برعکس جمعہ کو سٹاک ایکسچینج میں کافی بہتری دیکھنے کو آئی اور KSE-100 انڈیکس میں 800 پوائنٹس کا اضافہ ہوا.
سٹاک بروکرز کے مطابق سرمایہ کاروں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کابینہ میں تبدیلیوں کے بڑے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے.
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے فیصلے سے سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد حاصل ہوا ہے کہ اب معاشی پالیسیاں مزید غیر یقینی کا شکار نہیں رہیں گی. سرمایہ کاروں کو امید ہے کہ مائیکرواکنامک انڈیکیٹرز کے لحاظ سے بھی مارکیٹ میں متوقع بہتری آئیگی جیسا کہ معیشت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے اور وہ کم ہونا شروع ہو چکا ہے.
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کے نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کیساتھ بیل آئوٹ ڈیل پر مذاکرات کی سربراہی کریں گے اور فریقین کے مابین معاہدہ آئندہ بجٹ سے قبل طے پانے کی توقع ہے.
ذرائع نے کہا کہ نئے مشیر خزانہ چونکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی قرض خواہوں کیساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں. اس لیے وہ مزید کوئی وقت ضائع کیے بغیر بیل آئوٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف کی تجاویز مان لیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کیساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے.
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ حفیظ شیخ کیساتھ مذاکرات کرتے ہوئے آئی ایم ایف بھی زیادہ پراعتماد ہوگا.
انہوں نے کہا کہ بجٹ پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنایا جا چکا ہے. آئی ایم ایف دراصل پاکستان میں آئندہ دو مالی سالوں کیلئے مائیکرو مینجمنٹ چاہتا ہے. ان دو سالوں کا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کا عکاس ہو گا.
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو بتایا گیا ہے کہ وہی آئندہ تین سال کے بجٹ سے متعلق پالیسیاں مرتب کریگا.
ذرائع کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے میں تذبذب کا شکار تھے تاہم حفیظ شیخ سیاسی نقصان سے اپوزیشن کی پرواہ کیے بغیر وہ سب کریں گے جس کی ملکی معاشی صورتحال متقاضی ہے. اسد عمر کہہ چکے تھے کہ ایف بی آر کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت میں یکدم 6 فیصد اضافے کی آئی ایم ایف کی شرط قبول کرنا مشکل ہے.
معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے بعد روپے کی قدر مزید گرے گی اور مہنگائی بڑھے گی تاہم آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق غیر مقبول فیصلے کرتے ہوئے حفیظ شیخ بالکل نہیں ہچکچائیں گے.
ذرائع کے مطابق منتخب اور سیاسی وزیرخزانہ کے برعکس حفیظ شیخ عوام اور میڈیا کو زیادہ لفٹ بھی نہیںکریں گے جیسا کہ ہم ان کے سابق ادوار میں دیکھ چکے ہیں. اس کے علاوہ انہوں نے وزیر اعظم پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی وزارت میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور آزادانہ فیصلے کریں گے.
معاشی ٹیم:
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے اور حفیظ شیخ کی مدد کیلئے ایک اعلیٰ سطحی معاشی ٹیم تشکیل دی ہے. جس میں جہانگیر ترین، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق گورنر سٹیٹ بنک سلیم رضا اور ٹیکس ماہر شبز زیدی شامل ہیں.
اندرونی ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ میں نئی ٹیم کی آمد سے ہو سکتا ہے موجودہ معاشی مشاورتی کونسل (Economic Advisory Council) کا کردار محدود ہو جائے کیونکہ اپنے سابق دور میں بھی حفیظ شیخ نے مذکورہ کونسل کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی.
حفیظ شیخ 2010ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران وزیر خزانہ رہ چکے ہیں.