ارے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
اوبر کا کریم کو خریدنا پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے ایک خواب یا پریوں کی کہانی لگتا ہے کہ کس طرح نوجوان اور ہونہار پاکستانی سرمایہ کاروں اور عہدیداروں نے مختلف اقدار کے افراد سے مل کر ایک ایسی بڑی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جسے کئی گنا بڑے حریف نے 3.1 ارب ڈالر میں حاصل کیا۔
کریم کی کہانی میں صداقت لگتی ہے لیکن حقیقت میں اس کہانی کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے، کچھ زیادہ اہم۔ یہ پاکستانی کاروباری ماحول میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز ہے۔ عین ممکن ہے کہ جتنا پاکستان کا کاروباری طبقہ وسعت اختیار کرے گا اتنا ہی پاکستان کی سیاسی معیشت کا دائرہ کار بھی وسعت اختیار کرے گا۔
کیا ہو اگر اگلے 5 سال ایسی بنیادی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دیں جن کی روشنی میں نوجوان پاکستانی خود کو پہچان سکیں اور پاکستانی معیشت کیلئے کیا ممکنہ سفارشات ہو سکتی ہیں؟ اور ایسا ممکن ہے کیونکہ کریم میں اپنے حصص ایک بڑی قیمت پر فروخت کر کے پیسہ کمانے والے کریم کے بانی اور اعلیٰ عہدیداروں نے پاکستان میں تاریخ رقم کی ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستانی سرمایہ کاری میں ایسے لوگ آئے جو مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے نئے کاروباروں کی دوڑ میں تیزی سے کامیابیاں سمیٹیں۔ یہی لوگ پاکستان میں سرمایہ کاروں کی ایک نئے پیڑھی کا آغاز کریں گے۔
اور اس کے بدلے پاکستان میں کاروباری میدان میں نمایاں نتائج حاصل ہوں گے خاص طور پر ان عہدیداروں کیلئے جنہوں ابھی تک نے کاروبار کے جدید نظام کو نہیں اپنایا۔
اسے سیٹھ حضرات کیلئے ایک انتباہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نئے کاروبار آپ سے مقابلے کیلئے آ رہے ہیں۔
آخر ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ ہر دفعہ بڑے پیمانے پر جب کوئی نیا کاروبار کامیابی سے اختتام پذیر ہوتا ہے ایسا ہی ہوتا ہے۔ سیلیکون ویلی میں شروع ہونے والے کئی ٹیکنالوجی کے کاروبار اس کہانی سے ملتے جلتے ہیں.
سینڈ ہل روڈ کا آغاز
خوابوں کو چھو لینے والی جس بے مثال ترقی کو ہم ٹیکنالوجی انڈسٹری کے نام سے جانتے ہیں اس کا آغاز 1956ء میں جنوبی کیلیفورنیا سے ہوا جب ولیم شوکلے (William Shockley) نے جنوبی کیلیفورنیا کے علاقے ماؤنٹین ویو (Mountain View) میں بیک مین انسٹرومنٹس (Beckman Instruments) کی ایک ڈویژن کے طور پر شوکلے سیمی کنڈکٹر لیبارٹری کی بنیاد رکھی اور اس لیبارٹری کو چلانے اور مدد کیلئے امریکہ کے نمایاں انجینئرنگ کی تعلیم دینے والے اداروں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ اعلیٰ ذہین ترین انجینئرز کو بھرتی کیا۔
تاہم شوکلے کو کاروبار چلانے کا کچھ خاص تجربہ نہیں تھا اور پھر 1957ء میں اس نئی کمپنی کے 8 افراد نے یہ کمپنی چھوڑ دی اور خود کی ایک سیمی کنڈکٹر کمپنی کیلئے نیویارک سے سرمایہ کاری کیلئے بینکرز اور دوسرے مالیاتی اداروں کی تلاش شروع کر دی۔ بعدازاں یہ افراد ’’8 غدار (traitorous eight)‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر ایک بینکر آرتھر روک ( Arthur Rock) نے ان کیلئے ایک کیمرہ بنانے والی کمپنی کے مالک شیرمین فیئرچائلڈ (Sherman Fairchild) سے 15 لاکھ ڈالرز کے سرمائے کا انتظام کیا۔
پھر فئیرچائلڈ سیمی کنڈکٹر کا آغاز ہوا جو باقاعدہ طور پر دنیا کی پہلی ٹیکنالوجی کمپنی بن گئی۔ اور آرتھر روک حادثاتی طور پر سرمایہ کار کرنے والے پہلے بینکر بن گئے۔
ان 8 غداروں میں مور لاء (Moore’s Law) کے حوالے سے پہچانے جانے والے گورڈن مور (Gordon Moore) اور ایگوئین کلنر (Eugene Kleiner) جیسے عظیم نام شامل ہیں۔ 1968ء میں کلنر، گورڈن مور کی شروعاتی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا جسے ہم انٹیل (Intel) کے نام سے جانتے ہیں۔ اور 1972ء میں کلنر نے ہیولیٹ پیکرڈ (Hewlett Packard) کے ایک سابق عہدیدارٹام پرکنز (Tom Perkins) سے شراکت داری کی بنیاد پر کلنر پرکنز (Kleiner Perkins) کے نام سے ایک نئے کمپنی کا آغاز کیا جو سرمایہ کار صنعتیں کے آغاز کے مرکز کیلیفورنیا میں پہلی سرمایہ کار کمپنی بن گئی جس کا ہیڈ کوارٹر پالو آلٹو (Palo Alto) میں سینڈ ہل روڈ (Sand Hill Road) پر قائم ہوا جو بلاشبہ ایک ایسی کمپنی کا قیام تھا جس نے سب سے پہلے ایمازون (Amazon)، گوگل (Google)، الیکٹرانکس آرٹس (Electronic Arts)، کومپیک (Compaq) اور ٹوئٹر (Twitter) جیسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔
سیلیکون ویلی (Silicon Valley) کی تاریخ میں یہ طریقہ کار کئی مرتبہ دہرایا گیا۔ بڑی کمپنیوں کے ہونہار اور ذہین افراد اپنی نوکریوں کے حوالے سے خود کو قید سمجھتے ہیں اور اپنی خود کی کمپنی بنا کر دنیا میں کچھ منفرد کرنا چاہتے ہیں لیکن کیونکہ ان کی وراثت میں دولت کا فقدان ہے اس لئے انہیں سرمایہ کاری کیلئے کسی اور پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
جب وہ سرمایہ کاری اکٹھی کر لیتے ہیں اور وہ واقعی اپنے کام میں ماہر ہیں تو ان کا کاروبار ترقی کرتا ہے اور وہ اپنے حصص کچھ سالوں میں کثیر منافع پر فروخت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ چونکہ وہ ابھی بھی نوجوان ہیں اور وہ پیسہ اکٹھا کر کے ریٹائر نہیں ہونا چاہتے تو وہ سرمایہ کاری فنڈز کا آغاز کرتے ہیں جس سے سرمایہ ذہین، اونچے ارادوں والے اور کامیابی کو چھو لینے والے کسی نئے نوجوان کو نئے کاروبار کی ابتداء کیلئے مہیا ہو جاتا ہے۔
اور اس طرح یہ پہیہ چلتا رہتا ہے۔
سیلیکون ویلی میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی ایسے بڑے نام موجود ہیں جو بنیادی طور پر نئی کمپنیوں کے آغاز کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ونود کھوسلہ (Vinod Khosla) سن مائیکروسسٹمز (Sun Microsystems) کا شریک بانی تھا جس نے بعد میں اپنی سرمایہ کاری کمپنی کھوسلہ وینچرز (Khosla Ventures) کی بنیاد رکھی۔ مارک اینڈرسن (Marc Andreessen) نیٹ سکیپ (Netscape) کا بانی تھا جو بعد میں ایک اور سرمایہ کار کمپنی اینڈرسن ہورووٹز (Andreessen Horowitz) کا پہلا شراکت دار بنا۔ پیٹر تھیل (Peter Thiel) کو ہم کیسے فراموش کر دیں جو پے پال (PayPal) کے بانیوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی سرمایہ کاری کمپنی فاؤنڈرز فنڈ (Founders Fund) کے ذریعے فیس بک میں سرمایہ کاری کی۔
ٹیکنالوجی اور سرمایہ کے ایک تحقیقاتی ادارے اینڈیاوور ان سائٹ (Endeavour Insight) کی تحقیق کے مطابق بڑے پیمانے پر اثاثوں کے انتظام اور سرمایہ کاری کے معیار کے حوالے سے 30 بڑے سرمایہ کاری اداروں میں واحد بڑا عنصر یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی شراکت داروں پر مشتمل نئی صنعتوں کے شروعاتی ادارے ہیں۔ اینڈیاوور کے مطابق اندازا ان 30 بڑی کمپنیوں میں 40 فیصد ان کے بنیادی شراکت دار ہیں جو سابقہ سرمایہ کار رہ چکے ہیں جو دوسری سرمایہ کاری کمپنیوں سے 19 فیصد کم شرح ہے۔
کریم کو خریدنے والی سرمایہ کار کمپنی
کریم کا اصل سرمایہ کار ایک ایسا نام ہے جو درحقیقت اسی طرح کاروباروں میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کریم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں فادی غندور بھی موجود ہے جسے کامیاب سرمایہ کاری سے مزید سرمایہ اکٹھا کرنے کا ہنر آتا ہے۔
فادی غندور اردن اور لبنان کا ایک سرمایہ کار ہے جو بیروت میں پیدا ہوا اور وانشنگٹن ڈی سی میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 1982ء میں تعلیم سے فارغ ہونے کے محض ایک سال بعد ہی غندور نے نقل و حمل اور ترسیل کی ایک کمپنی آرامیکس (Aramex) کا آغاز کیا۔ اگلے 15 برسوں میں آرامیکس ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقے میں بڑی کمپنیوں میں شامل ہوگئی اور 1997ء میں نسداق (NASDAQ) میں شامل ہونے والی پہلی عرب کمپنی بن گئی۔
غندور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں نئی کمپنیوں کیلئے ایک دہائی سے سرمایہ کاری رہا ہے اور 2014ء میں اس نے اپنی سرمایہ کاری کو مربوط رکھنے کیلئے وامڈا کیپیٹل (Wamda Capital) کے نام سے کمپنی کا آغاز کیا۔ وامڈا کیپیٹل کریم کو خریدنے والے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے اور غندور اس کے بورڈ میں شامل ہے۔
بلاشبہ وامڈا کریم کا سب سے بڑا انویسٹر ہے جو ایسے سرمایہ کاروں پر مشتمل ہے جو دوسروں میں چھپی صلاحیتوں کو تلاش کرتے ہیں جیسا ماحول ماضی میں نئے کاروبار کے آغاز پر انہیں ملا تھا اور وامڈا جیسے سرمایہ کار عناصر نئے کاروباری ماحول کے آغاز میں ایک طاقتور قوت ہیں اور کامیابی تلاش کرنے والوں کی ضرورت ہیں۔
اور کریم کی بات کی جائے تو یہی پاکستان کے حصے میں بھی اسی طرح کی کاروباری ادارے آئے جنہوں نے دوسروں کی کاروبار میں مدد کیلئے سرمایہ کاری کی۔
ذرائع نے گفتگو کے دوران پرافٹ/منافع کو بتایا کہ پاکستان میں شاید اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ افواہیں منظرعام پر آرہی ہیں کہ مدثر شیخا 2018ء میں ہی ایک آٹو موبائل اشتہاری ویب سائٹ پاک وھیلز ڈاٹ کام (Pakwheels.com) میں 2 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکے ہے جس نے پہلے ہی پاکستان میں گاڑیوں کی خریدوفروخت کا طور ہی بدل دیا ہے۔ یہ رقم ایک قرض کی شکل میں دی گئی ہے لیکن اسے سٹاک مارکیٹ میں پاک وھیلز کے حصص میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اور یہ بات سمجھنے کیلئے کہ یہ پاکستانی معیشت کیلئے تبدیلی پر کیسے مثبت اثرات مرتب کرے گی پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستانی معیشت کا موجودہ نظام کیسے کام کرتا ہے اور کس کیلئے یہ نظام بہتر ہے۔
تعلقاتی معیشت
اپنے قیام سے ہی پاکستان کی معیشت پر چند دولتمند خاندانوں کا ہی غلبہ رہا ہے جو سب روایتی صنعتوں میں اپنے کاروبار کر رہے ہیں اور ان کی ملک بھر میں بااثر سیاسی، فوجی اور اشرافیہ طبقے کے ساتھ رشتے داریاں اور ذاتی تعلقات ہیں۔
پاکستان میں امیر ہونے کا مطلب سرکار میں تعلقات ہونا ہے پھر چاہے وہ اپنے مفاد کیلئے ہوں یا پھر اپنے کاروبار کیلئے۔ وگرنہ حکومت میں اتنا بااثر ہونا چاہیئے کہ کسی کے کاروبار کی رفتار کو روکنے یا کم کرنے سے بچا جا سکے۔
حکومت میں تعلقات رکھنا اور حکومت کی بہتر پالیسی سازی کے نفاذ میں معاونت کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ تاہم پاکستان میں اس کا مطلب بڑے کاروباروں کیلئے ناجائز مفادات کے حصول کے طور پر لیا جاتا ہے اور ان بڑی کمپنیوں کے ناجائز مفاد کے نتیجے میں چھوٹے کاروبارکچلے جاتے ہیں۔
کریم کے بانی مدثر شیخا اور ان کے پاکستانی عہدیدار کسی دور میں ضرور ایسے ہی سرمایہ کار بنیں گے۔ اور جب یہ دور آئے گا تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ سرمایہ کی بھاگ دوڑ میں ایسے افراد بھی شامل ہو جائیں گے جو دولت اور طاقت وراثت میں لے کر نہیں آئے بلکہ جنہوں نے اپنے آپ کو بلندی پر لانے کیلئے محنت کی ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اس کا اختیار ان افراد کے پاس ہوگا جنہیں دولت کمانے کیلئے سیاسی تعلقات کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔
جہاں پاکستان میں ایسے کئی کامیاب سرمایہ کار موجود ہیں جن کا تعلق متوسط طبقوں سے تھا اور جنہوں نے اپنی محنت سے سرمایہ اکٹھا کیا وہیں بااثر سیاسی، فوجی اور دیگر تعلقات کی بنا پر مفادات حاصل کرنے والے ملک ریاض یا اپنے کاروباری مفادات کے حصول کیلئے سہولتیں لیکر واپس نہ کرنے والے اور ایسے افراد کی پشت پناہی کرنے والے جہانگیر ترین بھی موجود ہیں۔
اور اب پاکستان میں رابیل وڑائچ کی سرماکار وینچرز () کی طرح دیگر ادارے بھی موجود ہیں جو سرمایہ کاری کے ساتھ سرمایہ کی گردش کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔ ایسے افراد پاکستان کی معیشت میں انقلاب برپا کرنے اور اس کو درست سمت میں گامزن کرنے میں ضرور اپنا کردار ادا کریں گے۔
لیکن کریم کے بانی ابھی بھی مختلف ہیں۔ انہوں نے بغیر سیاسی تعلقات اور ناجائز مفادات کے ہی اپنا مقام حاصل کیا اور روایتی کاروباری انداز سے ہٹ کر سرمایہ اکٹھا کیا۔ اور وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ممکنات کو تلاش کرنا چاہیے جب دوسروں کی نظر صرف خدشات پر ہو۔ قوی امکان ہیں کہ ان کا کمائی اس دولت سے ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی جہاں کامیابی کیلئے حکومتی تعلقات کی ضرورت نہ پڑے۔
اسی وجہ سے یہ طریقہ کار پاکستان میں روایتی اور مضبوط کاروباری اداروں کیلئے ایک ممکنہ خطرہ ہے کیونکہ پہلی دفعہ کام میں رکاوٹیں ڈالنے اور غلط طریقوں سے اوپر آنے والوں کو صحیح ٹکر ملی ہے۔ لیکن شیخا اور اقبال جیسے دیگر لوگوں کیلئے یہ موجودہ نظام زیادہ سود مند ہے جو جانتے ہیں کہ بڑی کامیابیاں معاشی طاقت سے ہی مشروط ہیں جسے کچھ بڑی کمپنیوں نے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
خاص طور پر ایسے کاروباروں میں جو اپنی کمپنیوں میں جدت پسندی کے قائل ہیں اور ایک خاندان کی بجائے اختیارات کی تقسیم پر عمل کرتے ہیں ان میں بہتری کے روشن امکانات ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ سوچتے ہیں ’’یہ پاکستان ہے، یہاں اسی طرح کام ہوتا ہے‘‘ وہ بتدریج شکستگی کی جانب جا رہے ہیں۔
یہ چھٹکارا پانے کا بہترین طریقہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کریم کی کہانی ’’خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے‘‘ سے بھی زیادہ کامیاب ہے جس میں کچھ نیا، کچھ بڑا، ہمیشہ کچھ بہتر کرنے کی لگن شامل ہے۔ اگر ہم چاہیں تو یہ ایسے پاکستان کی ابتدا ہو سکتی ہے جہاں رہنے کی خواہش ہم سب میں ہے، جہاں حادثہ پیدائش سے زیادہ قابلیت اور ہنر معنی رکھتے ہوں، جہاں پیسے کی گردش روکنے کی کوشش کرنے والے پرانے تنگ نظر اداروں کا غلبہ نہ ہو اور جہاں ہم تبدیلی کو خوف کے سائے تلے ٹھکرانے کی بجائے موقع سمجھ کر قبول کریں۔
آنے والے کچھ سالوں میں پاکستان میں دلچسپ تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا ’’ارے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘
