اسلام آباد: ذرائع کے مطابق پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اگلے بیل آؤٹ پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل کر لیا ہے اور دونوں فریقین نے اعلیٰ سطحی معاہدے پر دستخط پر اتفاق کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ مذاکرات کے مثبت اشارے ملے ہیں اور معاہدے کو مکمل کرنے کیلئے رواں مہینے میں آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔
حکام کی جانب سے کہا گیا “دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی یاداشت کی تکمیل کیلئے اعلی سطحی مشن پاکستان کا دورہ کرے گا جو آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے ایک مرتب شدہ معاہدہ پیش کرے گا اور امکانات ہیں کہ باقی معاملات کی تکمیل کے بعد اگلا بیل آؤٹ پیکج جون کے قریب اگلے مالی سال کے آغاز سے پہلے موصول ہو جائے گا.۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مالی سال 20-2019ء کا بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کی روشنی میں تیار کیا جائے گا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو محمد حماد اظہر نے جمعرات کے روز ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات مثبت رہے ہیں. انہوں نے مزید کہا ’’جب اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچے گا ہم معاہدے کی شرائط پر فیصلہ کر لیں گے۔‘‘
ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ دوسری شرائط کے برعکس آئی ایم ایف کی جانب سے آمدن میں 34 فیصد (تقریباً 54 کھرب روپے) مزید اضافے کا مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ اور مشکل ہدف ہے۔
دوسری جانب انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے مطالبات سے پہلے ہی ایف بی آر حکومت کو مالی سال 20-2019ء کیلئے 51 کھرب روپے کے ہدف کی سفارش کر چکی ہے جبکہ پچھلے سال مالی سال میں یہ حجم 41 کھرب روپے تھا۔
ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی معاہدے کی ابتدائی سفارشات کے مطابق بنیادی توازن کیلئے محدود بجٹ میں رہنا حکومت کیلئے سب سے مشکل مرحلہ ہوگا۔
مذاکرات کے علاوہ آئی ایم ایف نے مجموعی قومی پیداوار میں تیزی سے گراوٹ کی نشاندہی کی جو 2018ء میں 5.2 فیصد تھی جبکہ 2019ء میں 2.9 فیصد ہے اور 2020ء میں یہ شرح 2.8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ مزید آئی ایم ایف نے افراط زر میں تیزی سے اضافہ کی بھی نشاندہی کی جو 2018ء میں 3.9 فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 7.6 فیصد تک پہنچ گئی۔
آئی ایم ایف نے اپنی تازہ جاری کردہ رپورٹ ’’دنیا کی معیشت کی سست رفتاری اور بہتری پر نظر‘‘ میں کہا ہے کہ پاکستان میں تنظیمی پالیسیوں کی عدم موجودگی میں ترقی کی شرح 2.5 فیصد تک پہنچ جائے گی جس سے ملک خارجی اور مالی عدم توازن کا شکار ہو جائے گا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایف اور عالمی بینک حکام کے ساتھ 2019 کے بہار مذاکرات میں کئی نشستوں میں گفتگو کی۔
اسد عمر نے عالمی بینک کے نئے سربراہ ڈیوڈ میلپاس کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی معیشت بارے آگاہ کیا۔ دونوں نے عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں جاری منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ میلپاس نے پاکستان میں ہونے والے اصلاحاتی کاموں کو سراہا اور عالمی بینک کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اسد عمر نے فرسٹ ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ڈیوڈ لپٹن سمیت دیگر ایم ایف حکام سے بھی ملاقات کی اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کے بارے میں گفتگو کی۔
وزیر خزانہ نے امریکہ پاکستان بزنس کونسل کے اراکین سے بھی ملاقات اور انہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینے کی یقین دہانی کروائی۔
فیس بک، اوبر، پراکٹر اینڈ گیمبلر، کوکا کولا اور پیپسی کو جیسی کمپنیوں کے ساتھ ایک گول میز کانفرنس میں انہوں نے کہا ’’ہم غیر ملکی کمپنیوں کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کو آسان بنا رہے ہیں۔‘‘
ان کمپنیوں نے پاکستان مارکیٹ میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات چیت کی اور ان امور کی نشاندہی کی جن میں انہیں حکومتی تعاون درکار ہے۔