ایک 18 سالہ لڑکا جو آپ کے یقینی تحفظ کو آپ کی مٹھی میں لا رہا ہے

506

اگر کبھی سڑک پر چلتے ہوئے آپ کے سامنے خونریز جھگڑا چل رہا ہو تو ایسی صورتحال میں آپ کیا کریں گے؟ 18 سالہ فضل اللہ آرائیں ایسا ہی ایک لڑکا ہے جس نے ایک سال قبل ملتان کی ایک گلی میں ہونے والی خونریز لڑائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ذہن میں آنے والے خیالات اس لڑائی کا حصہ بننے کیلئے ہرگز نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسی ایپ تیار کرنے کے خیال کی ابتداء تھی جس سے نہ صرف اِس طرح کے نامناسب حالات میں فوری طور پر اُس شخص کے کسی بھروسہ مند قریبی کو مقام کے ساتھ مدد کیلئے اطلاع بھیجی جا سکے بلکہ دوسروں تک بھی یہ اطلاع پہنچے تاکہ اگر ممکن ہو سکے تو وہ بھی حفاظتی اقدامات کے تحت ایسے علاقوں میں آمدورفت سے گریز کریں۔
کرائٹر گوگل پلے اسٹور پر موجود ایک مفت اینڈرائڈ ایپلیکیشن ہے جس سے لوگ اپنے ساتھ پیش آنے والے نامناسب حالات سے اپنے بھروسہ مند قریبی حضرات کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایپ اس بھروسہ مند قریبی کو ’’اتھارٹی‘‘ کہتی ہے جسے صارفین نامزد کرتے ہیں اور اس کے رابطہ کی تفصیلات درج کرتے ہیں۔
ابتدائی طور پر اندراج تفصیلات کے بعد اس ایپ کا استعمال بہت سادہ اور نسبتاً زیادہ سہل ہے۔ بس اس ایپ کے صارف کو ایمرجسنی سہولیات ایکٹیویٹ کرنے کیلئے اپنی ڈیوائس کے پاور بٹن کو 3 مرتبہ دبانا ہے۔ ایک دفعہ جب یہ عمل مکمل ہو جائے یہ ایپ فوری طور پر صارف کے مقام کی تفصیلات کے ساتھ نامزد ’’اتھارٹی‘‘ کو ایک میسج کے ذریعے آگاہ کرے کی۔ اس کے علاوہ کرائٹر ایپ صارف کے فون کا بیک کیمرے سے 5 تصاویر بنائے گی اور 5 سیکنڈ کی آواز ریکارڈ کر کے یہ تصاویر اور آواز کی ریکارڈنگ بذریہ ای میل بھروسہ مند ’’اتھارٹی‘‘ کو ارسال بھی کرے گی۔

اس ایپلیکیشن کا مقصد سانحات کے مقام کا صوتی اور بصری ریکارڈ تیار کرنا ہے تاکہ اس شخص کے اہل خانہ یا عزیز و اقارب کم از کم ممکنہ خطرے سے آگاہ تو رہ سکیں اور اس کے ذریعے خواہش امن کی تکمیل کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
پرافٹ/منافع کو دئیے گئے انٹرویو میں فیض اللہ آرائیں نے کہا ’’جب میں اس قسم کی ایپلیکیشن کے حوالے سے تلاش کر رہا تھا تو کئی ٹریکنگ ایپلیکیشنز نظر کے سامنے سے گزریں لیکن ان میں تصویریں بنانے اور آواز ریکارڈ کرنے کی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ اس وقت میں نے اپنی ایپ میں آواز ریکارڈ کرنے اور تصویر بنانے کے فیچر کا اضافہ کیا اور اس طرح یہ اپنی نوعیت کی مارکیٹ میں پہلی ایپلیکیشن ہے۔‘‘
لیکن یہ تصاویر اور آڈیو پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو براہ راست کیوں نہ بھیجی جائیں؟ آخر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کریں اور اس سے ملنے والی معلومات قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کیلئے بھی مفید ہے تاکہ وہ مخصوص مقامات کی نشاندہی کر سکیں اور جرائم کا خاتمہ کر سکیں۔ اس بارے میں فیض اللہ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بڑی وجہ جھوٹی اطلاعات ہیں اور یہ کہ بہت زیادہ تعداد میں براہ راست اطلاعات سے پولیس کی کارکردگی اور ترجیحات متاثر ہوں گی۔
فیض اللہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ’’اگر پولیس کو براہ راست اطلاع بھیجی جائے تو ممکن ہے کہ وہ اطلاع جھوٹ پر مبنی ہو. جب نامزد (بھروسہ مند) ’’اتھارٹی‘‘ کو ہنگامی اطلاع موصول ہوتی ہے تو وہ صارف سے رابطہ کر سکتا/سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر پولیس کو اطلاع کی جا سکتی ہے۔‘‘ فیض نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہر ہنگامی اطلاع براہ راست پولیس کو بھیجی جائے تو مستقبل میں پولیس پر اضافی بوجھ پڑ جائے گا۔ فیض نے کہا ’’مستقبل میں اگر اس ایپلیکیشن کا استعمال بڑھ جائے اور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں ہنگامی رجسٹرڈ ہوں اور اگر ہر ہنگامی اطلاع براہ راست پولیس کو ارسال کی جائے تو یہ پولیس کے کام کو مزید سخت بنا دے گی۔‘‘
کرائٹر فیض اللہ کی بنایا ہوا پہلا موبائل پراجیکٹ نہیں ہے۔ فیض اللہ اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے کم عمر گیم ڈویلپر مانتے ہیں. انہوں نے 2017ء میں محض 16 برس کی عمر میں بچوں کیلئے جمپ اینڈ کیچ نامی ایک اینڈرائیڈ گیم تیار کی تھی۔
فیض نے کہا ’’جب میں چھوٹا تھا میں اسپورٹس میں خاص دلچسپی نہیں‌ تھی اس کی بجائے کمپیوٹر پر وقت گزاری میرا ترجیحی مشغلہ تھا۔” اور اس میں ایک مشغلے کو تقویت تب لی جب اس کے سکول میں آٹھویں جماعت کے ایک استاد نے اس بارے میں اس کی حوصلہ افزائی کی۔ فیض اللہ نے کہا ’’میرے ٹیچر نے مجھے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی وہ میدان ہے جہاں تم اپنے کام کا آغاز کر سکتے اور تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی کما بھی سکتے ہو۔‘‘ اس وقت فیض نے کمپیوٹر کے استعمال کی تربیت دینے والے ایک ادارے سے تربیت لی اور اپنی صلاحیتوں کو زیادہ پیشہ ور کاموں میں صرف کرنا شروع کر دیا۔

فیض کی بنائی دوسری ایپلیکیشن کرائٹر ایک انتہائی اچھوتا خیال ہے۔ ایک ممکنہ صارف کو اس ایپلیکیشن سے کچھ صارفین کو پرائیویسی اور سیکیورٹی ڈیٹا تک رسائی کے تحفظات بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے اس ایپلیکیشن میں صارف کے موبائل فون سے خودکار طور پر آواز ریکارڈ کرنے یا تصویر بنائے والے کے فیچر ذریعے فیض اللہ صارف کے پرائیویسی اور سیکیورٹی ڈیٹا تک براہ راست رسائی چاہتا ہے۔ کرائٹر میں اس کا حل ایک اینڈ ٹو اینڈ اینکرپشن (دو مخصوص صارفین کے مابین محفوظ رابطہ کی سہولت) ہے جس سے بھیجنے والے اور موصول کرنے والے کے علاوہ کسی اور شخص یا ادارے کے پاس تصاویر اور آواز کی رسائی نہیں‌ ہوگی۔
فیض اللہ نے واضح کرتے ہوئے کہا ’’وہ تمام ڈیٹا جو اس ایپلیکیشن کے ذریعے ریکارڈ ہوتا ہے ایک محفوظ رابطہ کے تحت صارف اور (بھروسہ مند) اتھارٹی کے مابین منتقل ہوتا ہے۔ کسی بھی مقام پر ڈویلپر تک صارف کے ڈیٹا کی رسائی نہیں ہوتی۔‘‘
اس 18 سالہ لڑکے کی اس تخلیق کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کے بارے میں‌ پہلے کبھی نہیں‌ سنا گیا. یہ نقشے (میپ) پر محفوظ اور غیر محفوظ علاقوں کے بارے میں بتاتی ہے اور اس کے استعمال سے صارف محفوظ یا غیر محفوظ ہونے سے متعلق ایک مخصوص علاقے کو تلاش کر سکتے ہیں۔ کرائٹر صارفین کی جانب سے بھیجی جانے والی ہنگامی اطلاعات کے حساب سے محفوظ اور غیر محفوظ مقامات کی نشاندہی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فیض اللہ نے بتایا ’’یہ ایپلیکیشن مختلف صارفین کی جانب سے بھیجی جانے والی ہنگامی اطلاعات کو محفوظ اور غیر محفوظ علاقوں میں ترتیب دیتی ہے۔ پھر مختلف علاقوں سے ملنی والی ہنگامی اطلاعات کے مطابق اس کے تناسب کا تعین کرتی ہے اور نقشے پر خودکار انداز میں اپڈیٹ کر دیتی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محفوظ مقامات کو اس لئے محفوظ کہا گیا ہے کیونکہ اس علاقے سے کوئی ہنگامی اطلاع موصول نہیں‌ہوئی یا وہاں اس ایپلیکیشن کو کوئی استعمال نہیں کرتا. فیض اللہ کے مطابق جیسے جیسے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوگا نقشے کے نتائج اتنے ہی بہتر ہوں گے۔

اس ایپلیکیشن کو زیادہ سراہا جا رہا ہے۔ جنوری 2019ء میں متعارف کروائی گئی اس ایپلیکیشن کو پہلے ہی 5000 سے زائد افراد گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤنلوڈ کر چکے ہیں۔ فیض اللہ کا کہنا ہے ’’فی الوقت 5000 کے قریب افراد اس ایپلیکیشن کو ڈاؤنلوڈ کر چکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دسمبر 2018ء میں اس ایپلیکیشن کا آزمائشی طور آغاز کیا گیا تھا لیکن مارکیٹ میں یہ ایپلیکیشن رواں سال جنوری میں متعارف کروائی گئی۔‘‘
اس وقت کرائٹر ایپلیکیشن صرف اینڈرائیڈ موبائل فون صارفین کیلئے ہی گوگل پلے اسٹور پر دستیاب ہے جبکہ آئی فون صارفین کیلئے ایپل کے ایپ اسٹور پر دستیاب نہیں ہے۔ فیض اللہ کے نزدیک یہ زیادہ بڑی بات نہیں ہے. سٹیٹ کاؤنٹر نامی انٹرنیٹ اور اس کے ذریعے ہونے والی کمیونیکیشن پر مواد اکٹھا کرنے اور جانچنے والی کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2019ء میں پاکستان میں اینڈرائیڈ فون صارفین کا تناسب 93 فیصد سے تھوڑا سا کم ہے۔ اس کی نسبت آئی فون صارفین کا پاکستانی مارکیٹ میں حصہ محض 3.5 فیصد ہے۔
اس ایپلیکیشن کا آغاز اس دور میں‌ ہوا ہے جب موبائل براڈبینڈ انٹرنیٹ کا استعمال پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق فروری 2019ء میں پاکستان میں اندازاً 6.5 کروڑ افراد تک ان سہولیات تک رسائی ہے. اور بہتر مارکیٹ کے حوالے سے کرائٹر کا ہدف ان تمام کروڑوں‌ افراد تک رسائی ہے۔

اس ایپلیکیشن کیلئے اتنی بڑی ممکنہ مارکیٹ کی دستیابی ہونے کے باوجود فیض اللہ کی توجہ اس سے دولت اکٹھی کرنے پر ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس ایپلیکیشن سے ہونے والی آمدنی سے آگاہ نہیں ہے۔ فیض اللہ نے کہا ’’اس ایپلیکیشن کا اچھا معاوضہ مل سکتا ہے یا اس ایپلیکیشن میں کچھ اضافی بامعاوضہ سہولیات متعارف کروائی جا سکتی ہیں یا اشتہارات کی مد میں بھی اس ایپلیکیشن سے کمائی کی جا سکتی ہے۔ لیکن میرا اس سب کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘
اس کی بجائے فیض کو سرمایہ کاروں کی تلاش ہے جو اس ایپلیکیشن کو بڑے پیمانے پر متعارف کروانے کیلئے اس کی مدد کریں۔ فیض کا کہنا ہے ’’اس ایپلیکیشن سے پیسہ کمانے کی بجائے میری توجہ ایک سرمایہ کار کے حصول پر ہے تاکہ اس ایپلیکیشن کی تشہیر کی جا سکے۔ اس وقت میں فیس بک اور گوگل اشتہارات سے اس ایپلیکیشن کی تشہیر کر رہا ہوں اور وہ بھی صرف پاکستان میں۔ اگر مجھے صحیح سرمایہ کار مل جائے تو میں اس رقم سے کرائٹر کو عالمی مارکیٹ خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور باقی کے ایشیا میں متعارف کرواؤں گا۔‘‘
کرائٹر کی تیاری میں فیض اللہ کے اخراجات نسبتاً کم آئے تھے جو اس نے فری لانس ڈویلپرز سے اس ایپلیکیشن کی کوڈنگ میں مدد پر خرچ کئے تھے اور اسے مکمل ہونے میں محض ایک سال کا عرصہ لگا۔
تاہم فیض اللہ کا اس ایپلیکیشن سے پیسہ کمانے کا بھی منصوبہ رکھتا ہے لیکن اس کے بارے میں موجودہ صارفین سے کچھ بھی بتانا نہیں چاہتا۔ اس کا کہنا ہے ’’ایک وقت آئے گا جب ہم اس سے پیسہ کمانے کے منصوبہ کا اطلاق کریں گے۔ یہ ایپلیکیشن تب بھی مفت ہوگی لیکن ہم پیسے بھی کما رہے ہوں گے۔‘‘
فیض اللہ اس ایپلیکیشن کے روشن مستقبل کیلئے پرامید ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کو درپیش سب سے بڑا مرحلہ صحیح سرمایہ کار کی تلاش ہے جس کی نظر قلیل مدتی منافع پر نہ ہو بلکہ وہ جو طویل مدتی وصولی کو مدنظر رکھے۔ اس کا خیال ہے کہ صحیح سرمایہ کار کی مدد سے اس کی تخلیق بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے فیض اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس ایپلیکیشن کیلئے کسی پر بندش نہیں ہوگی کیونکہ یہ عوام کیلئے ہے اور عوام کیلئے رہے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here