یہ ایک ایسی کمپنی کی کہانی جس کے متعلق شائد اپ نے زیادہ نہ سنا ہو. پاکستان انجنئیرنگ کمپنی “پیکو” کے ٹکٹ سمبل سے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہے. اتفاق سے یہی نام اس کمپنی کا حوالا بن چکا ہے.
اگرکوئی شخص صرف اخبارات میں شائع ہونے والے الزامات پر یقین کرتا ہے تو معاملہ مزید سادہ ہو جاتا ہے. کچھ بااثر سرمایہ کار بینکرز اور بروکرز نے حکومت کی ملکیتی اس کمپنی کے اندرونی حالات کی خبر لی جب اس کی تجدید کی کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن انہوں نے ایک ایسے سٹیٹ کنٹرولڈ میوچل فنڈ سے شیئرز خریدنے سے چشم پوشی کی جس میں شئیرہولڈرز کی تعداد کافی تھی. ان کا مقصد یہ بن گیا کہ کمپنی کی ملکیتی زمین پر قابض ہوں اور اربوں روپے کی زمین فروخت کرکے پیسہ کمائیں.
ظاہر ہے معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو یہ ایک دلچسپ سٹوری نہ بنتی. حقیقت افسانے سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے. یہ سٹوری بھی کسی پراسرار ناول سے زیادہ موڑ لے چکی ہے.
پیکو کیسے شروع ہوئی؟
پیکو کہلانے والی یہ کمپنی فروری 1950ء میں سی ایم لطیف نے بٹالا انجنیئرنگ کمپنی (بیکو) کے نام سے شروع کی. انجنیئرنگ کی ہلکی مصنوعات بنانے کیلئے سی ایم لطیف نے بادامی باغ لاہور کے علاقہ میں 34 ایکڑ کے پلاٹ پر یہ فیکٹری لگائی. اپنے آغاز سے ہی بیکو کراچی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ تھی.
آہستہ آہسستہ بٹالا انجنئیرنگ کا کاروبار وسیع ہوتا رہا اور اسے توسیع کی ضرورت پڑی جس کے لیے 1960 میں کمپنی نے کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا میں 247 ایکڑ زمین خریدی. مگر افسوس یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی اس سے قبل کہ کمپنی اپنے آپریشنز وسیع کرتی 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسے قومیا لیا اور نیا نام پاکستان انجنئیرنگ کمپنی (پیکو) رکھ دیا.
جس وقت کمپنی قومی تحویل میں لی گئی تب سی ایم لطیف کے اس میں 24.86 فیصد شئیرز تھے جبکہ باقی عام لوگوں کے شیئرز تھے. 1972ء کے آرڈر کے مطابق سی ایم لطیف کے شیئرز سٹیٹ انجنئیرنگ کارپوریشن (ایس ای سی) نے حاصل کرلیے جو وزارت صنعت کی ایک ذیلی کمپنی تھی. سرکاری فنڈ نیشنل انویسٹمنٹ ٹرست نے بھی پیکو کے 21.24 فیصد شیئرز خرید لیے. 33.25 فیصد شئیرز وفاقی حکومت جبکہ 45.51 فیصد عام لوگوں کے تھے.
شیئر ہولڈنگ میں نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے کردار کو سمجھنا اہم ہوگا. یہ ٹرسٹ خود وفاقی حکومت کی ایک مینجمنٹ کمپنی کے تحت چلتا تھا اور میوچل فنڈ میں ایک بڑا شئیرہولڈر تھا جبکہ تکنیکی طور پر اس ٹرسٹ کو شیئرہولڈرز چلاتے تھے جن میں کچھ نجی شیئر ہولڈرز بھی شامل تھے. این آئی ٹی اس وقت ایک نیم حکومتی ادارہ تھا جب یہ کمپنیوں کے بورڈ اف ڈائریکٹرز میں بھی شامل تھا جن کا یہ شیئر ہولڈر تھا. یہ سکیورٹیز لاء کے مطابق براہ راست ایسا کرنے کا پابند نہیں تھا.
این آئی ٹی کے کردار کے بارے میں ابہام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پیکو کا انتظام سنبھالنے کی جنگ شروع ہوتی ہے. خاص طور پر جب وہ حکومتی انتظامی کمپنی جو این آئی ٹی کا انتظام سنبھالتی تھی نے اسے پیکو کا انتظام دے دیا.
نجکاری کی مصیبت:
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پیکو کو قومی تحویل میں لینا درست نہیں تھا. اور قومیائے جانے کے 30 سال کے اندر کمپنی نقصان پر نقصان اٹھاتی رہی. 2002ء تک دو ارب سے زائد نقصان ہو چکا تھا جبکہ چل بھی حکومتی قرضوں اور بیل آئوٹ پیکجز پر رہی تھی. اب یہ ایک بہترین اور سٹاک ایکسچینج لسٹڈ کمپنی سے غیر فعال چیز بن چکی ہے، گو کہ اب بھی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہے لیکن نا شیئر ٹریڈنگ میں اس کا کوئی حصہ ہے اور نا ہی سرمایہ کار اس میں کسی قسم کی دلچسپی رکھتا ہے.
اس کے بعد 1999ء کے فوجی مارشل لاء کے بعد شوکت عزیر وزیر خزانہ بنے. شوکت عزیز کو ایک ایسی کمپنی کو بیل آئوٹ منی دینے کیلئے سرکاری خزانہ لٹانے میں قطعاََ دلچسپی نہیں تھی جو حکومت کی ملکیت ہی نہیں تھی. اس کے بعد 2002ء میں کمپنی کو بنجکاری کمیشن کی فعال فہرست میں شامل کردیا گیا یعنی کمیشن کا اختیار حاصل تھا کہ وہ کمپنی کے سرکاری شئیرز فروخت کردے.
تاہم کابینہ کے فیصلے سے قبل نجکاری کمیشن نے این آئی ٹی کو ایک خط بھیجا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ کمیشن کی اجازت کے بغیر پیکو کے شیئرز نہ بیچے جائیں. جو چیز مکمل واضح نہیں اور ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے وہ یہ کہ کہیں کابینہ کے حکم کو نجکاری کمیشن کے حکم پر فوقیت تو نہیں دی گئی. یہ چیز بھی واضح نہیں کہ نجکاری کمیشن اپنی قانونی حیثیت میں این آئی ٹی کو حکم دینے کا مجاز ہے یا نہیں.
بہرحال آئندہ جو بھی ہو گا سوال اٹھیں گے.
کمپنی کی نجکاری کی کوشش کے طور پر حکومت نے اس کی بیلنس شیٹ بھی ازسر نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا. جس کے تحت پیکو کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے زمین فروخت کرنے کا اختیار مل گیا. خاص طور پر حکومت ان 1.8 ارب روپے کی ادائیگی چاہتی تھی جو پیکو کی جانب واجب الادا تھے.
9 اگست 2003ء کو پیکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مطلع کیا گیا کہ زمین کی فروخت اور کمپنی کی نجکاری کیلئے پنجاب حکومت سے این او سی حاصل کرلیا گیا ہے، اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں این آئی ٹی کے نمائندہ آصف جمیل بھی موجود تھے جو پیکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا بھی حصہ تھے.
اس اجلاس کے چار دن کے اندر این آئی ٹی نے پیکو میں قریباََ اپنے تمام شیئرز فروخت کر ڈالے جن کی مالیت 1.2 ارب روپے تھی. اگست 2003ء کی بورڈ میٹنگ کے بعد ایک سال میں کمپنی کے شیئرز کی تجارت روزانہ 48 ہزار 727 تک ہوتی رہی. میٹنگ کے بعد ایک ماہ میں شیئرز کی تجارت 901058 فی دن تک جا پہنچی اور آئندہ تین ماہ میں ایک سال سے بھی زیادہ شیئرز کی تجارت ہوئی.
ایک چارٹرڈ اکائونٹنگ فرم جاوید حسنین اینڈ کمپنی کی تحقیقاتی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ تجربہ کار انویسٹمنٹ بینکرز عارف حبیب نے روٹو کاسٹ انجنئیرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ اور مسعود احمد خان سودی نے ماہا سکیورٹیز کے ذریعے این آئی ٹی سے شیئر خریدے. رپورٹ میں بڑا الزام تو یہ لگایا گیا ہے کہ این آئی ٹی نے عارف حبیب اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے کام کیا اور غیر مناسب طور پر شیئرز بیچے. جو کہ اگر سچ ہے تو ناصرف انسائیڈر ٹریڈنگ بلکہ کئی دیگر قسم کے فراڈ کے زمرے میں بھی آتا ہے.
“منافع” کو ایک ای میل کے ذریعے موقف میں عارف حبیب نے بتایا کہ انہوں نے کبھی غیر مناسب کام نہیں کیا. انہوں نے دعوی کیا کہ درحقیقت انہوں نے شیئرز این آئی ٹی سے اگست یا ستمبر 2003ء میں نہیں خریدے تھے بلکہ این آئی ٹی جب شیئرز مارکیٹ میں فروخت کرچکا تھا تو انہوں (عارف حبیب) نے اس کے ایک سال بعد مارکیٹ سے شیئرز خریدے.
این آئی ٹی کی جانب سے شیئرز کی فروخت کےبعد حکومت پیکو میں بڑی شیئر ہولڈر نہیں رہی تھی بلکہ اس کا حصہ ایک تہائی رہ گیا تھا تاہم 2006ء تک بورڈ اف ڈائریکٹرز کی 9 میں 6 سیٹوں پر حکومتی لوگ براجمان تھے لیکن 2006ء میں عارف حبب کی جانب شیئرز کریدے جانے کے بعد بورڈ اف ڈائریکٹرز تبدیل ہو گیا. جس کے بعد حکومت کے پاس محض تین سیٹیں رہ گئیں اور نجی شیئر ہولڈرز کے پاس 6 سیٹیں چلی گئیں.
پرائیویٹ کنٹرول کا دور اور تحقیقات:
اس کے بعد پیکو میں ایک غیر معمولی موڑ آیا. 1999ء سے 30 جون 2004ء تک 6 سالوں میں پیکو کو 858 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس کی آمدن جو 1999ء میں244 ملین روپے تھی وہ 2004ء میں 457 ملین روپے ہو گئی. تاہم اس کے 6 سال بعد ریونیو 24.2 فیصد کی شرح اضافہ کیساتھ چار گنا زیادہ ہوگیا. جو ریونیو 2004 میں 457 ملین روپے تھا وہ 2010ء میں 1677 ملین روپے ہوچکا تھا. اس کیساتھ منافع میں بھی اضافہ ہوا 2007ء میں منافع 312 ملین ہو گیا.
اور جب این آئی ٹی کے شئیرز کی فروخت کا مشرف حکومت کو علم ہوا تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی. شاید یہ کارروائی اس لیے نہ کی گئی کیونکہ حکومت بھی پیکو کو نجی کنٹرول میں دینے کی خواہاں تھی اور حکومتی بیل آئوٹ پیکجز کا خاتمہ چاہتی تھی اور یہ مقصد بغیر نجکاری کیے حاصل ہو رہا تھا.
2008ء میں مشرف کی دس سالہ فوجی حکومت کے خاتمہ کے بعد نئی جمہوری حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے قانون سازی کے ساتھ ساتھ سابق فوجی حکومت کے ریکارڈ کا جائزہ لینا شروع کیا. قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سردار ایاز صادق کی سربراہی میں این آئی ٹی کی جانب سے پیکو کے شیئرز کی غیر قانونی فروخت کے معاملے کو دیکھنا شروع کیا.
پی اے سی نے سینئر افسران پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جنہیں یہ پتہ لگانے کی ذمہ داری دی گئی کہ پیکو میں کیا ہوا اور کون ذمہ دار تھا. کمیٹی نے این آئی ٹی کو غلط طریقے سے کام کرنے کا موردالزام ٹھہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انسائیڈر ٹریڈنگ کی گئی. کمیٹی نے تجویز دی کہ حکومت کو پیکو کے شیئرز دوبارہ حاصل کر لینے چاہیے.
تاہم رپورٹ کی خاص زبان کافی متنازعہ ہے. مثال کے طور پر اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کمپنی میں انسائیڈر ٹریڈنگ ہوئی اور نجی شیئر ہولڈرز انسائیڈر ٹریڈنگ کے نتیجے میں پیکو کا انتظام حاصل کر سکتے تھے. تاہم کمیٹی این آئی ٹی کے حکام کو ذمہ دار سمجھتی ہے اور حکومت کو تجویز دیتی ہے کہ کمپنی کے شیئرز دوبارہ حاصل کرنے کیلئے بجائے کسی سے مطالبہ کرنے کے یہ ضبط کر لیے جائیں.
عارف حبیب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے متعلق کمیٹی کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے خود عارف حبیب اور کئی دوسرے افراد نے یہ خیال کیا کہ انہیں بری کر دیا گیا ہے.
عارف حبیب نے “منافع” کو بتایا کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور نیب نے میرے متعلق تحقیقات کیں اور کوئی غلط چیز ثابت نہیں ہوئی.
اس کے بعد حکومت نے عارف حبیب سے شیئرز حاصل کرنے کیلئے بات چیت شروع کی. تاہم عارف حبیب نے اپنے شیئرز رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کی بجائے انہوں نے حکومت کو پیشکش کی کہ وہ تین شرائط کی پابندی کریں گے.
1. حکومت کو پیکو کے بورڈ آف ڈئریکٹرز کا کنٹرول لینے کی اجازت ہوگی.
2. نجکاری کا عمل شروع ہو گا تو عارف حبیب اپنے شیئرز حکومتی شیئرز کے ساتھ مشترک کر دینگے.
3. عارف حبیب شیئرز کی فروخت سے پہلے حکومت کو پہلا حق دینگے.
تاہم اس پیشکش کو حکومت نے ناکافی سمجھا اور شیئرز کو واپس لینے سے کم پر راضی نہ ہوئی. نتیجتاََ پیکو کے سی ای او اور چیئرمین آف بورڈ حکومت کے تعینات کردہ ہیں جبکہ عارف حبیب سمیت نجی شیئرہولڈرز بورڈ آف ڈئریکٹرز کی 9 میں سے 6 سیٹوں پر براجمان ہیں.
سی ای او لگانے کے حق کیساتھ حکومت کم از کم کمپنی کا اتنا کنٹرول ضرور حاصل کرنے کے قابل تھی کہ وہ اس کا جزوی طور پر انتظام سنبھال سکتی. تاہم اسی وقت غلط ہونے لگا.
نیا سی ای او اور انتظامی کنٹرول کی جنگ:
مارچ 2016ء میں حکومت نے ایک سرکاری ملازم معراج انیس عارف کو پیکو کا نیا سی ای او مقرر کردیا. نجی شیئرہولڈرز شروع سے ہی ناخوش تھے. نتیجتاََ کمپنی مزید افراتفری کا شکار ہوگئی. سی ای او اور نجی شیئرہولڈرز کے ایک دوسرے پر غبن اور کرپشن کے الزامات سامنے آنے لگے اور پرانا مسئلہ ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا کہ نجی شیئرہولڈرز کپمنی پر کنٹرول کیسے حاصل کریں.
مختصراََ، صورتحال یہ ہے کہ سی ای او معراج عارف پیکو کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہاں ہیں، اس کے ساتھ انہیں لگتا ہے کہ عارف حبیب اور نجی شیئرہولڈرز فنانس اور آپریشنز کے سنیر سٹاف اور خاص طور پر سی ایف او کو ساتھ ملا کر بغاوت پر اکسا رہے ہیں. دوسری طرف نجی شیئرہولڈرز کا خیال ہے کہ سی ای او ناصرف نااہل ہے بلکہ فنڈز میں خورد برد کرکے کمپنی کو مزید زوال پذیر کر رہا ہے.
معاملات اس وقت مزید بحران کا شکار ہوگئے جب 3 اکتوبر 2018ء کو معراج عارف نے نیب کو خط لکھا جس میں الزام لگایا گیا کہ کمپنی کی تین سینئر افسران چیف فنانشل آفیسر، جنرل مینجر آڈٹ اور جنرل مینجر ورکس نجی شیئرہولڈرز کے ‘فرنٹ مین’ بنے ہوئے ہیں. یہاں یہ واضح نہیں کہ ‘فرنٹ مین’ کا کیا مطلب ہے. اگر اسکا یہ مطلب ہے کہ تینوں افسران نجی شیئرہولڈرز کے لیے کام کر رہے ہیں تو پھر یہ واضح نہیں کہ ایسا عمل غیر قانونی کیوں ہے؟ جبکہ کمپنی کے افسران کی شیئرہولڈرز کیلئے بھی ذمہ داری بنتی ہے جبکہ وہ اکثریت میںبھی ہیں.
بہرحال معراج عارف کوئی اختلاف رائے برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، انہوں نے تینوں عہدیداروں کو برخاست کرتے ہوئے پیکو میں داخلے سے روک دیا.
تاہم عارف حبیب اور دیگر شیئرہولڈرز اس بات سے متفق ہیں کہ سی ای او اور سی ایف او ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے. عارف حبیب نے بتایا کہ افسوسناک طور پر جس طرح معراج عارف کمپنی کے معاملات چلا رہے تھے اس کی اطلاع کمپنی کی سینئر انتظامیہ نے مخلتف فورمز کو دی. یہاں تک کہ پیکو کے چیف فنانشل آفیسر اس وقت مسٹر معراج عارف کیخلاف شکایت کرنے پر مجبور ہوگئے جب معراج عارف نے اپنے دور کے خسارے کے حوالے سے کمپنی کے اکائونٹس میں ردوبدل کرنے کو کہا . سی ایف او کی جانب سے یہ غیر قانونی مطالبہ پورا نہ کرنے پر معراج عارف سینئر مینجمنٹ سے انتقام لے رہے ہیں اور انہیں انکے قانونی فرائض کی بجاآوری سے روک رہے ہیں. عارف حبیب نے کہ سی ای او مختلف حلیے بہانوں سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس بھی نہیں ہونے دے رہے.
عارف حبیب اور دیگر شیئرہولڈرز الزام لگاتے ہیں کہ سی ای او فنڈز کی خردبرد کی کوشش کر رہے ہیں جسے ہم بچانے میں لگے ہیں. انہوں نے یونائٹڈ بنک میں کمپنی کے اکائونٹس کو بلاک کروانے کی کوشش کی تاہم معراج عارف نے اس میں بھی مزاحمت کی اور اس سلسلے میں نیب حکام نے بھی سی ای او کے ساتھ تعاون کیا.
پیکو کے بنک اکائونٹس اس وقت معطل کردیے گئے تھے جب کمپنی کے کچھ افسران نے اکائونٹس معطل کرنے کیلئے بنک کو دستاویزات دیں.
وزارت صنعت کے ذرائع کے مطابق نیب کی مداخلت پر پیکو کے بنک اکائونٹس 29 جنوری 2019ء کو بحال کردیے گئے. یوبی ایل کے صدر کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کیلئے بلایا گیا. نیب نے بنک کا جواب غیرتسلی قرار دیا اس لیے پیکو کے اکائونٹس دوبارہ بحال ہو گئے. اکائونٹس معطلی کے دوران پیکو کے سٹاف کی تنخواہیں اور خام مال کی ادائیگیاں تعطل کا شکار رہیں.
پیکو حکام کی جانب سے یہ جواز پیش کیا جاتا رہا ہے کہ معراج عارف نے پرانے سی ایف او میاں انور عزیز کی جگہ یکطرفہ طور پر نئے سی ایف او کا تعینات کردیا. تاہم لاہور کی ایک سیشن کورٹ نے انور عزیز کی معزولی پر حکم امتناع جاری کردیا. انہوں نے الزام لگایا کہ معراج عارف نے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے منظوری حاصل کیے بغیر یکطرفہ طور پر ہی یو بی ایل حکام پر دبائو ڈال کر اکائونٹ ہولڈرز کے ریکارڈ تبدیل کرائے اور اکائونٹس سے ٹرانزیکشنز کے علاوہ 5.6 ملین روپے رقم نکلوائی جس کا ذکر پیکو کے اکائونٹس میں نہیں کیا گیا.
نقصان کا الزام کس پر ڈالیں؟
فریقین( نجی شیئرہولڈرز اور سی ای او) کے مابین اصل جھگڑا اس بات پر ہے کہ پیکو کے خزانے میں شدید کمی کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے کیونکہ تین سال قبل منافع کمانے کمپنی اب سراسر خسارے کا شکار ہے. عارف حبیب سمیت دیگر شیئرہولڈرز براہ راست اس کا الزام سی ای او کی نااہلی پر لگاتے ہیں جبکہ سی ای او ان حکام پر الزام دھرتے ہیں جو ان کے بقول شیئرہولڈرز کے وفادار ہیں.
“منافع” کو انٹرویو دیتے ہوئے معراج عارف نے عارف حبیب اور دیگر شیئرہولڈرز کے ایجنڈہ کے بارے میں کہا کہ سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے اگر پیکو بند ہو گئی تو نجی سرمایہ کار پیکو کی 250 ایکڑ قیمتی اراضی کی فروخت کیلئے حکومت پر دبائو ڈالیں گے جس کی مالیت کم وبیش 100 ارب روپے ہے.
اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کہ نجی شیئرہولڈرز غلط کام کر رہے ہیں انہوں نے جاوید حسنین راشد اینڈ کمپنی کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ کس ناجائز طریقے سے عارف حبیب نے پیکو میں شیئرز حاصل کیے.
تاہم حکومت اس حقیقت کو جتنا بھی ناپسند کرے عارف حبیب پیکو میں ایک شیئر ہولڈر ہے. معراج عارف کو فروری 2019ء میں بورڈ آف ڈئریکٹرز کے متفقہ ووٹوں سے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور یوں پیکو میں ایک ڈرامہ کا اختتام ہوا.