اسلام آباد: وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ بھارت مختلف کمپنیوں کے ذریعے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں پاکستان مخالف لابنگ اور بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے جبکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تمام اعتراضات دور کردیے ہیں.
سوموار کو وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف عالمی ادارہ ہےاور اس میں پاکستان کی کوئی پسند نہیں ہوسکتی، فیصلہ ایف اے ٹی ایف کو کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کے جوائنٹ گروپ سے بھارت کو ہٹانے کا مطالبہ
وزیر خزانہ نے کہا کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم کو سیاست کی نذر کررہا ہے اس لیے پاکستان نے بھارت کو ایشیا پیسیفک گروپ کی شریک چیئرمین شپ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ مطالبہ جائز اور درست ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا بھی بھارتی درآمدات پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے پر غور
انہوں نے کہا کہ بھارت نے ایف اے ٹی ایف میں لابنگ کی ہے، بھارت مختلف کمپنیوں کے ذریعے بھی لابنگ کررہا ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، ایف اے ٹی ایف کی ایک ہی رپورٹ ہوتی ہے، ہر ملک کی اپنی رپورٹ نہیں ہوتی، بھارت نے پاکستان کے خلاف الگ رپورٹ دی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کا پاکستان پر سب سے بڑا اعتراض کالعدم تنظیموں کو ہائی رسک قرار نہ دینے کے حوالے سے تھا لیکن یہ تقاضا ہم نے گزشتہ ہفتے پورا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کالعدم تنظیموں کے خلاف نئے اقدامات اٹھائے ہیں اور انہیں پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے، اب امید ہے کہ ستمبر میں پاکستان کو کلیئر قرار دے دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: کالعدم تنظیموں کے اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد، پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو آگاہ کردیا
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے اس کا نام ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے ہٹا دیا جائے کیونکہ اس فہرست میں شمولیت سے بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
قبل ازیں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں کارپوریٹ قوانین میں بہتری لائی جارہی ہے، کارپوریٹ شعبے میں جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو کارپوریٹ سیکٹر میں مہارت رکھتے ہوں۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ ورلڈ بینک نےکارپوریٹ گورننس پر رپورٹ مرتب کی ہے، پبلک سیکٹر اداروں میں کارپوریٹ گورننس کا اب بھی فقدان ہے، بیوروکریٹس اداروں میں شفافیت لانے میں ناکام ہوگئے ہیں، حکومتی ادارے اپنے اکاؤنٹ ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔