کھانے کی بات ہو تو لاہور کا ذکر نہ ہو یہ کبھی نہیں ہو سکتا. انار کلی کی گلیاں، اندرون شہر یا پھر ایم ایم عالم روڈ اور لبرٹی مارکیٹ جیسے جدید علاقےہوں، کھانے کی جگہوں پر رش ایک لمحہ کیلئے بھی کم نہیں ہوتا. اچھے کھانے والی جگہیں ہر عمر کے افراد سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں، لاہور بجا طور پر اپنے کھابوں کی وجہ سے مشہور ہے.
پھر کھابوں کے شوقین افراد کا رش صرف شہر کے کمرشل علاقوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر کسی بھی مضافاتی علاقے کی طرف جائیں تو بائیک کی پشت پر کھانے کا باکس رکھے ایک ڈلیوری بائیک نظر آئے گی جو کسی ریسٹورنٹ پر کسی کسٹمر کی جانب سے آرڈر کیا گیا کھانا اسے ڈلیور کر رہی ہوگی.
چیتے ڈاٹ پی کے کی چیتے لاجسٹکس نامی کمپنی فوڈ ڈلیوری کر رہی ہے، یہ کمپنی 2015ء میں ایک سادہ سی جگہ سے اس سوچ کے ساتھ شروع کی گئی کہ اگر فوڈ ڈلیوری کا کام چل نکلا تو ٹیکنالوجی کی حامل لوجسٹکس کمپنی کے طور پر ترقی کرنے میں مدد ملے گی.
“منافع” کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران چیتے لوجسٹکس کے سی ای او احمد خان نے بتایا کہ انہوں نے فوڈ ڈلیوری اس لیے شروع کی کیونکہ ہر کوئی یہی آرڈر کر رہا ہے. اسی وجہ سے ہمیں اپنا ڈسٹری بیوشن سسسٹم مزید بہتر کرنے اور اپنے سٹاف کی تربیت کرنے کا موقع ملا کیونکہ لوگ کھانے کے حوالے سے کافی سبک مزاج ہوتے ہیں. اس حوالے سے کوئی معافی نہیں. لوگ کھانا گرم اور وقت پر چاہتے ہیں.
احمد خان نے دراز ڈاٹ پی کے اور کیمو ڈاٹ پی کے پر کام کر رکھا ہے انہوں نے بتایا کہ چونکہ فوڈ ڈلیوری مشکل کام ہے تاہم معاوضہ فوری مل جاتا ہے اس لیے ہم نے یہ کام چنا.
ای کامرس کے ذریعے لاہور میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا ایکو سسٹم بن چکا ہے جس نے کھانا منگوانے سے لیکر کاروبار کے تمام دیگر طریقوں کو آن لائن طور پر سرانجام دینے کے قابل کردیا ہے. پاکستان میں ایسے کاورباروں بھی چمکے ہیں جو لوگوں کی زندگی آسان بناتے ہیں. ایسے طریقے سامنے آ چکے ہیں جن سے ریسٹورنٹ کے مالک اور کسٹمر دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے.
ایک ایسا ریسٹورنٹ جو فوڈ ڈلیوری کرنے والی کمپنی کی ایپ یا ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے اسے ناصرف زیادہ لوگ دیکھتے ہیں بلکہ اسے آرڈر بھی زیادہ ملتے ہیں اور وہ پیسہ بھی زیادہ کماتا ہے. گاہک ایپ پر موجود کافی تعداد میں ریسٹورنٹس کی لسٹ میں سے اپنی پسندیدہ چیز کیلئے کسی ایک کو آرڈر کر سکتا ہے اور اسے ہر ایک کو الگ سے کال کرکے پوچھنا نہیں پڑتا. ہو سکتا ہے اسے اپنے آرڈر پر ڈسکائونٹ بھی ملے.
ای کامرس کی وجہ سے کوئی بھی پروڈکٹ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سامنے ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ کاروبارکیلئے لوگوں کا ٹیکنالوجی پر اعتماد بڑھا ہے. سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء میں پاکستان کی ای کامرس سیلز میں 93.7 فیصد اضافہ ہوا ہے. اس تیز رفتار ترقی کی سب سے بنیادی وجہ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی اور سمارٹ فون صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے.
چیتے اور شئیر آف والٹ:
چیتے لوجسٹکس کا آغاز آن لائن فوڈ آرڈر اور ڈلیوری کی ایپ سے 2015ء میں ہوا. تب آن لائن فوڈ ڈلیوری کی مارکیٹ میں صرف ایک کپمنی فوڈ پانڈہ کے نام سے موجود تھی. چیتے لاجسٹکس کے سی ای او احمد خان کے اس کاروبار میں آنے کی ایک وجہ شیئر آف والٹ (وہ رقم جو کوئی کسٹمر کسی خاص کمپنی سے خریداری پر خرچ کرتا ہے) کم کرنا بھی تھا.وہ بتاتے ہیں کہ ” آپ کی آمدنی جو بھی ہو اور آپ جتنا بھی خرچ کرتے ہوں، لیکن آپ کا شئیر آف والٹ بتاتا ہے کہ آپ کس چیز پر زیادہ خرچ کرتے ہیں. ہمارا اندازہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہونے کی وجہ سے سب زیادہ رقم کھانے پر خرچ کی جاتی ہے.”
ایک ایسے کاروبار کیلئے جس کا مقصد کسٹمرز کو ان کی پسندیدہ چیزیں فراہم کرنا ہو. چیتے ڈاٹ پی کے کو معلوم تھا کہ کسٹمرز کیا چاہتے ہیں اس لیے مارکیٹ تک رسائی میں کوئی وقت نہیں لگایا. احمد خان کے مطابق اس وقت عام اندازے کے مطابق لاہور کی 20 فیصد مارکیٹ ان کے پاس ہے.
ایک ایسی مارکیٹ جس پر پہلے ہی فوڈ پانڈہ جیسی کمپنی چھائی ہو اس مارکیٹ میں کم وقت میں 20 فیصد حصہ حاصل کرلینا چھوٹا کارنامہ نہیں ہے. احمد خان کہتے ہیں کہ آئیڈیا بالکل سادہ تھا. میں دراز ڈاٹ پی کے اور کیمو ڈاٹ پی کے کا بانی سی ای او تھا، دونوں کمپنیاں ضم ہوکر پاکستانی ای کامرس انڈسٹری کی بڑی کھلاڑی بن چکی ہیں اور بعد میں دراز کو علی بابا گروپ نے حاصل کرلیا. انہیں راکٹ انٹرنیٹ جی ایم بی ایچ کی مدد حاصل تھی، جب اس کا اختتام ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ای کامرس میں دو بڑے خلا تکمیل اور ادائیگی کے ہیں اور جب تک ان دونوں مسائل پر قابو نہیں پایا جاتا تب تک ای کامرس اور یجیٹل بزنس اس طرح ترقی نہیں کرسکتا جس طرح جنوب مشرقی ایشیا یا بھارت یا ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کرچکا ہے.
اکتوبر 2015ء میں شروع ہونے والی چیتے ڈاٹ پی کے نے کافی ترقی کی ہے. آغاز میں اس کے پاس 15 بائیکرز تھے جن کی تعداد اب 50 ہو چکی ہے.
فوڈ بیس سے آگے توسیع:
2017ء میں چیتے لوجسٹکس نے ایک امریکی گروپ سے 1.1 ملین ڈالر سرمایہ کاری حاصل کی اور 2018ء میں مزید 3.675 ملین سرمایہ کاری حاصل کی جس کے بعد کمپنی نے اعلان کیا کہ یہ دیگر کاروباروں جیسا کہ ہیلتھ کئیر، کتابوں اور گروسری تک اپنا دائرہ کار وسیع کر رہی ہے.
کاروبار میں توسیع کے متعلق بات کرتے ہوئے احمد خان نے کہا کہ اب ہم دوبارہ شیئر آف والٹ کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ فوڈ کے بعد لوگ سب سے زیادہ کس چیز پر خرچ کرتے ہیں، ہم اپنے کسٹمرز کو مزید معیاری چیزیں فروخت کرنے ، اچھی خدمات فراہم کرنے اور طرز زندگی بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.
کمپنی کے پیچھے کارفرما آئیڈیا کی وضاحت کرتے ہوئے احمد خان نے کہا ادائیگی اور تکمیل ہی کمپنی کی بنیاد ہے. انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پیمنٹ اندسٹری کا تصور گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ترقی پا رہا ہے اور اس حوالے سے مارکیٹ میں سم سم، فون پے، وَن لیڈ، ایزی پیسہ اور جاز کیش جیسے پلیئر موجود ہیں. جب ہم نے شروع کیا تھا تو آن لائن پیمنٹ جیسا آج ہے ایسا نہیں تھا. ای کامرس کی طرح ان لائن پیمنٹ بھی پاکستان میں نئی چیز تھی لیکن اب دونوں درست سمت میں ترقی کر رہے ہیں. اس لیے دیکھنا ہو گا کہ ڈیجیٹل والٹ، بنک والٹ یا اوپن والٹ میں سے کونسا ماڈل کامیاب رہتا ہے.
نئے آنے والے ہمیشہ مارکیٹ میں گھسنے کا کوئی پلان آف ایکشن رکھتے ہیں، چیتے نے وہ کام کرنے پر توجہ دی جو دوسرے نہیں کر سکتے تھے یا کرنے کی کوشش نہیں کررہے تھے.
کمپنی جب کتابیں یا میک اپ باکس ڈلیور کرتی ہے تو ٹرانزیکشن کے پیسے اپنے سر نہیں لیتی. اس حوالے سے سی ای او کہتے ہیں کہ ہر پروڈکٹ کی سیل پر ہم کمیشن اور ڈلیوی فیس لیتے ہیں. اس لیے ہمارے پاس انونٹری ہوتی ہے اور نا ہی ہم انونٹری کے پیسے یا کیرج کے پیسے لیتے ہیں.
احمد خان نے بتایا کہ کمپنی کی ترقی میں پوزیٹو یونٹ اکنامکس کا کلیدی کردار ہے. ہم کسی چیز کو فروخت کرنے پر ڈیلر سے ایک خاص پرسنٹیج حاصل کرتے ہیں اور اسی طرح کسٹمر سے بھی ایک مخصوص ڈلیوری فیس لیتے ہیں. ہمارے لیے ہر ٹرانزیکشن پوزیٹو یونٹ اکنامکس ہے اور اس کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا. آپ کو مجموعی مارجن پوزیٹو رکھنا ہوتا ہے اگر ایسا نہیں کرتے تو آگے نہیں بڑھ سکتے. اگر آپ کو ابتداء میں نقصان کا سامنا ہے تو ہر آرڈر پر نقصان بڑھتا جائےگا. اور یہ کوئی اچھی ڈیل نہیں.
مقابلہ بازی سے کیسے نمٹا جائے؟
اگرچہ مارکیٹ میں فوڈ ڈلیوری بزنس میں بہت سے نوآموز بھی چکے ہیں جیسے ایٹ مبارک. اس کے علاوہ کریم اور اوبر نے بھی پاکستان میں جاری اس کاروبار میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے خاص طور پر لاہور میں جہاں پہلے ہی چیتے ڈاٹ پی کے اور فوڈ پانڈہ کام کر رہے ہیں. کئی ریستورنٹس کی اپنی ویب سائٹس ہیں اور وہ خود فوڈ ڈلیوری کا کام کرتے ہیں. تاہم لوگ عموماََ مزید آپشنز کو ترجیح دیتے ہیں جو آن لائن ہی دستیاب ہوتی ہیں.
احمد خان کہتے ہیں کہ ایک چیز جو فوڈ پاندہ نہیں کرتا وہ یہ کہ کیفے ایلانٹو کی پروڈکٹس فراہم نہیں کرسکتا کیونکہ اس کیفے کی فوڈ پانڈہ کیساتھ ڈیل نہیںہے. یا پھر وہ ایک مخصوص علاقے کے علاوہ ڈلیوری نہیں کرتے. دوسری طرف ہم اپنے کسٹمرز کو ہر چیز مہیا کرتے ہیں.
چیتے لاجسٹکس جانتا ہے کہ مدمقابل دیگر کمپنیوں سے اپنے کسٹمرز کو کس طرح دور رکھنا ہے. سی ای او احمد خان نے آن لائن فنانشل پیمنٹس کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اور جب تک ہم خود یہ کام نہیں کرتے ہم کامیاب نہیں ہوسکتے.
چیتے کا سب سے زیادہ مقابلہ کس کے ساتھ ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے احمد خان نے کہا کہ اس وقت ہمارا مقابل فوڈ پانڈہ ہے. ہم چونکہ بنیادی کام فوڈ ڈلیوری کا کرتے ہیں اس لیے بزنس میں ہر نئے آنے والے سے ہمارا مقابلہ ہے.
ای کامرس، ڈلیوری بزنس اور سواری سے متعلق بزنس کا ایک ہی مشترک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ان مین ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم ایسا ہے کہ کسٹمر ایک منٹ میںہی آپ سے دور ہو سکتا ہے. اس لئے خان کہتے ہیں کہ جو ادائیگیوں کا نظام آسان بنائے گا وہی سب سے زیادہ کسٹمرز حاصل کریگا.
احمد خان نے مارکیٹ میں موجود پلیئرز کے مابین مقابلہ بازی پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب بہت سے لوگ سپر ایپ بنانے کی کوشش میں ہیں. کیونکہ ایپ کے ذریعے ٹیکسی منگوانے، کھانا آرڈر کرنے یا گیس کا بل جمع کرانے سمیت کوئی بھی کام کیا جا سکتاہے. جیسے چین میں وی چیٹ کے ذریعے کیا جارہا ہے. انہوں نے کہا کہ مسئلہ ایک جیسا ہی ہے. ہر کسی کے پاس اپنی مرضی کا حل ہے. شائد کسی دن سم سم اور ایزی پیسہ بھی ہمارے جیسا کاروبار شروع کردیں اس لیے ہمیں تیار رہنا پڑتا ہے.
کسٹمرز کو ادائیگی کیلئے کمپنی آسان طریقے دے رہے ہے. اس کے پاس ایسا موبائل فلیٹ ہے جو اے ٹی ایم کی طرز پر کام کرسکتا ہے. مثال کے طور پر ڈلیوری مین کسٹمر سے پوچھے گا کہ وہ کیش ڈپوزٹ کرنا یا نکالنا چاہتا ہے؟ یہ ہمارے لیے اپنے ڈلیوری فلیٹ کا بہترین استعمال ہے.
سکیورٹی اینڈ ڈیٹا پرائیویسی:
2018ء میں سائبر سکیورٹی کافی خبروں میں رہی، اور دنیا بھر میں بزنس کو درپیش مسائل میں سب سے اہم یہ رہی. فیس بک کا کیمبرج اینالیٹکا سکینڈل دنیا بھر میں زیر بحث رہا. یورپی یونین نے ڈیٹا سکیورٹی کیلئے اپنے طور پر اقدامات کیے. ٹیکسی سروس کریم پر بھی سائبر حملے ہوئے اور کسٹمرز کا پرائیویٹ ڈیٹا لیک ہوا. اسی طرح پاکستانی بینکنگ انڈسٹری بھی ہیکرز کے حملوں کی زد میں رہی اور مخلتف بینکوں سے صارفین کے لاکھوں کروڑوں روپے چوری ہوئے.
چیتے ڈاٹ پی کی کی طرح کی کمپنیاں جن کے پاس صارفین کے فون نمبرز اور کریڈٹ کارڈز کا ڈیٹا ہوتا ہے انہیں اپنی سائبر سکیورٹی بڑھانے اور ممکنہ سئابر حملوں سے بچنے کیلئے سکیورٹی سسٹم کو مسلسل اپ گریڈ کرنے کیلئے کی ضرورت ہوتی ہے.
احمد خان نے کہا کہ اگر آپ آج بھی ہماری بیلنس شیٹ دیکھیں تو ہمارا سب سے زیادہ خرچ ٹیکنالوجی اور سکیورٹی پر ہوتا ہے. ہمارے پاس جدید اور مضبوط ٹیکنالوجی ہے، ہم ایمازون کی پروڈکٹس استعمال کرتے ہیں. ہمارا مین کوڈ پائی تھون میں ہے جو بہت زیادہ مضبوط ہے. ہمارے انجنیئرز بہترین ہیں.
ملک کی بہترین انجنیئرنگ کمپنیوں میں سے ایک Arbisoft نے ہمارا ٹیکنالوجی کا سسٹم بنایا ہے. ٹیکنالوجی پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے بعض دفعہ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ وقت کی ضرورت ہے. ہم بسا اوقات اسکی آزمائش کرتے رہتے ہیں. کیونکہ اگر آپ دروازے پر نیا تالا بھی لگوائیں تو چور اسے توڑنے کیلئے کوئی راستہ نکال لیگا. چیزیں بدلتی رہتی ہیں اور وقت کے ساتھ سکیورٹی سسم میں تبدیلی ضروری ہے.
مستقبل کی پیش بندی:
چیتے لاجسٹکس مارکیٹ میں بڑا پلئیر بن کر ابھری ہے اور ہوسکتا ہے مستقبل میں کسی زیادہ بہتر مدمقال سے سامنا کرنا پڑے. احمد خان نے کہا کہ وہ اس چیز سے آگاہ ہیں اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں.
ہمارا سخت امتحان تب ہوگا جب نئی آنے والی کمپنیوں اوبر ایٹس اور کریم سے مقابلہ ہوگا جو ناصرف بڑے پلئیر ہیں بلکہ مارکیٹ کا اتار چڑھائو جانتے ہیں. ان کے پاس اپنی مصنوعات کو بڑھانے اور ادائیگیوں کیلئے ٹیکنالوجی سسٹم بھی بہتر ہے.
خان کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے. ہم اپنے کاروبار کی ترقی اور کسٹمرز کا طرز زندگی بہتر کرنے کیلئے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں. انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کمپنی کو ایک ٹیک کمپنی تصور کرتے ہیں. ٹیکنالوجی نے زندگیاں آسان بنا دی ہیں اور اخراجات گھٹا دیے ہیں.
چیتے لاجسٹکس کے سی ای او کے مطاطق چونکہ وہ تمام مسائل ٹیکنالوجی سے حل کرنے کے پابند ہیں اسی لیے کچھ کمپنیوں کے ساتھ الیکٹرک بائیکس کے استعمال کے تجربات کر رہے ہیں جس سے اخراجات کم ہوں گے اور یہ چیز اس لیے زیادہ سود مند ہوگی کیونکہ یہ ماحول دوست بھی ہے.وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ طریقہ ضرور اپنائیں گے.