نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر NASDAQ عمارت کے باہر ایک ڈیجیٹل بل بورڈ پر لگا ہوا روح افزا کا اشتہار اس امر کی نشانی ہے کہ پاکستان کا روایتی مشروب ہمدرد کا روح افزاء کا استعمال صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ دنیا بھر میں افراد اس مشروب کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ اپنی پرانی مصنوعات کو نئے انداز میں متعارف کروانے کیلئے متحرک ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹل طریقے سے بنائی گی روح افزاء کی ویڈیو فیس بک اور یوٹیوب پر گردش کرتی رہی جس میں امریکی روح افزا استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس اشتہار کا مقصد یہ تھا کہ ہمدرد دواخانے کی اس مصنوعات کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ ہمدرد کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر 39 سالہ اسامہ قریشی کا یہ بڑا اقدام ہے جو اس سے قبل کے الیکٹرک میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور ہمدرد سے پہلے ان کا تجربہ زیادہ تر توانائی کی صنعت میں رہا ہے۔
تقسیم ہند 1947 سے لے کر اب اسامہ قریشی پہلے سی ای او ہیں جو اس خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ 2017 میں اسامہ کی بھرتی پاکستان کے تاریخی ورثہ کے حامل اس ادارے میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز تھا۔ سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے بڑے برانڈ کی رہنمائی کرنا تھا جس کی اہمیت میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہو رہی تھی کیونکہ نئی نسل کے صارفین کی شناسائی اس برانڈ کے ساتھ قطعی ویسی نہیں جیسی ان کے والدین کی تھی۔
دہلی سے آغاز
ہمدرد اور اس کی مشہور مصنوعات روح افزاء پاکستان کے گھریلو استعمال کی اشیاء ہیں اور اس کا مرکز ہمدرد دواخانہ ہے۔ ایک ایسا روایتی دواخانہ جس کا آغاز حکیم حافظ عبدالمجید نے 1906ء میں دہلی سے کیا۔ یہ اسی سال کا ذکر ہے جس سال جدوجہد آزادی کی تحریک کو ہوا دینے کیلئے برصغیر میں سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ معرض وجود میں آئی۔
جب اس کا آغاز کیا گیا تو یہ ایک چھوٹا سا کلینک تھا اور ہربل (جڑی بوٹیوں) دواخانہ تھا جہاں روایتی طب یونانی سے جڑی بوٹیوں سے بنائی گئی ادویات سے علاج کیا جاتا تھا۔ طب یونانی کی بنیاد سب سے پہلے یونانی حکیم ہپوکریٹس نے رکھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شمالی ہندوستان کے مسلمان حلقے بھی اس علم سے روشناس ہوئے۔ طب یونانی کے زیادہ تر حکیموں علاؤالدین خلجی کے عہد میں دہلی کی سلطنت میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
طب یونانی کے اس طریقہ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ روایتی دوائیوں کے استعمال سے علاج کا طریقہ کار مغل عہد سے پہلے ہندوستان میں کیا جاتا تھا۔ ان ادوایات میں کچھ ہندوستانی طریقہ جیسے آیورویدک اور کچھ قدیم چینی طریقے سے تیار کی گئی تھیں۔
روایتی دواخانہ کے ادارے کے طور پر ہمدرد نے اپنی توجہ اور تحقیق کا مرکز قدرتی اور جڑی بوٹیوں سے علاج کو رکھا۔ روح افزاء ان کے کاروبار کی سب سے زیادہ بکنے والے مصنوعات تھی۔ پاکستان میں استعمال ہونے والا سرخ رنگ کا شربت دہلی اور شمالی ہندوستان کے گرم موسم میں گرمی کی شدت کو کم کرتا تھا۔
حکیم عبدالمجید نے جب دہلی میں اس کاروبار کا آغاز کیا تو ابتداء میں ہی ترقی نے قدم چومے اور جلد ہی 1922ء میں انہیں ایک بڑی عمارت میں منتقل ہونا پڑا۔ بدقسمتی سے وہ اپنی کامیابیوں کے ثمرات نہ دیکھ سکے اور اسی سال ہی ان کی وفات ہوگئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر محض 39 برس تھی۔ ان کی زوجہ رابعہ نے نہ صرف اس وقت میں کاروبار کو سنبھالا بلکہ اپنے دونوں بیٹوں عبدالحمید جو اس وقت 14 برس کے تھے اور سعید جو اس وقت صرف 2 برس کے تھے کی تربیت بھی اچھے طریقے سے کی۔ جب تک کہ دونوں بڑے نہ ہو گئے اور کاروبار کو سمجھنے لگے۔
عبدالحمید نے 1930ء میں کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اگرچہ چھوٹے بھائی جنہیں دنیا حکیم محمد سعید کے نام سے جانتی ہے 1940ء تک خاندانی کاروبار سے منسلک نہ ہوئے۔ جب دونوں بیٹوں نے اس کمپنی میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانی شروع کر دیں تو رابعہ نے کاروبار دونوں بیٹوں کو سونپ دیا۔ انہیں یقین تھا کہ ہمدرد لیبارٹریز کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
اور پھر 1947ء کا ظالم موسم گرما آن پہنچا جب پاکستان اور ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تھا۔
تقسیم ہند اور تقسیم کاروبار
تقسیم ہند کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس خاندان کو دہلی میں محنت سے پروان چڑھایا ہوا اپنا کاروبار بھی تقسیم کرنا پڑا۔ بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی میں ہی رہے اور چھوٹے بھائی حکیم محمد سعید کراچی تشریف لے آئے جو اب موجودہ پاکستان ہے۔
کاروبار کی تقسیم ہمدرد کیلئے دھچکا ثابت ہو سکتی تھی جو دونوں ممالک میں غیر منافع بخش تنظیم کی بجائے ایک خیراتی ادارہ تھا۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد دونوں بھائیوں اپنے والد کی وراثت کو دونوں ممالک میں مزید بڑھانے کیلئے کوشاں تھے۔ دونوں ممالک میں ہمدرد کی تیار کردہ مصنوعات پر صارفین کا اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں بھائی ہمدرد کے مشن کو خوش اسلوبی سے پورا کرنے اور بڑے پیمانے پر عوامی سہولت کے مقصد میں کامیاب رہے۔
حکیم عبدالحمید اور حکیم سعید نے بالترتیب دہلی اور کراچی میں اپنے کاروبار کو فروغ دیا اور ہمدرد فاؤنڈیشن کی صورت میں علیحدہ علیحدہ خیراتی تنظیمیں تشکیل دیں جن کا دائرہ کار دونوں ممالک میں پھیل گیا۔
روایتی ادویات کے اس کاروبار میں مزید مصنوعات بھی شامل کی گئیں جن میں خون کو صاف کرنے کیلئے صافی، گلے کی خراش دور کرنے کیلئے سعالین اور جوشاندہ کے نام سے سردی اور نزلے سے بچاؤ کیلئے جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ پتی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہمدرد نے روح افزاء کی بھی بڑے پیمانے پر پیداوار کا آغاز کر دیا اور صارفین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ روح افزاء کو ٹھنڈے پانی میں ملانے سے سرخ رنگ کا ایک مزیدار شربت تیار ہو جاتا ہے۔
غیر منافع بخش دواخانہ اور خیراتی ادارے کا قیام دونوں بھائیوں کو عوام کے قریب لے آیا جسے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے خوب سراہا۔
1965ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے حکیم عبدالحمید کو چوتھے بڑے سولین ایوارڈ پدماشری سے نوازا گیا۔ صرف اتنا نہیں 1966ء میں حکیم محمد سعید کو پاکستانی حکومت کی جانب سے ملک کے تیسرے بڑے سولین ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ دونوں بھائیوں نے دونوں ممالک سے مزید کئی ایوارڈ بھی سمیٹے۔ 1991ء میں حکیم عبدالحمید کی بھارت کے تیسرے بڑے ایوارڈ پدمابھوشن سے عزت افزائی کی گئی اور حکیم محمد سعید کو 2002ء میں پاکستان کے سب سے اعلیٰ سولین ایوارڈ نشان امتیاز دیا گیا۔
دونوں بھائیوں کی زندگی جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی زندگی کی عکاس ہے۔ حکیم عبدالحمید دہلی میں حکمت کرتے تھے ان کی خدمات کو بھارتی حکومت کی جانب سے سراہا تو گیا لیکن ان کی خدمات کے مقابلے میں بہت کم جبکہ حکیم سعید پاکستانی معاشرے میں اپنی خدمات کے باعث نمایاں مقام رکھتے تھے اور اسی وجہ سے انہیں گورنر سندھ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 1993ء سے 1994ء تک بطور گورنر اپنی خدمات پیش کیں۔ حکیم عبدالحمید 1999ء میں 91 برس کی عمر خاموشی سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ حکیم سعید کو 1998 میں بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 78 برس تھی۔ دونوں بھائیوں کی عمر میں 12 سال کا فرق تھا لیکن چھوٹا بھائی بڑے بھائی سے ایک سال قبل ہی دنیا فانی سے کوچ کر گیا۔
پاکستان میں حکیم سعید کی وراثت
حکیم سعید نے صرف حکیمی دواخانہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمدرد کا دائرہ وسیع کر کے دیگر شعبوں میں پھیلا دیا جس میں نمایاں تعلیم کا شعبہ ہے۔ ہمدرد کے زیراہتمام بچوں کا اردو رسالہ نونہال کی اشاعت کی گئی جس کا مقصد پاکستانی نوجوانوں اور بچوں میں مطالعہ سے رغبت اور اردو ادب کو فروغ دینا تھا۔ 1991ء میں ہمدرد یونیورسٹی کا قیام عمل میں جس کی علم کے شعبے میں گراں قدر خدمات ہیں۔
ہمدرد کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسامہ قریشی کا کہنا ہے کہ ’’ہمدرد ایک ایسا نام ہے جسے 90 کی دہائی سے پہلے کے افراد بخوبی واقف ہیں اور اس سے رہنمائی حاصل کر چکے ہیں۔‘‘
اس دعوے کی حقیقت کیلئے پرافٹ/منافع نے آن لائن پول کا انعقاد کیا جس کے مطابق 33 سے 53 سال کی عمر کے افراد کی 76 فیصد تعداد حکیم سعید کی شخصیت سے واقف تھی جبکہ 13 سے 33 سال کی عمر کے افراد کی صرف 44 فیصد تعداد ان کے نام سے واقف ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کمپنی کے مقبولیت میں ایک نسل کے بعد کافی فرق آیا ہے۔
نونہال رسالے نے خاص طور پر ہمارے بڑوں کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 2017ء میں نونہال کے دیرینہ مدیر مسعود احمد برکتی کی وفات پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان کی اور میگزین کی گراں قدر خدمات کو خوب سراہا گیا۔ ٹوئٹر پر ایک ڈیجیٹیل مارکیٹر ثناء عادل نے لکھا کہ ’’میرے بچپن کا ایک اور باب بند ہو گیا۔ میں اور میرے ساتھ کے دوسرے بچے مسعود احمد برکتی کے ہمیشہ ممنون رہیں گے کیونکہ نونہال میرے بچپن کا ایک حصہ ہے۔ افسوس کہ آج کل کے بچوں کی اردو ادب میں دلچسپی کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘‘
سی ای او کی جانب سے دکھ کے تاثرات کا اظہار کیا گیا۔ ’’ہمدرد کا حکیم محمد سعید اور بچوں کے رسالے نونہال کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن بدقسمتی سے آج کل کے نوجوان حکیم صاحب کے کام اور نونہال کی ادبی اور ثقافتی اہمیت سے انجان ہیں۔‘‘
خاندانی وراثت کا دباؤ اور نیا سی ای او
ہمدرد کے نام کو کامیاب بنانے میں رکاوٹ کی بڑی وجہ اس کا بڑا نام ہی ہے۔ جب ایک کمپنی کا نام مشہور ہو جائے تو پھر اسے میںدلچسپی کا فقدان ہونے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں، صارفین کو اعلیٰ اقدار فراہم کرنے کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ وہ اقدار بھی فراہم نہیں کی جاتیں جن سے صارف آگاہ ہے۔
ہمدر کو بھی اسی قسم کے دقیانوسی حالات کا سامنا ہے۔ ایک نام اور اس کی مصنوعات سے مارکیٹ بخوبی واقف ہے لیکن اس میں جدت کی کمی ہے۔ یا اس کی مصنوعات ایسی نہیں ہیں کہ نوجوان طبقہ اس کا صارف بننے کی کوشش کرے۔
پھر اسامہ قریشی نے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے فرائض سنبھال لئے۔
اسامہ قریشی ہمدرد لیبارٹری سنبھالنے والے پہلے شخص ہیں جو اس خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ اسامہ کو سونپا گیا یہ منصب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکیم سعید کا خاندان اس کاروبار کو جدت کے نئے عہد میں داخل کرنا چاہتا ہے اور اس کی توجہ نوجوان صارفین کی دلچسپی حاصل کرنے میں ہے۔ اسامہ قریشی کا انتخاب امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جنوری 2017 میں جب انہوں نے اپنا منصب سنبھالا ان کی عمر محض37 برس تھی۔
اسامہ کا تعلق کراچی کے ایک متوسط طبقے سے ہے اور ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو حکیم سعید کی قومی اور طبی خدمات سے خوب متاثر ہیں۔ اسامہ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں تعلیم کو لازمی جزو قرار دیا جاتا تھا لیکن اپنے کیریئر کو تیز پٹری پر لانے کیلئے تمام وسائل کو یکجا کرنے کیلئے نہایت محنت درکار تھی۔
جب اسامہ نے ہائی اسکول پاس کیا تو وہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی میں بیچلرز کی ڈگری (بی بی اے) کے خواہاں تھے لیکن اس وقت جو سرکاری یا نجی ادارے اس مضمون میں ڈگری جاری کرتے تھے وہ بہت مہنگے تھے۔ 2001 میں انہوں نے بی بی اے کی بجائے جامعہ کراچی میں کامرس میں بیچلرز (بی کام) ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں نے کچھ ٹیلی کام کمپنیز میں ملازمت کی اور 2004 میں پاکستان کی سب سے بڑی قومی تیل کی کمپنی پی ایس او میں ملازمت سے قبل وہ اومان میں ایک بینک میں اپنی خدمات پیش کر رہے تھے۔ پی ایس او میں اسامہ نے پری پیڈ لائلٹی کارڈز کے پروگرام میں معاونت کی جس کا مطلب کمپنیکو اسے ایسے مقام پر کھڑا کرنا تھا کہ وہ ہر گھر کی ضرورت بن جائے لیکن اس میں جدت شامل نہیں تھی۔
یہاں سے وہ پاکستان میں مربوط افادیت کی حامل واحد ادارے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کے ذیلی ادارے ابراج میں منتقل ہو گئے۔ جہاں بطور چیف مارکیٹنگ آفیسر انہوں نے کمپنی کے پرانے نام کے ای ایس سی کو کے الیکٹرک کے ایک نئے نام سے متعارف کروانے میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
کچھ عرصہ بعد کئی اداروں کی خودمختار مشاورت کے فرائض سرانجام دینے کے بعد انہوں نے ہمدرد میں چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے کیلئے درخواست دی جسے منظور کر لیا گیا۔
آخر کیوں توانائی کے شعبے میں کئی سالہ تجربے کے بعد انہوں نے ادویہ سازی اور مشروبات کی کمپنی میں شمولیت اختیار کی؟ اسامہ قریشی کا کہنا ہے کہ یہ ان کیلئے بھی آسان نہیں تھا۔
پرافٹ/منافع کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ میں کسی مستحکم ادارے میں ملازمت کیلئے نہیں موزوں نہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو میں نے ہمیشہ ایسے حالات یا ایسے اداروں میں کام کیا ہے جو مسائل اور مشکلات سے گھرے ہوئے تھے۔‘‘
انہوں نے خاص طور پر روایتی مگر بڑے برانڈ کو نئے اور اچھوتے انداز میں متعارف کروانے کا خیال نوجوان صارفین کی دلچسپی میں اضافہ سے منسوب کیا۔ انہوں نے کہا ’’بورڈ نے مجھ سے واضح کہا کہ وہ اس کمپنی کو نوجوانوں کیلئے بنائی گئی کمپنی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
پرانے وجود میں ایک نئی روح
کمپنی کی اصل روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میںجدت کی ایک نئی روح پھونکنے کی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے اسامہ قریشی کا کہنا تھا کہ ’’ہمدرد کوئی عام برانڈ نہیں۔‘‘
اسی لئے اسامہ کو ہمدرد کو خالصتا ایک پاکستانی برانڈ بنانے کا خیال سوجھا جس سے عالمی توجہ بھی حاصل ہو سکتی تھی اور یہ بھی کہ ہو سکتا ہے اس سے پاکستان کو دنیائے عالم میں اپنا مقام بہتر کرنے میں مدد ملے اور اس کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے ابھرے۔ پاکستان اور پاکستان کے برانڈ ہمدرد کی یہ منفرد جدت لندن اور نیویارک میں ہونے والے عوامی وقوعوں میں صاف نمایاں ہے۔
23 مارچ 2018 یوم پاکستان کے موقع پر ہمدرد نے نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر اپنا سٹال سجایا اور تمام شہریوں اور سیاحوں کو روح افزاء کو پینے کی دعوت دی اور شاید پاکستان سے منسوب ایک اچھی شے متعارف کروائی جو شاید پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 14 اگست 2018 یوم آزادی کے موقع پر لندن کے ایک انڈر گراؤنڈ اسٹیشن پر بھی اسی طرز کی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
لندن اور نیویارک عالمی سرگرمیوں کا مرکز ہیں جہاں لوگ صارفین کے ذہنوں سے واقف ہیں اور دنیا بھر میں کمرشل اور معاشی ترقی کی مثال ہیں۔ اس مارکیٹ میں ہمدرد اور اسکی زیادہ بکنے والی مصنوعات روح افزاء کیلئے صارفین کی توجہ حاصل کرنا نہ صرف کمپنی کی کامیابی کا ایک نیا سفر ہے بلکہ قومی فخر کے احساس اور جذبے میں میں بے پناہ اضافہ ہے جس سے کمپنی کو طویل مدت کیلئے مدد ملے گی۔
ہمدرد نے عالمی مارکیٹ میں پذیرائی پر اکتفا نہیں کیا۔ ہمدرد نے فیس بک اور یوٹیوب پر ویڈیو متعارف کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں 45 لاکھ سے زائد افراد نے اس ویڈیو کو دیکھا۔
کمپنی کی تشہر میں وطن سے محبت کا عنصر شامل کا مقصد بہت وسیع ہے۔ اسامہ نے کہا ’’روح افزاء کو پاکستان کا قومی مشروب ہونا چاہیئے۔ پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں ہوتی۔ ہماری مصنوعات ذرا ہٹ کر ہیں جن کی نمائش کراچی کے فوڈ فیسٹیول ’کراچی ایٹ‘ میں ہوگی۔‘‘
اسامہ قریشی اور کمپنی کی چیئرمین اور حکیم سعید کی دختر سعدیہ رشید اپنے پرانے برانڈ کو نئے اندز میں متعارف کروانے اور ایسے انداز میں صارفین کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے پرعزم ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس میں کامیابی کیلئے اسامہ قریشی چاہتے کہ عوام تک یہ بات پہنچے کہ کمپنی کی مصنوعات قدرتی اجزاء سے تیار کردہ ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ جعلی اور کیمیکل سے تیار کردہ مصنوعات سے عاجز کثیر عوام کی دلچسپی حاص کر پائیں گے۔
صارفین کو جدید خوراک اور ادویات کی بجائے اپنی کمپنی کی قدرتی مصنوعات کے استعمال پر راغب کرنے کی بڑی تحریک میں شمولیت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہماری مصنوعات انسان کی تیار کردہ کیمیکلز سے تیار کردہ مصنوعات اور ادویات کی طرح بالکل نہیں۔ یہ نامیاتی اور قدرتی اجزاء کا مرکب ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ قدرت ہی وجود کی بہترین شکل ہے۔ جو قدرتی خوراک پہلے صرف غریب کسان کھاتا اب امیر بھی وہی کھاتا ہے۔ ہم واپس اپنی بنیادوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اب وہ قدرتی خوراک کا استعمال کرتے ہیں اور ایلیٹ طبقہ کیونکہ رحجان سازی کا ماخذ سمجھا جاتا ہے کے طرز زندگی میں قدرتی اور نامیاتی اشیاء کا استعمال معاشرے کو اپنی بنیادوں کی جانب لے جا رہا ہے۔‘‘
اپنے لاکھوں صارفین سے رابطہ
اپنے لاکھوں صارفین سے منسلک ہونے کی حکمت عملی پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسامہ نے کہا ’’ہم آبادیات میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ ہیں اور ذرائع معلومات اور اقدار میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتائج سے بھی واقف ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’جدت پسندی اور نوجوانوں سے منسلک ہونا ہمارے لئے نیا نہیں ہے۔ بلکہ حکیم سعید اپنے دور کی ایک جدید سوچ کی حامل شخصیت تھے اور ان کے قیادت کے دور میں یہ ہمدرد کے تنظیمی ڈھانچے کا خاصہ تھی۔ انہوں نے ہمیشہ نوجوان نسل کی اہمیت کو اجاگر کیا اور نونہال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘
تاہم ماڈرن صارف اپنی اشیاء کا استمال مختلف طریقے سے چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر میگزین کی بات کی جائے تو صارفین اشاعتی مواد کو ترک کرکے ڈیجیٹل مواد کو ترجیح دے رہے ہیں اور اگر وہ ایسا ہی چاہتے ہیں تو ہمدرد انہیں وہاں بھی نونہال میگزین فراہم کرے گا۔ اس کیلئے کمپنی نے اس کا جدید ڈیجیٹل ورژن تیار کیا ہے اور اس پر آمدورفت کی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ اسے بہتر بنایا جا سکے۔
اور اب یہ ادارہ کافی عرصے سے پرانے سٹائل کے ٹی وی اشتہارات جنہیں دیکھ کر ایک پوری نسل جوان ہوئی کو بدل کر اس میں جدت کا عنصر ڈالتے ہوئے مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کی تشہیر کیلئے نئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا رخ کرنے کیلئے تیار ہے۔ اسامہ کا کہنا ہے ’’ہم نے اپنی مارکیٹنگ، کمیونیکیشن، ڈسٹری بیوشن اور پیکجنگ میں اصلاحات کی ہیں جس سے نہ صرف کمپنی کی اساس کو نئے انداز میں متعارف کروانے میں مدد ملے گی بلکہ اسے آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی سہل بنایا جا سکے گا تاکہ وہ ہماری مصنوعات استعمال کریں۔‘‘
برآمدات کا حصول
ہمدرد کی ڈیجیٹل تشہیر پاکستان برانڈ کو عالمی پلیٹ فارم پر متعارف کروانے اور نیویارک، لندن اور ٹورنٹو میں مقیم پاکستانیوں تک اس کی رسائی کی کوشش تھی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جن 3 شہروں کا انتخاب کیا گیا وہاں نہ صرف پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے بلکہ ایسے لوگوں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو وہاں حصول رزق کیلئے گئے ہیں۔
پاکستان کے تارکین وطن ان ممالک میں معاشی طور پر اہم سمجھے جاتے ہیں اور یہاں کی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے کافی مواقع ہیں۔ ورلڈ بینک کے سابق ماہر معاشیات اور سابقہ وزیر خزانہ شاہد جاوید برکی کے مطابق امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی مجموعی سالانہ آمدن تقریبا 45 سے 50 ارب ڈالر سالانہ ہے اور روح افزاء جیسا برانڈ شمالی امریکہ اور یورپ میں پاکستان کے تارکین وطن کے علاوہ دیگر جنوبی ایشیائی برادری میں مقبول ہے جن میں بھارتی اور بنگلہ دیشی شامل ہیں۔
ہمدرد کی ترقی کی حکمت عملی میں ان مارکیٹوں تک پہنچنا بھی شامل ہے۔ کمپنی کی روح افزاء کی برآمد میں پچھلے دو سال میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ تارکین وطن کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹنگ ٹیکنیک کا استعمال اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی قابلیت میں آگے بڑھنا ہے۔
صحت مراکز میں اضافہ
لیکن شاید سب سے بڑا موقع وطن میں ہی حاصل کیا جائے گا۔ ہمدرد کے سی ای او نے ہمدرد کلینکس کا دائرہ کار وسیع کرنے کے منصوبے کا عندیہ دیا جس سے کم خرچ پر صحت اور ادویات کی سہولت فراہم کرتے ہوئے کمپنی پر لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔
ہمدرد پاکستان میں طب یونانی سے تیار کردہ ادویات کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے زیادہ کلینکس کھولنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اسامہ قریشی نے عطائی حکیموں اور ڈاکٹروں سے اختلاف کیا جن کی وجہ سے یہ شعبہ بدنام ہوا۔ ’’ہمارے شعبہ میں بہت لوگ ایسے ہیں جو درست ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہم اس شعبہ میں معیار قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایلوپیتھک ادویات سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اسی وجہ سے ہم حکام اور خاص طور پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ اس شعبہ کو درست کیا جا سکے۔‘‘
یہ یقینا اسامہ قریشی کا بلند نظر خیال ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستان میں آج تک کارپوریٹ حلقے میں سب سے متاثر کن امر ہوگا۔ اس سے دیگر روایتی اور پرانے سٹائل کی صنعتوں کو بھی جدت لانے میں مدد ملے گی۔