وہ چار پاکستانی جو اپنے کاروبارسے سماج کو بدل رہے ہیں

1041

کالج سے گریجوایشن کرتے ہوئے بہت سے طلبہ اپنے مستقبل کے حوالے سے اس صورتحال کا سامنا کرتے ہیں کہ کوئی ایسی نوکری کریں جو صرف سماجی اثر رکھتی ہو یا پھر ایسا کام کریں جس کے سماجی اثرات کیساتھ مالی فوائد بھی زیادہ ہوں. کچھ کاروباری افراد کے نزدیک دونوں طرح کے کام کرلینے چاہیں.

گزشتہ چند سالوں میں سوشل انٹرپرینیورشپ کا مطلب یہ لیا جارہا تھا کہ یہ کوئی چیریٹی ہے جس میں مالی فائدہ کم ہے اور سماجی خدمات زیادہ ہیں یا پھر کوئی ایسا بزنس ہے جو کبھی کبھار رفاہی منصوبہ بن جاتا ہے. تاہم جیسے جیسے یہ کاروبار بڑھ رہا ہے ویسے ہی یہ بات زیادہ واضح ہو رہی کہ سوشل انٹرپرینیورزاپنی ذمہ داری کیساتھ ساتھ مثبت اثر بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور وہ خود کو مالی طور پر بھی مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں.

سستے گھر بنانے والی انصار مینجمنٹ کمپنی:
پاکستان میں کم قیمت گھر تعمیر کرنے والی کمپنی انصار مینجمنٹ کمپنی (اے ایم سی) کے سی ای او جواد اسلم کہتے ہیں کہ کسی بھی بزنس میں معاشرے کو دیکھتے ہوئے نفع حاصل کیا جاتا ہے، لالچ کیساتھ کوئی کاروبار نہیں چل سکتا.

مالی منافع کے تین بینادی اصولوں، سماجی اثر اور سازگار ماحول کو ہر طرح کے کاوربار میں مدنظر رکھنا چاہیے.

نفع اور مقصد کے مابین کسی ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہوتا ہے اور ایسا ہر کاروبار میں ہوتا ہے تاہم ایسے کاوربار جن میں ان دونوں چیزوں (نفعع اور مقصد) کا توازن قائم کرلیا جاتا وہ عموماََ معقول اثر ناصرف کاوربار کرنے والے کیلئے رکھتے ہیں بلکہ معاشرے کیلئے بھی رکھتے ہیں.

حال ہی میں “منافع” نے کچھ ایسے سوشل انٹرپرینیورز کیساتھ نشست میں ان کے سفر کے بارے میں پوچھا، ہم نے سب سے پہلے انصار مینجمنٹ کمپنی کے سی ای او جواد اسلم سے بات کی.

2005ء میں جواد اسلم امریکی ریاست بالٹی مور میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرتے تھے، بعد ازاں انہوں نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا.

اس حوالے سے انہوں نے بتایا ” دراصل ہمارے پاس کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں تھا، تاہم پاکستان آکر ہماری ملاقات سائبان سے چیئرمین تسنیم صدیقی سے ہوئی، سائبان اس وقت ایک ہی ایسی آرگنائزیشن تھی جو کم قیمت گھر بنا رہی تھی، اور جب میں امریکا میں تھا تو انہوں نے لاہور کے مضافات میں ایک پروجیکٹ لانچ کرنے کی دعوت دی جو اکیومن فنڈ کی معاونت سے شروع ہو رہا تھا.

اس پروجیکٹ میں 100 ڈالرسے 200 ڈالر ماہانہ کمانے والے لوگوں کو فوکس کیا گیا تھا، مجھے اسی آئیڈیا نے متاثر کیا کہ ایسے لوگوں کو گھر بنا کر دینا جنہوں نے ساری زندگی اپنے زاتی گھر کا خواب تک نہیں دیکھا اور 20، 20 سال سے مہنگے کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں. اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یہ ماڈل معاشی طور پر قابل عمل تھا.

2009ء میں جواد نے اسی ماڈل پر کام کرتے ہوئے اکیومن فنڈ (30 فیصد شیئر پر) کے اشتراک سے انصار مینجمنٹ کمپنی بنائی، اے ایم سی کم قیمت ہائوسنگ سوسائٹیاں بناتی ہے جہاں گھروں کی قیمت 7 لاکھ سے 18 لاکھ تک ہوتی جو جگہ کے حساب اور پلاٹ کے سائز پر منحصر ہوتی ہے. 18 لاکھ کا گھر عام طور پر 800 مربع فٹ کے پلاٹ پر بنتا ہے اور اسکا 650 مربع فٹ کورڈ ایریا ہوتا ہے.

یہ منصوبہ معتدل طور پر منافع بخش ہے، جواد کی کمپنی اب سرمایہ کاری پر 6 سے 10 فیصد تک سالانہ منافع حاصل کر رہی ہے اور یہ 15 فیصد ہونے کی توقع ہے. دوسری جانب روایتی رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کا سرمایہ کاری پر سالانہ منافع 100 فیصد سے 200 فیصد تک ہے. انہوں نے بتایا کہ ہم 15 فیصد منافع لے رہے ہیں‌ جبکہ روایتی پراپرٹی ڈویلپر 100 فیصد لے رہے ہیں.

اس سوال کے جواب میں کہ یہ ڈویلپرز اس قدر زیادہ منافع کیسے حاصل کرتے ہیں، جواد کہتے ہیں یہ مارکیٹ کا سوال ہے اور مارکیٹ ہی ایسے منافع طے کرتی ہے. اگر آپ اپنے بچے کو تعلیم ہر 20 لاکھ خرچ کر رہے ہیں‌ اور میں تعلیمی ادارہ چلاتا ہوں‌ تو ہم دونوں ہی لین دین کرنے پر آمادہ ہونگے اور تب اسکا کوئی مسئلہ بھی نہیں. اگر کوئی شخص تعلیم پر 20 لاکھ خرچ کرنے کو تیار نہ ہو تو پھر تعلیم ترقی نہیں کرے گی، یہی صورتحال ہائوسنگ کے ساتھ ہے یہاں جو لوگ 100 فیصد منافع کما رہے ہیں ان کے سامنے مارکیٹ موجود ہے، کسٹمر موجود ہیں جو اتنا منافع دینے پر تیار ہیں.

جواد کو یقین ہے کہ ان کا ماڈل بہتر ہے جو ناصرف اچھا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوگا بلکہ منافع بخش بھی ہے اوراس شعبہ میں مزید سرمایہ کاری بھی لانے کا موجب ہوگا. وہ کہتے ہیں‌ کہ ہمیں مہنگائی کے دور میں مارکیٹ کو سمجھنے کا راستہ نکالنا ہوگا میں ایسے ہی گھر آدھی قیمت پر بھی بناسکتا ہوں جن کی کوالٹی بھی یہی ہوگی.

پانی تک رسائی کیلئے طیبہ آرگنائزیشن
بلال ثاقب لندن سکول آف اکنامکس میں سوشل انوویشن اینڈ انٹرپرینیورشپ میں پوسٹ گریجوایٹ کررے ہیں، انکی زندگی پاکستان اور برطانیہ میں‌ گزری ہے. تاہم سوشل انٹرپرینیوشپ کرنے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب وہ برکینا فاسو میں ایک بار سفر کر رہے تھے. اس سے متعلق بلال ثاقب بتاتے ہیں‌ کہ “میں برکینا فاسو کے دارالحکومت میں تھا، یہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے، وہاں میں نے دیکھا کہ خواتین پہیے کی شکل کے کنٹینرز پر دور دراز سے پانی لا رہی ہیں، میں‌ نے ان سے کنٹینر کے بارے میں‌ معلومات لیں تو انہوں‌ نے بتایا کہ یہ شائد ان کی زندگی میں‌ آنے والی سب سے بہترین چیز تھی.”
پاکستان کے دیہی علاقوں‌میں بڑی تعداد میں‌ خواتین روزانہ ایسی ہی مشقت سے گزرتی ہیں اور انہیں دور دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے. ان کی حالت برکینا فاسو کی خواتین سے بھی خراب ہے کیونکہ وہ روایتی مٹی کے گھڑوں پانی بھر کر کئی کئی میل سروں پر اٹھا کر چلتی ہیں. برکینا فاسو میں Hipporoller.org خواتین کو واٹر وہیل فراہم کررہی ہے جبکہ بھارت میں یہی کام Wello Water نامی تنظیم کررہی ہے تاہم پاکستانی خواتین کیلئے کچھ نہیں کیا گیا.

میں نے ایک ٹیم تشکیل دی اور اپنی تنظیم طیبہ آرگنائزیشن کے تحت پاکستان میں بھی ایسا وہیل واٹر پروجیکٹ شروع کیا، ہم نے ابتدائی طور پر تھرپارکر، کوہستان اور بلوچستان کے ایک علاقے سے کام شروع کیا ہے اور تین سال میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کی زندگی بدلی ہے.


جب ان سے آرگنائزیشن کے بزنس ماڈل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو بلال نے کہا کہ ان کی تنظیم زیادہ تر عطیات پر چل رہی ہے. “ہمارا کوئی بزنس مادل نہیں، ہم 100 فیصد عطیات پر چل رہے ہیں، جو رقم جمع ہوتی ہے اس کا واٹر وہیل لے لیتے ہیں، تنظیم کا کوئی رکن سیلری نہیں لیتا.”

تاہم آگے ان کے ذہن میں ایک ماڈل ہے جو شائد انہیں اچھی آمدن دینے کیلئے کارآمد ثابت ہو، ایک واٹر وہیل 2500 روپے میں پڑتا ہے اس میں ٹرانسپورٹ کی وہ رقم بھی شامل ہے جو مستحقین تک پہنچانے میں خرچ ہوتی ہے، اس طرح ان لوگوں سے جو دراصل ضرورت مند ہیں رقم وصول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. بلال کے مطابق ” مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ قوت خرید نہیں رکھتے اور جو خرید سکتے ہیں انہیں اس کی ضرورت نہیں.”

ابھی بلال بڑی کارپوریشنز کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس کے وینچر میں دلچسپی لیں گی. “ہمیں ہرصورت مختلف ماڈل اپنانا ہوگا، ہم ایسی کمپنیوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو کارپوریٹ سوشل رسپونسی بلٹی (سی ایس آر) کے کاموں میں نام رکھتی ہیں اور ان سے ہم فنڈنگ حآصل کریں گے، ہم اس واٹر وہیل پروگرام کو ایک کمپنی کی شکل دے سکتے ہیں اور وہ اسے اپنی سی ایس آر رپورٹ کا حصہ بناسکتے ہیں. حال ہی میں‌ کوکا کولہ کی منرل واٹر کمپنی داسانی نے بلال کے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے.

بلال کہتے ہیں کہ مغرب میں اب کمپنیاں بجائے عطیات دینے کے ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، وہ دیکھتی ہیں کہ یہ بزنس کس حد تک سماجی اثر رکھتا ہے.

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ایسی مارکیٹ بھارت میں تیزی سے بڑھی ہے، ایک کنسلٹنگ فرم مکنسے اینڈ کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2010ء سے لیکر آج تک ایسی سرمایہ کاری کا کل حجم 5.2 ارب ڈالر ہو چکا ہے جبکہ اس میں 4.2 ارب ڈالر صرف 2015ء کے دوران سرمایہ کاری ہوئی. حالانکہ سرمایہ کاروں کی تعداد سالانہ 60 سے 80 تک رہی لیکن ان کی سرمایہ کاری جو ایک ڈیل کیلئے 2010ء میں 7.6 ملین ڈالر تھی وہ ایک ڈیل کیلئے 2016ء میں 17.6 ملین ڈالر ہوگئی.

بلال ثاقب کہتے ہیں کہ ” ہوسکتا ہے ہم حکومت کیساتھ بھی کام کریں اور اسے واٹر وہیل اور فلٹرز فروخت کریں، پھر ہم ایک سروس فیس وصول کریں گے جو تحقیق اور منصوبے کو آگے بڑھانے میں خرچ کی جائے گی.”

مستقبل میں بلال کا منصوبہ طیبہ ارگنائزیشن کو ایک ایسے تھنک ٹینک کی شکل دینا ہے جو سماجی مسائل پر کام کرے، “اس تنظیم کو بنانے کا مقصد ایک تھنک ٹینک بنانا ہی ہے، جہاں ہم پانی، خوراک، خواتین کی صحت، مائیکروفنانس اور دیگر منصوبوں پر ناصرف حکومت کیساتھ مشاورت کرسکیں بلکہ اس کو مدد بھی دے سکیں.”

اعلیٰ تعلیم کیلئے “رہنمائی”
‘رہنمائی’ کے بانی حافظ اویس افضل نے یہ سماجی پروگرام پاکستان بھرمیں اعلیٰ تعلیم کیلئے اداروں میں داخلوں کی شرح بڑھانے کیلئے شروع کیا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ملک کی 65 فیصد یونیورسٹیوں میں داخلے آن لائن نہیں ہوتے اور طلباء کو دور دراز شہروں سے صرف داخلہ فارم بھرنے کیلئے یونیورسٹی میں جانا پڑتا ہے.

جس وقت اویس خود یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے تھے اور وہ اوکاڑہ میں رہتے تھے جو کہ ویسے بھی قدرے پسماندہ شہر ہے تو اویس کو داخلے سے متعلق معلومات کی کمی اور طریقہ کار سے ناواقفیت کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا تھا.

اویس کہتے ہیں کہ “میں نے محسوس کیا کہ معلومات اور رسائی کم ہونے کی وجہ سے بہت سے طلباء مواقع ضائع کر بیٹھتے ہیں.” جس کے بعد اویس نے اپنے آبائی شہر سے سماجی منصوبہ “رہنمائی” کے نام سے شروع کیا جس کا بنیادی مقصد تعلیمی اداروں میں طلباء کے داخلوں کی شرح بڑھانا تھا.

اب “رہنمائی” طلباء کو اپنے پورٹل سے آن لائن درخواستیں بھرنے کی اجازت دیتی ہے جنہیں بعد میں یونیورسٹیوں کو بھجوادیا جاتا ہے. رہنمائی کے پورٹل پر طلباء کو یونیورسٹیوں سے متعلق تمام معلومات، فیس، سکالرشپس اور آخری تاریخوں کے متعلق بتایا جاتا ہے.

اویس کہتے ہیں کہ ہم 500 روپے سروس چارجز وصول کرتے ہیں، یہ ‘رہنمائی’ کے اخراجات کیلئے بنیادی رقم ہے جبکہ دیگر سہولیات کیلئے سپونسرشپ سمیت دیگر رقوم وصول کی جاتی ہیں.

“رہنمائی” کیرئیر کونسلنگ بھی فراہم کرتی ہے جس کیلئے کالجوں میں سیشن منعقد کیے جاتے ہیں اور طلباء کو اس کا پورٹل استعمال کرنے کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے.

اویس کے مطابق اس طرح طلباء کے سفری اخراجات بچتے ہیں جو کہ خواتین کی صورت میں دوگنا ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شخص لازمی سفر کر رہا ہوتا ہے. ہم نے داخلوں کی درخواستوں پر اوسطاََ اخراجات 60 سے 70 فیصد تک کم کردیے ہیں. اب تک ہمارے پورٹل پر طلباء کی تعداد 20ہزار ہوچکی ہے اور ہم یونیورسٹیوں کے 1500 داخلے فارم بھجوا چکے ہیں.

اویس دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا وینچر ناصرف یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں اضافہ کرنے میں مدد کر رہا ہے بلکہ معاشرتی اور صنفی امتیاز کو ختم کرتے ہوئے طلباء کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں مدد دے رہا ہے اور ملکی ورک فورس میں تنوع پیدا کرتے ہوئے طلباء کو ان مضامین سے روشناس کروا رہا ہے جو پہلے وہ نہیں جاتے تھے.

قابل تجدید توانائی: ایکو انرجی
شازیہ خان ماحولیات کے شعبہ میں ایک پاکستانی نژاد امریکی وکیل ہیں اور واشنگٹن ڈی سی میں رہائش پذیر ہیں توانائی کے شعبہ میں انکی سپیشلائزیشن ہے. انہوں نے افریقہ انرجی سیکٹر کیلئے کام کرتے ہوئے ورلڈ بینک کے ساتھ اپنا کیرئیر شروع کیا.

گلوبل انوائرنمنٹ فیسلیٹی پر کام کرتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان میں 71 ملین لوگ جو بجلی کے بغیر رہتے ہیں وہ سولر انرجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں سورج سارا سال چمکتا ہے.

2009ء میں شازیہ خان نے ایک غیر منافع بخش کمپنی ایکو انرجی فنانس کا آغاز کیا، جس کا مقصد ایک ایسا کمرشل بزنس ماڈل بنانا تھا جس کے تحت بجلی سے محروم پاکستان کی آبادی کیلئے سستی اور صاف انرجی کا حصول ممکن بنایا جا سکے. ایکو انرجی نے سات سال تک غیر منافع بخش طور پر کام کیا اور مارکیٹ ریسرچ اور پروڈکٹ ٹیسٹنگ کیلئے رقم جمع کی.

شازیہ خان اور ایکو انرجی میں ان کے شریک بانی جریمی ہجنز نے ایک چھوٹی ٹیم بنائی اور چار سال تک 44 ہزار گھرانوں پر تحقیق کی جس میں ان کی قوت خرید، ترجیحات اور رجحانات کا جائزہ لیا گیا جو کہ ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کیلئے ضروری تھا. اس کے علاوہ مزید تین سال مخلتف پروڈکٹس کو بناتے ہوئے اور ٹیسٹ کرتے ہوئے گزر گئے.

بزنس ماڈل بن جانے کے بعد ایک مکمل منافع بخش ایکو انرجی گلوبل متعارف کرائی گئی، کمپنی اب 20 واٹ سے 500 واٹ تک توانائی کی طلب کے حوالے سے کام کرتی ہے.

اس حوالے سے شازیہ خان بتاتی ہیں کہ “ہماری پروڈکٹس کی قیمت اس سے کم یا اتنی ہی ہے جتنی ہمارے کسٹمرز اپنی توانائی کی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں. ہم مالی خدمات فراہم کرتے ہیں اور کسٹمرز کیلئے ایک کریڈٹ سکور بناتے ہیں اس کے علاوہ انہیں سیلز کے بعد بھی خدمات فراہم کرتے ہیں.”

ایکو انرجی بنیادی طور پر سندھ میں کام کرتی ہے اور ان لوگوں کو سہولیات دیتی ہے جو بجلی کے گریڈ اسٹیشن سے دور دراز علاقے میں رہتے ہیں تاہم اب جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے بجلی والے علاقوں میں بھی کام شروع کرنے پر غور رہی کر رہی ہے.

شازیہ خان کہتی ہیں کہ یہ شرمناک بات ہے کہ حکومت نے ان لوگوں کو بجلی فراہمی کیلئے کچھ نہیں کیا، اور یہی چیز نجی شعبے کو موقع اس سیکٹر میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہے. نئی حکومت نے بھی سولر انرجی وسیع پیمانے پر اختیار کرنے کی بات کی ہے. ہمیں خوشی ہوگی کہ حکومت کے ساتھ کام کریں. تاہم آغاز میں ہمارے کسٹمرز کو خود ادائیگی کرنا ہوگی کیونکہ حکومت سبسڈی نہیں دیگی. اس لیے ہم پراعتماد ہیں کہ جو سروسز ہم دے رہے ہیں وہ کسٹمرز کے حساب سے سستی اور کارآمد ہیں.

شازیہ خان کو یقین ہے کہ ان کا منافع بخش بزنس ماڈل این جی اوز سے زیادہ بہتر ہے اور ایکو انرجی کی سروسز ان کے بزنس کی ترقی کیلئے ایک حوصلہ افزاء قوت کے طور پر کام کر رہی ہیں. “میں ایک چھوٹی این جی او بھی نہیں بنانا چاہتی، کیونکہ این جی او بغیر کسی کامیابی کے لمبا عرصہ چل سکتی ہے اور کوئی بھی اسے ناکام نہیں کہتا لیکن بزنس ناکام ہو جاتا ہے جب وہ اپنے کسٹمرز کی ضروریات پوری نہیں کرپاتا.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here