جرمن فلاسفر فریدرک نشے نے ایک مرتبہ کہا تھا “بہت سے لوگ اپنے ہی منتخب کردہ راستے پر گامزن رہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جبکہ کچھ کی جستجو منزل تک پہنچے کی ہوتی ہے.” ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ایسا لگتا ہے کہ جاز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر ابراہیم پر یہ مثال صادر آ ہی جائے گی.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موبائل ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں کاروبار کو وسعت دینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے. ٹیلی ڈینسٹی ملک میں پہلے ہی 15 کروڑ 40 لاکھ فعال موبائل سبسکرائبرز کے ساتھ 74 فیصد کی سطح تک پہنچ گئی ہے. جس کی وجہ سے صارفین کی تعداد میں اضافہ سے آمدن میں اضافہ کی آپشن بتدریج کم سے کم ہوتی جا رہی ہے.
پچھلے کچھ سالوں سے یہ صنعت منافع کی مد میں انتہائی سست روی کا شکار ہے. 30 جون 2018 مالی سال کے اختتام پر اس صنعت کی کل آمدن کا تخمینہ 4 کھرب 89 کروڑ روپے لگایا گیا تھا جس کے مکمل اعدادوشمار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے حاصل کئے جا سکتے ہیں جس میں گزشتہ سال کی نسبت محض 4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے. اور سال 2018 اس سے پچھلے سال کی نسبت کچھ اچھا گزرا جس میں شرح نمو صرف 1.5 فیصد رہی.
مارکیٹ کے 36.7 فیصد حصص حاصل کرنے کے بعد جاز نے پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کا سب سے بڑا کھلاڑی بننے کا اعزاز تو حاصل کر لیا اور اپنے حریفوں کے حصص بھی حاصل کر کے مزید ترقی کی گنجائش کو بھی محدود کر لیا. دوسرے الفاظ میں عامر ابراہیم غالبا پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن میں سب سے مشکل کام سرانجام دے چکے ہیں جس میں ترقی کی گنجائش کم اور کمی کی گنجائش زیادہ ہے.
سوال یہ ہے کہ ایک بلند نظر سی ای او اپنے کاروبار کو کیسے فروغ دے جب وہ پہلے ہی ترقی یافتہ کاروبار ہو؟ تو وہ عامر ابراہیم کی طرح غور کرے کہ کس شعبے میں ترقی کی جا سکتی ہے پھر چاہے وہ مارکیٹ کے ایک چھوٹے سے حصے سے ہی آغاز کرے.
ویون: پاکستان کا وی چیٹ
پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن میں جن 2 شعبوں میں تیزی سے ترقی دیکھی گئی وہ موبائل انٹرنیٹ اور موبائل بینکنگ ہے.
جون 2018 تک کے تھری جی اور فور جی ڈیٹا سبسکرپشنز کے مطابق پاکستان میں 15 کروڑ 40 لاکھ موبائل فون صارفین میں سے صرف 5 کروڑ 41 لاکھ صارفین کے پاس موبائل براڈبینڈ انٹرنیٹ کی رسائی موجود ہے. گزشتہ سال کی نسبت اس تعداد میں 33.3 فیصد اضافہ ہوا ہے. اور استعمال کئے گئے ڈیٹا کا ذکر کیا جائے تو ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں. مالی سال 2018 میں تقریبا 13 لاکھ ٹیرابائٹس کا موبائل ڈیٹا استعمال کیا گیا جو 2017 کی نسبت 82.3 فیصد زیادہ ہے. جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ایک صارف نے اوسطا 1.9 گیگابائٹس انٹرنیٹ فی مہینہ استعمال کیا ہے.
لیکن جب یہ کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے موبائل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو آمدن کی شکل میں اس کے نتائج زیادہ خاطرخواہ نہیں موصول ہو رہے. اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے موبائل ٹیکسٹ میسجز اور کال کے استعمال میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے.
اس کمی سے نپٹنے کیلئے جاز کمپنی (جو پہلے موبی لنک کے نام سے جانی جاتی تھی) نے ایک کثیرالمقاصد ایپلیکیشن متعارف کروائی جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ اکتوبر 2016 تک وی چیٹ کا پاکستانی ورژن بن کر مقبول ہو جائے گی.
اس وقت جاز کی انتظامیہ کو ایک اور یوٹیلیٹی کمپنی بننے کا خوف بھی تھا جس کی توجہ کم اقدار، زیادہ قیمت ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر پر مرکوز تھی جس سے دوسری کمپنیوں کو زیادہ اقدار کی حامل اور کم قیمت ایپلی کیشن اور دیگر کاروباروں کیلئے نمایاں تقویت ملی. اس ایپلیکیشن کے تقابلی جائزے کے بعد جاز انتظامیہ کو احساس ہوا کہ یہ زیادہ سودمند نہیں ہے.
عامر ابراہیم ے 2017 میں پرافٹ/منافع کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ “ہم کچھ بھی نہ کرنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوں گے. روایتی مواصلاتی کمپنیوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ فون کالز تھا جس میں اگر کوئی جدت آئی تو وہ برقی پیغامات (ایس ایم ایس) تھی لیکن اوور دی ٹاپ ایپلیکیشنز نے زیادہ پذیرائی حاصل کی. یہ دوڑ بڑے ادارے کی نہیں بلکہ بہترین سہولیات کی ہے.”
ویون کو متعارف کروانے کا مقصد یہ تھا کہ صارف ہر طرح کی سہولیات چاہے وہ معلومات عامہ تک رسائی ہو یا موبائل میں ٹاپ اپ یا پھر موبائل بلز کی ادائیگی ایک اہی ایپلیکیشن کے استعمال سے استفادہ اٹھا سکے. یہ کمپنی کی جانب سے ایک بڑا اقدام تھا کہ میسجنگ میں واٹس ایپ اور موبائل بینکنگ میں حریف ٹیلی نار کی بالادستی کے باوجود اس میدان میں قدم رکھے.
اس ایپلیکیشن سے آمدن کا طریقہ کار دوسری ایپلیکیشنز کے طریقہ کار سے ہرگز مختلف نہیں تھا کہ زیادہ صارفین کی دلچسپی حاصل کی جائے اور صارفین کو سہولیات فروخت کرکے اور اشتہارات کی مد میں آمدن حاصل کی جائے.
عامر ابراہیم تب بھی خدشات سے آگاہ تھے. ان کے اپنے الفاظ تھے کہ “رسک نہ لینے کا رسک زیادہ بڑا ہے”
کیا ویون عامر ابراہیم اور ان کی ٹیم کی امیدوں کے مطابق پاکستانی وی چیٹ بننے میں کامیاب ہوا؟ پاکستان کی مواصلاتی مارکیٹ میں بہت تیزی سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں. ویون کی طرف سے مفت میسجز اور کال سروسز کے ساتھ مالیاتی سہولیات اور ذاتی سہولیات کی فراہمی دیگر کمپنیوں کی طرح جاز کے کال اور میسجز سے ہونے والی آمند پر بھی اثر انداز ہوئی. عامر ابراہیم کے مطابق “باہر سے ہونے والی کمی سے بہتر ہے کہ خود کمی کر لی جائے.”
تاہم دو سال گزرنے کے باوجود ویون امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا.
ویون کی ناکامی کی وجہ
اگر دیکھا جائے تو بہت سادہ سی وجہ ہے کہ ویون پاکستان کی سپر ایپ بننے میں ناکام رہا اور وہ وجہ یہ کہ پاکستان چین نہیں ہے.
سیلیکون ویلی میں جب کمپنیاں چین میں کاروبار کے مواقع تلاش کرتی ہیں تو ان کا رحجان امریکی مصنوعات سے مقابلہ ہوتا ہے. بیدو گوگل کا چینی ورژن ہے، علی بابا ایمازون کا، دیدی اوبر کا اور وی چیٹ فیس بیک کا چینی ورژن ہے.
لیکن ہم نے ان ایپلیکیشن کے پاکستانی ورژن کے بارے میں کبھی نہیں سنا. گوگل کا پاکستانی ورژن گوگل ہی ہے اور فیس بک کا پاکستانی ورژن بھی فیس بک ہی ہے جبکہ کریم کمپنی پاکستانی مارکیٹ میں اوبر کی ایک مضبوط حریف کے طور پر سامنے آئی ہے اور تیزی سے ترقی کر رہی ہے.
ایسا صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ بھارت میں بھی فیس بک اور گوگل کے مقابل کوئی ایپلیکیشن مقبول نہیں ہو سکی. گوگل کا بھارتی ورژن بھی گوگل ہی ہے البتہ فلپ کارٹ اور اولا جیسی کمپنیاں اپنی اپنی دوڑ میں نمایاں حریف بن کر ابھری ہیں لیکن بھارت میں فیس بک کا کوئی حریف نہیں.
اگر کوئی سروس بغیر کسی مقامی ردوبدل کے پوری دنیا میں انٹرنیٹ سرچ، سوشل میڈیا اور میسجز کیلئے پہلے ہی موجود ہے تو دنیا پر مرتب ہونے والے تغیرات عالمی مارکیٹ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.
چین کے مختلف ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ چین غیر ملکی حریفوں پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے اور سخت حکومتی نگرانی میں محدود انٹرنیٹ کے ساتھ مقامی کمپنیوں کو ان حریفوں سے مقابلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے. اس کیلئے اتھارٹی کے بلند ترین معیارات کی ضرورت ہے جو شکر ہے کہ پاکستان کے پاس نہیں اور اسی وجہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال چین کے مقابلے بہت آزاد ہے.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی ایسی چیز جو عالمی حوالے سے بالادستی رکھتی ہو اور پاکستان میں بھی اس کے لاکھوں صارفین موجود ہوں تو اس کا پاکستانی ورژن تیار کر بھی لیا جائے تو وہ ناکام ہوگا. جاز کو امید تھی کہ پاکستانی جو سہولیات مختلف ایپلیکیشنز سے حاصل کر رہے ہیں وہ سب ایک ہی مناسب ایپلیکیشن میں فراہم کر دیا جائے.
یہ ایک بہادرانہ اقدام تھا لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.
اس ایپلیکیشن کو آغاز میں کچھ کامیابی ملی 20 لاکھ صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا. اگرچہ اس میں سے نصف تعداد نے ابتدائی 3 مہینوں اس ایپلیکیشن کو ڈاؤن لوڈ کیا. عامر ابراہیم نے اعتراف کیا کہ ویون کی مجموعی کارکردگی انتظامیہ کی امیدوں کے مطابق نہیں تھی. کمپنی کو اندازہ ہوا کہ نہ صرف ویون کا ابتدائی پلیٹ فارم زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں تھا بلکہ انہوں نے ایک ہی ایپلیکیشن میں بہت سی چیزیں ایک ساتھ فراہم کرنے کی کچھ زیادہ ہی کوششیں کر لی تھیں.
محنت میں کمی نہیں تھی. اس ایپ میں سوشل اور میسجنگ کا عنصر بھرپور طریقے سے واٹس ایپ اور فیس بک کی ٹکر کا تھا. یہ دونوں ایپلیکیشنز دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور سوشل نیٹ ورکنگ کمپنی کی مصنوعات ہیں اور موبائل انٹرنیٹ سے تقریبا ہر پاکستانی بھی ان سے جڑا ہوا ہے. تو ایسے میں کوئی فیس بک اور واٹس کی ایپ کے موجود ہوتے ہوئے ویون پر کیونکر منتقل ہونا چاہے گا؟
عامر ابراہیم نے کہا کہ “ہمیں کچھ آپریشنل چیلجنز کا بھی سامنا تھا. جیسے زیادہ صارفین کی دلچسپی حاصل کرنے کیلئے ویون دراز پی کے کیساتھ بلیک فرائیڈے سیل کا حصہ بنی جس کے تحت ویون صارفین کو اسپیشل ڈسکاؤنٹ آفرز دی گئیں. تاہم بعد میں دراز پی کے کی تبدیلی ملکیت کے بعد حالات بدل گئے. علی بابا نے جب اسے خرید لیا تو دراز پی کے نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتے.”
ان آپریشنل چیلجنز کے بعد ملنے والی آراء حوصلہ افزاء نہیں تھیں. نصیب نیٹ ورکس اور روزی پی کے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس رحمان نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں اس حوالے سے لکھا کہ “ویون کی مارکیٹنگ سے لگتا ہے کہ یہ ہر قسم کی غلطی کرنا چاہتے ہیں” ایک اور پوسٹ میں اس حوالے سے مزید تحریر کیا کہ “ویون نے روایتی کال اور انٹرنیٹ سبسکرپشن کی بجائے ایک نئے انداز ایک ہائی ٹیک کھلاڑی بن کر ایپلیکیشن اور سروس کمیشنز سے پیسہ کمانے کی بھرپور کوشش کی تھی. اب اسے نوکریوں میں کمی کرنی پڑے گی اور دوبارہ روایتی مواصلاتی طریق کار کے تحت نئی بنیادیں رکھنی پڑیں گی. گو اس میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں.”
جاز انتظامیہ ویون کو مستقبل میں آمدن کا بڑا ذریعہ بنانا چاہتی تھی لیکن ان کی امیدوں کے برعکس ویون کسی بھی قسم کی خاطر خواہ کامیابی کے ہدف کو چھونے میں ناکام ناکام رہی.
عامر ابراہیم نے اسے عزت کا مسئلہ بنانے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے اس کی فیصلہ سازی کی. جب وقت آیا کہ ویون کی تقدیر کا فیصلہ کیا جائے تو عامر نے اپنی شکست تسلیم کرنے میں ہرگز عار محسوس نہیں کیا اور اپنے نقصان کو قبول کیا. اس سے کچھ آسانیاں ضرور پیدا ہوئیں. ویون کے پلیٹ فارم پر کئے گئے تخفیفی اقدام کے عالمی اثرات بھی مرتب ہوئے. جاز کی پیرنٹ کمپنی ومپل کوم جو دنیا بھر میں اپنی سہولیات فراہم کرتی ہے نے بھی اس کی تقلید کی.
لیکن اس سے بھی جاز کے مرکزی سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ آخر اس کمپنی کی ترقی کا اگلا دور کیا ہوگا؟ اس کا جواب ہر وقت انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے تھا.
جاز کیش: ناقابل یقین کامیابی
جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا کہ مواصلاتی دنیا میں صرف انٹرنیٹ ہی واحد بڑھتا ہوا شعبہ نہیں بلکہ موبائل بینکنگ اور خاص طور پر موبائل سے ادائیگیوں جیسی سہولیات بھی بہت اہم ہیں.
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق برانچ لیس بینکنگ اور موبائل فون سے ادائیگیوں کے رحجان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے. جون 2015 میں برانچ لیس بینکنگ اکاؤنٹس کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی جو 2018 کی پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر 3 کروڑ 85 لاکھ تک پہنچ گئی. اس دوران ترسیلات کی تعداد 13.6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتی ہوئی 53 کروڑ 20 لاکھ روپے تک پہنچ گئیں. ترسیلات کا مجموعی حجم کچھ سست رہا اور جو 7.2 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ 2269 ارب روپے تک پہنچ گیا.
اصل ترقی موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے ترسیلات کی تعداد میں اضافہ تھی جس میں اضافہ کی شرح میں 2015 سے 2018 کے درمیانی عرصہ میں 34.8 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی. ترسیلات کا حجم اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہوا 37.8 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ 278 ارب روپے تک پہنچ گیا.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانیوں میں آن لائن پیسے خرچ کرنے کا رحجان تیزی سے پھیل رہا ہے اور پھر جاز کو برانچ لیس بینکنگ اور ادائیگیوں کیلئے موبائل ایپلیکیشن جیسے جاز کیش متعارف کروانے کا بھرپور موقع ملا.
ویون جن اہداف پر ناکام ہوئی وہاں جاز کیش حوصلہ افزا کارکردگی دکھا رہی ہے. جاز کیش کے حالیہ صارفین کی تعداد لگ بھگ 50 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے. عامر ابراہیم کا کہنا ہے کہ “ہم نے دیکھا کہ جاز کیش کے ساتھ بہتری کے بہت امکانات ہیں. ہمارے صارفین مالیاتی معاملات میں اس شمولیت پر پرجوش نظر آتے ہیں. تو ہم نے ویون میں تمام خصوصیات کو یکجا کرنے کی بجائے جاز کیش کو میسجنگ کی صلاحیت سے لیس کر دیا.”
بڑی کمپنیاں بالعموم ایسا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں کہ ایک کاروبار میں سے پیسے نکال کر دوسرے بڑھتے ہوئے کاروبار میں سرمایہ کاری کی جائے. ایسا کمپنیاں تب کرتی ہیں جب وہ مارکیٹ میں سب سے اونچے مقام پر پہنچ جائیں.
ویون کی طرح جاز کیش بھی صرف جاز صارفین کیلئے نہیں بلکہ تمام موبائل نیٹ ورکس پر دستیاب ہے. تقریبا جاز کیش کے 30 فیصد صارفین جاز صارفین نہیں. اس حوالے سے عامر ابراہیم کا کہنا تھا کہ “ہمارا اگلا ہدف جاز کیش کو بڑے پیمانے پر لے کر جانا ہے.”
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایسے افراد کو جن کا بینک اکاؤنٹ نہیں یا جنہیں کبھی بینک اکاؤنٹ کی ضرورت نہیں پڑی انہیں بھی مالی ترسیل کا حصہ بنایا جائے. “ہم نے جاز کیش کے 50 لاکھ صارفین کا ہدف مکمل کر لیا ہے جنہوں نے جاز کیش استعمال کرتے ہوئے موبائل بیلنس، یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اور وصولیاں کیں. یہ پاکستان کیلئے ترقی کا اہم موقع ہے.
مالی شمولیت پاکستان کیلئے امید کی کرن ہے. مرکزی بینک کے مطابق پاکستان میں صرف 23 فیصد بالغوں کے بینک اکاؤنٹس ہیں. کافی بڑی تعداد میں ایسے افراد جن کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں وہ نقد روپوں میں لین دین کرتے ہیں جو نہ صرف غیر معیاری اور چوری ہونے کے خدشات سے بھرپور ہے بلکہ اس سے جرائم کی شرح اور منی لانڈرنگ جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے.
یہ وہ مرحلہ ہے جہاں عامر ابراہیم بغور توجہ دیئے ہوئے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ “ہم چاہتے ہیںکہ لوگ بینکوں کے دائرہ کار میں آ جائیں. ہم نقد روپوں کے استعمال کو ختم کرکے ڈیجیٹل کیش کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں. اس سے کرپشن کا بھی خاتمہ ہوگا اور یہ حکومتی اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق بھی ہے. ہم چاہتے ہیںکہ ترسیلات کا حساب کتاب رکھا جائے کیونکہ جب ترسیلات منظم ہوں گی تو آمدن کے وسائل واضح ہوں گے اور منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہوگا. ہمارے خیال میں پاکستان میں مالی شمولیت کے امکانات زیادہ روشن ہیں اور اس میں مواقع بھی زیادہ ہیں.”
انہوں نے دیہاتی اور نیم شہری آبادی سے روایتی توجہ ہٹا کر شہری آبادی تک جاز کیش پہنچانے کی منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی. “پچھلے چند سالوں میں جاز کیش اور ایزی پیسہ کی توجہ دیہاتی اور نیم دیہاتی علاقوں پر مرکوز تھی کیونکہ بلوں کی ادائیگی اور گھریلو اخراجات ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھے.” تاہم اب انہیں لگتا ہے کہ دیہی علاقوں کو ادائیگیوں کیلئے مناسب اور متبادل ذرائع فراہم کرنے چاہئیں.
انہوں نے کہا کہ “اگر دیہی آبادی اپنے اخراجات کیلئے ہر دفعہ بٹوے میں سے کیش استعمال کرتی ہے تو غالبا ان کی بڑی تعداد بینک میں اکاؤنٹ نہیں رکھتی. ہم چاہتے ہیں کہ جاز کیش پاکستان میں سرفہرست سہولت بن جائے پھر چاہے وہ بین البینک معاملات ہوں، کیش سے متعلق یا پھر حکومتی اشتمال. ہمارا منصوبہ جاز کیش کو پاکستان میں ادائیگیوں کا سب سے بہترین ذریعہ بنانا ہے.”
انہوں نے کہا کہ ان کی نظر میں شاید جاز کیش کے دیہی علاقوں تاحال زیادہ مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ “ہمارے ہاں بہت کم ایسی جگہیں جہاں جاز کیش وصول کیا جاتا ہے اور یہ ہمارا دوسرا ٹارگٹ ہے. ہم تاجروں، سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لینا چاہیئے جہاں جاز کیش آسانی سے وصول کیا جا سکے اس کیلئے میکڈونلڈز، گلوریہ جینز، لمز کی فیسوں کی ادائیگیوں جیسے دوسرے مراحل پر پیشرفت جاری ہے.”
انٹرنیٹ اور متبادل کیش کی مالی سہولیات کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کی مواصلاتی صنعت کی بقا کی بھی حکمت عملی ہے. عامر کے جاز کیلئے منصوبے درست سمت کی جانب گامزن نظر آتے ہیں اور انہیں اس ضمن میں حکومتی اور اسٹیٹ بینک کی معاونت بھی حاصل ہے.
پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے معاونت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ “اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہم سے پوری توقع ہے کہ ہم قومی حکمت عملی پر عمل پیرا رہتے ہوئے نمایاں کارکردگی دکھا سکتے ہیں.”
کپمنی کو معاونت اور کامیابی بالکل درست وقت پر ملی ہیں کیونکہ مواصلاتی صنعت میں انقلاب کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے.
اسپیکٹرم کی نیلامی اور اس کے بعد کیا
تھری جی اور فور جی کے اگلے دور کیلئے اسپیکٹرم لائسنسز 2019 میں تجدید کیلئے تقریبا تیار ہیں. اس کا مطلب یہ ہوا کہ مواصلاتی صنعت تبدیلی کے ماحول سے گزرے گی جس میں کھلاڑیوں کو اپنے اخراجات اور فوکس ایریا پر توجہ دینا ہوگی.
آئی سی ٹی فورم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پرویز افتخار جو وزیراعظم کی آئی ٹی اور ٹیلی کام کیلئے بنائی گئی 17 رکنی ٹاسک فورس کے ممبر ہیں کا کہنا ہے کہ “ان لائسنسز کی قیمت بہت زیادہ ہے اور اگر ان کی قمیتیں کم بھی ہوتیں تب بھی مواصلاتی کمپنیوں کو کروڑوں روپے ادا کرنا ہوں گے.”
انہوں نے کہا کہ “کال کا استعمال کم اور انٹرنیٹ کا استمال بڑھ رہا ہے. یہ صنعت انٹرنیٹ کے استعمال کی جانب بڑھ رہی ہے اور بقا صرف اسی میں نہیں ہے.” انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے اور کیش آن ڈیلیوری کی بجائے آن لائن ادائیگیوں کا رحجان بڑھ رہا ہے. “فن ٹیک کے مواصلاتی شعبے میں اشتمال بہت ضروری ہے اور اس صنعت کا حصہ رہنے کیلئے ہمیں فوکس رہنا ہوگا.”
پچھلی ڈیڑھ دہائی سے پاکستان کی مواصلاتی کمپنیوں نے اس قسم کے انفراسٹرکچر کا آغاز کیا ہے جس پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے جڑے رہنے کا موقع ملتا ہے جو نہ صرف ان کمپنیوں کیلئے بلکہ پوری معیشت کیلئے خوش آئند ہے.
انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے بہت سے فوائد میں کریم اور اوبر جیسی ایپلی کیشنز بھی ہیں جنہیں پاکستان میں متعارف کروایا گیا. پاکستان میں تیزترین فور جی نیٹ ورک کی وجہ سے ان ایپلیکیشنز سے استفادہ ممکن ہو سکا اور کروڑوں پاکستانی ارزاں نرخوں پر تیزترین انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں.
حکومت مواصلاتی شعبے سے کافی آمدن اکٹھی کر لیتی ہے جس کی وجہ بھاری ٹیکسز ہیں. ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہر 10 روپے ایک روپیہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے کھاتے میں گیا. جب یہ صنعت اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہی تھی اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بس اتنا بھی کافی تھا کہ حکومت ان پر ریگولیٹری دباؤ کم کرنے کیلئے معاونت کرتی رہے.
پرویز افتخار کا کہنا ہے کہ “حکومت کو ان کمپنیوں کی بقا کیلئے مدد کرنی چاہیئے. حکومتیں او ٹی ٹی ایپلیکیشنز کو کنٹرول نہیں کر سکتی لیکن ریگولیٹری دباؤ کو کم کر سکتی ہے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک مفت او ٹی ٹی ایپلیکیشنز اور مقامی مارکیٹ کے درمیان مقابلے کی فضا قائم نہیں ہو سکتی.”
بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کو حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی. جیسا کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیوں نے ابھی تک اپنے سیلولر ٹاورز کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کیں اور ہر کمپنی نے اپنے ذاتی ٹاور تعمیر کئے. لیکن ٹاورز میں شراکت صرف لاگت کم کرنے کیلئے ہے. اس سے آمدن میں اضافہ نہیں ہوتا جتنا کہ حکومت کو ٹیلی کام کو ریگولیٹ کرنے سے ہو سکتا ہے یا ہوتا ہے.
جب تک ریگولیٹری فریم ورک میں تبدیلی نہیں کی جاتی جاز کو اسی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیئے اور اب اس کے یہ موقع ہے کہ ویون میں سرمایہ کاری کو جاری رکھے یا پھر جاز کیش کی طرز پر مزید پلیٹ فارم متعارف کروائے یا مالی سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے. ایسا لگتا ہے کہ عامر ابراہیم نے اچھا فیصلہ کیا.