پاکستان کی معیشت کو کیسے درست کیا جائے؟

معیشت کی بحالی کیلئے حکومت کو کیا اقدامات کرنے چاہیئں؟ پرافٹ/منافع کی ملک کے 5 بہترین ماہر معاشیات سے گفتگو

5327

ابھی تک یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کی معیشت صحیح طرح نہیں چل رہی کم از کم ملک کی اکثریتی عوام کیلئے تو بالکل بھی نہیں اور شاید سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی اعلیٰ عہدوں پر فائز اشرافیہ کیلئے بھی نہیں جن کی نظر میں پاکستان کا معاشی پہیہ پہلے ہی جام ہو چکا ہے۔ اب آگے کیا ہوگا؟ وزیر خزانہ اسد عمر کی قیادت میں وزیراعظم عمران خان کی حالات سے انجان معاشی ٹیم بگڑتی معیشت کی بحالی کیلئے بہت سست روی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ پرافٹ/منافع نے اس مدعے پر ان کی مدد کی کوشش کی ہے۔
پرافٹ/منافع نے ملک کے 5 بہترین معاشی تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا تاکہ ان کی رائے جان سکیں کہ برآمدات میں کمی اور توازن ادائیگی کو مدنظر رکھتے ایسے کیا اقدامات کرنے چاہئیں جس سے ملکی معیشت درست پٹری پر آ سکے۔ یہ تمام 5 تجزیہ کار یا تو براہ راست حکومت میں رہ چکے ہیں یا حکومتی مشیر رہ رچکے ہیں یا ملکی اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والی سیاسی پارٹیوں کا اہم حصہ رہ چکے ہیں۔ اور ان میں سے 4 معاشیات یا متعلقہ میدان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔
ذیل میں تیمور حسن سے اس معاملے پر ان 5 تجزیہ کاروں کی گفتگو درج ہے۔ اس میں پرافٹ کی اداراتی رائے شامل نہیں ہے۔ (ایڈیٹر نوٹ: یہ سچ ہے مگر بہت کڑوا ہے)

پہلے کلاں معیشت کا استحکام پھر غربت میں کمی پر غور

ٹیکسز میں کمی، حکومتی اخراجات میں کمی اور پھر منافع بخش پروگرامز اور سرمایہ کاری کے فروغ کے ذریعے غربت کم کرنے پر توجہ دی جائے۔
شوکت ترین

پاکستان کی طویل مدتی معاشی حکمت عملی عوام کی بھلائی کیلئے ہونی چاہیے۔ معیشت میں استحکام ہونا چاہیئے تاکہ آنے والے وقت میں آمدن میں اضافہ اور بیروزگاری میں کمی ہو اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔
طویل مدت تک ان اقدامات کے حصول کیلئے ایسا کلاں معاشی ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوجو لمبے عرصے تک سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ کلاں معیشت کے ضابطے جیسے افراط زر میں کمی اور کم سے کم شرح سود پر زرمبادلہ کی شرح میں استحکام آنا چاہیئے۔
آمدن کی نسبت خرچ میں اضافہ ہماری مالی صورتحال کی زبوں حالی کی وجہ ہے۔ زیادہ تر مالیات حکومتی اخراجات میں خرچ ہو جاتی ہے اور نجی شعبہ اور سرمایہ کاروں کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ ہمیں اپنی آمدن میں اضافے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے اور اگر ہم اپنی معاشی نمو میں 6 سے 8 فیصد اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو اگلے 5 سال میں 13 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ٹیکس وصولی کا عمل سب کیلئے ہونا چاہئے جس میں بنیادی توجہ نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے نہ کہ جو پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید ٹیکس لاگو کرنا۔ اگر ہم آنے والے 5 سالوں میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 1 کروڑ تک لے جاتے ہیں تو معاشی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو 17.5 فیصد سے کم سطح پر لایا جائے۔ ہمیں ٹیکس کا ایسا نظام متعارف کروانا چاہیئے جس میں تمام آمدن ٹیکس یافتہ ہوں، تمام خرچے ٹیکس یافتہ ہوں اور ہر قسم کی چھوٹ ختم کر دی جائے۔
اسی طرح ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیئے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی دفاعی اخراجات کے بعد سب سے بڑا خرچہ ہے۔ نجی شعبہ کے ادارے آمدن کی مد میں ایک بڑی مشکل ہیں جن کے سالانہ نقصان کا تخمینہ تقریبا 700 سے 750 ارب روپے ہے۔ ان کمرشل تنظیموں کو صحیح اصلاحات سے منافع بخش بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کی بحالی میں یہ ادارے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اپنے اخراجات پر قابو پانا چاہیئے اور تمام غیر ضروری اخراجات مثلا وزارتوں اور ڈویژنز کی تعداد میں کمی لانی چاہیئے۔
اگر دوسرا رخ دیکھا جائے تو جب بھی ڈالرز کی کمی ہوتی ہے ہم ہمیشہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور پچھلے 5 سال کے دوران ہمارے تجارتی خسارے دوگنا ہو گئے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی ملکی درآمدات میں کمی کے باوجود بجائے بڑھنے کے ہماری برآمدات میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ہماری خراب کارکردگی کی انتہا ہے۔ اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پاس برآمدات کیلئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی درآمدات اور برآمدات پر توجہ دینی پڑے گی اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لانا ہوگی۔
ہمارے برآمدات کیلئے سب سے بڑا ناقص حکمت عملی ہے جسے بہتر کرنے کی ضروت ہے۔ ہمیں زرعی اجناس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبہ میں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کیلئے نئے میدان تلاش کرنے پڑیں گے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ ہماری حالیہ برآمدات میں مزید قدریں شامل کرنا پڑیں گی تاکہ ہم عالمی مارکیٹ میں اپنی برآمدات سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ ٹیکسٹائل ہماری کل برآمدات کا قریبا 60 ہے۔ ہماری کپاس کی 10لاکھ بیلوں کی قیمت 1 ارب ڈالر ہے جبکہ چائنہ اتنی ہی بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر وصول کرتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ان کی مصنوعات میں اضافی قدر شامل ہوتی ہے۔ اگر ہم 10لاکھ بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر مقرر کریں تو ہم صرف ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 140 لاکھ بیلوں سے اضافی قدر کی مد میں 45 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ صنعتوں کو سبسڈی مہیا کرے تاکہ یہ اپنی مصنوعات میں اضافی قدر شامل کر رہے ہیں۔
استحکام کی کمی اضافی قدر کے اطلاق میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں کاروبار نسل در نسل خاندانوں کی زیر نگرانی چلتے ہیں جن میں برآمدات کے شعبے میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں باہر سے سرمایہ نہیں آتا اور ہم عالمی مارکیٹ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بینک دیوالیہ سے متعلق قانون جسے کارپوریٹ ریسٹرکٹنگ ایکٹ کہا جاتا ہے کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضروت ہے۔
چھوٹی کمپنیوں کیلئے استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملے اور عالمی مارکیٹ تک ہماری رسائی ممکن ہوسکے۔چائنہ کے بنائے اسپیشل اکنامک زونز کو برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ پاکستان کو ایسی مصنوعات تیار کرنی چاہیئں جن کی مارکیٹ میں طلب ہے۔ ہمیں ایسی مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ کرنا چاہیئے جن کی پاکستان اور دنیا بھر میں طلب ہے ۔
ترسیلات کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیاسپورا بانڈز متعارف کروانے ایسے سرمایہ کار جن کا پیسہ پاکستان سے باہر ہے کو واپس لانے میں مدد ملے گی۔
پھر باری آتی ہے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کی۔ سرمایہ کاری بورڈ کو سرمایہ کاروں کیلئے ون سٹاپ شاپ کے قیام کیلئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک چھت کے نیچے ہی ان کے تمام مسائل کا حل ممکن ہوسکے۔ سرمایہ کاری بورڈ کا دفتر وزیراعظم کے دفتر میں ہی ہونا چاہیئے جو بااثر ہو اور اچھی ساکھ کے لوگوں پر مشتمل ہو۔
حکومت کو چاہیئے کہ ہاؤسنگ سیکٹر کو محرک کرے اور کم از کم 40 صنعتی شعبوں تک اس کا دائرہ کار وسیع کرے جس سے روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوں گے اور معاشی ترقی کا پہیہ رواں رہے گا۔
ایک دفعہ جب کلاں معیشت کا ماحول سازگار ہوجائے اور ہاؤسنگ سیکٹر محرک ہو جائے زراعت کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں۔ پہلے مرحلے میں زراعت کے شعبے میں پیداواری صلاحیتوں کو فروغ دیا جائے جو اچھے معیار کے بیج اور نہری شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی ممکن ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ صرف قرض دینے کی بجائے زرعی ماہرین پر مشتمل ڈویژن کا قیام عمل میں لائے جو عوام کو بیج، پانی، زمین کی زرخیزی اور زرعی اجناس کے بارے میں بہتر مشورہ دے سکیں۔ اداروں کو مشترکہ طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
جب اس منصوبے کا آغاز ہو جائے تو ہمیں پاکستان میں غربت کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیئے۔غربت کے مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کاروبار کے فروغ سے معاشرے میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے 60 سے 65 لاکھ خاندانوں کو بھکاری بنانے کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں چھوٹے کاروباروں کیلئے رقم مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ باقیوں کیلئے بھی وسیلہ روزگار بنیں۔
پالیسیوں کے درست انداز میں اطلاق کیلئے بڑے پیمانے پر نئی انتظامی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ تمام منصوبوں سے متعلقین کو آگاہ کرے۔ وزیروں سے عام آدمی تک ہر کوئی اس میں شامل ہو۔ اگر حکومت زراعت سے متعلقہ کسی پالیسی پر غور کر رہی ہے تو کسانوں سمیت تمام متعلقین کو اس میں شامل کرنا چاہیئے۔ اگر کوئی پالیسی صنعتوں کیلئے مرتب کی جا رہی ہے تو صنعتکار، نجی شعبہ، کارکن، آڑھت اور صارفین سب کی رائے شامل کرنا چاہیئے۔
اس سارے کام میں حکومتی دلچسپی اور قابل لوگوں کی ضرورت ہے۔جتنی درمیانے طبقے کے افراد کو سہولت دی جائے گی اتنے ہی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ حکومتی اداروں کو چاہیئے کہ قابل لوگوں کی بھرتیاں کی جائیں اور انہیں بہتر کام کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

شوکت ترین بینکنگ کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سابقہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

برآمدات میں اضافی قدریں

حکومت کو ایک واضح تجارتی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور پھر عالمی منڈی میں مقابلے کیلئے صنعتوں کو سبسڈائز کیا جائے۔
ڈاکٹر حفیظ احمد پاشا

ہمارے پاس پاکستان اور پاکستانی معیشت کو مستحکم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔امید ہے کہ 2 یا 3 سالوں میں یہ مستحکم ہو جائے گی اور تب ہم ترقی کی شرح کو 5 سے 6 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔
اگر ابھی کا مشاہدہ کیا جائے تو ہماری معاشی ترقی کی شرح کم ہو کر 3.5 سے 4 فیصد تک رہ جائے گی۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ متبادل درآمدی پالیسی سے ہم توازن ادائیگی کے بحران سے نکل رہے ہیں ۔ ہم نے برآمدی حکمت عملی اپنائی ہے جس سے ہم نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ دوسرے ممالک جیسے بھارت نے 90ء کی دہائی میں برآمدات کے فروغ کی حکمت عملی اختیار کی تھی جس سے محض 10 برسوں میں اس کی برآمدات میں 6 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بنگلہ دیش نے بھی اس سلسلے میں بہترین کارکردگی دکھائی جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ کم و بیش ان کی فی کس آمدنی پاکستانی روپے کے برابر ہے اور وہ عالمی تجارت میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
غلطی ہماری ناقص حکمت عملی میں ہے کہ ہم نے برآمدات میں اضافے کے حوالے سے مستحکم خارجی تعلقات پر توجہ نہیں دی۔
دوسرا مسئلہ یہ کہ ہماری سرمایہ کاری کی شرح بتدریج کم ہوتی گئی جو کاروباری سطح پر خاص نہیں لیکن طویل مدتی شرح نمو پر اثر انداز ہوئی۔ مشرف دور میں سرمایہ کی شرح 20 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ 60ء کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں یہ شرح 20 سے 25 فیصد تھی اور اب یہ شرح 15 سے 16 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ دو بڑے مسئلے پاکستان میں برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی کا باعث بنے۔
ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود بھی ہماری فی کس آمدن میں خاص اضافہ نہیں ہو رہا اور تجارتی ترقی سست روی کا شکار ہے۔
دوسرا یہ کہ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی موجودگی میں ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی ناکام نظر آتی ہے خاص کر چائنہ کے ساتھ جس پر ہمارا درآمدی انحصار 60 سے 70 فیصد ہے اور اس میں پیٹرولیم مصنوعات شامل نہیں ہیں۔ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی موجودگی میں ہم چین سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چین نے پاکستان کی کئی صنعتوں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔اس کی مصنوعات کی قیمتیں کم اور بعض اوقات مفت ہیں ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ چل رہی ہے۔ ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں زیادہ اضافی قدریں شامل کی جائیں۔ ہماری 20 مصنوعات ایسی ہیں جن کی برآمدات کا حجم 100 سے 250 ملین ڈالر ہے۔ ان شعبوں میں برآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی منسوخی کے بغیر متبادل درآمدات کی حکمت عملی ناکام رہے گی۔
ایک اور شعبہ جس سے ہماری کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ بھارت کی ٹیکنالوجی کمپنیز پاکستانی آئی ٹی ورکرز کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے کیونکہ بھارت میں آئی ٹی کا شعبہ میں بے ہنگم ترقی ہوئی جس کے نتیجے میں وہاں آئی ٹی ٹیکنالوجسٹ اور انجینئرز کافی مہنگے ہو گئے جبکہ پاکستان میں آئی ٹی انجینئرز اور گریجوایٹس کے معاوضےان کے مقابلے نصف سے بھی کم ہیں۔
لیکن بھارتی کمپنیاں معاہدوں کی عدم دستیابی کے باعث پاکستانی مارکیٹ میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کی ضرورت ہے خاس طور پر آئی کے شعبے میں کیونکہ اس سے پاکستانی ٹیکنالوجسٹ اور انجینئرز کیلئے خاطر خواہ مواقع پیدا ہوں گے۔ اس میں گنجائش تو ہے لیکن ساؤتھ ایشیا آزادانہ تجارتی معاہدے موجود ہیں اور سارک تجارتی معاہدے تعطل کا شکار ہیں۔
پاکستان ابھی تک بھارت کیلئے پسندیدہ ملک نہیں ہے اور اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ نیگیٹو فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ہم تجارتی خسارہ برداشت کر رہے ہیں جو ہماری بھارتی برآمدات کا ڈھائی گنا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنی طویل مدتی تجارتی حکمت عملی کی پالیسی مرتب نہیں کی۔ مارکیٹ میں ہماری زراعت اور تجارت کے فروغ کیلئے کبھی کوششیں نہیں کی گئیں۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ بھارت کی زیورات کی برآمدات پاکستان کی کل برآمدات سے زیادہ ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان کی زیورات کی برآمدات ایک بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ پاکستان نے کبھی برآمدات کے فروغ کی طرف توجہ نہیں دی۔
ترقی کے سفر سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے کاروبار کار اکثر جدت پسند ہوتے ہیں۔ جو نئی نئی ایجادات اور نچلے پیمانے پر ٹیکنالوجی کی منتقلی استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ آج تک جنوبی کوریا کی 40 فیصد برآمدات انہی چھوٹے کاروباروں پر منحصر ہے۔ ہماری توجہ بھی اسی جانب ہونی چاہیئے۔ پاکستان اور خصوصا پنجاب میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار اپنی پیداوار کا 60 فیصد تک برآمد کرتے ہیں جبکہ ہماری (بڑے پیمانے پر) پیداواری صنعتیں اپنی پیداوار کا 25 فیصد بھی برآمد نہیں کرتیں۔
صنعتی ترقی کیلئے حکومت کا کردار نہایت اہم ہے لیکن اس کی حدود کا تعین ہونا چاہیئے اور مافیا اور اجارہ داروں سے نپٹنے کیلئے ضوابط بنانے چاہئیں۔ اپنی صنعتوں میں ہونے والی گڑبڑی کی نشاندہی کیلئے ایک مؤثر تقابلی کمیشن اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ضرورت ہے۔ چینی، آٹو موبائلز، سیمنٹ، فارماسوٹیکل اور بے شمار ایسی بڑی صنعتیں ہیں جنہوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور قیمتوں میں ردوبدل کرتے رہتے اور ہم اس معاملے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
حکومت کو زراعت کے شعبے میں سبسڈی فراہم کرنی چاہیئے جیسا پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہم اپنی زرعی اجناس بھارت برآمد کرتے تھے اور اب ہم بھارت سے بڑے پیمانے پر کپاس درآمد کر رہے ہیں۔ ایسا اس لئے ممکن ہوا کیونکہ بھارت نے اپنی زراعت کو بہت زیادہ سبسڈائز کیا۔ بھارت نے زراعت کے شعبے کو 27 بلین ڈالر کی سبسڈی دی جس میں سے 15 فیصد سبسڈی کھاد پر ہے جس کے نتیجے میں بھارت میں یوریا کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔
بیرونی اکاؤنٹس کو منظم کرنے کیلئے درآمد پر توجہ دے کر ہم مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں درآمدات کو قابو میں لانے کیلئے منافع کی شرح میں اضافہ کرنا چاہیئےجیسا ایٹمی دھماکوں کے وقت لاگو ہونے والی پابندیوں کے بعد ہم نے کیا تھا اور یہ بالکل صحیح اقدام تھا۔ ہمیں پٹرولیم مصنوعات، زراعت اور ادویات کے علاوہ تمام مصنوعات کی درآمد پر 10 سے 30 فیصد نقد رقم جمع کروانے کا نظام متعارف کرنا چاہیئے۔ ہم نے پرتعیش مصنوعات کیلئے اس قسم کا نظام متعارف کروایا ہے لیکن یہ درآمدات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور ہمیں اس کا دائرہ کار بڑھانا چاہیئے۔
دوسرا یہ کہ ہمیں چینی مصنوعات پر کم از کم درآمدی قیمت لاگو کر کے انڈر انوائسنگ کو جانچنا چاہیئے۔ 90ء کی دہائی میں ہمارے پاس بین الاقوامی تجارتی نرخ موجود تھے لیکن اس کا تخمینہ کسٹم کی جانب سے لگایا جاتا تھا۔ ہمیں چین سے بڑی مصنوعات جیسے لوہا اور اسٹیل کی کم از کم قیمت پر درآمد کرنی چاہیئے۔ بھارت 28 مصنوعات کم از کم قیمت پر درآمد کرتا ہے جس میں سے کچھ مصنوعات چین سے اور کچھ سری لنکا کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی مد میں درآمد کرتا ہے۔ یہ عالمی تجارتی تنظیم کے قوائد و ضوابط کیلئے قابل قبول ہے۔ ہمیں ایک مضبوط نیشنل ٹیرف کمیشن کی ضرورت ہے جو واضح طور پر انڈر انوائسنگ کی نشاندہی کر سکے۔
ہمیں اپنے زرمبادلہ کی شرح کو منظم کرنے کیلئے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی صورت میں ہماری زرمبادلہ کی اصل شرح پر زیادہ اثر نہیں پڑنا چاہیئے۔ اسحاق ڈار کے دور میں ہماری کرنسی 27 فیصد زیادہ تھی ۔تازہ ترین گراوٹ کے بعد ہماری کرنسی کم و بیش مناسب سطح پر آگئی ہے۔
ایسے بہت سے اقدامات ہیں جن سے ملکی آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں (ٹیکسوں کی وصولی کیلئے) ریونیو اتھارٹی کی بحالی کی ضرورت ہے جس کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں ٹیکس خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 3 سے 4 فیصد ہے۔ آمدن میں اضافے کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت نہیں بلکہ مناسب اور بروقت اقدامات سے ہم مجموعی قومی پیداوار پر ٹیکس کی شرح کو بہتر کر سکتے ہیں اور قومی خزانے کیلئے کم از کم10 کھرب روپے حاصل کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے پاس فی الحال اتنی گنجائش نہیں کہ ایسی مضبوط بنیادی اصلاحات لاگو کر سکے۔

ڈاکٹر حفیظ احمد پاشا بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی (بی این یو) میں پروفیسر ہیں، آپ سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور سابق وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔

توازن ادائیگی کے مسئلے کے حل کیلئے پہلے نظام تعلیم درست کرنے کی ضرورت

ملک کی طویل مدتی معاشی ترقی کا بنیادی عنصر معاشرے میں ہونے والی گہری اور وسیع جدت ہے۔
ڈاکٹر اکمل حسین

پاکستان کی آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کی بنیادی وجہ پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی خصوصیات میں پنہاں ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے طریقہ کار کو اسٹاپ گو طریقہ کار کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ادوار بھی موجود ہیں جب تیز معاشی ترقی کا پہیہ سست روی سے چلنے لگا ہوا اور فی کس آمدن جمود کا شکار رہی یا کم ہو گئی۔
تنظیمی معیشت پر موجود لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں فرق اس بات کا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک کی نسبت اپنی مجموعی قومی پیداوار اور فی کس آمدنی میں اضافے کی شرح کو طویل مدت تک مستحکم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ایوب خان کے دور سے آغاز کیا جائے یا اس سے پیشتر بھی جب بھی پاکستان کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا تو توازن ادائیگی کے بحران پر ختم ہوا اور آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا۔
ترقی کی سست رفتار شرح میں تیزی کا تعلق بلاشبہ اس بات سے ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے رجوع کرتے رہے۔اس کے فراہم کردہ قرضے معیشت کو عارضی سکون فراہم کرتے ہیں اور حکومتوں کو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے آزاد ہونے کیلئے مشکل تنظیمی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تیز رفتار ترقی کی شرح کا توازن ادائیگی کے بحران پر خاتمے کی وجہ پاکستان کا برآمداتی ڈھانچہ ہے جس کی وجہ سے برآمدات کی شرح میں ملکی مجموعی پیداوار سے منسلک درآمدی اخراجات کی نسبت تسلسل کا فقدان ہے۔
جب ملکی مجموعی پیداوار کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے درآمدی اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مشینری، ایندھن، ساز و سامان ااور صنعتی خام مال کی درآمد بڑھ جاتی ہے۔ اگر برآمدات کی شرح درآمدات کی نسبت کم ہو تو جو ماضی میں ہوا ناگزیر ہو جاتا ہےہم توازن تجارت کے بحران سے دوچار ہو جاتے ہیں جو توازن ادائیگی کے بحران کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ پاکستان کی ملکی مجموعی پیداوار کی شرح میں اضافے کو برقرار نہ رکھنے کی اور غیر ترقی یافتہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات زیادہ نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں درآمدات کو محدود رکھنا پڑتا ہے۔
تقسیم ہند سے اب تک ہماری زیادہ تر برآمدات ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں جو بتدریج کم ہوتی جا رہی ہیں۔ عالمی طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت کو ’’ڈوبتی ہوئی صنعت‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اجناس اور سہولیات کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں طلب کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اگر ٹیکسٹائل کے شعبہ کی بات کی جائے تو پاکستان اس شعبہ میں بھی اضافی قدریں شامل نہیں کر سکا۔ حتیٰ کہ ٹیکسٹائل کے شعبہ کی تقابلی دوڑ میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ ہماری برآمدات میں قدریں کم اور پیداواری اخراجات زیادہ ہیں۔ ہماری برآمدی ٹیکسٹائل میں کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے اور اس کی کوالٹی بھی دوسرے حریفوں کی نسبت ناقص ہے جس کی وجہ سے ہماری برآمدات اتنی ناکافی ہیں کہ ہم اپنی درآمدی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر پا رہے۔
ضمنی لحاظ سے ہمیں اپنی ٹیکسٹائل کے شعبہ میں اپنی برآمدات میں اضافی قدریں، تحقیق اور سہولیات شامل کرنی چاہیئں کیونکہ عالمی برآمدات میں تحقیق ور سہولیات کے حوالے سے طلب زیادہ ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں اپنی برآمدی پالیسی کو تبدیل کر کے اضافی قدریں، تحقیق اور سہولیات شامل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے سخت اور ٹھوس قسم کے حکومتی فیصلوں کی ضرورت ہے تاکہ تنگ نظری سے ہٹ کر بحالی معیشت پر توجہ دی جا سکے۔ معاشیات کے مطالعہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ تحقیقی برآمدات میں شامل کیا چیزیں شامل ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آگیون اور دیگر کا حالیہ کام یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی ملک میں جو متعلقہ معاشرے کی طویل مدتی معاشی نمو کیلئے جدت کی ضرورت ہے ۔دوسرے الفاظ میں طویل مدتی معاشی نمو اور ترقی کی شرح میں زیادہ اضافہ کسی بھی ملک کی جدت پر منحصر ہے۔ تو جب بھی ہم برآمداتی نظام میں تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں ہم اصل میں ملک میں جدت کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
جدت کیلئے ریسرچ اور ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اپنے نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے تاکہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فکری سوچ کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔ فکری سوچ کی تبدیلی کیلئے جب تک اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کی ازسرنو تشکیل نہیں کی جاتی پاکستان کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ امر باعث حیرت ہے کہ تعلیمی اصلاحات سے توازن ادائیگی کے مسئلے کو طویل مدت کیلئے حل کیا جا سکتا ہے اور یہ برآمداتی پالیسی کیلئے اہم راستہ ہے۔ علم و تحقیق ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق میں اوسط درجے کی صلاحیت سے ایسا ممکن نہیں۔ اسی لئے برآمدات کے فروغ اور اضافے کیلئے ایسے اسکول بنانے کی ضرورت ہے جہاں طالبعلموں کو حقیقی فکروں کے مطابق تیار کیا جا سکے اور ایسی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے جو عالمی معیار کی تحقیق کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

حالیہ طور پر حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کو سبسڈی کے ذریعے بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جو گمراہ کن اور غیر پیداواری ہے۔ گمراہ کن اس لئے کیونکہ اگر ان کی توجہ برآمدات کے فروغ پر مرکوز ہے تو ایسی صنعتیں جو غیر مؤثر ہیں، کم قدروں کی حامل ہیں اور عالمی مارکیٹ میں مقابلے نہیں کر سکتیں کو سبسڈی دینے کا مطلب صرف پیسہ بہانا ہے۔ اور غیر پیداواری اس لئے کیونکہ جتنی سبسڈی ان صنعتوں کی دی جائے گی اتنا ہی برآمدات میں اضافہ کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔
اگر حکومت صنعتوں کی بحالی چاہتی ہے تو ایسا صرف ذہانت سے ہی ممکن ہے۔ جنوبی کوریا کی مثال لی جائے تو جنوبی کوریا نے سب سے پہلے ایسے مخصوص صنعتی شعبوں کی نشاندہی کی جن میں جدت، بہتر تکنیکی صلاحتیوں اور برآمدات کی دوڑ میں تیزی لانے کی قابلیت تھی۔ یہ صرف ایک مخصوص صنعت نہیں تھی لیکن ایسے صنعتی شعبے جن کی حکومت نے سبسڈی کے ذریعے معاونت کی۔
اس وقت ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں کی بجائے سوفٹ ویئر، الیکٹرانکس، قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں کو سبسڈی دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ٹیکنالوجی کے شعبے میں سبسڈی فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم نوجوان ٹیلنٹ اور فریش گریجوایٹس کو سبسڈائز تاخیری ادائیگی پر قرضوں کی فراہمی کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
حکومت کو چھوٹی صنعتوں کو سبسڈی فراہم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کم از کم پاکستان میں اپنے چھوٹے حجم اور انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے یہ صنعتیں بڑی صنعتوں کی نسبت زیادہ جدت کی حامل ہوتی ہیں۔ اشتراکی اجناس جیسے دودھ سے تیار کردہ اضافی اقدار والی اجناس، ڈبہ بند گوشت، پھل اور سبزیاں کو بھی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
ٹیکسٹائل جیسی غیر مؤثر صنعتوں کو سبسڈی فراہم کرنے کا مطلب کرایہ ہے جو انہیں دیا جا رہا ہے۔ جو غیر حاصل شدہ آمدن کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اثاثے پر واپسی کی شرح ہے جو متبادل ذرائع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اگر آپ کے پاس ایک ایسی صنعت ہے جو خسارے میں جا رہی ہے اور آپ اسے سبسڈی دے رہے ہیں اور فراہم کردہ سبسڈی کے بعد یہ صنعت منافع کمانا شروع ہو گئی ہے تو اس کا منافع دراصل غیر حاصل شدہ ہے جو کرایے ہی کی ایک قسم ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے جو کچھ مخصوص لوگوں کے گروہ کیلئے کرایہ پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہے ، بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے گریز کرنا چاہتا ہے اور بار بار توازن ادائیگی کے بحران سے دوچار ہونے سے بچنا چاہتا ہے تو اس طرح کے تنظیمی ڈھانچے کو بدلنے کی ٖضرورت ہے۔ کچھ بااثر افراد نے ایسا نظام اس طرز پر بنایا ہے کہ اس کا کرایہ صرف انہیں ہی مل سکے۔
وزیراعظم عمران خان کا حقیقی ویژن یہ تھا کہ پاکستان کی طویل مدت ترقی عوام کو صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے ذریعے ممکن بنائی جائے تاکہ پاکستانی عوام کی ہمت اور قابلیت کو حقیقی معنوں میں استعمال کر کے ترقی کی راہ ہموار کی جائے۔ اسی قسم کی ترقی ہم بھی چاہتے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو یہ ترقی کا راستہ نہیں ہے کیونکہ قرضہ لینے کے بعد آئی ایم ایف عوامی اخراجات میں کٹوتی کا مطالبہ کرے گا۔ حکومت درآمدی اخراجات کو معاشی نمو میں کمی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب منافع کی شرح میں اضافہ ہوگا تو یہ متحرک، جدت کے حامل برآمداتی یونٹس کو اکھاڑ پھینے گا جو عموما زیادہ سہولیات لے رہی ہیں۔
تو ایک گمراہ کن مختصر مدت کی پالیسی ہماری برآمدات کو کمزور کرے گی اور بیرونی قرضوں پر انحصار میں اضافہ کرے گی۔ معاشی نمو کی سست رفتاری غربت اور بیروزگاری کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

ڈاکٹر اکمل حسین ایک قابل پروفیسر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (آئی ٹی یو) میں اسکول آف ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کے ڈین ہیں۔

پاکستانی معیشت کی ترقی کیلئے شہروں کی ترقی ناگزیر

ہمیں اپنے شہروں کو زیادہ تعمیر و ترقی کی اجازت دینی چاہیئے۔
ڈاکٹر ندیم الحق

پاکستان کی معاشی حکمت عملی کا آغاز ہارورڈ کے مشاورتی گروپ اور ڈاکٹر محبوب الحق سے ہوتا ہے۔ تاہم ہم نے نہ اسے بدلنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس میں جدت لانے کی کوشش کی۔ ہم ابھی بھی وہیں رکے ہوئے ہیں۔ جب عالمی ترقی کا بھی آغاز ہوا پاکستان ایک نیا ملک تھا ۔ وہ ہمیں اپنی سرپرستی میں رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک ماڈل بنایا اور ڈاکٹر مقبول الحق اس کا حصہ تھے۔ اس ماڈل کا مقصد قرضوں کے حصول سے ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ چونکہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی تھی وہ ہمیں قرضے فراہم کرنا چاہتے تھے۔ افسوسناک امر یہ کہ دنیا بدل گئی لیکن ہم ابھی بھی اسی پرانے ماڈل کو اپنائے ہوئے ہیں۔
لیکن ہم ایک صارف ملک ہیں جس کی معیشت کا انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ ہمیں غیر ضروری منصوبوں سے بھی بے تحاشہ پیار ہے۔ پاکستان میں کامیاب حکومتیں بیرونی قرضوں سے میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، اسلام آباد ایئرپورٹ اور یونیورسٹیوں کی بے ہنگم توسیع جیسے غیر ضروری اور مہنگے منصوبوں کو ترجیح دیتی ہیں۔

ہر جگہ لاگت اور منافع کیلئے انتہائی احتیاط سے تجزیات و مشاہدات کئے جاتے ہیں اور منصوبوں کی منظوری سے پہلے ہر طرح سے غور و فکر کیا جاتا ہے۔ اب سیاستدان اور سول ملازمین کو ایسا لگتا ہے کہ ان منصوبوں کیلئے مشاہدات کی کوئی ضرورت نہیں۔ سنجیدہ طریقے سے لاگت اور منافع پر تجزیہ و مشاہدات کے بغیر پلاننگ کمیشن کا قیام فضول ہے۔ یہ منصوبے اب سیاسی اخراجات میں شمار ہوتے ہیں اور قرضوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ اس میں اچنبے کی بات نہیں کہ ہم بار بار توازن ادائیگی کے بحران سے دوچار ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہیں۔
پلاننگ کمیشن اور تعلیمی اداروں میں کی جانے والی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے نتائج ہرگز زودافزانہیں ہیں۔
معاشیات بدل گئی ہے۔ منصوبہ بندی کو مفید یا ممکن نہیں سمجھا جاتا۔ نشوونما کرتی ہوئی صنعتیں کسی بھی قیمت پر پرانے تجارتی طریقہ کار کو اپنا نہیں چاہتیں۔
اس طرح کے پرانے خیالات اب نئی سوچ میں بدل گئے ہیں جہاں ترقی صرف منصوبوں اور صنعتوں سے ہی ممکن نہیں ہے بلکہ معیشت کو فروغ تب ملتا ہے جب کاروباری اور جدت پسند اقدامات کو فروغ ملتا ہے۔ کاروباری شخصیت کا مطلب ہرگز ایسا شخص نہیں جس کے پاس پیسہ ہو اور وہ کچھ لائسنس، سستی زمین اور تاخیری ادائیگی پر ایک صنعت شروع کرے بلکہ ایسا شخص جو نئے کاروبار کا آغاز کرتا ہے اور حکومت کی معاونت کے بغیر ہی تمام مالی مشکلات سے نپٹتا ہے۔ بل گیٹس اور سٹیو جابز نے کبھی حکومت سے کسی قسم کی مالی امداد کا مطالبہ نہیں کیا۔
حکومت کو بڑے بھائی کی طرح برتاؤ بند کرنا چاہیئے جو ہر کسی کو بتاتا رہے کہ کس نے کیا کرنا ہے۔ معاشرے میں کاروباری حضرات، مفکر اور جدت پسندوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا جانا چاہیئے۔ محبوب الحق کے دور میں حکومت کا کردار اشتراکی تھا جس نے حکومت کو منصوبہ بندی اور مارکیٹ کو سختی سے کنٹرول کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن یہ ماڈل ایوب دور میں بھی ناکام رہا۔ حکومت کا کردار ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ مارکیٹ کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے، کیا خریدنا ہے اور کیا بیچنا ہے بلکہ حکومت کو معیشت کی حدود کا واضح تعین کرناچاہیئے، ایسے قواعد و ضوابط بنانے چاہئیں جو فروخت کنندہ اور صارفین کے تعلقات کیلئے ایک خوشگوار ماحول پیدا کرے۔
اس کے علاوہ اگر حکومت جانتی کہ کہاں سرمایہ کاری کرنا چاہیئے تو اس سے آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ حکومت (فی الحال) کوئی کاروبار نہیں چلا سکتی تو ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ حکومت جانتی ہے کہ کہاں سرمایہ کاری کی جانی چاہیئے۔
حکومت کو متعلقہ معلومات کے بغیر ہرگز سمت کا تعین کرنے کی ضرورت نہیں۔ بغیر معلومات کے حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کس کاروبار کو چلنا چاہیئے اور کس کاروبار کی معاونت کی جانی چاہیئے۔ اگر ایک صنعت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے قاصر ہے تو اسے ختم ہونے دینا چاہیئے۔ دنیا بھر میں صنعتیں بند ہوتی ہیں۔ دیوالیہ ہونا کوئی بری بات نہیں۔ پتہ نہیں ہم کیوں 70 سال پرانی صنعتوں کو سبسڈی دے کر بحال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں؟
پھر حکومت کو کیا کرنا چاہیئے؟ حکومت کو معیشت کو تحقیق اور مشاہدات سے جانچنا چاہیئے۔ مقامی کاروباری حضرات کو موجودہ معاشی حالات کے مطابق حکمت عملی طے کرنے دی جانی چاہیئے۔ اگر انہیں آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے تو طلب اور رسد کی قوت میں بتدریج توازن آجائے گا پھر چاہے وہ درآمدی طلب ہو یا برآمدی رسد۔ کاروباروں میں اضافہ کیلئے برآمدات اور درآمدات کو منظم کیا جانا چاہیئے۔ یہ حکومت کا کام نہیں کہ ان کیلئے برآمدات پیدا کرے یا انہیں سبسڈی فراہم کرے۔
حکومت کو کاروباری مسائل کے بروقت حل کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیئے۔ معاشی ترسیل اور مؤثر قانونی طریقہ کار کو مستند قانونی فریم ورک سے آراستہ کر کے جدت اور کاروبار کو فروغ دیا جا سکتا ہے جس سے معاشی ترقی اور عوام کی بہبود میں تیزی آئے گی۔
ہمارے اندازے کے مطابق منصوبہ بندی کمیشن کے معاشی ترقی کے فریم ورک میں پاکستان کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے شرح نمو 8 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیئے۔ حالیہ برسوں میں اصلاحات کی کمی کی وجہ سے طویل مدت کیلئے شرح نمو اور شرح پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ ہمارے ترقی کی شرح 3 سے 5 فیصد ہے جو کافی کم ہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ وزراء خزانہ 5 فیصد شرح نمو کو کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان کی ترقی کی شرح 4 فیصد سے کم ہے جبکہ 7 فیصد سے کم شرح کو پالیسوں کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے۔ ہمیں 7 فیصد سے کم شرح کو ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دینا چاہیئے۔
ہمارے شہر ہماری ترقی کا اہم مرکز ہیں جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمارے تیزی بڑھتے ہوئے شہر سرمایہ کاری کے خاتمے کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ یہی حال تعمیراتی صنعت کا ہے جس کا اثر بہت سی دیگر صنعتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ شہروں میں مہنگی زمینیں غیر معتبر ہو چکی ہیں۔ اہم زمینوں پر معاشی ترقی کی علامت بلند عمارتوں کی بجائے بڑے گھر تعمیر ہیں۔ جب شہر صحیح طرز پر بڑھتے ہیں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر مغربی معیشتوں کی طرح صحیح طرز پر تعمیر و ترقی ہو تو شہر ملکی ترقی کی شرح میں 4 فیصد تک اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتی اشرافیہ شہروں کی سست رفتار ترقی اور غیر پیداواری سرگرمیوں کا باعث ہیں۔ شہر پھیل رہے ہیں جس کی قیمت ماحولیات اور معاشی ترقی چکا رہی ہے۔ جبکہ اس موضوع کو کبھی بحث کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
میں گزشتہ 20 سال سے یہ سوال کر رہا ہوں کہ پاکستان میں ایک بھی ٹاور کرین نہیں ہے۔ ہر وہ ملک جو تیزی سے ترقی کر رہا ہے اس کے پاس شہروں میں ہزاروں ٹاور کرینیں موجود ہیں۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ ہمارے کئی شہر جو دنیا کے بڑے شہروں میں گردانے جاتے ہیں ان کے پاس کوئی ٹاور کرین موجود نہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا کے برعکس ہم بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ہم باقی دنیا سے اتنا مختلف کیوں ہیں؟ یا ہم زیادہ بیوقوف ہیں؟
جو تجزیہ کار تیزی سے برآمدات میں توسیع کے خواہاں ہیں اور مشرقی ایشیاء کی برآمداتی کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہیں انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مشرقی ایشیاء کی ترقی صرف برآمدات میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہریت اور تیزی سے جاری تعمیراتی سرگرمیاں بھی اس ترقی کی وجہ ہیں۔ شاید برآمدات اور تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافہ ایسے موضوعات ہیں جن کا مطالعہ ابھی تک ہم نے نہیں کیا۔
جس مرضی رخ سے دیکھا جائے ہمیں اپنے شہروں کو زیادہ تعمیراتی سرگرمیوں اور بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینی چاہیئے۔ میرے خیال میں یہ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے ضروری ہے۔
اس طریقہ کار کو سول سروس میں اصلاحات کے ساتھ دوبارہ نافذ کیا جانا چاہیئے۔ جیسے جرمن فلاسفر اور سیاسی ماہر معاشیات میکس ویبر نے نشاندہی کی کہ سول سروس قوانین کی محافظ ہے، پالیسیوں اور اقدامات کی موجد ہےاور ان کا نفاذ کرتی ہے اور تمام ممالک میں پالیسی اور پروگرامز کا موازنہ کرتی ہے اور اسے جانچتی ہے۔ یہ نام مختلف صلاحیتوں کی حامل تنظیموں، متعدد کاموں اور رپورٹنگ پراسسز کے علاوہ کئی نگرانی کرنے والے شعبوں کو دیا گیا ہے۔
پاکستان میں اس پر ایک مخصوص عوامی حلقے کی اجارہ رہی ہے جس میں کام کرنے یا پالیسی بنانے کے حوالے سے صلاحیتیوں کا فقدان تھا۔
حکومت یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہو چکی ہے کہ پالیسی کہتے کسے ہیں۔ اب پالیسی سیاستدانوں کی خواہشات پر بنتی ہے۔ پالیسی میں زیادہ ردوبدل کاروبار کیلئے صحیح نہیں ہے۔ مثلا ٹیکس پالیسی کو بہت واضح اور طویل مدت ہونا چاہیئے جس میں تبدیلیوں کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ کوئی بھی ایسی پالیسی یا قانون سازی نہیں ہونی چاہیئے جس کے اخراجات حکومت برداشت نہ کر سکے۔پالیسیز ریسرچ پر مبنی ہوں اور ان کے کام کی نگرانی بھی کی جائے جو بنیادی طور پر اشرافیہ کا کام ہے۔
پچھلے 40 سال سے ہم اس بحران سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی یہ حالت ہونا یقینی ہے اور اس کی وجہ کئی بے کار منصوبوں پر لئے جانے والے غیر ضروری قرضے ہیں۔ پیداوار میں اصلاحات کے بغیر ہم اسی بحران میں گھرے رہیں گے۔ اگر ہم ایک سوجھ بوجھ رکھنی والی حکومت کی تشکیل کریں، اپنے شہروں اور مارکیٹوں پر لاگو کئی پابندیاں ہٹا لیں، پرانی صنعتوں کو دھکا لگانا چھوڑ دیں، قانون اور انصاف کے نظام کو بہتر کر لیں تو ہم کاروباری سرگرمیوں اور جدت کے فروغ کیلئے کافی گنجائش پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے شہروں کو ہر طرح کی کاروباری سرگرمیوںمیں حوصلہ افزائی کی یقین دہانی کروائیں تو یہ شہر ان سرگرمیوں کا خود آغاز کریں گے جس کیلئے حکومت کی معاونت کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
اگر ہم ایک جدید سول سروس تیار کرتے ہیں جو 21ویں صدی کی مارکیٹ اور شہروں کی بنیاد رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو ہم 8 فیصد شرح ترقی کو یقینی بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ پیدا کر سکتے ہیں۔
اگر ہم مارکیٹ پر لاگو غیر ضروری پابندیاں ہٹا لیں ان کی نئے سرے سے تشکیل کریں تو ہم اپنی برآمدات اور صنعتوں کو فروغ دے سکتے ہیں جو نوجوانوں کیلئے روزگار کا باعث بنیں گے۔

ڈاکٹر ندیم الحق پلاننگ کمیشن کے سابق چیئرمین ہیں اور کئی دہائیوں تک بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں بحیثیت ماہر معاشیات اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں۔

سیاسی اتفاق رائے کے بغیر معاشی اصلاحات ناممکن

پاکستان کو معاشی پالیسی پر صرف ماہران فن کی جانب سے پیش کئے گئے حل کافی نہیں ہیں بلکہ بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کی بھی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر سید اکبر زیدی

پاکستانی معیشت میں اصلاحات معاشی اور سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لے کر کی جانی چاہیئں۔ پالیسیوں کی سمت کا تعین کرنے اور اس میں اصلاحات کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایجنڈا تشکیل دیا جائے جس پر سب متفق ہوں۔ یہ معیشت کی بحالی اور عوام کی فلاح کیلئے نہایت ضروری ہے مثلا نظامِ ٹیکس میں اصلاحات حکومتی جماعت سے قطع نظر نہیں ہونی چاہئیں۔
اگر کوئی تبدیلی یقینی ہے تو اس پالیسی کو جاری رکھنے کیلئے کم سے کم اتفاق رائے ہونا چاہیئے۔بنیادی طور پر یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ سب کو اندازہ ہو سکے کہ حکومتی جماعت کے اہداف کیا ہیں اور وہ طویل اور درمیانے عرصے میں معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کیلئے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو دراصل مضبوط نظامِ ٹیکس کی ضرورت ہے جو مکمل بحال اور وسیع ہو۔
اس وقت پاکستان کی ایک فیصد سے بھی کم آبادی آمدنی ٹیکس ادا کرتی ہے اور زیادہ تر ایسے غیر ارادی ہیں جن کی آمدن پر پہلے ہی ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کاروائیاں کی جائیں اور ان سے وصولیاں کی جائیں۔ بحالی کیلئے ماہران فن کے دیئے گئے حل ناکافی ہیں۔ تمام جماعتیں جانتی ہیں کہ آمدن کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر تمام بڑی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو جائے تو بہت سے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
اوپر سے نیچے تک ٹیکسوں کو معقول بنانے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے متعدد شعبوں مثلا زراعت اور صنعتوں پر حکومت کی جانب سے عائد متعدد ٹیکسوں کے نظام کو اس انداز میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے کہ سب پر یکساں اطلاق ہو اور سب کے یکساں مفاد میں ہو۔ آمدن، دولت اور کھپت کی طرح متعدد زمروں پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس آمدن اور دولت کے حساب سے ہونا چائیے بجائے کہ بلا اصول اور بلاواسطہ ٹیکس سسٹم کا نفاذ کر دیا جائے۔
اخراجات کا ایک بڑا حصہ دفاع کی مد میں چلا جاتا ہے جسے کم کر کے تعلیم، صحت اور دیگر سماجی شعبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اسکولوں، ہسپتالوں، معاشرتی بہتریوں اور معاشی تعلیم پر زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
اب دور بدل گیا ہے ہماری برآمدات کا حجم کم ہے اور مجھے حالیہ برآمدات سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ہماری برآمدات مایوس کن ہیں جسس میں بہتری مشکل ہے اور 50 سال سے کم و بیش ایک ہی طرح کی برآمدات کر رہے ہیں۔ اپنی حالیہ برآمدات سے ہم کوئی امید نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے پاس برآمد کرنے کیلئے بس کینو، کھجوریں اور کچھ ٹیکسٹائل ہی ہیں۔ ان میں کچھ اقدار شامل کی گئی ہیں جنہیں بیرونی زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کیلئے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ہم اپنی کرنسی میں جتنی مرضی گراوٹ کر لیں ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکتا اور ہمیں اس بات کو قبول کر لینا چاہیئے۔
ٹیکسٹائل اور کپاس کے شعبوں میں ہماری برآمدات لمبے عرصے سے جمود کا شکار ہیں۔ ہم نے محض ایک سال میں اپنی کرنسی کی قد میں میں تقریبا 35 فیصد کمی کی ہے پھر بھی ہماری برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سے ہماری برآمدی مسابقت کو تقویت ملے گی اور اندازہ ہوگا کہ تھوڑی سی گراوٹ ہماری برآمدات میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ترقی کی راہ میں معیشت کی ایک مختلف طریقے سے تشکیل نو کی ضرورت ہے۔
حکومت کی متبادل درآمد حکمت عملی خاص طور پر چین کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی موجودگی میں موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ آزادانہ تجارتی معاہدوں نے مقامی مارکیٹ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ متبادل درآمدات ایک اچھا نعرہ ہے لیکن اسے موجودہ حالات میں اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اگر متبادل درآمدات ناگزیر ہیں تو پاکستان کو اقتصادی تعلیم کی جانب ثابت قدمی سے بڑھنا پڑے گا اور متبادلات کی گنجائش رکھنی ہوگی۔
حکومت کو ایسی صنعتوں کی معاونت کرنی چاہیئے جہاں سرمایہ کاری، برآمدات اور بیرونی ترسیل زر کا زیادہ رحجان ہے۔ ایسی صنعتوں کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ غیر معینہ مدت کیلئے نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ایک مقررہ وقت کیلئے ہو اور اصول واضح کئے جائیں کہ حکومت کس انداز میں ایک خاص شعبے یا صنعت میں مداخلت کر سکتی ہے اور کیسے ایک مخصوص دورانیئے میں معاونت کر سکتی ہے اس سے پہلے کہ یہ سب کیلئے یکساں ہو جائے۔ حکومتی معاونت ساری زندگی کیلئے نہیں بلکہ ایک معقول انداز میں ہونی چاہیئے جس سےآمدن میں اضافہ اور بیروزگاری میں کمی واقع ہو۔
اگر پاکستان زرعی شعبے میں اصلاحات لے آئے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے جس کیلئے نہری اور پانی کی تقسیم و ترسیل کے نظام میں بہتری ضروری ہے۔
پاکستان کو گنے کی کاشت کو روک دینا چاہیئے کیونکہ اس میں پانی کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کی کمی کا شکار ہے۔ گنے کی کاشت میں کم پانی کے استعمال کیلئے کوئی صحت افزاء متبادل موجود نہیں۔ بجائے مقامی پیداوار کے چینی کی درآمد ایک زیادہ مناسب سوچ ہے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں کم ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کی قیمت زیادہ ہے۔ لیکن اس میں مقامی کرنسی کو تحفظ ملتا ہے۔ چینی کی صنعت سیاسی مداخلت کے باعث خاتمے کی نہج تک پہنچی۔ اس شعبہ میں اصلاحات سے نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے لیکن چینی کی صنعت کے پیچھے ایک بڑا مافیا حائل ہے جس سے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش ہیں۔ چینی کے شعبے کو کچھ طاقتور سیاسی مفادات کے تحت مرتب کیا گیا ہے جو اس میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اس کی بجائے گندم، جو یا کپاس اگا سکتے ہیں ۔ حکومت کو غیر پیداواری فصلوں پر پابندی لگا دینی چاہیئے۔
درآمدی نرخوں سے آمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن جب تک پاکستان عالمی تجارتی تنظیم کا حصہ ہے ہم درآمدی نرخوں کو استدلال نہیں دے سکتے۔ امریکا اور چین کے درمیان نرخوں کی جنگ جاری ہے۔ اگر ایک ملک دوسرے کیلئے نرخوں میں اضافہ کرتا ہے تو دوسرا بھی کم و بیش یہی کرتا ہے۔ دونوں کے نقصانات یکساں ہیں۔ پاکستان اس طرح اپنی درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ نہیں کر سکتا۔
لیکن اگر ہم ٹیکس کے نظام کو تشکیل نو کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور کھپت ٹیکس کا ایک عنصر ہے اور آمدن ٹیکس کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ ٹیکس صرف انہی پر لاگو ہوتا ہے جس کے پاس پیسہ ہے تو پھر درآمد ڈیوٹی لاگو کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ حکومتیں درآمدی ڈیوٹیوں کا اطلاق آمدن میں اضافے کے پیش نظر کرتی ہیں اور اگر ایک مناسب ٹیکس کا نظام ہو تو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔
لیکن حکومت کی موجودہ سمت کا تعین نہیں ہو رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے 6ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے جو حکومت کی مدت کا تقریبا 10 فیصد ہے اور ابھی تک کوئی واضح سمت پالیسی ، وژن یا فیصلہ سازی مرتب نہیں کی جا سکی کہ حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ اس سال شرح نمو تقریبا 3 فیصد رہنے کے امکانات ہیں اور افراط زر ایک مرتبہ پھر بڑھنے کے خدشات ہیں۔ حکومت میں صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے جو شرح نمو کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی۔
یہ مسلسل مسائل پاکستان تحریک انصاف کی دین نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم اگلے 5 سال میں کیا ہوگا اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ہی لاگو ہوتی ہے۔ انہیں صرف پرانی حکومتوں یا کرپشن پر تنقید کی بجائے ایسے فیصلے لینے چاہئیں جس سے معاملات درست ڈگر پر چل سکیں۔ فیصلہ سازی اور اقدامات میں تاخیر کا خاتمہ کرنا چاہیئے جس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت لیت و لعل کی بجائے عملی اقدامات کرے۔

ڈاکٹر سید اکبر زیدی ایک سیاسی ماہر معاشیات ہیں۔ آپ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور آئی بی اے کراچی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here