منی بجٹ‌ میں آخر ہے کیا؟

اگر پچھلے ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اسحاق ڈار اور شوکت ترین نے حکومت کے آنے کے ابتدائی عرصہ میں آئی ایم ایف سے معاہدے کئے تھے۔ تاہم اسد عمر ابھی تک ابہام کا شکار ہیں۔

691

رواں ہفتے پیش کیا جانے والا ضمنی بجٹ خاص طور پر بڑھتے ہوئے خسارے کے بجٹ سے نپٹنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بہت اچھی وضاحت ہے بجائے اس وضاحت کے جو وفاقی وزیر خزانہ نے پیش کی کہ ہمیں اپنی ہی حکومت کے پیش کردہ ضمنی بجٹ کے کچھ ہی مہینوں بعد اچانک سے ایک اور ضمنی بجٹ کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ نجی سرمایہ کاروں، برآمدکنندگان اور وغیرہ وغیرہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
اور اس سے پہلے کہ کوئی تعصب پھیلے ایک دفعہ پھر اسد عمر آئی ایم ایف سے فنڈ پروگرام منظور کروانا چاہ رہے ہیں اور جنوری 23 کو پیش کیا جانے والا بجٹ آئی ایم ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ہی ہے۔ اب یہ سٹاک مارکیٹ کیلئے بھلا کیسے بہتر ہے کیا کوئی اچھی خبر ہے؟ ایسا کہا جا سکتا ہے کیونکہ پروگرام کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہی وجہ تھی کہ نئی حکومت کے آتے ہی سٹاک مارکیٹ بدترین سطح پر گر گئی۔ دراصل نان مارکیٹ عناصر کیلئے یہ تب ہی گر چکی تھی جب پانامہ اسکینڈل سامنے آیا تھا۔
لیکن کیا پی ٹی آئی کی حکومت کا منشور تحفظ فراہم نہیں‌ کرنا تھا؟ یا سمت کا تعین نہیں‌کرنا تھا؟ اور ایک بات کہ بجٹ خسارہ حکومت، عوام اور ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آخر کار اگر ہم دیوالیہ ہو گئے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ لیکن کیوں کسی شخص نے ان حالات پر روشنی کیوں نہیں ڈالی کہ اب تک ہم پر بیرونی طور پر قرض آخر ہے کتنا۔
اگر مالی بحران کے الاؤ میں جلنا ہی عوام کا مقدر ہے کیونکہ شریف برادران ، بھٹو اور زرداری نے قومی خزانہ خالی کر دیا اور عمران خان سب ٹھیک کر دے گا تو کیا ہم شفافیت کے مستحق نہیں؟
ابھی تک حکومت نے ایسے کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں‌کئے جس سے اندازہ ہو سکے کہ اس سال دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ہمیں کتنی ادائیگی کرنی ہے۔ اگر کم از کم 14 ارب ڈالر کی ادائیگی جائے اور بقایا جات 13 ارب ڈالر رہ جائیں تو ہمیں وسط گرمیوں تک 27 ارن ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب سے چھ چھ ارب ڈالر جبکہ 2 ارب ڈالر کے قریب چائنہ سے ملنے والی امداد۔ معاہدے کے تحت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر بنتی ہے لیکن اگر ادائیگی اس سے زیادہ ہو تو ہمیں‌کیا کرنا چاہئے؟ اگر ہم اس سال یہ رقم وصول کر لیتے ہیں تو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ بھی قرضہ ہے وہ بھی سود کے ساتھ ان سودی قرضوں کیلئے جو ہم واپس نہیں‌ کر پا رہے۔ اور ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 8 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ یعنی ہمیں تقریباً 5 سے 6 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ اور ایسا کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنا باورچی خانہ بند کرکے روز خالی ہاتھ بیٹھ کر کشکول تھام کر بیٹھ جائیں۔
اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں سٹاک مارکیٹ بدحال ہو گئی، روپیہ رل گیا، ترقی کی شرح سست ہوگئی اور افراط زر 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ بات یہ ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والے 2 ارب ڈالر استعمال سے پہلے ہی خرچ ہوگئے۔ کچھ افواہیں ایسی بھی ہیں کہ جب روپیہ تاریخ کی بدترین سطح پر گرا تو یہ 2 ارب ڈالر پہلے ہی ڈوب گئے تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو انہوں نے سوچا کہ اسے تھوڑا گرنے دینا چاہئے اور پھر افراتفری پھیل گئی جب یہ گراوٹ تھوڑے کی بجائے بہت زیادہ ہوگئی۔ پھر سعودی نجات دہندوں کا شکریہ ادا کیا گیا کہ انہوں نے اپنے کچھ ڈالر بیچ کر روپے کی قدر میں‌کچھ جان پھونکی۔
بدقسمتی سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ایسا کچھ نہیں‌کر رہی جو اسے کرنا چاہئے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ روپے کو تفریط زر کی ضرورت ہے اور عمران خان کے توسیع پسندانہ عزائم کے باوجود مالیاتی پالیسی میں‌ تھوڑی سی سختی مزید درکار ہے۔ اور ہر کوئی یہ بھی جانتا ہے کہ ایک فنڈ پروگرام کی بھی ضرورت ہے۔ اگر پچھلے ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اسحاق ڈار اور شوکت ترین نے حکومت کے آنے کے ابتدائی عرصہ میں آئی ایم ایف سے معاہدے کئے تھے۔ تاہم اسد عمر ابھی تک ابہام کا شکار ہیں اس سے پھیلنے والی غیر یقینی کیفیت سٹاک مارکیٹ کیلئے زیادہ بری خبر ہے۔
23 جنوری کو پیش کئے جانے والی بجٹ میں اگر عوام کے خدشات درست ثابت ہوئے اور بجائے سکون کے مزید ٹیکس لاگو کر دیئے گئے تو عوام کو فنڈز پروگرام کے بغیر بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ وہی کچھ نہیں‌ جس سے بچنے کیلئے ہم کوشش رہے ہیں؟

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here