اگر آپ کو لاہور کی ایم ایم عالم روڈ پر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ اس سڑک کی دونوں اطراف بے شمار ریسٹورنٹس نظر دیکھیں گے، ایک اندازے کے مطابق ریسٹورنٹ انڈسٹری کے اس گڑھ میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران 25 نئے ریسٹورنٹ کھلے یا بند ہوئے، اسی سڑک کے ایک طرف کیفے ذوق واقع ہے، جہاں ایک طرف اس انڈسٹری میں ناکامی کی شرح عموماََ زیادہ ہے وہاں کیفے ذوق 1995ء یعنی گزشتہ 24 سال سے قائم ہے۔
کھابوں کے شوقین لاہوریوں کیلئے کیفے ذوق اب بھی سب سے پسندیدہ جگہ ہے جبکہ 90ء میں اس کے مقابلے میں کھلنے والے اکثر ریسٹورنٹس ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، کیفے ذوق کی کامیابی اور مارکیٹ میں قائم رہنے کا راز جاننے کیلئے ”پرافٹ اردو” نے اس کے مالک شہزاد کھوکھر سے گفتگو کی۔
کامیابی کا راز
شہزاد کھوکھر نے بتایاکہ اُن کی محنت، لگن اور ریسٹورنٹ کو منظم انداز میں چلانے کی سوچ ہی کامیابی کا راز ہے، یہی وجہ ہے کہ کاروبار دو عشروں سے اچھا چل رہا ہے، کاروبار میں آپکی دلچسپی بالکل اسی طرح رہنی چاہیے جیسے کاروبار شروع کرتے وقت تھی، اکثر ہوتا یہ ہے کہ مالک کی دلچسپی عموماََ ایک سال بعد تبدیل ہونے لگتی ہے اور وہ اپنا کاروبار مینجر کی ذمہ داری پر چھوڑ دیتا ہے. لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، میں اپنے مشیر کیساتھ بیٹھ کر ہوٹل کے تھیم سے لیکر مینیو تک ہر چیز کا فیصلہ خود لیتا ہوں۔
سالہاسال کے تجربے سے کیفے ذوق نے کافی ترقی کی ہے، شہزاد نے بتایا کہ آغاز میں یہ صرف ٹین ایج نوجوانوں اور30 سال تک کے لوگوں کیلئے تھا لیکن اب یہاں 60 اور 70 سال کی عمر کے لوگ بھی آتے ہیں اور وہی ٹین ایج اب بڑے ہوکر اپنی فیمیلز اور والدین کیساتھ آتے ہیں۔
جیسے جیسے گاہک بڑھے ہیں شہزاد نے کیفے میں کافی تبدیلیاں بھی کرلی ہیں جو صرف کھانے اور میوزک کی حد تک ہی محدود نہیں. انہوں نے بتایا کہ ہم نے لاہور میں پہلی بار تھائی فوڈ متعارف کرائی، ہم نے باہر سے ایک شیف منگوایا جو کئی سال یہاں رہا اور ہمارے لوگوں کی تربیت کی. آغاز میں زیادہ تر تھائی کھانے ہی فراہم کیے جاتے اور بہت کم کانٹی نینٹل کھانے بنتے تھے تاہم اب ہمارا مینیو کافی وسیع ہو چکا ہے۔
شہزاد کا کہنا تھا کہ 90ء میں آغاز صرف 12 ڈشز سے کیا گیا تھا لیکن اب 200 ڈشز فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن اصل چیز مینیو وسیع کرنا نہیں بلکہ اس چیز کا تسلسل برقرار رکھنا ہے جو آپ نے شروع کی. ہمارا یہاں کچھ ڈشز ایسی بھی ملتی ہیں جو 20 سال پرانی ہیں اور بے شمار لوگوں کی پسندیدہ ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے اسد شیخ فوڈیز آر اَس کے نام سے ایک فیس بک پیج چلاتے ہیں، وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، وہ کتہے ہیں کہ اگر آپ 10 سال بعد بھی کیفے ذوق جائیں اور آپ کو وہی پرانا ذائقہ ملے گا، بہت سے ریسٹورنٹس کا ذائقہ وقت کیساتھ ساتھ بدل جاتا ہے لیکن ذوق پر ایسا نہیں ہوا۔
نوے کی دہائی میں ذوق کا سب سے بڑا مدمقابل کوپر کیٹل تھا جو 2017ء میں بند ہو چکا ہے، شہزاد کہتے ہیں کہ کوپر کیٹل کی بندش کی دیگر وجوہات کیساتھ اس کا وقت کیساتھ نہ چل سکنا بھی ہے. تاہم اسد شیخ کہتے ہیں کہ وہ نامناسب لوکیشن کی وجہ سے بند ہوا۔
اسد کہتے ہیں کہ جب ایمپائر سینٹر کی بیسمنٹ میں گلبرگ مین بلیوارڈ پر کوپر کیٹل کھلا تو لاہور میں نوجوانوں کے بیٹھنے کیلئے زیادہ جگہیں نہیں تھیں، تاہم وقت کیساتھ لوکیشن کا فرق پڑتا ہے وہاں پارکنگ کا سب سے زیادہ مسئلہ رہتا تھا. کوپر کیٹل کی لبرٹی میں موجود برانچ کیساتھ بھی یہی پارکنگ کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب کیفے ذوق ایم ایم عالم روڈ کے ایکن طرف اختتام پر ایک کارنر پلاٹ میں واقع ہے جس کی وجہ سے اس کو پارکنگ دو طرف سے مل جاتی ہے. اس کےآگے ہی ایک پارک کی پارکنگ بھی موجود ہے جس فائدہ کیفے کو ہوتا ہے۔
کیفے ذوق کے مالک شہزاد کھوکھر
شہزاد کا کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ چلانا ایک سائنس ہے، اس کاروبار کا اپنا مالیاتی طریقہ کار ہے، یہاں قیمت کافی اہمیت رکھتی ہے، ایک کامیاب ریسٹورنٹ کیلئے کھانے کی لاگت لازماََ 35 سے 40 فیصد تک ہونی چاہیے، شہزاد کے مطابق اس طرح قیمت خرید اور فروخت میں توازن رہتا ہے۔ آپ کواسے کچھ اس طرح متوازن رکھنا چاہیے کہ گاہک کو برا محسوس نہ ہو اور آپ کو بھی نقصان نہ ہو۔
اس کے علاوہ آپ کو اپنے اخراجات بھی کم رکھنے پرتے ہیں، یہ اخراجات آپکے کاروبار کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں، اگر کچھ ٹیبل خالی ہوں تو وہاں ای سی بند کر دیں اور بجلی کا خرچ بچائیں، ایسی چھوٹی چھوٹی تفصیلات ہی کاروباری کامیابی کیلئے ضروری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں ریسٹورنٹ ایک نائٹ کلب کی طرح تھا، کم روشنی اور بلند موسیقی نوجوانوں کیلئے کشش رکھتی تھی تاہم جیسے جیسے گاہک بڑھے تو اسی کے مطابق تبدیلیاں ہوتی گئیں، گاہکوں کو دیکھ کر میوزک سلیکشن میں خود کرتا ہوں، اگر نوجوان زیادہ بیٹھے ہوں تو ان کی پسند کے مطابق میوزک چلاتا ہوں، اس کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ لوگ بیٹھے ہوں تو میں 80ء اور 90ء کے زمانے کی موسیقی چلاتا ہوں. آپ کو وقت کیساتھ بہتری لاتے رہنا چاہیے۔
اس کے علاوہ خاص مواقع جیسے سال نو، کرسمس یا ہالووین کے موقع پر ہم ریسٹورنٹ کو اندرونی طور پر سجاتے ہیں، ہالووین کے موقع پر سٹاف کو ماسک پہناتے ہیں اور گاہکوں کی خوشی کیلئے ڈی جے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سٹاف کیلئے یونیفارم کا انتخاب بھی خود کرتے ہیں. چونکہ سٹاف کو ہی گاہکوں کیساتھ مخاطب ہونا ہوتا ہے اسلیئے انہیں مناسب لباس میں ملبوس ہونا چاہیے اورشائستگی برقرار رکھنی چاہیے۔
کاروبار کو وسیع کرنے کا مسئلہ
جب مارکیٹنگ کی بات آئی تو شہزاد نے نہایت اطمینان سے کہا کہ موجودہ زمانے کے فوڈ فیسٹیولز انکے کاروبار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے، اگر 24 سال بھی لوگ کیفے ذوق کو نہیں جاتے تو پھر وہ کبھی نہیں جانیں گے. فوڈ فیسٹیول صرف ان کاروباروں کیلئے مفید ہیں جو محض آغآز کر رہے ہوں. انہوںنے اس بات پر زور دیا کہ ریسٹورنٹ کا فیس بک پیج ہی مارکیٹنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس پر 6 لاکھ فالوورز ہیں۔ فوڈ فیسٹیول میں جانے کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ لوگ کیفے ذوق میں آئیں گے، لوگ ایسے فیسٹیولز پر صرف تفریح کیلئے جاتے ہیں۔
تاہم 24 سال میں کیفے ذوق کی ایم ایم عالم روڈ پر اکلوتی برانچ ہے اور شہزاد کھوکھر مستقبل میں کاروبار میں توسیع کیلئے پرامید ہیں، انہوں نے بتایا کہ لوگ فرانچائز خریدنے کیلئے ہمارے پاس آتے ہیں تاہم ہمیں ایسے لوگوں کی تلاش ہے جو ہمارا معیار برقرار رکھ سکیں. کراچی میں حال ہی میں کھلنے والے کیفے ذوق کا معاملہ عدالت میں ہے. یہ شہزاد کے ایک کاروبار شرکت دار نے کھولا تھا۔
شہزاد نے الزام لگایا کہ ان کے شراکت دار نے مطلوبہ معیارکے مطابق ریستورنٹ کو نہیں چلایا، شہزاد نے اپنے کاوربار کو چلانے کا جو طریقہ اب تک اپنائے رکھا ہے اس طرح وہ صرف ایک ریسٹورنٹ چلاسکتے ہیں، زیادہ برانچز نہیں چلا سکتے کیونکہ اس کے لیے زمید لوگوں کی ضرورت ہوگی، اسکی ایک سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں ایک ہی جگہ پر ہو سکتےہیں۔