ہواوے دنیا میں ٹیلی کمیونیکیشن آلات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ہر کچھ عرصے بعد ہواوے کا نیا سمارٹ فون پاکستان میں متعارف کروایا جاتا ہے۔ اس کے پاکستان میں مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ اس کی قیمت اور موبائل فونز میں دی جانے والی خصوصیات ہیں۔اس کے علاوہ بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تھری جی اور فور جی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ہواوے کے پاس ہی ہے۔
ویسے تو موبائل تیار کرنے اور انہیں فروخت کرنے کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا اعزاز کئی ادارے جنوبی کورین کمپنی سام سنگ کو دیتے ہیں۔ تاہم دیکھا جائے تو چینی کمپنی ہواوے نے انتہائی کم عرصے میں نہ صرف سام سنگ بلکہ ایپل کے لیے بھی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ رواں برس جہاں ہواوے کی چیف فنانشل افسر (سی ایف او) کو کینیڈا میںامریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، تاہم ان کی کمپنی ایک ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جہاں ہواوے کی سی ایف او کو گرفتارکیا گیا تھا، وہیں امریکا و یورپ میں بھی اس کمپنی کے خلاف کئی باتیں سامنے آئیں اور اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم اب کمپنی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کمپنی رواں برس ریکارڈ موبائل فون فروخت کرنے میں کامیاب گئی۔ ٹیکنالوجی ویب سائیٹ انگیجٹ کے مطابق ہواوے نے رواں برس مشکلات کے باوجود گزشتہ برس سے زیادہ موبائل فروخت کیے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاں ہواوے نے رواں برس کے وسط میں موبائل بنانے کے حوالے سے دوسری بڑی کمپنی کا اعزاز امریکی کمپنی ایپل سے چھینا تھا، اب وہیں یہ کمپنی ریکارڈ موبائل فروخت کرنے میں کامیاب گئی۔ رپورٹ کے مطابق ہواوے نے 2017 میں 10 کروڑ 70 لاکھ سے زائد موبائل فروخت کیے تھے، تاہم رواں برس کمپنی نے اس سے زیادہ موبائل فروخت کیے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چینی کمپنی نے رواں برس دنیا کے 170 ممالک میں اپنے موبائل فروخت کیے، جن میں سے امریکا اور یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں برس ہواوے نے سال بھر میں 20 کروڑ موبائل فروخت کیے، جن میں سب سے زیادہ موبائل ’پی 20 اور میٹ 20‘ سیریز کے موبائل فروخت ہوئے۔ اگرچہ کمپنی نے ہر سیریز کے موبائل کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے، تاہم بتایاگیا کہ رواں برس ہواوے کے مڈ رینج موبائل کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ خیال رہے کہ ہواوے کو 2010 میں بنایا گیا تھا اور ابتدائی سالوں میں یہ کمپنی زیادہ سے زیادہ 30 لاکھ موبائل تک فروخت کر پاتی تھی، تاہم 2015 کے بعد اس کے موبائل کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا۔ گزشتہ تین سال سے اس کمپنی کا مقابلہ ایپل اور سام سنگ جیسی کمپنیوں سے ہے اور اس نے دیگر تمام چینی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رواں برس امریکا و یورپ کے کچھ ممالک نے ہواوے پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے آلات کے ذریعے دیگر ممالک کے شہریوں کی جاسوسی کرکے چین کو فراہم کرتی ہے۔ تاہم اس الزام پر خود امریکی و یورپی حکومتوں کے اداروں میں بھی اتفاق نہیں ہوسکا۔
اس سے قبل آسٹریلیا نے بھی ہواوے اور زیڈ ٹی ای کو نیشنل سکیورٹی بنیادوں پر ملک کو فائیو جی ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے روک دیا تھا۔
ہواوے نے آسٹریلوی حکومت کے اس کی پالیسیوں اور مصنوعات پر تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تبصرہ غلط معلومات اور حقائق سے ہٹ کر ہے۔‘
کمپنی نے اپنی آزادی کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جس کے مالک اس کے ملازم ہیں اور کوئی شیئر ہولڈر نہیں۔‘
لیکن امریکہ اور برطانیہ نے بھی ہواوے پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور کمپنی کو جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی شدید جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حکومت موبائل کمپنیوں سے رابطہ کر رہی ہیں کہ وہ ہواوے کے آلات استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ایسے میں پاکستان کے علاوہ بظاہر شاید ایک ہی ملک ہے جو ہواوے کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے پاپوا نیو گینی جس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے انٹرنیٹ انفراسٹرکچر کو قائم کرنے کے لیے ہواوے کے ساتھ معاہدہ کرے گا۔