آئی ایم ایف کے ناختم ہونے والے مطالبات، مذاکرات تعطل کا شکار، پاکستان کو متبادل راستوں کی تلاش

سینیئر حکام کے مطابق پیش کیے گئے پروگرام میں آئی ایم ایف 3 سے 4 سالوں میں 1600 ارب روپے سے 2000 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کر رہا ہے

600

لاہور: پاکستان کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے 3 ارب ڈالرزملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کیساتھ بیل آئوٹ پیکج کیلئے کیے جانے والے مذاکرات درست سمت میں نہیں‌جا رہے.

انگریزی روزنامہ ڈآن کی ایک رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے سینیئر حکام نے مذاکرات کی حالیہ تصویر کو دھندلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کردہ ایڈجسٹمنٹ ناقابل عمل ہے.

اسی وجہ سے حکومت کو پریشانی لاحق ہے کیونکہ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) سمیت عالمی مالیاتی مارکیٹوں سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اسی دوران پاکستانی حکام کو سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی امداد حاصل کرکے سانس لینے کا وقت حاصل مل گیا ہے جبکہ اگلے چند دنوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے 3 ارب ڈالرز کے فنڈز بھی ملنے کا امکان ہے.

اسی بارے میں مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ چین سے بھی دیگر 2.2 ارب ڈالرز اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں‌ڈپازٹ کرائے جانے کے حوالے سے بات چل رہی ہے جس کے حوالے سے آخری اجلاس 20 دسمبر کو ہوا تھا تاہم چین سے ملنے والے یہ فنڈز مشروط ہوں گے۔

وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ان امدادی رقوم سے حکومت کو ایک سال کا وقت مل جائے گا. لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کا پروگرام ہر صورت میں ناگزیر ہوگا اور حکومت کو امید ہے کہ اس ایک سال کی مدت میں آئی ایم ایف کی پوزیشن کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایک ذرائع نے کہا کہ ہو سکتا ہے آئی ایم ایف ہماری حالت دیکھ کر مدد کو آئے اور ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچالے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکل ترین مذاکرات کے بعد شاید وہ کسی پوائنٹ پر آجائیں اور معاہدے پر دستخط ہو جائیں.

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات پر تعطل میں سے ایک مرکزی مسئلہ آمدنی اور اخراجات کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کا حجم ہے جس پر آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو عمل کرنے کے لیے زور دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور مسئلہ شرح سود میں اضافہ ہے جو حکومت کی قرض لینے اور کاروبار کرنے کی قیمت بڑھادے گا جبکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ بھی ایک سال کی مدت میں 5.75 فیصد سے 4.75 فیصد اضافے کے ساتھ 10.5 تک بڑھ چکا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کے مکمل اور آزاد بہاؤ کا بھی مطالبہ کرتا ہےجس سے مارکیٹ کو روپے کی قدر طے کرنے کی آزادی ملتی ہے. تاہم حکومتی حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کی مارکیٹ اتنی کمزور ہے کہ انہیں مارکیٹ بھی نہیں کہا جاسکتا، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ماضی میں کرنسی مارکیٹ میں ریٹ طے کرنے کے لیے مداخلت کی جاتی رہی ہے۔

سینیئر حکام کے مطابق ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے جس میں 20 سے 30 کروڑ ڈالر کی تجارت روزانہ ہوتی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننے سے چند افراد کو اس چھوٹی سی مارکیٹ میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے جو پاکستان کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

جون 2019ء میں ڈالر کی قیمت کو 150 روپے تک لانے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے ایک افسر نے کہا کہ ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے، بحث صرف ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ کرنے کے میکانزم پر ہے، اس کی حقیقی قیمت پر نہیں۔

سینیئر حکام کے مطابق پیش کیے گئے پروگرام میں آئی ایم ایف 3 سے 4 سالوں میں 1600 ارب روپے سے 2000 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف اخرجات کی کمی کا بوجھ حالیہ اخراجات پر ڈالنا چاہتا ہے جس میں قرضوں کی سہولت اور سبسڈیز بھی شامل ہوں گی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ اخراجات میں کمی کا مطالبہ حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے جس میں صوبوں کو دیے جانے والے 9 ویں این ایف سی ایوارڈ سے بھی کچھ رقم واپس لینی پڑسکتی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا پاکستان کیلئے مشکل ہو گا.

ایک افسر کے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ چند غیر ترقیاتی اخراجات کو ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا۔

دیگر مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی رواں مالی سال کی آمدن میں بڑے اضافے کے ساتھ ساتھ گیس اوربجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے ، تاہم ایف بی آر آئی اتنی رقم جمع نہیں‌کر سکتا جتنی آئی ایم ایف اگلے 6 ماہ میں جمع کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔

اس طرح کی شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف کا پروگرام ملنا بہت مشکل ہے تاہم حکام اگلے چند ماہ میں ان شرائط میں تبدیلی کے لیے پر امید ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو اپنے منصوبے کے بارے میں بتادیا ہے اور آئی ایم ایف سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے رابطے میں ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here