اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ سعودی عرب سے 3 فیصد سود پر قرضہ لیا. فنانشنگ گیپ 2019ء تک پورا ہو جائے گا. جنوری میں منی بجٹ لایا جا سکتا ہے تاہم ابھی حتمی فیصلہ نہیںہوا.
بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ اسد عمر اور گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے بریفنگ میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک وزیر خزانہ کی مشاورت سے فیصلے کرتا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا.
وزیر خزانہ اسد عمر نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب ماہانہ 1 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جوکہ اب بھی زیادہ ہے. 2017ء اور 2018ء میں 19 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوا، مئی، جون اور جولائی ہر ماہ 2 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہورہا تھا اور اگر اسی رفتار سے چلتے تو سالانہ 24 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ برداشت کرنا پڑتا. خسارے کو روکنے کے لیے فسکل اور مانیٹری پالیسی کے تحت اقدامات کیے گئے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال 12 سے 13 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگا جبکہ رواں سال 12 ارب ڈالرز کا فنانسنگ گیپ ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ 1998ء اور 2008ء میں بھی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن2017ء جیسا معاشی بحران پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں آیا.
اسد عمر نے بتایا کہ حکومت نے ملک کو معاشی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے، سعودی عرب سے 2 ارب ڈالرز مل چکے ہیں، جنوری میں سعودی عرب سے 1 ارب ڈالرز مزید ملیں گے. سعودی عرب سے 3 فیصد سود پر قرضہ لیا گیا ہے جب کہ 270 ملین ڈالرز کا تیل ماہانہ ادھار پر دے گا، جنوری میں سعودی عرب سے تیل ادھار ملنا شروع ہوجائے گا اور رواں سال ڈیڑھ ارب ڈالرز کا تیل ادھار ملے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یو اے ای سے امدادی پیکیج پر بات چیت چل رہی ہے، پیکیج کا اعلان چند روز میں ہوجائے گا، اس کے علاوہ چین سے بھی امدادی پیکیج پر بات ہورہی ہے، چین کے کمرشل بینکوں سے فنانسنگ ملے گی، 2019 تک فنانسنگ گیپ پورا ہوچکا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف کو مکمل پروگرام دے چکے ہیں لیکن آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج لینے میں جلدی اس لیے نہیں کیونکہ جب تک اچھا پروگرام نہیں ملتا قرض لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے. آئی ایم ایف سے معاشی ریفارمز پر اختلافات ہیں، ہم نے جہاز کو لینڈ کرانا ہے کریش لینڈنگ نہیں کرانی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکا ہے، ٹیکس ری فنڈز کا عمل تیز کیا جا رہا ہے، جب عوام کو اعتماد ہوگا تب معاشی اصلاحات کریں گے، معاشی اصلاحات پر عوام کو اعتماد میں لانے کی ضرورت ہے۔
اسد عمر نے بتایا کہ دسمبر 2017 میں ڈالر 105 روپے کا تھا ،آج ڈالر 138 روپے کا ہے، دسمبر سے جولائی تک ڈالر 23 روپے مہنگا ہوا، اب روپے کی بے قدری کم ہونا شروع ہوچکی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں۔
بریفنگ کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہوسکتا ہے جنوری میں منی بجٹ لائیں تاہم ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، منی بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی معیشت عالمی معیشت کا مقابلہ نہیں کررہی، معیشت کوچلانے کے لیے ٹیکس کم کیے جا سکتے ہیں، ٹیکس ری فنڈز کے لیے بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ٹیکس ری فنڈز رواں سال کلیئر کردیں گے۔
واضح رہےکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ روز بعد ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کیا تھا جس میں سگریٹ، مہنگے موبائل فون اور لگژری آئٹم پر ڈیوٹی بڑھائی گئی تھی۔