اسلام آباد: حکومت وسل بلوئر پروٹیکشن ااینڈ ویجیلنس کمیشن اور لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام کے لیے نئے قوانین برائے انسداد بدعنوانی متعارف کرانے کیلئے تیار ہے اور اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق وزارت قانون و انصاف نے نئے بل بھی تیار کر لیے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو دینے کے بعد حکومت کو انسداد کرپشن کے لیے مجوزہ قوانین پر بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت کا یقین ہے۔
ذرائع کے مطابق نئے قوانین پر مشتمل بل جلد ہی پارلیمنٹ میں منطوری کیے جانے کا امکان ہے۔ نئے قوانین کی منظوری سے وفاقی و صوبائی وزارتوں، دویژنوں، خودمختار اداروں سے بدعنوانی کے خاتمے میں مدد ملے گی وسل بلوئر پروٹیکشن ااینڈ ویجیلنس کمیشن کی مدد سے بدعنوان سرکاری حکام کیخلاف براہ راست کارروائی کی جاسکے گی۔
اس کے علاوہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور لوٹی گئی دولت بیرون ملک سے واپس لانے کیلئے ایک مرکزی ”میوچل لیگل اسسٹنس اتھارٹی“ قائم کی جائے اور اسکے ساتھ لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
وسل بلوئر پروٹیکشن کمیشن:
وسل بلوئیر پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن بل 2018ء کے مسودے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجوزہ قانون کے تحت کوئی بھی ”وسل بلوئیر“ کسی قسم کی کرپشن کیخلاف ایک خودمختار کمیشن کو معلومات دے سکے گاجس کا جائزہ لینے بعد منی لانڈرنگ سے متعلق شکایات نیب اور ایف آئی اے کو جبکہ کمپنیوں میں بدعنوانی سے متعلق شکایات ایس ای سی پی کو اور صوبائی انسداد بدعنوانی کے محکموں کو ارسال کی جائیں گی۔
اس طرح یہ کمیشن ان اداروں کے سامنے خود شکایت کنندہ بن جائے گا جبکہ معلومات دینے والے شخص (وسل بوئیر) کے تحفظ کیلئے اسکی شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی۔ اس طرح وسل بوئیر کی رازداری عدالتی گواہوں کو بھی تحفظ دینے کا ایک طریقہ کار ہے۔ کسی شخص کی شناخت اس وقت تک ظاہر نہ کی جائے گی جب تک وہ خود ظاہر کرنے کے حق میں نہ ہو۔
مسودہ قانون کے مطابق وسل بوئیر کی دی گئی معلومات کی روشنی میں جتنی رقم ریکور کرائی جائے گی اس کا بیس فیصد معلومات دینے والے کو دیا جائے گا۔ ایک سے زیادہ معلومات دینے والوں کی صورت میں بیس فیصد سب میں تقسیم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ وسل بوئیر کو نوکری سے نکالے جانے یا محکمانہ کارروائی یا دھونس دھمکی سے بھی تحفظ دیا جائے گا۔ نامعلوم اشخاص کی دی گئی معلومات پر غور نہیں کیا جائے گا۔
کسی محکمے، اتھارٹی یا شخص سے کسی قسم کی معلومات حاصل کرنے کیلئے وسل بلوئیر کمیشن کو ضابطہ دیوانی و فوجداری کے تحت تمام اختیارات حاصل ہونگے۔ غلط معلومات مہیا کرنے کی صورت میں معلومات دینے والے کو دو سال قید یا دو لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکیں گی۔
اس قانون کے پاس ہونے پر شائد سابق حکومت کا بنایا گیا پبلک انٹرسٹ ڈسکلوزر ایکٹ 2017ء منسوخ ہو جائے کیونکہ اس ایکٹ کے مطابق معلومات صرف اور صرف مخصوص محکمے کے سربراہ کو دی جاسکتی ہیں اور یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ شکایت پر مزید کارروائی کرے یا اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں موجود وسل بوئیر کے قوانین کے مطابق اس کا اطلاق صرف جاری تحقیقات پر ہوتا ہے۔
اس کمیشن کے ممبرز کو حکومت تعینات کریگی، جن کی اہلیت کا طریقہ کار سیکشن 4(4) میں دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کوئی شخص بھی مہارت، دیانت اور دس سالہ تجربے کے بغیر ممبر نہیں بنایا جائے گا اور وفاقی حکومت ہی اس کا چیئرمین مقرر رکے گی۔
میوچل لیگل اسسٹنٹس(ایم ایل اے):
میوچل لیگل اسسٹنٹس نہ ہونے کی صورت میں ہی پاکستان کی باہر منتقل ہونے والی دولت کی ریکوری کیلئے بیرونی ممالک کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ اب میوچل لیگل اسسٹنس بل 2018ء منظور ہونے کے بعد اس معاملے کوریگولیٹ کی جاسکے۔ اگرچہ نیب آرڈیننس، ایف بی آر، مجرموں کی حوالگی کیلئے بنایا گیا ایکٹ اورایس ای سی پی سمیت دیگر قوانین ضرور موجود ہیں تاہم یہ تمام قوانین جزوی کارآمد ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بھی ایم ایل اے اتھارٹی کی غیر موجودگی سے متعلق اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ مسودے کے مطابق وفاقی حکومت کرپشن کیخلاف اقوام متحدہ کے کنونشن اور یواین کنونشز اگینسٹ ٹرانس نیشنل ارگنائزڈ کرائم کے مطابق سیکریٹری داخلہ یا کسی دوسرے افسر کو سینٹرل میوچل لیگل اسسٹنس اتھارٹی میں تعینات کرے گی۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو نہ صرف بیرون ملک منتقل کی گئی دولت کی ریکوری کیلئے کارآمد ہو گا بلکہ ایف اے ٹی ایف کے ایک اعتراض کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی:
اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد غریبوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کو قانونی امداد فراہم کرنا ہے۔ مسودے کے مطابق ایسے افراد جو ضمانت یا سزاؤں یا جرمانے کی رقم ادا نہیں سکتے انہیں یہ مدد دی جاسکے گی۔
اس قانون کے تحت خواتین، بچوں، ٹرانس جینڈر افراد کو جنسی یا صنفی تشدد کیخلاف مدد فراہم کرنے میں ترجیح دی جائے گی۔
اس اتھارٹی میں ایک وفاق اور صوبوں کی نمائندگی پر مشتمل ایک انتظامی بورڈ تشکیل دیا جائے گاجو عموماََ وفاق وزیر انسانی حقوق، اٹارٹی جنرل آف پاکستان، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز، وزارت انسانی حقوق، خزانہ، قانون و انصاف کے سیکریٹریز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، اور کسی ایک خاتون سماجی کارکن پر مشتل ہوگا۔