بی بی سی کے معروف پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن ساکر نے وزیر خزانہ اسد عمر کو 25 منٹ کی ون آن ون گفتگو کیلئے مدعو کیا جس میں وزیر خزانہ سے ملک کے اقتصادی بحران، سی پیک اور چائنہ اور سعودی عرب سے لئے گئے قرضوں سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔
دو دہائیوں کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان تحریک انصاف کشکول توڑ مہم کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئی اور اسد عمر کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔
سٹیفن ساکر نے وزیر خزانہ اسد عمر سے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت پاکستان کو بحران سے نکال کر نئی سمتوں کے تعین کی طاقت رکھتی ہے اور کیوں پاکستان کی جانب سے سعودی عرب جو سماجی پابندیوں کے حوالے سے بدنام ہے اور چائنہ جو مغرب کا اقتصادی اور دفاعی مخالف ہے سے قرضہ لیا گیا۔
سٹیفن ساکر نے وزیراعظم عمران خان کے الیکشن 2018 کے دوران قرضہ نہ لینے کے بیانات اور چائنہ اور سعودی عرب سے لئے گئے قرضوں کو بھی موضوع بحث بنایا۔
اسد عمر نے کہا کہ ’’ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تھی تو سب جانتے تھے کہ پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہے ۔ میں اس کی نشاندہی اخبارات، ٹی وی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں کر چکا ہوں اور یہ ایسا بالکل نہیں کہ اس پر فخر ہو، یا اگر عمران خان ایسا کر رہے ہیں تو انہیں اس پر فخر ہے لیکن ملک کی اقتصادی صورتحال دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
پاکستان 80 کی دہائی سے اپنے تیرھویں بیل آؤٹ کی تلاش میں ہے تاکہ حالیہ خسارے پر قابو پایا جا سکے جس سے ادائیگیوں میں توازن کے فرق سے پیدا ہونے والے بحران میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے جو قدم اٹھایا ہے جس پر چلتے ہوئے ہم آئی ایم سے آخری دفعہ قرض لیں گے کیا وہ صحیح اقدام ہے؟
اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ پرانی ناقص حکمت عملی جس نے ملک کو بارہا اس طرح کے معاشی مسائل میں جھونکا کے برعکس اب پاکستان کی واضح حکمت عملی ہے۔ پاکستان جب تک اپنے قومی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پیداوار اور برآمدات میں اضافہ نہیں کرے گا یہ کشکول نہیں ٹوٹے گا۔
انہوں نے سعودی عرب سے لئے گئے قرض کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب ایک سال میں 3 بلین ڈالر کی ادائیگی کرے گا تاکہ توازن ادائیگی میں فرق کم کیا جاسکے
اسد عمر نے ہارڈ ٹاک کے میزبان کی جانب سے حکومت کی معاشی ناکامی کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جب میں وزیر خزانہ بنا تو میں نے آئی ایم ایف کو مدعو کیا اور ان سے ٹھوس اور جامع بات کی۔ ہم نے آئی ایم ایف کا انتظار نہیں کیا کہ وہ آئے اور ہمارے معاشی معاملات میں دخل دے یا کوئی ضوابط کا پابند کرنے کی کوشش کرے۔
چائنہ اور سعودی عرب سے قرض لینے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض میں تاخیر کی وجہ سنٹرل بینک کی شرح پالیسی اضافہ اور روپیہ کی قدر میں گراوٹ تھی۔
اسد عمر کی بی بی سی کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کی معاشی ناکامی کے دعووں کی تردید
پی ٹی آئی حکومت کی کشکول توڑ مہم میں واضح حکمت عملی ہے، اسد عمر