لاہور: پاکستان میں 18 بین الاقوامی نجی امدادی تنظیموں (آئی این جی اوز) کو کام سے روکنے کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس خدشے کا اظہار دو مغربی سفارت کاروں نے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے گفتگو میں کیا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے جن بین الاقوامی تنظیموں کو کام بند کرکے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے ان میں ورلڈ ویژن، پاتھ فائنڈر، پلان انٹرنیشنل، ٹرو کئیراور ایکشن ایڈ شامل ہیں. ایکشن ایڈ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے انہیں کام بند کرنے کی ہدایت کے بعد وہ پاکستان میں اپنے دفاتر بند کر کے عملے کو فارغ کر رہی ہے۔
پاکستان کے فیصلے پر “مایوسی” کا اظہار کرتے ہوئے امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوائرٹ نے منگل کو کہا تھا کہ ان 18 تنظمیوں میں سے بہت سی گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ عام لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی تھیں۔
دوسری جانب پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے ان 18 آئی این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق اپیلوں کو مسترد کرنے کی تصدیق کی ہے جنہیں نظرِ ثانی کی اپیلوں کی سماعت کے دوران کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا ہے۔
ایک مغربی ملک کے سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ پاکستانی حکومت نے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کو ملنے والی امداد بظاہر بغیر کسی وجہ کے بند کر دی ہے۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے فوری طور پر سفارت کار کے اس بیان پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
دفترِ خارجہ نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے متعلق پاکستان کی پالیسی قومی سطح پر متعین کردہ ترقیاتی ترجیحات اور ضروریات کے عین مطابق ہےـ
ایک اور مغربی سفارت نے کہا کہ این جی اوز کی بندش پر بین الاقوامی براداری مایوسی اور تحفطات کا شکار ہے۔
‘رائٹرز’ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم تواتر سے حکومت پر آئی این جی اوز سے متعلق شفاف عمل اختیار کرنے پر زور دیتے رہے ہیں تاکہ وہ مؤثر طریقے سے پاکستان میں کام کرسکیں۔ بصورتِ دیگر انہیں ملک سے نکالنے کی وجوہات بتائی جانی چاہئیں۔