25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستا تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تو ملک کی معاشی صورتحال بحران کا شکار ہو چکی تھی. کرنسی کی قدر گر چکی تھی، بیرانی قرضوں اور درآمدات پر ادائیگیوں کیلئے پیسہ ختم ہو چکا تھا. کل ملا کر نئی حکومت کو 12 ارب ڈالر کا خسارہ درپیش تھا اور آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی. لہٰذا معاشی صورتحال کو بہتر بنانا نئی حکومت کے پہلے 100 دن کے ایجنڈے کی اولین ترجیح تھی.
29 نومبر کو پی ٹی آئی کو اقتدار سنبھالے 100 دن پورے ہوگئے لیکن اس مختصر مدت کے دوران زیادہ تر معاشی اشارے پہلے سے زیادہ خراب نظر آتے ہیں. 18 اگست کو جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایک امریکی ڈالر 122 پاکستانی روپے کے برابر تھا لیکن 25 نومبر کو ایک ڈالر 135.2 پاکستانی روپے کے برابر ہو گیا.
ان 100 دنوں کے عرصہ میں پٹرول کی قمیت 95.24 روپے سے بڑھ کر 97.83 روپے ہوگئی. پاکستان سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس میں 1600 پوائنٹس کی ریکارڈ کمی دیکھی گئی. مہنگائی کی شرح 5.84 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد تک ہو گئی. ماہانہ تجارتی خسارہ 2.9 ارب ڈالر سے 2.93 ارب ڈالر تک جا پہنچا. زرمبادلہ کے ذخائر 16.72 ارب ڈالر سے کم ہو کر 14.7 ارب ڈالر رہ گئے جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 590 ملین ڈالر سے بڑھ کر 950 ملین ڈالر ہو گیا. اسی دوران سٹیٹ بنک آف پاکستان نے شرح سود میں 7.5 فیصد سے 8.5 فیصد اور بعد ازاں 10 فیصد تک اضافہ کردیا.
تو کیا حکومت ناکام ہو گئی؟
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے. ”پرافٹ” سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی حکومت کے پہلے 100 دن اہم سیاسی تعیناتیوں اور پالیسیوں کی سمت متعین کرنے کیلئے ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت اس میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے.
سادہ سی بات ہے کہ 100 دن پالیسیوں کی سمت متعین کرنے کیلئے کافی ہوتے ہوں گے لیکن جب کسی نتیجہ خیز پالیسی کے نفاذ کی بات آتی ہے تو اس کیلئے زیادہ وقت چاہیے.
آئی ایم ایف کے پاس جائیں یا نہیں؟
روز مرہ کے تجربے میں بری خبروں کے باوجود معیشتیں اور کاروبار ٹھیک چلتے رہتے ہیں لیکن ایسا مخصوص حالات میںہی ہوتا ہے. 2013ء میں جب مسلسم لیگ ن اقتدار میں آئی تو اسے پہلے 100 میں ہی آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینا پڑی. لہذا اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مارکیٹ سے غیر یقینی کی صورتحال ختم کرنے کیلئے 4 جولائی 2013ء کو آئی ایم ایف سے ایک بیل آئوٹ پیکج کی ڈیل پر دستخط کیے اور بجٹ کیلئے 19 ترجیحات کا اعلان کیا.
تاہم پی ٹی آئی نے جس طریقے سے اب تک صورتحال کا سامنا کیا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے. نئی حکومت کو جس صورت میں معیشت کی بھاگ ڈور ملی وہ صورتحال ہر گز آئیڈیل نہیں تھی. پی ٹی آئی کے قتدار سنبھالنے کے وقت زرمبادلہ کے ذخائر چار سال کی کم ترین سطح پر موجود تھے جس کی وجہ سے ملکی کرنسی پر دبائو تھا اور خدشہ تھا کہ ملک ادائیگیوں کے بحران کی زد میں آ جائے گا اور ماہانہ درآمدی بل اور قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا.
غیر یقینی کی صورتحال اب بھی برقرار ہے. 12 ارب ڈالر کا مالیاتی خلا پر کرنے کیلئے وزیر خزانہ اسد عمر بسا اوقات آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لینے سے انکار کر چکے ہیں. حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لے گی یا مالیاتی خلا پر کرنے کیلئے دوسرے راستے اختیار کرے گی.
سعودی عرب نے پاکستان کے بنکوں میں 3 ارب ڈالر رکھوانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو. ابھی تک سعودی پیکج میں سے سٹیٹ بنک کو 1 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں. دوسری جانب چین نے سعودی عرب سے بھی بڑے امدادی پیکج کی خالی یقین دہانی کروا رکھی ہے. آئی ایم ایف کا معاملہ ابھی تک درمیان میں لٹکا ہوا ہے اور وزیر خزانہ نے دو ماہ کیلئیے اسے ملتوی کر رکھا ہے.
سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود خان کہتے ہیں کہ ابھی تک میکرو فنانس فریم ورک غیر مستحکم ہے اور آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق بنیادی سوال ابھی تک جواب طلب ہیں. اگر حکومت بیل آئوٹ پیکج لینے کا فیصلہ کر بھی لیتی ہے تو یہ مارچ 2019ء سے پہلے نہیں ملے گااور تب تک ملک میں غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے گی.
معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ غیر یقینی کے اثرات سٹاک ایکسچینج کی صورتحال دیکھ ہی واضح ہو جاتے ہیں جو 18 اگست کو 42,446 پوائنٹس پر تھی اور 25 نومبرکو 40,869 پوائنٹس تک گر گئی اور اس دوران سرمایہ کاروں کو607 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا. ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے کچھ واضح نہیں ہے جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں مندی بڑھ رہی ہے.
ایس ایم ایز اور بیرونی سرمایہ کاری
مائیکرو اکانومی میں غیر یقینی کے باجود پی ٹی آئی حکومت بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے. ایک اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیل دی گئی ہے اور جو پالیسیوں سازی اس کونسل نے کی ہے اس کے کافی اثرات ملکی انڈسٹری پر پڑے ہیں.
ٹیکسٹائل، سپورٹس، لیدر، کارپٹ اور سرجیکل آلات کی صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 6.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے جس کی وجہ سے تقریباََ 100 ٹیکسٹائل یونٹ دوبارہ کام شروع کریں گے. بیرونی کارپوریٹ سیکٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی تیار ہے.
پیپسیکو کے سی ای او مائیک سپینوس نے گزشتہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ پاکستان میں سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے اگلے پانچ سال میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے. کوکا کولا مزید 200 ملین ڈالر جبکہ سوزوکی موٹرز 450 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہیں. دنیا کی پرائیویٹ سیکٹر کی ایک بڑی توانائی کی کمپنی Exxon Mobil نے 27 سال بعد پاکستان میں اپنا دفتر کھول دیا ہے.
سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ چین کے علاوہ دیگر ممالک سے پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کچھ عرصہ کیلئے کم ہو گئی تھی تاہم اب دوبارہ براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا اچھا شگون ہے. پاکستان کو اب اس سرمایہ کاری کو اپنی برآمدات کے اضافے میں بدلنا چاہیے. واکس ویگن پاکستان میں کاریں تیار کرکے یہاں سے برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اگر Exxon Mobil گیس کے ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان کے درآمدات کے بل میں یقیناََ کمی واقع ہو گی.