سپلائی میں کمی کے باعث کپاس کی قیمتوں میں 27 فیصد اضافہ

128
اس اضافے کی بنیادی وجہ ٹیکسٹائل گروپس کی جانب سے معیاری کپاس کی ذخیرہ اندوزی ہے، جس سے مقامی مارکیٹ میں روئی کی سپلائی میں کمی ہے۔

 

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن (کے سی اے) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کپاس کی قیمتوں میں 27 فیصد اضافہ ہوا، جو سیزن کی بلند ترین سطح 19 ہزار 700 روپے فی من تک پہنچ گئیں۔

کپاس کا سپاٹ ریٹ ایک ماہ قبل 15 ہزار 500 روپے سے بڑھ گیا ہے۔

23 دسمبر تک سندھ میں کپاس کی قیمتیں 15 ہزار 500 روپے سے 17 ہزار 800 روپے فی من تھیں، جب کہ پنجاب میں قیمتیں 16 ہزار 500 روپے سے 17 ہزارروپے فی من کے درمیان تھیں۔ 

سپاٹ ریٹ 19,700 روپے فی من کے ساتھ۔ اس وقت سندھ میں قیمتیں 18 ہزار 500 سے 21 ہزارروپے فی من اور پنجاب میں 19 سے 21 ہزارروپے فی من ہیں۔

اس اضافے کی وجہ مقامی مارکیٹ میں معیاری روئی کی سپلائی میں کمی ہے، جس کی بنیادی وجہ ٹیکسٹائل گروپس کی جانب سے معیاری کپاس کا ذخیرہ کرنا ہے۔

نیویارک کاٹن فیوچر کی قیمتوں میں اضافہ سے یہ  تقریباً 86.50 سے 87 سینٹس فی پاؤنڈ تک پہنچ گئِی، اس نے درآمدی سودے کو کم منافع بخش بنا دیا، جس سے مقامی کپاس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

کراچی کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نسیم عثمان زیریں سندھ کے علاقوں میں کپاس کی بوائی میں اضافہ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں ابتدائی کاشت سے کپاس کی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے پر امید ہیں۔

اس سیزن میں 84 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کے تخمینہ کے باوجود ٹیکسٹائل ملوں کو کپاس کی  کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً 1 کروڑ 13 لاکھ گانٹھوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے درآمدات کی ضرورت ہے۔

افغان سرحد اور چمن بارڈر کے دوبارہ کھلنے سے درآمدات میں اضافے کی امید ہے۔

کراچی گارمنٹس سٹی کو جدید بنانے کے لیے سندھ حکومت کی فعال کوششوں کا مقصد ٹیکسٹائل کی صنعت کو تقویت دینا ہے۔

صنعتی اسٹیٹ جو 300 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے، اس کی توجہ ٹیکسٹائل کی پیداوار میں اضآفے پر ہے۔

گھریلو پیداوار میں کمی کے خدشات کو دور کرتے ہوئے محکمہ زراعت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منیر احمد جمانی نے کپاس کی اہمیت کو ملک کے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر لازمی قرار دیا۔

موسمی حالات، پانی کی کمی، اور کیڑوں کے حملوں جیسے مسلسل منفی چیلنجز نے کپاس کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔

 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here