سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان کی ڈیزل کی درآمدات میں اضافہ

464

 

ایرانی سرحد کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ستمبر کے دوران پاکستان میں ہائی سپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی درآمدات میں اضافہ ہوا۔

پیٹرولیم انڈسٹری حکام کے مطابق پاکستان نے ستمبر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 20 ہزار 954  ٹن ہائی سپیڈ ڈیزل درآمد کیا، جو اگست میں درآمد کیے گئے 1 لاکھ 9 ہزار745 ٹن سے زیادہ ہے۔ یہ اضافہ اس وقت ہوا جب پاکستان نے جولائی میں کسی بھی ہائی سپیڈ ڈیزل کو درآمد کرنے کے بجائے ملکی پیداوار اور ایرانی سمگل شدہ ایندھن پر انحصار کیا۔ 

اگست اور ستمبر کے لیے ہائی سپیڈ ڈیزل کے درآمدی اعداد و شمار مشترکہ طور پر 2 لاکھ 30 ہزار 799 ٹن ہیں، جو پاکستان کی توانائی کی حرکیات میں تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سمگلنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن، نقل و حمل، صنعت اور زراعت سمیت رسمی شعبے سے بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔

سمگلنگ، خاص طور پر کم قیمت والے ایرانی ڈیزل کی آمد پاکستان کے تیل کے شعبے کے لیے طویل عرصے سے ایک چیلنج رہی ہے، جس سے مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی فروخت متاثر ہوتی ہے۔ تاہم بارڈر سیکیورٹی پر سختی اور ڈیزل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے ڈیزل کی درآمدات میں حالیہ اضافہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ستمبر میں پاکستان میں ہائی سپیڈ ڈیزل کی فروخت 3 لاکھ 94 ہزار ٹن تک گر گئی، جو مارچ 2020 میں کوویڈ انیس لاک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے کم ترین سطح پر ہے۔ اس کمی میں کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں ڈیزل کی بلند قیمتیں، زرعی سرگرمیوں میں کمی، اور بجلی کی پیداوار میں کمی شامل ہیں۔

ستمبر میں ایچ ایس ڈی کی قیمتوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا، جس نے صارفین کی قوت خرید کو متاثر کیا۔ ان چیلنجوں کے باوجود انڈسٹری حکام مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں، توقع رکھتے ہیں کہ ستمبر میں درآمد کیا گیا ہائی سپیڈ ڈیزل اکتوبر میں فروخت میں اضافہ کرے گا۔ ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ کمی اور سخت سرحدی حفاظتی اقدامات سے آنے والے مہینوں میں تیل کی فروخت میں اضافہ متوقع ہے۔

ایک وسیع تناظر میں ستمبر میں پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی مجموعی فروخت میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی،جو تقریباََ 1 کروڑ ٹن رہی۔ یہ اعداد و شمار سال بہ سال 31 فیصد کی کمی اور ماہ بہ ماہ 25 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جو ملک کی توانائی مارکیٹ میں تبدیل ہوتی حرکیات کو ظاہر کرتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here