اسلام آباد: پاکستان بھر میں بجلی بلوں پر شدید احتجاج کے بعد نگران حکومت کی جانب سے اگست کے بل آئندہ چھ ماہ کے دوران قسط وار وصول کرنے کی تجویز کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فوری طور پر منظور نہیں کیا۔
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں عالمی قرض دہندہ نے اگست کے بجلی بلوں کی 6 قسطیں دینے کی پاکستان کی درخواست پر نظرثانی کے لیے وقت مانگ لیا۔ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات سے چند گھنٹے قبل وفاقی کابینہ نے اگست کے بجلی بلوں کی اکتوبر 2023ء سے مارچ 2024ء تک چھ ماہ کی مدت میں وصولی کی تجویز کو آئی ایم ایف کی پیشگی منظوری سے منسلک کر دیا۔ تاہم ماہانہ قسطوں سے لوگوں کا بوجھ کم نہیں ہوگا کیونکہ وہ اگست کے بلوں کی قسطوں کے ساتھ اپنے باقاعدہ بل ادا کرنے پر بھی مجبور ہوں گے۔
پاور ڈویژن نے بلوں کی وصولی 3 ماہانہ اقساط میں وصول کرنے اور تقسیم کار کمپنیوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کمرشل بینکوں سے قرض لینے کی تجویز دی تھی تاہم ذرائع کے مطابق کابینہ نے آئی ایم ایف کی توثیق نہ ہونے کی وجہ سے درخواست کی منظوری نہیں دی۔
کابینہ نے اعتراض اٹھایا کہ پاور ڈویژن نے یہ نہیں بتایا کہ اگست کے بلوں کی آئندہ چھ ماہ میں وصولی کے مالی اثرات کیا ہوں گے۔ البتہ پاور ڈویژن نے تجویز دی تھی کہ 400 یونٹ تک ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کے بجلی کے بل قسط وار وصول کیے جائیں۔
3.14 کروڑ یا کل صارفین کا 81 فیصد ماہانہ تقریباََ 400 یونٹ استعمال کرتا ہے۔
اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ پاور ڈویژن نے اگست کے بلوں کیلئے ٹیرف میں دو بار اضافہ کیا جس کے نتیجے میں صارفین کی کچھ کیٹیگریز کے لیے 16 روپے فی یونٹ تک کا اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ نے 31 جولائی کو بجلی کی قیمتوں میں 8 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی تھی لیکن یکم جولائی سے اس کا اطلاق ہو گیا جس کے نتیجے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ناصرف اگست کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا بلکہ جولائی کے بقایا جات بھی بلوں میں شامل کر دیے۔ یوں فی یونٹ اوسط اضافہ 5.45 روپے ہوا۔
نگران کابینہ کے ایک وزیر کے مطابق اجلاس میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ بل چھ ماہانہ اقساط میں وصول کیے جائیں لیکن اس کے مالی اثرات کی وجہ سے حتمی فیصلہ موخر کر دیا گیا۔
وزارت خزانہ نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ اس سے پہلے کہ بلوں کی قسطوں میں وصولی کا فیصلہ ہو اسے آئی ایم ایف کی پیشگی توثیق کی ضرورت ہو گی۔
اس کے بعد پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف حکام کے ساتھ میٹنگ کی اور بجلی بلوں کی قسط وار وصولی کی کی اجازت دینے کی درخواست کی۔ پاکستان نے تجویز دی کہ اگست کے بل چھ ماہانہ اقساط یعنی اکتوبر 2023 سے مارچ 2024 تک وصول کیے جائیں گے۔
تاہم آئی ایم ایف نے اس تجویز کے مالیاتی اثرات، ٹیکس میں کمی، گردشی قرضے پر اثرات، بجلی پر سبسڈی اور دیگر امور پر کوئی فیصلہ کرنے کیلئے وقت مانگ لیا۔
پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ وہ جولائی میں آئی ایم ایف بورڈ کے منظور کردہ معاہدے کی پاسداری کریں گے اور یہ عارضی ریلیف ہو گا جس کا کوئی بڑا مالی اثر نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ بجلی کی سبسڈی 976 ارب روپے کی سالانہ سطح سے نہیں بڑھے گی۔
عبوری حکومت نے اتوار بجلی بلوں میں کمی کیلئے ہنگامی اجلاس تو بلایا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ سوموار کو بھی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دوسرے اجلاس کی صدارت کی لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ یہ تیسری بار تھا جب منگل کو اس معاملے پر بات ہوئی لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے حتمی منظوری تک اسے موخر کر دیا گیا۔
آئی ایم ایف معاہدے کی سخت شرائط کی وجہ سے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 51 روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ صنعتی اور تجارتی صارفین کیلئے یہ 47 روپے فی یونٹ ہے۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال کی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے قیمتوں میں 4.37 روپے فی یونٹ اضافے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ چھ قسطوں میں بلوں کی وصولی کے باوجود بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ تقسیم کار کمپنیوں کی آمدن میں کمی کو کمرشل قرضے لے کر پورا کیا جائے گا۔ تجارتی قرضوں پر سود یا تو وصولیوں کو بہتر بنا کر یا بجٹ میں دی گئی سبسڈیز سے ادا کیا جائے گا۔
کابینہ کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ چھ ماہ کے دوران بلوں کی قسط وار وصولی کا مالیاتی اثر 10 ارب روپے سے کم ہو گا۔
آئی ایم ایف کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ فنڈ ٹیم کو خدشات ہیں کہ پاور ڈویژن حکام اس مرحلے پر جو دعویٰ کر رہے ہیں وہ پورا نہیں کر پائیں گے۔